فوج کی حمایت بِنا کامیاب مارچ ناممکن

پاکستان کے عوام کی قسمت تبدیل کرنے کا دعویٰ ہر سیاستدان کرتا ہے، ان کے مسائل کیا ہیں؟ مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی اور توانائی کی کمی، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا ایجنڈہ بھی یہی ہے۔

پاکستان کےقیام سے پندرہ سال پہلے پڑوسی ملک چین میں تبدیلی کا آغاز ہوا جس نے وہاں کے افراد کی قسمت اور حالت کو بدل ڈالا، اس تبدیلی کی قیادت ماؤزے تنگ نے کی جب انہوں نے لوگوں کی مدد سے چین کی آمریت کا خاتمہ کیا۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں وہ ہی اصل لانگ مارچ تھا۔

’چین وسیع علاقے میں پھیلا ہوا زرعی ملک تھا جہاں کے لوگوں کو متحرک اور منظم کرنا مقصود تھا، جس کی وجہ سے ماؤزے تنگ کے مارچ کو تین چار سال کا عرصہ لگ گیا، اس عرصے میں وہ کسی گاؤں یا علاقے میں پڑاؤ ڈال دیتے اور پھر آگے بڑہتے، اس مارچ میں کئی لوگ بیمار ہوئے اور ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

پاکستان میں لانگ مارچ کی اصطلاح ایسے بڑے جلوسوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کا مقصد ایک سے دوسری جگہ جانا ہو۔ ڈاکٹر جعفر احمد کے مطابق سنہ انیس سو اٹھاون میں مسلم لیگ قیوم کے سربراہ قیوم خان کی قیادت میں ایک طویل جلوس گجرات سے راولپنڈی تک گیا۔

اس کے بعد ایوب خان کے دور حکومت میں صدارتی انتخابات کے لیے فاطمہ جناح نے ڈھاکہ سے چٹا گانگ اور پشاور سے کراچی تک ٹرین مارچ کیا تھا۔

ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ سے متاثر پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی لانگ مارچ کے رجحان کو اپنانے کی کوشش کی اور پارٹی کی سابق چیئرپرسن بینظیر بھٹو نے سنہ انیس سو بانوے میں پیپلز ڈیمو کریٹک الائنس کے زیر انتظام اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ کرنے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا۔

نواز شریف پیپلز پارٹی کی اٹھارہ ماہ کی حکومت کی برطرفی کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔

لانگ مارچ میں غلام مصطفیٰ جتوئی، فاروق لغاری اور دیگر رہنما گرفتار ہوئے اور اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت کے بعد آخر نواز شریف کی حکومت کا قبل از وقت خاتمہ ہوا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئیر رہنما تاج حیدر بھی اس مارچ میں شریک تھے، ان کا کہنا ہے کہ وہ لانگ مارچ جمہوریت کے خلاف نہیں تھا۔

’میاں نواز شریف کی حکومت کے پیچھےاسٹیبلشمنٹ کھڑی تھی، سیاستدانوں پر جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے تھے، ملک میں خانہ جنگی کی حالت تھی، صدر اور وزیر اعظم، رینجرز اور پولیس آمنے سامنے کھڑے تھی، اس صورت حال کا حل یہی ہوتا ہے کہ عوام سے رجوع کیا جائے‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے فوری بعد سپریم کورٹ کے معزول ججوں کی بحالی کا اعلان کیا لیکن اس فیصلے میں تاخیر پر پاکستان بار کونسل نے چودہ جون سنہ دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا لیکن اسےکامیابی نہیں ملی۔

مسلم لیگ نون نے ججوں کی بحالی کے معاملے پر اختلاف کے باعث وفاقی حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور مارچ سنہ دو ہزار نو کو ججوں کی بحالی کے لیے لاہور سے اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ اس مارچ کو بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح تب ہی کامیابی نصیب ہوئی جب بظاہر فوجی سربراہ نے مداخلت کی۔

مسلم لیگ نون کے رہنما سینیٹر پرویز رشید اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے میاں نواز شریف کو بتایا کہ ججوں کی بحالی کا فیصلہ ان کا تھا، انہوں نے ہی جنرل پرویز کیانی کو آگاہ کیا تھا، اس میں عوام کا دباؤ موجود تھا کسی ادارے یا شخصیت کا دباؤ نہیں تھا۔

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اسلام آباد آئے ہیں، جو پاکستان کے نظام میں تبدیلی کے لیے انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی نظریں پاکستان فوج پر ہیں کہ وہ ان کی کامیابی کو کندھا دے۔

اس سے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف وزیرستان تک مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا وہ وہاں تک پہنچ نہ پائے، جہاد میں یقین رکھنے والی مذہبی جماعتوں کے اتحاد دفاع پاکستان کونسل نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف اسلام آباد تک مارچ کیا تھا۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبے پاکستان اسٹڈی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ’ایسے مارچ میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور ان سے شہرت ملتی ہے لیکن کوئی مثبت یعنیٰ یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے‘۔

Source : http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/01/130114_long_march_history_rwa.shtml

Comments

Top