عوامی تحریک کا پنجاب کے لاءاینڈ آرڈر اور پولیس کی کارکردگی پر حقائق نامہ جاری

حکمرانوں کی خواہش پر مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے والے افسروں کو آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دی جاتی ہیں
پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اندر سپاہی سے لیکر انسپکٹر تک کے تبادلے وزیراعلیٰ ہاؤس سے ہوتے ہیں
پولیس کی تنظیم نو کر کے اسے فوج کی طرح خود مختار ادارہ بنایا جائے، عوامی تحریک کا مطالبہ
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خونی آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس اہلکاروں کو ڈیپارٹمنٹ سے الگ کر کے شامل تفتیش کیا جائے، مطالبہ
حقائق نامہ پنجاب کے صوبائی صدر بشارت جسپال، بریگیڈیئر مشتاق اور فیاض وڑائچ نے جاری کیا، تجاویز بھی دیں

لاہور (16فروری 2016) پاکستان عوامی تحریک نے پنجاب کے لاءاینڈ آرڈر اور پولیس کی کارکردگی پر حقائق نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے والے پولیس افسروں کو آؤٹ آف ٹرن ترقیوں سے نوازتی ہے۔ راولپنڈی میں 200، لاہور میں 270، فیصل آباد ڈویژن میں 120، ملتان ڈویژن میں 190، سرگودھا ڈویژن میں 73، گوجرانوالہ میں 80 اہلکاروں اور افسروں کو سیاسی بنیادوں پر آؤٹ آف ٹرن ترقیوں سے نوازا گیا۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں سپاہی سے لیکر انسپکٹر تک کے تبادلے وزیراعلیٰ ہاؤس سے ہوتے ہیں۔ حقائق نامہ سنٹرل پنجاب کے صدر بشارت جسپال، شمالی پنجاب کے صدر بریگیڈیئر (ر) محمد مشتاق اور جنوبی پنجاب کے صدر فیاض وڑائچ کی طرف سے جاری کیا گیا۔

حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں حکمرانوں کی خواہش پر بے گناہوں کا خون بہانے والے افسروں کو ترقیاں اور پرکشش عہدے دئیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریاستی ادارہ بن گیا۔ سیاسی مخالفین کو قتل کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے اور جعلی پولیس مقابلوں میں مارنے کی کارکردگی پر موجودہ حکمران ترقیوں سے نوازتے ہیں۔ سال 2015ء میں ایک لاکھ جھوٹے مقدمات عدالتوں سے خارج ہوئے، 700 اندھے قتل کی وارداتیں ہوئیں، پولیس 25 ہزار اشتہاری گرفتار کرنے میں ناکام رہی، پولیس تھانے جرائم کی نرسریاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اڈے بن چکے ہیں۔ قومی ایکشن پلان کے تحت پولیس میں ریفارمز لانا اور ان کی جدید خطوط پر تربیت کرنے کے اہم کام کو نظرانداز کر دیا گیا کیونکہ پنجاب کے حکمران پولیس کو ریاستی ادارہ کی بجائے اپنے سکیورٹی گارڈ سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ماہانہ تین لاکھ اور سالانہ 36 لاکھ جرائم ہوتے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں پولیس کا کردار انتہائی منفی اور غیر سنجیدہ ہے۔ پنجاب بھر میں ہر ماہ 10 ہزار سے زائد ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں جن میں سے 60 فیصد تک پولیس رپورٹ نہیں کرتی، دو ہزار سے زائد ڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں، دو سو قتل کی وارداتیں ہوتی ہیں، دو ارب روپے کی گاڑیاں چوری کر لی جاتی ہیں اور تین کروڑ روپے کے موٹر سائیکل چھین لی جاتی ہیں۔ کوئی شہری رشوت دئیے بغیر ایف آئی آر درج نہیں کرواسکتا اور سفارش کے بغیر ایف آئی آر کی نقل کی کاپی نہیں ملتی۔ فیصل آباد میں تحریک انصاف کے کارکن کے قتل اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے 14 کارکنوں کو قتل کرنے والی پولیس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ زمینوں پر قبضہ کروانے اور چھڑوانے کیلئے پولیس کے باوردی اہلکار استعمال ہوتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی یہ کہہ چکے ہیں کہ ایس ایچ او کروڑوں دیکر تھانوں میں تعینات ہوتے ہیں اور پھر عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈال کر ریکوری کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک مطالبہ کرتی ہے کہ پولیس کی تنظیم نو کی جائے اسے فوج کی طرح ایک خودمختار ادارہ بنایا جائے، کسی بھی تفتیشی افسر کی تعلیم لاءگریجویشن سے کم نہیں ہونی چاہیے، آٹھ گھنٹے سے زیادہ کسی اہلکار سے ڈیوٹی نہ لی جائے، پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ہر ملازم کو مفت سرکاری رہائش اور کھانا دیا جائے، سنگین جرائم میں ملوث تمام اہلکاروں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی، رشوت اور دیگر جرائم میں ملوث پولیس کے اہلکاروں اور افسروں کو ڈیپارٹمنٹ سے نکالا جائے۔ حقائق نامہ میں مطالبہ کیا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے خونی آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں اور افسروں کو پولیس ڈیپارٹمنٹ سے الگ کر کے شامل تفتیش کیا جائے۔

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top