متحدہ اپوزیشن کا شہدا ماڈل ٹاؤن و قصور کے انصاف کیلئے عوامی احتجاج

سانحہ ماڈل ٹاون اور سانحہ قصور میں حصول انصاف کے لیے متحدہ اپوزیشن کا عوامی احتجاج مال روڈ لاہور پر ہوا۔ احتجاج کے دو سیشنز میں پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، قاف لیگ کے رہنماء چوہدری پرویز الہی، پی ایس پی کے مصطفیٰ کمال سمیت مذہبی و سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھرپور شرکت کی۔ احتجاج کے پہلے سیشن میں آصف علی زرداری اور دوسرے سیشن کی عمران خان نے صدارت کی۔

احتجاجی جلسہ کے پہلے مرحلہ کا آغاز تلاوت کلام پاک، نعت اور قومی ترانہ سے ہوا۔ مقررین میں محترمہ نجمی سلیم (چیئرپرسن آل پاکستان مینارٹیز آلائنس)، لیاقت بلوچ (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی)، عبداللہ ملک (سول سوسائٹی ایکٹویسٹ)، ڈاکٹر امجد حسین چشتی، عامر سعید راؤ (رہنماء لاہور ہائی کورٹ بار)، صاحبزادہ حامد رضا خان (چئیرمین سنی اتحاد کونسل)، راجہ پرویز اشرف (پاکستان پیپلز پارٹی و سابق وزیراعظم)، راجہ ناصر عباس (مجلس وحدت المسلمین)، صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر (سربراہ جمعیت علمائے پاکستان ) چوہدری سرور (تحریک انصاف)، چوہدری پرویز الہی (مسلم لیگ قاف)، میاں منظور احمد وٹو (مرکزی صدر پنجاب پیپلز پارٹی) اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے خطاب کیا۔

احتجاج کے دوسرے سیشن کا آغاز نماز مغرب کے بعد ہوا، جس میں جمعیت علمائے پاکستان نورانی کے راہنماء قاری زوار بہادر، مصطفیٰ کمال (پی سی پی)، قمر زمان قائرہ (پیپلز پارٹی)، شاہ محمود قریشی (تحریک انصاف)، چوہدری اعتزاز احسن (پیپلز پارٹی)، شیخ رشید احمد (عوامی مسلم لیگ) اور عمران خان نے خطابات کیے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ وہ ایسی جمہوریت اور اسمبلی پر لعنت بھجیتے ہیں، آج قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہیں۔ عمران خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاون کے قاتلوں کا حساب لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پارٹی سے مشاورت کے بعد استعفیٰ کے حوالے سے فیصلہ کریں گے اور ممکن ہے کہ وہ شیخ رشید کی پیروی کر لیں۔

دوسرے سیشن میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا اعلان

اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے سلسلہ میں اس احتجاج کے میزبان ہم پاکستان عوامی تحریک ہیں، لیکن اب یہ میزبانی مشترکہ ہو چکی ہیں۔ ماڈل ٹاون کی شہداء قوم کے شہداء ہیں۔ اس قوم کے بیٹوں، ماووں اور بہنوں پر گولیاں چلیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اب یہ تحریک پاکستان عوامی تحریک کی تحریک نہیں رہی بلکہ یہ ساری قوم کی آواز بن چکی ہے۔ اب کوئی فیصلہ تنہا نہیں کریں گے۔ میں نے جاتی عمرہ جانے کا بھی سوچا، پنجاب اسمبلی اور تخت رائیونڈ کا بھی سوچا۔ اگر مظلوم کارکنوں کو کہہ دوں تو وہ تمہاری بوٹی بوٹی کر کے تمہاری نسلوں کو سبق سکھا دیں۔ ہم کمزور ہیں اور نہ ناتواں ہیں۔ چاہیں تو اپنے ہاتھوں سے انتقام لے لیں۔ ہمارے صبر اور حوصلہ کی داد دیں کہ ہم نے آئین کو توڑنے کا فیصلہ نہیں کیا اور نہ کریں گے۔

اس میں شک نہیں کہ پرامن احتجاج سے کسی پر کوئی جوں تک نہیں رینگتی، فیض آباد میں چند ہزار لوگ جب تک پرامن بیٹھے رہے تو کچھ نہیں ہوا لیکن جب جلاو گھیراو ہوا تو پھر معاملہ حل ہوا۔ اگر ہم اپنے کارکنوں کو لے کر چل پڑیں اور ساری جماعتوں کے کارکن تمہارے جاتی عمرا کی طرف صرف تھوک دیں تو جاتی عمرا میں تمہارے محلات بہہ جائیں۔ ہم تمہیں ظالمانہ حکمرانی کا مزا چکھا دیں۔ ہم شہیدوں کے خون کا بدلہ لینا جانتے ہیں، ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھو، اگر ہم ٹکرا گئے تو بڑے بڑے سمندر شرما جائیں اور طوفان کی موجیں شرما جائیں گی۔

اب کوئی فیصلہ میرا نہیں ہوگا، اب ہماری مشترکہ جنگ ہے۔ جو فیصلہ ہو گا، مشترکہ اونرشپ پر ہو گا۔ ہم نے طے کر لیا ہے کہ آئندہ دو دن کے اندر ہماری ملاقات ہو گی، جس میں ہم اگلی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ ہم ایکشن کمیٹی اور اسٹیئرنگ کمیٹی کا اجلاس بلائیں اور دانشمندی سے فیصلہ کریں گے۔ اب یہ طے ہو چکا ہے کہ تم جاو گے۔ دنیا کی کوئی طاقت تمہارا اقتدار نہیں بچا سکتی، اب تمہیں جانا ہوگا۔ ہم جلد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، جس میں فتح و کامیابی مجبور اور مظلوم کی ہو گی۔ ان کا عبرتناک انجام پوری دنیا دیکھے گی۔

آصف علی زرداری کا خطاب

شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان کو توڑا، جس کو ہماری نسلیں معاف نہیں کر سکتی، یہ کہتا ہے کہ میں شیخ مجیب الرحمن بننا چاہتا ہوں۔ ہم پاکستان میں جینا چاہتے ہیں اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اس ملک کو خطرہ کسی اور سے نہیں بلکہ جاتی عمرہ سے ہے۔ ملک کو جاتی عمرہ کے مجیب الرحمن سے خطرہ ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ ملک کمزور ہو جائے۔ یہ مودی کے یار ہیں۔ جب تک ہماری عوام ملک میں ہیں تو ہم ایسا نہیں ہونے دیں۔ ہم صرف پاکستان کا سوچتے ہیں اور اس کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ماڈل ٹاون اور زینب کے قاتلوں کا حساب لیں گے۔

خطاب ڈاکٹر طاہرالقادری

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
جاتی عمرہ کے در و دیوار کو ہلا دو

سلطانی مظلوم کا آتا ہے زمانہ
جو نقش ستم تم کو نظر آئے مٹا دو

لاہور کی سرزمین پر آج جو منظر دیکھ رہے ہیں، اس میں شہداء ماڈل ٹاون، مظلوموں، زینب، شازیہ، تنزیلہ اور دھرتی کے معصوم بچے بچیوں کے خون کا کمال ہے۔ آج انسانی حقوق کچلے جا رہے ہیں اور قومی خزانہ لوٹا جا رہا ہے۔ یہ شیخ مجیب الرحمن کو اپنا نظریاتی قائد مانتے اور مودی کو اپنا یار بناتے ہیں۔ ملک کی سالمیت کو بچانے کے لیے اور ملک کو شیخ مجیب الرحمن سے بچانے اور انصاف دینے کے لیے آج سب ایک ہوں۔ آج جمع ہونے کا مقصد یہ ہے کہ دشمن کی پہچان کرو، ہم کوئی قدم پاکستان کے آئین، جمہوریت اور امن کے خلاف نہیں اٹھانا چاہتے۔ ہم آئین و جمہوریت کی حفاظت اور بحالی چاہتے ہیں۔ سلطنت شریفیہ آئین کی دشمن ہے۔ ہم آئین کو نہیں سلطنت شریفیہ کو توڑنا چاہتے ہیں۔ ہم جمہوریت کو نہیں جبر و ظلم کو توڑنا چاہتے ہیں۔

نواز شریف اور شہباز شریف اگر ہم نے آئین، قانون اور امن کو توڑنا ہوتا تو آج یوں بیٹھنے نہ دیتے۔ میں نے پوری دنیا میں برداشت، امن اور محبت کا فلسفہ عام کیا ہے۔ ہم امن دینے والے اور پیار بانٹنے والے لوگ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک کا قانون تنزیلہ کے لیے بھی وہی ہو، جو نواز شریف کے لیے ہے۔ جو قانون سلطنت شریفیہ کے بچوں کو نصیب ہے، وہ شازیہ کے پیٹ میں مر جانے والے بچے کے لیے بھی ہو۔

شریف برادران نے یونانی دیوتاووں کی طرح خود کو جمہوریت کا ناخدا بنا رکھا ہے۔ انہوں نے پنجاب پولیس کو نون لیگ کا ملیٹنڈ ونگ بنا دیا۔ سپاہی سے لے کر آئی جی تک تقرر و تبادلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ ساری پولیس ان کے خاندان کو تحفظ دے رہی ہے اور عوام حفاظت سے محروم ہیں۔ پولیس پر ساڑھے سات سو ارب روپے لگا دیا گیا، جس نے صرف جاتی عمرہ کو تحفظ دیا۔ کیا پاکستان سلطنت شریفیہ کے لٹیروں کے لیے بنا تھا۔ یہ ملک سب کا ہے۔

پوری دنیا میں کوئی ایک سیاسی جماعت نہیں، جس کا نام حکمران کے نام پر ہو، نون لیگ ان کی ذاتی لمٹیڈ کمپنی ہے، جس میں انہوں نے اپنے بندے بھرتی کر رکھے ہیں۔ اگر یہ رہے تو اس ملک میں جمہوریت نہیں رہے گی۔ ملک میں آئین کی حکمرانی نہیں رہے گی۔ قانون کی بالادستی نہیں آئے گی۔ یہ رہے تو غریب کے چولہے میں آگ نہیں جلے گی اور غریب کی بیٹی کے ہاتھ پیلے نہیں ہوں گے۔

سلطنت شریفیہ نون لیگ کا سیاسی لشکر ہے۔ انہوں نے عمران خان کی بدترین کردار کشی کی۔ انہوں نے نہتے کارکنوں پر ظلم و ستم کیا، یہ دہشت گردوں کے اتحادی ہیں۔ یہ پاکستان توڑنا چاہتے ہیں۔ سسلین مافیا اور اٹلی کاگاڈ فاردر سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔

آج احتجاج کی ابتداء ہے، ہمیں اسے انتہاء تک لیکر جانا ہے۔ احتجاج کی انتہاء ان کے ظلم و ستم کی حکمرانی کے خاتمہ کا نام ہے۔ یہ تحریک جسٹس فار زینت کی تحریک ہے، یہ جسٹس فار نیشن کی تحریک ہے۔ یہ جسٹس فار ماڈل ٹاون کی تحریک ہے۔ یہ آئین و جمہوریت کی بحالی کی تحریک ہے۔

ریاستی ادارے آزادی اور غیرجانبداری سے کام لیں تاکہ لوگوں کو تعلیم، صحت اور انصاف ملے۔ ہم لوگوں کے چہروں پر انصاف کی کرن دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم ماڈل ٹاون کے شہداء اور قصور کے شہداء کا انصاف لینا چاہتے ہیں۔ ورنہ تاریخ معاف نہیں کریں گی۔


Speeches

تبصرہ

Top