حضرت خواجہ صوفی محمد صادق نقشبندی (رح) کا سانحہ ارتحال

گزشتہ دنوں عالم اسلام اور بالخصوص وطنِ عزیز پاکستان کی معروف اور ہر دلعزیز روحانی شخصیت حضرت صوفی محمد صادق رحمۃ اﷲ علیہ (کوٹلی، آزاد کشمیر میں) طویل علالتِ طبع کے بعد جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ (انا ﷲ و انا الیہ راجعون) پیر صاحب کی یاد میں تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر تعزیتی پروگرام منعقد ہوا جس میں ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، ڈائریکٹر فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر علی اکبر الازہری، شیخ الحدیث علامہ محمد معراج الاسلام، مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی، پروفیسر محمد نواز ظفر، ناظم امورخارجہ جی ایم ملک، دیگر مرکزی قائدین تحریک منہاج القرآن، سٹاف ممبران اور کالج آف شریعہ کے اساتذہ نے شرکت کی۔

ڈائریکٹر فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر علی اکبر الازہری نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیر حضرت صوفی محمد صادق رحمۃ اﷲ علیہ کا شمار بلاشبہ تحریک منہاج القرآن کے روحانی سرپرستوں اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے نہایت محبت و شفقت کرنے والی بزرگ ہستیوں میں ہوتا ہے۔ ان کی جدائی سے جہاں ان کے لواحقین، مریدین اور اہل علاقہ افسردہ ہیں وہاں تحریک منہاج القرآن کے کارکنان بھی ایک شفیق روحانی ہستی سے محرومی کا احساس لئے ہوئے ہیں۔

خدمت دین اور احیائے تصوف کے لئے پیر صاحب کی عملی اور تاریخی خدمات سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ انہوں نے خاموشی، بے نفسی اور نہایت سادگی کے ساتھ خانقاہی نظام تربیت کو حقیقی رنگ میں پیش کرکے اپنے ہاں اس کی فعال تاریخی حیثیت کو زندہ کیا ہے۔ آپ نے اس گئے گزرے دور میں للہیت، توحید حالی اور اخلاص فی الدین کا ایسا معیار قائم کیا جس کی مثالیں ہمیں اکابر اسلاف کے ہاں صرف پڑھنے کو ملتی تھیں۔ اہل ثروت و دولت کے ساتھ آپ کی شان استغناء اللہ تعالیٰ کی صفت صمد یّت کا مظہر تھی۔ آپ نے اپنے مسلسل طرز عمل سے ثابت کیا کہ اولیاء اللہ کے آستانے شاہ و گدا کے لئے برابر ہوتے ہیں۔ سب اللہ کے بندے ہیں اور مال ودولت یا عہدہ و منصب کسی کے مرتبہ کا تعین نہیں کرتے بلکہ حقیقی اکرام اور عزت اسی کا مقدر ہوتی ہے جو تقویٰ اور بندگی کے امتحانوں میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا ہے۔ علاوہ ازیں حضور سرور عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شریعت و طریقت اور تربیت نفس کے جو معیار قائم فرمائے اور ان کی صورت گری صحابہ کرام اور ائمہ دین نے جن جن پاکیزہ شکلوں میں فرمائی فی زمانہ اس کا عملی اظہار صوفی محمد صادق قدس سرہ نے کرکے دکھایا۔ تصوف و احسان اگر اخلاص فی الدین اور نفی ذات کا نام ہے تو آج کے دور میں اس کی جیتی جاگتی تصویر آپ تھے۔

پیر صاحب کی دینی خدمات کا دوسرا اور اہم ترین پہلو جگہ جگہ خوبصورت مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر ہے جس میں یقینا ان کی کوئی مثال اور نظیر نہ صرف ہمارے عہد میں بلکہ پوری تاریخ میں نہیں۔ 400 کے قریب آباد اور خوبصورت فنِ تعمیر کا شاہکار مساجد ان کے صاف ستھرے اور متحرک جذبہ سلوک و تصوف کا عملی اظہار ہے۔

مساجد تعمیر کرکے انہیں اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے مثبت ادارے اور روحانی مراکز میں تبدیل کرنا اس سے بھی بڑا کام ہے جو بحسن و خوبی حضرت صاحب نے انجام دیا۔ آج کے فتنہ پرور اور مذہبی افتراق و انتشار کے دور میں مسلکی رواداری ایک نعمت خداوندی ہے۔ پیر صاحب کی خانقاہی تربیت میں یہ خصوصیت ہمیں بطور خاص نظر آتی ہے ان کے ہاں بھی بلا تمیز مسلک و مذہب زائرین آتے رہے اور ان کی مساجد میں بھی ہر مسلک کا مسلمان آزادانہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ غیر مقلد اور گستاخانہ عقائد کے حامل لوگ عام طور پر تصوف و طریقت کو صرف اس لئے برا سمجھتے ہیں کہ وہاں ان کے بقول ’’شرک و بدعت‘‘ کا ارتکاب ہوتا ہے مگر پیر صاحب کے سلسلہ تصوف میں آج تک کسی شخص نے خلاف شریعت فعل کی نشان دہی کرنے کی جرات نہیں کی۔ عالم اسلام کے تمام روحانی مراکز اگر آپ کے نظام تربیت کی طرح ڈھل جائیں تو خلاف طریقت سرگرم عمل، افکار و عقائد خود بخود دم توڑ دیں گے۔ نیز آج اسلام کو جس جذبہ اور خلوص کی ضرورت ہے وہ از خود ایسی پاکیزہ خانقاہوں سے متوسلین کی زندگیوں میں منتقل ہوجائیں گے۔ اقبال نے دورِ عروج کو بحال کرنے کے لئے جس شراب کہن کی ضرورت محسوس کی تھی وہ ایسی ہی ہستیوں کے ہاتھوں تقسیم کیا جاتا ہے۔

ان کے دم قدم سے جہالت اور کسمپرسی کا حامل خطہ کوٹلی دنیا میں مدینۃ المساجد کے خوبصورت ٹائٹل سے نوازا گیا اور ’’اگہار‘‘ کی بستی کو ’’گلہار‘‘ بنانے والی معجز بداماں ہستی نے ہزاروں تاریک گھروں میں لاکھوں حفاظ کے ذریعے انوار قرآنی بکھیر دیئے۔ اس وقت ملک اور بیرون ملک ان کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والے یہی حفاظ کرام علم دین سے آراستہ ہوکر دعوت کے پیغمبرانہ مشن سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ملک کی بہت سی جامعات میں بہت سے حضرات کو بھیجا۔ خود سرپرستی فرمائی اور ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ان کی مالی معاونت بھی فرماتے رہے مگر بہت کم لوگوں کو ان کے اس تعاون کا علم ہوسکا۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ لینے والے ہاتھ یا دینے والے ہاتھ کے علاوہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی۔ یہ ان کی علم دوستی، انسان نوازی اور غریب پروری تھی جس نے بے شمار گھرانے علم اور خوشحالی سے مالا مال کردیئے۔

ان کی شخصی عظمت اور دین دوستی کا ایک اور پہلو بھی بڑا حیران کن تھا۔ گذشتہ کچھ سالوں سے وہ دربار شریف (کوٹلی) میں ضعف اور کمزوری کے سبب براہ راست کسی سے بھی نہیں ملتے تھے مگر علماء، طلباء اور دیگر معتقدین کے ساتھ ہمیشہ بالواسطہ رابطے میں رہتے تھے۔ دربار شریف میں ہر آنے جانے والے زائر کی سرگرمیاں آپ کے علم میں تھیں۔ معمولات ذکر وفکر اور تعلیم و تربیت کی خود نگرانی فرماتے تھے۔ کسی زائر یا عقیدت مند سے کبھی کوئی نذرانہ کسی بھی صورت میں وصول نہیں فرمایا بلکہ ہر شخص کی اس کے حسب حال مدد فرماتے۔ آپ کے آستانے سے ملحق مسجد دنیا کی واحد مسجد ہے جہاں جمعہ کے دن عربی خطبے کے علاوہ کوئی خطاب نہیں ہوتا مگر یہ اس سے بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ پورے شہر کی مساجد میں اتنے افراد نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں۔ لوگ دور دور سے آتے ہیں لیکن کوئی تقریر یا خطاب سننے کے لئے نہیں بلکہ روح پرور خاموشی اختیار کرنے کے لئے۔ ایسی خاموشی جو انہیں اپنے من میں جھانکنے کے زیادہ مواقع فراہم کردیتی ہے۔ الغرض ان کے نفسِ شعلہ بار کی تابانیاں اطراف و اکناف عالم میں علم، عمل اور معرفت و محبت کی ثمر آور فصل اگارہی ہیں۔ اس خصوصی اشاعت کی تنگ دامانی مزید تفصیلات کی متحمل نہیں، آئندہ کسی شمارے میں تفصیلاً حالات و خدمات پیش کی جائیں گی۔ تاہم راقم اپنی نگرانی میں اسی سال منہاج یونیورسٹی میں ایم فل کا تحقیقی مقالہ شروع کروارہا ہے جس میں پیر صاحب قبلہ کی ان تاریخ ساز خدمات کا بھرپور تعارف ممکن ہوسکے گا۔

ان کے وصال پر جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لئے راقم سمیت تحریک کے مرکزی اور صوبائی قائدین پر مشتمل اعلیٰ سطحی وفد کوٹلی گیا اور محترم صاحبزادہ حافظ محمد زاہد سلطانی سے اظہار افسوس بھی کیا۔ کوٹلی کی سرزمین اس دن عجب منظر پیش کررہی تھی۔ اس وسیع و عریض وادی کی سڑکیں، کھیت کھلیان، گھروں، دکانوں اور دفاتر کی چھتیں، مساجد کے وسیع دالان اور بازار اس بندہ خدا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ صادق اور بے لوث خادمِ دین کے جنازے میں شرکت کرنے والوں سے بھرے پڑے تھے۔ پورے ماحول پر عجیب کیف طاری تھا اور ہر جگہ ادب اور خاموشی کی حکمرانی اس رہبر صادق کی اعلیٰ تربیت کا منہ بولتا ثبوت فراہم کررہی تھی۔ کوٹلی شہر میں داخل ہونے والے تمام راستوں پر گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں ان سے عقیدت رکھنے والوں کے والہانہ اشتیاق کا مظہر تھیں۔

ان کے وصال پر قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے تعزیتی پیغام میں گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے اور ان کی رحلت کو پورے عالم اسلام اور اہل پاکستان کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ ناظم اعلیٰ تحریک منہاج القرآن محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے ملک اور بیرون ملک جملہ تنظیمات کو ایصال ثواب کے لئے خصوصی طور پر ہدایات جاری فرمائیں۔

تحریک نے اس موقع پر مرکزی سیکرٹریٹ میں خصوصی سیمینار کے علاوہ تمام اہم مراکز میں ایصال ثواب کی خصوصی محافل اور قرآن خوانی کے ساتھ ساتھ سیمینار کا اہتمام بھی کیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اندرون اور بیرون ملک تنظیمات حتی الوسع ان کی شاندار خدمات کو خراج تحسین پیش کررہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے پاکیزہ مشن کو بھرپور کامیابی سے نوازے اور ان کے سلسلہ فیض کو پوری دنیا میں عام فرمائے۔ ان کے سلسلہ طریقت اور پورے خانوادے کو ان کے شایان شان دین کی یہ خدمات خلوص کے ساتھ جاری رکھنے کی توفیق اور سعادت سے نوازتا رہے۔

اس وقت آپ کے دو صاحبزادے محترم حضرت حافظ عبدالواحد نقشبندی (المعروف حاجی پیر) اور محترم حضرت حافظ محمد زاہد سلطانی اپنے جلیل القدر والد گرامی کے نقوش پا پر پورے انہماک اور تندہی سے گامزن ہیں۔ اول الذکر زیادہ تر جہلم کالا دیو شریف (جہاں خواجہ صادق صاحب کے والدین کے مزارات ہیں) میں انتظام و انصرام کی سرپرستی کرتے ہیں جبکہ دوسرے صاحبزادہ صاحب جواں سال ہیں اور جواں عزم کے ساتھ کوٹلی اپنے قابلِ فخر اسلاف کے سلسلہ کو پروان چڑھانے میں مگن ہیں۔

تبصرہ

Top