شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری عالم اسلام کی علمی و فکری اور ہمہ جہت شخصیت

سید محمد اسحاق نقوی
(مدیر اعلیٰ، ہفت روزہ قلم؛ خطیب مرکزی جامع مسجد اہلسنت، گوجربانڈی ضلع ہٹیاں بالا، آزاد کشمیر)

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی پاکستان کے شہر جھنگ میں 19 فروری 1951ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں خداداد ذہانت و فطانت کے جوہر آپ میں پائے جانے لگے۔ ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک کے امتحانات امتیازی حیثیت میں پاس کرتے رہے۔ انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے ایم۔ اے اور قانون کے امتحانات میں بھی اعلیٰ ترین امتیازات و اعزازات سے مثالی کامیابی حاصل کیں۔ 1986ء میں پنجاب یونی ورسٹی نے آپ کو ‘اسلامی سزاؤں کی اقسام و فلسفہ’ کے موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری دی۔ آپ کے اساتذہ کرام میں آپ کے والد ماجد ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ، غزالی زماں مولانا سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ، ڈاکٹربرہان الدین احمد فاروقی اور امام محمد بن علوی المالکی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم المرتبت علماء شامل ہیں۔ آپ پنجاب یونی ورسٹی لاء کالج میں قانون کے استاد رہے۔ آپ نے مختلف موضوعات و عنوانات پر ہزاروں لیکچرز دیے ہیں جو دین اسلام کے مذہبی، روحانی، اخلاقی، شرعی، تاریخی، فقہی، معاشی و اقتصادی، سماجی، اصلاحی، سائنسی اور تقابلی مطالعہ جیسے متنوع مضامین و موضوعات پر محیط ہیں۔ آپ بیرون ملک مشہور و معروف یونی ورسٹیوں میں بھی وقتاً فوقتاً مختلف علمی و فکری اور عصری موضوعات پر لیکچرز دیتے رہتے ہیں۔ آپ کے لیکچرز عالم عرب اور مغربی دنیا کے اکثر و بیشتر ٹی وی چینلز سے بھی نشر کیے جاتے ہیں۔

آپ نے تاجدارِ ولایت، محبوبِ سبحانی، قطب ربانی، غوثِ صمدانی، قندیلِ نورانی حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی اولادِ صالح کی نسلِ نامدار کے چشم و چراغ قدوۃ الاولیاء حضرت طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور ان سے طریقت و تصوف کی تربیت اور روحانی فیض حاصل کیا ہے۔ آپ کی 450 سے زائد تصانیف اردو، عربی اور انگریزی میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ آپ کی درجنوں تصانیف کا دنیا کی اکثر زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور وہ شاملِ نصاب بھی ہو چکی ہیں جب کہ پانچ سو سے زائد مسودات طباعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔

رب کریم نے آپ کو مثالی قوتِ بیان، قوتِ تحریر، قوتِ حافظ اور قوتِ استدلال سے نوازا ہے۔ آپ سفیرِ عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔ آپ کی تقریر و تحریر اور زبان و بیان سے محبتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ بے شمار اور مثالی خداداد صلاحیتوں کی بناء پر عرب دنیا کے علماء و مشائخ نے آپ کو ’شیخ الاسلام‘ کا خطاب دیا ہے۔ آپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن دنیا کے تقریباً 90 سے زاید ممالک میں فروغ پاچکی ہے جو دنیا بھر میں اِحیائے ملتِ اسلامیہ اور اتحادِ امت کے عظیم مشن کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ آپ نے مملکتِ خداداد پاکستان میں عوامی تعلیمی منصوبہ کی بنیاد رکھی جو غیر سرکاری سطح پر دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ ہے۔ شیخ الاسلام اور تحریک منہاج القرآن کو اندرون ملک اور بیرون ملک کام کرتے ہوئے تین دہائیاں مکمل ہو چکی ہیں۔ یہ تحریک اپنے یوم تاسیس سے تاحال اسلام کے احیاء اور پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہے۔ شیخ الاسلام کی اصلاحی، اخلاقی اور روحانی تربیت کے ساتھ ساتھ دینی و عصری علوم میں سرپرستی، رہبری و راہنمائی سے جہاں لاکھوں طلباء و طالبات زیورِ علم سے آراستہ ہو کر فارغ التحصیل ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں وہاں تحریک سے وابستہ افراد بھی اطمینانِ قلب سے تحریک کے ساتھ اپنی وابستگی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام کی جُہدِ مسلسل اور ان کے قابلِ اعتماد اورمخلص احباب و رفقاء و کارکنان کی مخلصانہ مساعی جمیلہ سے تحریک منہاج القرآن نے ان تین دہائیوں میں جو شہرت اور مقام حاصل کیا ہے وہ فقید المثال ہے۔ ان گراں قدر خدمات کے باوصف تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرستِ اَعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 17 اکتوبر 1989ء کو منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی اس کے اَغراض و مقاصد میں:

  1. بامقصد معیاری اور سستی تعلیم کا فروغ
  2. غریب و مستحق طلباء کے لیے وظائف کا اہتمام
  3. صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم افراد کے لیے معیاری اور سستی طبی امداد
  4. ناگہانی حادثات میں زخمیوں کو فرسٹ ایڈ، خون اور ایمبولینس کی فراہمی
  5. خواتین و بچوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے منصوبہ جات کا قیام
  6. یتیم و بے سہارا بچوں کی تعلیم و کفالت
  7. قدرتی آفات کے متاثرین کی امداد
  8. بنیادی انسانی حقوق کے شعور کی آگہی کے لیے عملی جد و جہد
  9. بیت المال کے ذریعے مستحقین کی اعانت
  10. پسماندہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی
  11. غریب و نادار گھرانوں کی بیٹیوں کی شادی کا اہتمام
  12. بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے منصوبہ جات
  13. منہاج مصالحتی کونسل کے ذریعے افراد معاشرہ کی اخلاقی و قانونی مدد
  14. بیرون ملک مقیم خاندانوں کی تعلیم و تربیت اور سماجی خدمات کے لیے ایجوکیشن اور کمیونٹی سنٹرز کا قیام
  15. ہنگامی صورت حال میں متاثرین کو فوری امداد کے لیے ویئر ہاؤسز کا قیام

شیخ الاسلام کو رب ذو الجلال کے فضل و کرم اور آقا کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے اغراض و مقاصد کے حصول میں نمایاں کامیابیاں ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ تفصیلات آن ریکارڈ ہیں اور آن گراؤنڈ ہیں۔ بطورِ نمونہ مشت از خروار قدرتی آفات کے متاثرین کی مدد و بحالی کے لیے:

  1. زلزلہ بام ایران 2003ء
  2. سونامی انڈونیشیا 2004ء
  3. زلزلہ کشمیر 2005ء
  4. زلزلہ کوئٹہ زیارت 2008ء
  5. متاثرین سوات 2009ء
  6. متاثرین سیلاب 2010ء
  7. سونامی جاپان
  8. متاثرین سندھ 2011ء

ان اقدامات پر کل اخراجات 75 کروڑ روپے ہوئے ہیں۔ بحمد اﷲ تعالیٰ پاکستان کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن افغانستان، بنگلہ دیش، عراق، کینیا، انڈونیشیا، صومالیہ، فلسطین، ایران، اتھوپیا، نائیجیریا، سوڈان سمیت دنیا کے 17 سے زاید ممالک میں انسانیت کی فلاح و خدمت کا کام سرانجام دے رہی ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ العالی کی قائم کردہ سیاسی جماعت ’پاکستان عوامی تحریک‘ ملک میں رواداری، تحمل، برداشت، آئین پاکستان سے وفاداری اور اصول پسندی پر مبنی صحت مند سیاسی روایت کی تشکیل میں گراں قدر کردار ادا کر رہی ہے اور غریب دشمن انتخابی نظام کے خاتمہ کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔

نائن الیون (امریکہ کے ٹریڈ سنٹر پر خود کش حملوں کی ہولناک تباہی) کے واقعہ سے اہل مغرب نے مسلمانوں پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا جو داغ لگایا تھا شیخ الاسلام نے کمال دانشمندی اور خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک میں امن کانفرنسیں اور سمینارز منعقد کر کے یہ باور کرایا کہ اسلام امن و محبت کا دین ہے۔ اسلام کادہشت گردی سے اور دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ نیز آپ نے خود کش بمباری اور دہشت گردی کے خلاف ‘دہشت گردی اور فتنہء خوارج’ کے عنوان سے 600 صفحات پر مشتمل مبسوط تاریخی فتویٰ شائع کیا جو اپنی نوعیت کا واحد فتویٰ اور مستند و معتبر علمی و تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

عالم اسلام کی معروف یونیورسٹی جامعۃالازہر (مصر) نے اس کی توثیق کی ہے۔ اس فتویٰ کی تقریب رونمائی 2 مارچ 2010ء کو لندن میں ہوئی۔ اس سلسلہ میں منہاج القرآن انٹرنیشنل لندن کے زیراہتمام ایک پریس کانفرنس منعقد کی گئی۔ جس میں برطانوی میڈیا کے علاوہ دنیا بھر سے انٹرنیشنل میڈیا کے درجنوں نمائندے موجود تھے۔ بعد ازاں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سرکاری طور پر اس فتویٰ کی تقریبات رونمائی منعقد ہوئیں اور پوری دنیا میں اس کی پذیرائی ہوئی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کی بین الاقوامی پہچان کی نمایاں شخصیت ہیں جنہیں اتحاد، امن اور فلاحِ انسانیت کے سفیر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بہبودِ انسانی کے لیے آپ کے علمی، فکری، اصلاحی اور سماجی اقدامات کا انٹرنیشنل لیول پر اعتراف کیا گیا ہے۔ امریکی بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ نے آپ کو بیسویں صدی کی نمایاں شخصیت قرار دیا ہے۔ اور دنیا کے نمایاں مفکر اور دانشور کے طور پر آپ کا نام میلینیم بائیو گرافیکل ڈکشنری میں شامل کیا کیا ہے۔ نیز آپ کو تحقیق و تصنیف اور انسانی بہبود کے لیے کی گئی کاوشوں پر دوسرے میلینیم کے خاتمے پر 500 مؤثر ترین راہنماؤں میں شامل کیا گیا ہے۔ آپ کی تعلیمی و سماجی خدمات پر انٹر نیشنل بائیوگرافیکل سنٹر کیمبرج نے آپ کو سال 99-1998ء کی شخصیت قرار دیا ہے۔ تعلیم کے فروغ، فلاح عامہ، بین المذاہب رواداری، امن، تحمل، برداشت و بردباری اور اسلام کے پیغام امن کے لیے عالمی خدمات میں Universal Peace & Harmony فورم نے آپ کو امن ایوارڈ دیا ہے۔

منہاج القران انٹر نیشنل برطانیہ کے زیر اہتمام ویمبلے ارینا لندن میں ‘عالمی امن کانفرنس’ (امن برائے انسانیت) کے عنوان سے 24 دسمبر 2011ء کو منعقد ہوئی جس میں شمالی امریکہ سے لے کر جنوبی افریقہ، یورپ اور دنیا کے تمام خطوں سے مسلم، عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت، سکھ اسکالرز، دیگر مذاہب کے پیروکار اور موثر شخصیات سمیت گیارہ ہزار سے زائد شرکاء نے شمولیت کی۔ مندوبین کے خطابات اور دنیا بھر سے ارسال کردہ پیغامات کے بعد شیخ الاسلام نے ’محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم : رسولِ رحمت‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب کیا جسے سامعین و حاضرین میں بہت زیادہ سراہا گیا۔ توہین امیز فلم کی مذمت کرتے ہوئے آپ نے عالمی راہنماؤں کے نام مراسلہ بھی جاری کیا ہے۔

آپ کی زیرسرپرستی عالمی میلاد کانفرنس کی عرب ممالک میں بڑی پذیرائی ہوئی۔ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر قیام امن کے لیے مثالی خدمات کے اعتراف پر اقوام متحدہ کی اکنامک اینڈ سوشل کونسل نے منہاج القرآن کو خصوصی مشاورتی درجہ دیا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری گزشتہ سال (21 فروری تا 20 مارچ 2012ء) ایک ماہ پر محیط تنظیمی و دعوتی دورہ پر بھارت تشریف لے گئے۔ آپ کا وہاں پرتپاک اور بے مثال استقبال ہوا۔ اس تاریخی دورہ کے دوران آپ نے نئی دہلی، ممبئی، ریاست گجرات، حیدر آباد، دکن، بنگلور اور اجمیر شریف میں لاکھوں کے عوامی اجتماعات، ورکزکنونشنز اور کانفرنسز سے خطابات کیے۔ نیز اس دورہ کے دوران آپ سے علمی، ادبی، فکری، مذہبی شخصیات، ممبران اسمبلی، علماء و مشائخ اور مختلف طبقہ ہاے زندگی سے منسلک متعدد وفود نے ملاقاتیں بھی کیں۔ مزید برآں ریاست گجرات میں منہاج القرآن اسلامک سنٹر کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا۔ شیخ الاسلام کے اس دورہ کو بھارتی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ غیر ملکی ٹی وی چینلز نے بھی نمایاں کوریج دی۔

تحریک منہاج القرآن کی بنیاد عشقِ رسول، محبتِ رسول، عقیدتِ رسول اور اطاعتِ رسول کے سچے اور سُچے جذبوں پر رکھی گئی ہے۔ فروغِ عشقِ مصطفیٰ اور ربطِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں استقامت و مداومت اور سیرتِ مطہرہ پر عمل کے فروغ کے لیے شیخ الاسلام نے یکم دسمبر 2005ء سے منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں گوشہ درود قائم کیا جس میں دن رات 24 گھنٹوں کی تین نشستیں ہوتی ہیں، جن میں کم از کم چھ افراد ایک مخصوص لباس زیب تن کر کے آٹھ گھنٹے تسلسل سے درود و سلام پڑھتے رہتے ہیں۔ ہر آٹھ گھنٹے کے بعد نشست تبدیل ہوتی ہے۔ گویا 24 گھنٹوں کے تمام دورانیے میں کوئی لمحہ بھی درود و سلام پڑھنے سے خالی نہیں گزرتا۔ اب تو منہاج القرآن مرکزی سیکرٹریٹ کے سبزہ زار میں گوشہ درود کی ایک خوبصورت عمارت تعمیر کردی گئی ہے۔ یہ پورے عالم اسلام میں اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے جو شیخ الاسلام اور ان کی بناء کردہ تحریک منہاج القرآن کی روز افزوں ترقی، کامیابی اور کامرانی کا باعث ہے۔

ہر پڑھا لکھا پاکستانی و کشمیری اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان متعصب ہندؤں اور غاصب و قابض انگریزوں کے تسلط و محکومی میں اس طرح پس رہے تھے جیسے چکی کے دو پاٹوں میں اناج کے دانے پستے ہیں۔ ایسے پُر آشوب دور میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا تصور مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دیا جسے قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خداداد سیاسی بصیرت، علمائے حق و مشائخ عظام کی نصرت و تائید اور مسلم لیگ کے پرخلوص کارکنوں کی جدوجہد سے عملی جامہ پہنایا اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان ایک آزاد، خود مختار اسلامی نظریاتی مملکت کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آگیا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ اس کے پہلے گورنر جنرل قرار پائے۔ شومئی قسمت ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور 11 ستمبر 1948ء کو ان کی رحلت ہو گئی۔ کچھ ہی عرصہ بعد لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ یکے بعد دیگرے بانیان پاکستان کے سانحاتِ ارتحال سے نوزائیدہ ریاست کو دھچکا لگا اور قیادت نااہل و ناخلف لوگوں کے ہاتھوں میں آتی رہی جو اسے سنبھالا دینے میں ناکام رہے اور اس کے قیام کے 24 سال بعد پاکستان کو دولخت کر دیا گیا۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے تصور سے قائد رحمۃ اللہ علیہ کا تخلیق کردہ پاکستان صالح قیادت سے محروم رہا۔ نااہل، حریص، خود غرض، بدعنوان حکومتوں کی ریشہ دوانیوں اور کارستانیوں نے اس مملکت خداداد کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ پاکستان کے عوام غربت و افلاس، معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کے عدم تحفظ میں یاس و قنوطیت کے عالم میں ہیں۔ خونِ مسلم ارزاں ہو چکا ہے۔ جانوروں کی طرح انسان انسانوں کو مار رہے ہیں۔ نہ مارنے والے کو خبر ہے کہ میں کیوں مار رہا ہو اور نہ مرنے والے کو پتہ ہے کہ مجھے کیوں مارا جارہا ہے؟ ضابطے ڈھیلے اور گرفت کمزور ہی نہیں بلکہ مفقود ہے۔ جملہ ذمہ دار ادارے غیر ذمہ دار بنے ہوئے ہیں۔ بس جمہوریت، جمہوریت کی گردان سیاسی گماشتوں کی زبانوںپر ہے جبکہ دنیا کے کسی خطے میں اور تاریخ کے کسی دور میں ایسی جمہوریت نہ ہوئی ہے اور نہ ہے۔

ایک کسان اور باغبان جس کا کھیت اور باغ اجاڑا جارہا ہو اس کے دل و جان پر کیا گزرتی ہے، بعینہء پاکستان اور اس کے عوام کی ناگفتہ بہ حالت زار نے شیخ الاسلام کو بے چین کردیا۔ چنانچہ انہوں نے کینیڈا میں پرسکون ماحول میں تصنیف و تالیف کے ذریعے علمی و فکری کاموں کو بالائے طاق رکھ کر وطن عزیز کے تحفظ اور فلاحِ انسانیت کی خاطر اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے 23 دسمبر کو وطن واپسی کا اعلان کر دیا اور ’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ کا پیغام دے دیا۔

چنانچہ 23 دسمبر 2012ء کو اسی مقام پر جہاں 23 مارچ 1940ء کو قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی تھی وہیں مینارِ پاکستان کے وسیع و عریض میدان میں 20 لاکھ سے زائد فرزندانِ پاکستان نے ‘سیاست نہیں ریاست بچاؤ’ کی قرار داد منظور کی، شیخ الاسلام کا پرجوش استقبال کیا، ان کا درد انگیز خطاب سنا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ انتخابات سے قبل آئین پاکستان کی روشنی میں انتخابی اصلاحات نافذ کی جائیں تاکہ آئین کی شق نمبر 62، 63 اور 218 پر حقیقی عمل درآمد کے ذریعے صاف و شفاف انتخابات عمل میں آسکیں۔ بعد ازاں 13 جنوری کو لاہور سے اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس تک پُرامن تاریخی لانگ مارچ کیا گیا۔ شیخ الاسلام کے اعلان کے مطابق 13 جنوری کو لاہور سے لانگ مارچ شروع ہوا جو 17 جنوری تک اسلام آباد ڈی چوک اور پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے شاہراہ دستور پر دھرنے کی صورت میں رہا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ مخلص رہبر و رہنما کی قیادت میں لاکھوں کا اجتماع - جس میں بوڑھے، جوان، عورتیں اور بچے سبھی شامل تھے - شدید سردی کے باوجود صبر و استقامت، عزم و استقلال کے پیکر بنے رہے۔ امن و سلامتی کا یہ عالم تھا کہ نہ کوئی گملا ٹوٹا اور نہ کسی درخت کا پتہ گرایا گیا۔ جس طرح شیخ الاسلام نے فرمایا تھا اسی طرح ہوا۔ تاریخ عالم میں ایسے کثیر اور طویل دورانیے کے پرامن لانگ مارچ، احتجاج اور دھرنے کی مثال نہیں ملتی۔ بالآخر حکومتِ وقت کو شیخ الاسلام سے مذاکرات کرنا پڑے اور ان کی شرائط تسلیم کرنا پڑا جس پر شیخ الاسلام نے احتجاجی دھرنے کے اختتام کا اعلان فرمایا اور لوگوں کی واپسی کا اہتمام بھی کرایا۔ یہ شیخ الاسلام کی کاوشوں کا ہی ثمر ہے کہ آج پاکستانی قوم میں اپنے حقوق کے بارے میں شعور بیدار ہورہا ہے اور وہ پہلے سے زیادہ محتاط دکھائی دے رہے ہیں۔

23 دسمبر 2012ء سے شیخ الاسلام کا یہ سفر جو ‘سیاست نہیں ریاست بچاؤ’ کے نعرہ سے شروع ہوا ہے، یہ دراصل فکر اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا آئینہ دار ہے۔ حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کامیاب طرزِ حکومت وہی ہو سکتا ہے جو دینی اقدار کا حامل ہو اور صالح و صائب الرائے ارباب فکر و دانش اس میں شامل ہوں ورنہ جمہوریت کے لبادے میں فرعونیت، نمرودیت اور چنگیزیت ہو گی۔ حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ ضرب کلیم میں فرماتے ہیں:

جو بات حق ہو، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی
خدا نے مجھ کو دیا ہے دلِ خبیر و بصیر

مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لا دیں
کنیز اَہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر

حضرت اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی فلاحی ریاست کا تصور دیا تھا۔ ضربِ کلیم میں ایک دوسرے مقام میں فرماتے ہیں:

امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے
یہ خاک باز ہیں، رکھتے ہیں خاک سے پیوند

ہمیشہ مور و مگس پر نگاہ ہے ان کی
جہاں میں ہے صفت عنکبوت ان کی کمند

خوشا وہ قافلہ، جس کے امیر کی ہے متاع
تخیل ملکوتی و جذبہ ہاے بلند!

یعنی نااہل سیاست دانوں سے ملک و ملت کی فلاح و تعمیر کی کیا اُمید کی جاسکتی ہے؟ یہ خود بھی پست ہوتے ہیں اور ان کے خیالات بھی پست ہوتے ہیں۔ جس طرح مکڑی اپنے جالے میں اس انتظار میں بیٹھی رہتی ہے کہ کوئی چیونٹی یا مکھی اس کے جالے کے قریب آجائے اور وہ اسے پھانس کر شکار کرلے اسی طرح یہ عیار و مکار سیاست دان اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہر قسم کے گھٹیا طریقے استعمال کرتے ہیں اور حقیر فائدے کے لیے اپنی کمندیں ڈالتے ہیں۔

وہ قافلہ خوش نصیب ہے جس کا سالار فرشتہ صفت ہو۔ اس کے خیالات پاکیزہ ہوں اور فکر بلند ہو۔ ایسا سیاست دان ہی قوم کو منزل مقصود تک سلامتی سے پہنچا سکتا ہے۔ شیخ الاسلام کسی ایجنسی یا حکومت کے ایجنڈا پر کام نہیں کر رہے اور نہ ہی وہ مارشل لاء کے داعی ہیں؛ بلکہ وہ تو مصورِ پاکستان شاعر اسلام ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے افکار و نظریات کو پروان چڑھا کر وطنِ عزیز پاکستان (جو ایک آزاد خود مختار نظریاتی اسلامی ریاست ہے) کی تعمیر چاہتے ہیں اور وہ اسی طرح ممکن ہے کہ آئین پاکستان کی روشنی میں انتخابی اصلاحات نافذ کی جائیں، انتخابات کروائے جائیں، صادق و امین، اچھے کردار و اوصاف والے، قائدانہ صلاحیتوں والے امیدوار بنیں اور منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچیں، کرپٹ اور نااہل لوگوں پر قدغن لگے۔ یہی شیخ الاسلام کا پیغام ہے اور اسی کے لیے ان کی جدوجہد جاری ہے۔

پاکستان کے جن عاقبت نااندیش سیاست دانوں، مذہبی جماعتوں کے قائدین، بے بصیرت راہنماؤں اور نام نہاد دانش وروں نے سوقیانہ لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے شیخ الاسلام کے 23 دسمبر 2012ء سے شروع ہونے والے انقلابی و اصلاحی سفر پر تنقید اور ہرزہ سرائی کی ہے اور تحریر و تقریر کے محاسن کو نظر انداز کر کے بازاری زبان استعمال کی ہے، یہ ان سب کی وسعتِ قلبی، وسعتِ نظری سے محرومی اور فکرِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جس کسی نے جب بھی ملک و ملت کی تعمیر و اصلاح کے لیے قدم اُٹھایا اس پر بلاوجہ تنقید کی گئی، ہرزہ سرائی کی گئی۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کا کیا قصور تھا؟ بغض و حسد کے ماروں اور بے بصیرت و عاقبت نا اندیش لوگوں (جن میں علماء بھی تھے اور مذہبی و سیاسی ٹھیکیدار بھی) نے ان جیسی مخلص شخصیات پر کفر کے فتوے لگائے اور انہیں کافر اعظم تک کہا۔ بہر حال شیخ الاسلام عزم و استقامت کے کوہِ گراں ہیں، ان کی نگاہ بلند ہے، ان کے سخن دل نواز ہیں اور جاں پرسوز ہے۔ بقول شاعر:

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

المختصر ماضی قریب میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک فرد واحد اپنی فکر و دانش، فہم و فراست اور عملی جد و جہد سے فکری و عملی سطح پر ملتِ اسلامیہ کی اصلاح و فلاح کے لیے اتنے مختصر دورانیے میں اتنی کامیاب بے مثال اور نمایاں خدمات انجام دی ہوں، بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری عالم اسلام کی علمی و فکری اور ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کی تاریخ کے دورِ جدید کے مؤسس (مجدد رواں صدی) اور روشن مستقبل کی نوید سحر ہیں۔ رب کریم آپ کو عمر خضر عطا فرمائے۔ آپ کے صاحبزادگان ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کو اپنے والد گرامی کی طرح نافع الخلائق بنائے۔ تحریک منہاج القرآن، منہاج ویلفیئرفاؤنڈیشن، مصطفوی اسٹوڈنٹس موومنٹ اور پاکستان عوامی تحریک کو بام عروج تک پہنچائے۔ (آمین)

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top