سانحہ ماڈل ٹاؤن: قانونی جدوجہد، ایک جائزہ

مورخہ: 13 جون 2019ء

ظلم و بربریت اور ریاستی دہشت گردی کے 5 سال
سانحہ میں ملوث افسران واہلکاران کو پُرکشش عہدوں اور مراعات سے نوازاگیا

تحریر: نعیم الدّین چوہدری ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ترجمان سانحہ ماڈل ٹاؤن لیگل ٹیم

سانحہ ماڈل ٹاؤن نواز، شہباز حکومت کی منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔ اس کا مقصد ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کو حکومت کےماورائے آئین وقانون طرز حکمرانی کے خلاف جدوجہد کو روکنا تھا۔ بئیررز کو ہٹا نا مقصد نہیں تھا۔ کیونکہ بئیررز تو 2010میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پولیس نے خود اس وقت کے SP ماڈل ٹاؤن ایاز سلیم کی نگرانی میں لگوائے تہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن محض ایک حادثہ نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا اگر محض حادثہ ہوتا تو سانحہ کے فوری بعد قتل وغارت گری میں ملوث پولیس افسران واہلکاران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں آتی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ سانحہ میں ملوث پولیس افسران واہلکاران کو پرکشش عہدوں، مراعات اور ترقیاں دی گئیں۔

آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کو ریٹائرمنٹ کے بعد وفاقی ٹیکس محتسب لگایاگیا۔ اس سے قبل آئی جی پنجاب خان بیگ جس نے قتل وغارت گری سے انکارکر دیا تھا اسکو ریٹائرمنٹ تک OSD رکھا گیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایک بھیانک کھیل ہے جس میں نواز، شہباز حکومت نے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے معصوم اور نہتے بے گناہ کارکنوں کے خون سے ہولی کھیلی، خونی اور دہشت گردی پر مبنی مناظر موقع پر موجود لوگوں کےعلاوہ پوری دنیا نے میڈیا چینلز کے ذریعہ براہ راست دیکہے۔ جس میں 14 افراد شہید اور جس میں دو خواتین بھی شامل تھیں اور 100سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئی اور ان میں سے کچھ افراد اپاہج ہو چکے ہیں۔

ظلم وریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی۔ قطع نظر اس سے حکومت اعتراف گناہ کے ساتھ مظلوموں کی اشک شوئی کے اقدامات کرتی لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن کےمتاثرین پر ہی ایک جھوٹی FIR 510/14 درج کرکےاور زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کر کے دنیا کی تاریخ میں ظلم وانصاف کی نئی مثال قائم کردی۔ مقدمہ نمبر 510/14 میں جوائنٹ انوسٹی گیشن تشکیل پائی جس میں دو ایجنسیوں MI,ISI کی نمائندگی بھی شامل تھیں جس میں دونوں ایجنسیوں (ISI,MI)نے اپنے اختلافی نوٹ میں تحریر کیا کہ اس FIRکو Quash ہونا چاہیے۔ اور اختلافی نوٹ میں FIRکوQuash کرنے کی وجوہات تحریر کیں لیکن اس کے باوجود جنوری 2015میں اس جھوٹے مقدمہ کا چالان انسداددہشت گردی کورٹ لاہور میں پیش کیا گیا۔ حالانکہ اختلافی نوٹ کی موجودگی میں اس مقدمہ کا چالان انسداددہشت گردی کورٹ میں پیش نہ کیا جا سکتا تھا۔ اسطرح اس مقدمہ میں جنوری 2015 سے لیکر اب تک پاکستان عوامی تحریک کے بے گناہ افراد تقریباً 350 پیشیاں بھگت چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اُسی دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کے لئے جوڈیشل کمیشن بنا رہا ہوں۔ اور اس المناک واقعہ کی تحقیقات کی شکل میں جو بھی ذمہ دار ٹھہرائے گئے انکو قانون کے مطابق کڑی سزادی جائے گی۔ اگر مجہے اسکا ذمہ دار ٹھہرایا جاتاہے توایک سکینڈ سے پہلے عوام کی عدالت میں حاضر ہوں گا اور جو بھی اس تحقیقاتی رپورٹ میں مجہے تجویز کیاگیا میں اسے من وعن قبول کرونگا۔

وزیراعلیٰ نے ایک خط کے ذریعہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو کمیشن قائم کرنے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ نے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی جج لاہور ہائی کورٹ پر مشتمل یک رکنی انکوائری ٹربیونل قائم کیا، جسٹس علی باقر نجفی نے تحقیقات کے دوران انکوائری ٹربیونل آرڈیننس 1969کے سیکشن 11 کے تحت Additional Powerگورنمنٹ آف پنجاب سے بذریعہ لیٹر 9/TOIمورخہ 20-06-2014 کو مانگی لیکن گورنمنٹ آف پنجاب نے بذریعہ لیٹر نمبری

Jud 11-III 9-53/2014 مورخہ 27-06-2014 یک رکنی انکوائری ٹربیونل کو ایڈیشنل اختیارات دینے سے انکار کر دیا اور جسٹس علی باقر نجفی کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو ارسال کی۔ جس میں حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو اس قتل وغارت گری کا ذمہ دار قراردیا گیا۔

اس رپورٹ کے حصول کے لئے سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کی طرف سے لاہورہائی کورٹ میں رٹ دائر کی گئی جس کی جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی جج لاہور ہائی کورٹ نےسماعت کی اور سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ، گورنمنٹ آف پنجاب کو حکم دیا کہ فوری طور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو رپورٹ مہیا کی جائے۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود گورنمنٹ آف پنجاب نے شہداء کے متاثرین کو رپورٹ فراہم نہ کی بلکہ اس آرڈر کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں انٹراکورٹ اپیل دائر کردی جسکو لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس شہباز رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین نے سماعت کی اور گورنمنٹ کی اپیل کو مورخہ 24 نومبر 20 17ء کو خارج کر دی۔ انٹرا کورٹ اپیل کے خارج ہونے کے بعد گورنمنٹ نےمجبور ہو کر اس رپورٹ کو پبلک کردیا اور سانحہ ماڈ ل ٹاؤن کے متاثرین کو بھی رپورٹ فراہم کردی جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں تمام قتل وغارت گری کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا ہوا ہے۔ لیکن اس رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات جس میں ملزمان کے بیان حلفی، ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹس شامل ہیں افسوس کہ آج تک یہ تمام دستاویزات جو جسٹس علی باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ تھیں وہ سانحہ کے متاثرین کو آج تک فراہم نہ کی گئیں ہیں۔ ان تمام منسلکہ دستاویزات کے حصول کے لئے لاہور ہائی کورٹ لاہور میں رٹ دائر کی ہوئی ہے جو کہ ابھی تک زیر سماعت ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے فوری بعدسانحہ کے متاثرین اندراج مقدمہ کے لئے تھانہ فیصل ٹاؤن میں گئے لیکن FIR کا اندراج نہ ہو سکا۔ ایڈیشنل سیشن جج / جسٹس آف پیس کے حکم کے باوجودبھی FIR کا اندراج نہ ہوا کیونکہ اس سانحہ میں اُس وقت کی حکومت اور بااثر اعلیٰ پولیس افسران شامل تہے۔ حکومتی وزراء(پرویز رشید، عابد شیر علی، خواجہ سعد رفیق )نے سیشن کورٹ کے اس حکم کو خلاف لاہور ہائی کورٹ لاہور میں رٹ پٹیشن دائر کی جو لاہور ہائی کورٹ نے مورخہ 26اگست2014 کو خارج کردی۔ حکومتی وزراء کی رٹ کے اخراج کے باوجود پولیس نے FIR در ج نہ کی۔ کیونکہ اس سانحہ میں اُس وقت کے وزیر اعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیر قانون پنجاب، وزراء اور اعلیٰ پولیس افسران شامل تہے۔

دھر نا کے دوران چیف آف آرمی سٹاف کی مداخلت سے مورخہ 28 اگست 2014 کو FIR 696/14 درج ہو ئی۔ دھرنا کے دوران مزاکرات میں یقین دہائی کرائی گئی تھی کہ JIT غیر جابنداراور مدعی فریق کے اتفاق رائے سے بنائی جائے گی مگر حکومت نے وعدہ سے انحراف کرتے ہوئے اپنی مرضی سے اپنے من پسند اور زیر اثر افسران پر مشتمل JIT تشکیل دی۔ JIT کا سربراہ عبدالرزاق چیمہ پہلے لاہور اور گوجرنوالہ میں انہی ملزمان کے ماتحت اپنے فرائض سرانجام دے چکا ہے۔ لہذا اُس کی سربراہی کا اعلان ہوتے ہی پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے اِس پر باضابطہ احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور حکومت کو غیر جانبدار JIT تشکیل دینے کا وعدہ یاد کرایا گیا مگر حکومت اپنی مرضی کی تفتیشی رپورٹ حاصل کرنے کے لیے اِس JIT کو تبدیل کرنے پر رضامند نہ ہوئی۔ جس پر انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کو بذریعہ تحریری لیٹر زکے ذریعے غیر جانبدار JIT بنانے کے لئے بارہادرخواستیں ارسال کیں بلکہ ان درخواستوں کو نظر انداز کردیاگیااور اس JIT سے اپنی مرضی کے مطابق یک طرفہ غیر منصفانہ اور بے بنیاد رپورٹ تیار کروائی گئی۔ مشتاق احمد سکھیرا جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دوران بھی آئی جی پنجاب تھا جس کو سپیشل ٹاسک کے طور پر مورخہ 15جون 2014 کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ سپیشل طورپرسانحہ ماڈل ٹاؤن کے لئے لایا گیا تھا۔

اس سے پہلے آئی جی پنجاب خان بیگ تہے جنہوں نےادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی رہائش گاہ پر آپریشن کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مشتاق احمد سکھیرا آئی جی پنجاب جو ہمارا ملزم بھی ہے اس نے اس مقدمہ کی تفتیش کے لیے JIT تشکیل دی۔ مشتاق احمد سکھیرا کو ریٹائرمنٹ کے بعد اسی لئے مراعات کے طور پر وفاقی ٹیکس محتسب لگایا گیا ہے جو کہ ایک Constitutional Post ہے۔ اسی طرح جو بھی پولیس آفیسرزو دیگرز اس سانحہ میں ملوث ہیں اُن کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے اُنکو مراعات اور عہدوں سے نوازا گیا۔ اوراس مقدمہ میں سابق وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف، سابق وفاقی و صوبائی وزراء، پولیس آفسران بطور ملزمان نامزد تہے اس لئے تفتیش بددیانتی سے کرتے ہوئے ان نامزد ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی۔

بلکہ عدالت میں صرف 2 پولیس اہلکاران کا چالان جبکہ 4 پولیس اہلکاران کااس مقدمہ میں اشتہاری ہونے کی وجہ سے چالان پیش کیا گیا اسطرح اس کیس میں صرف 6 پولیس اہلکاران کا عدالت میں چالان پیش کیا گیا اور چالان دسمبر2015 میں انسداد دہشت گردی کورٹ میں پیش ہوا تو تمام پولیس آفیسرز اور گورنمنٹ کے بااثر افراد کو اس کیس سے نکال دیا گیا۔ اورPAT کے 42 کارکن جو مقدمہ نمبر 510/14 (پولیس مدعی) میں بحثیت ملزم پیش ہو رہے تہے۔ تو ان 42 کارکنان کو بھی اپنا مقدمہ 696/14 میں بھی ملزم قراردے دیا گیا۔ تو جب چالان ان 42 کارکنان کے خلاف انسداددہشت گردی کورٹ میں پیش کیا گیا تو اپنے ہی مقدمہ میں بھی ادارہ منہاج القرآن اور PAT کے کارکنان کی ضمانتیں کروائی گئیں ان مقدمہ میں بھی عوامی تحریک کے کارکنان کا ناحق چالان بھی کر دیا گیا تو انکی مکمل بد دیانتی سامنے آگئی تو استغاثہ دائر کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ تو اسطرح مورخہ 15 مارچ 2016 کو انسداد دہشت گردی کورٹ میں استغاثہ دائر کردیاگیا۔ اس استغاثہ میں 56 زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات مورخہ 20 دسمبر2016 کو مکمل ہوئے۔

مورخہ 7 فروری 20 17ء کو انسداددہشت گردی عدالت لاہورنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 124ملزمان کو طلب کرلیا ہے جس میں کانسٹیبل سے لیکر آئی جی تک شامل ہیں ان کے ساتھ ساتھ دیگر افرادجس میں DCO کیپٹن (ر) عثمان TMO نشترٹاؤن علی عباس، AC ماڈل ٹاؤن طارق منظور چانڈیو بھی شامل ہیں۔ جو اس سانحہ میں ملوث ہیں جبکہ جن افراد کے حکم سے یہ ریاستی دہشت گردی ہوئی، قتل وغارت گری ہوئی تھی۔ انکو انسداددہشت گردی کورٹ لاہورنےطلب نہیں کیا توگورنمنٹ اور بیوروکریسی کے اُن 12افراد کو طلب نہ کرنے پرلاہور ہائی کورٹ لاہور میں Criminal Revision دائر کی۔ جو کہ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے مورخہ 26 ستمبر2018 کو خارج کردی۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس آرڈرکے خلاف سپریم کورٹ گئے ہوئے ہیں اور سپریم کورٹ میں ان گورنمنٹ اور بیوروکریسی کے خلاف کیس زیر سماعت ہے جس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

مشتاق احمد سکھیرا سابق آئی جی پنجاب کو انسداددہشت گردی کورٹ لاہور نے استغاثہ کیس میں طلب کیا۔ تو آئی جی مشتاق احمد سکھیرانے بھی اپنی طلبی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ اوراسطرح مورخہ 26 ستمبر2018 کو آئی جی مشتاق احمد سکھیرا کی Criminal Revision بھی لاہور ہائی کورٹ نے خارج کردی۔ تو آئی جی مشتاق احمد سکھیرا Criminal Revision خارج ہونے کے بعد انسداددہشت گردی کورٹ لاہور میں پیش ہو گیا۔ اوراسطرح استغاثہ کاٹرائل DE NOVO ہو گیا اسطرح استغاثہ کیس میں آئی جی مشتاق احمد سکھیرا اور تمام ملزمان پر مورخہ 15 اکتوبر 2018ء کودوبارہ فرد جرم عائد ہوئی۔

اس سے پہلےاستغاثہ کیس میں جتنی بھی کاروائی ہوئی تھی وہ تمام کاروائی ملزم آئی جی مشتاق احمد سکھیرا انسداد دہشت گردی کورٹ میں پیش ہونے کی وجہ سےدوبارہ ہونی ہے۔ اسطرح استغاثہ کیس میں اب دوبارہ مستغیث اور دیگر گواہان کے بیانات ہونگے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں موقع پر موجود پولیس افسران، اہلکاران جنہوں نے قتل وغارت گری کی تھی ان کو انسداددہشت گردی کورٹ نے طلب کیا تھا۔ اور ان کے ٹرائل کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ لیکن جن کے حکم پر، جن کی ایماء پرجنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی ان کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے اور اصل حقائق کو منظر عام اوراصل ملزموں تک پہنچنے کیلئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ازسر نو انوسٹی گیشن ضروری تھی۔ کیونکہ اس سے پہلے والی JITنے انوسٹی گیشن حقائق کے برعکس، جانبدار اوریکطرفہ کی تاکہ اصل ملزمان کو بچایا جا سکے۔

اسطرح تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد نے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثارکو اپنی والدہ، پھوپھو اور دیگر شہداء کے انصاف کے لئے اور نئی JIT کی تشکیل کے لئے درخواست دی۔ تو مورخہ 6ا کتوبر 2018ء کو چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اس درخواست پر سماعت کی، اور مورخہ 19 نومبر2018ء کو بسمہ امجد کی درخواست پر ایک لارجر بنچ تشکیل دے دیا۔ جس کی سربراہی خود چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے۔

اور اسطرح مورخہ 5 دسمبر2018ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے لارجربنچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں اس درخواست پرسماعت کی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ نمبر 696/14 میں نئی JIT تشکیل، اور اسطرح مورخہ 3 جنوری 2019ء کو گورنمنٹ آف پنجاب نے JIT کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اور مورخہ 14جنوری سے لیکر 20مارچ تک JITنے تفتیش کی۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک منفرد کیس ہے جسکی پاکستان کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی جس میں اس وقت کے وزیر اعظم، وزیر اعلی، وزیر قانون پنجاب، پولیس کے اعلی افسران اور بیوروکریٹس ملوث ہیں۔

پہلے والی جے آئی ٹی نے انوسٹی گیشن، حقائق کے برعکس، جانبدار اور یکطرفہ کی تاکہ ملزمان کو بچایا جا سکے۔ اورحقائق کو منظرعام پر لانے کی بجائے اصل حقائق کو چھپایا تاکہ اصل ملزمان کو بچایا جا سکے۔

وہ تمام ریکارڈ جو گورنمنٹ کے اداروں اور ان با اثر ملزمان کے زیر قبضہ تھا جس تک مدعی پارٹی کی رسائی ہر گز ممکن نہیں تھی اور جس ریکارڈ سے مقدمہ کی تفتیش کو تقویت ملتی اس ریکارڈ کو بھی پہلی والی JIT نےتفتیش کاحصہ نہیں بنایا گیا۔

ہمارے پاس جو ثبوت اور شہادتیں میسر تھیں وہ انسداد دہشت گردی کورٹ میں دے دی تھیں۔ لیکن کچھ ایسی شہادتیں اور ثبوت ہیں جن تک ہماری رسائی ناممکن ہے جو جے۔ آئی۔ ٹی یا عدالت کے ذریعہ سے ہی سامنے آسکتی ہیں۔

جسطرح اس وقت کی ظالم نواز، شہباز حکومت اس تحریک کو روکنےکیلئے آئی جی پنجاب خان بیگ نے آپریشن کرنے سے انکار کر دیا تھا تو سپیشل ٹاسک کے لیے خصوصی طور پر قتل وغارت گری کے لئے مشتاق احمد سکھیرا کو بلوچستان سےٹرانسفرکیا گیا۔ حالانکہ آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کا گریڈ 21 ویں تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی پوسٹ 22 ویں گریڈ کی تھی۔ اسطرح مشتاق احمد سکھیرا کو مراعات کے طور پر ریٹائرمنٹ کے بعدوفاقی ٹیکس محتسب لگا دیا ہے۔ اور خان بیگ کو ریٹائرمنٹ تک OSD رکھا گیا۔

اسی طرح اس وقت کے ڈی سی او احمد جاوید قاضی نے بھی آپریشن کرنے سے انکار کر دیاتھا تو کیپٹن (ر) عثمان کو بطور ڈی۔ سی۔ او لایا گیا۔ اس وقوعہ کے بعد کیپٹن (ر) عثمان کو مراعات کے طور پر صاف پانی پراجیکٹ میں سپیشل پیکج پر دس لاکھ روپے ماہانہ دیے گئے۔

رانا ثناءاللہ نے انکوائری ٹربیونل کے سامنے تسلیم کیا ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہرا لقادری کی آمد کے سلسلہ میں سب کمیٹی بن چکی تھی اور اس ضمن میں کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز کر رہی تھی، سوچ و بچار کر رہی تھی اور سپیشل برانچ کی رپورٹ اس میں ڈسکس ہو رہی تھی اس ضمن میں Execution کیلئے IG پنجاب خان بیگ سے بات ہوئی تو اس نے انکار کر دیا جس کےنتیجے میں مورخہ 14 جون 2014 کو IG خان بیگ کو OSD بنا دیا گیا اور ریٹائرمنٹ تک خان بیگ کو OSD ہی رہنے دیا گیا کیونکہ انہوں نے 17جون2014 ء کو قتل عام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

مورخہ 14جون 2014 کو IG پنجاب کیلئے 3 نام Recommend ہوئے اور اسی دن ہی مورخہ 14جون2014 ء کو مشتاق احمد سکھیرا کا نام فائنل ہوا اور بطور IG پنجاب نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ IG پنجاب کی پوسٹ 22گریڈ کی ہے جبکہ مشتاق احمد سکھیرا کا گریڈ 21تھا۔ جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد مشتاق احمد سکھیرا کو مراعات کے طور پر وفاقی ٹیکس محتسب لگا دیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انکو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کروانےپر Reward دیا گیا ہے۔

اسی طرح اُسی دن مورخہ 14 جون 2014 کو DCO احمد جاوید قاضی کو بھی تبدیل کر دیا گیا کیونکہ انہوں نے بھی قتل عام کرنے سے انکار کر دیا تھا اور انکی جگہ نیا DCO کیپٹن (ر) عثمان کو لگا دیا گیا اور وہ آپریشن میں بھی خود شریک تھا۔ DCO اور IG کو تبدیل کرنے اور نئے IG اور DCO کو ایک ہی دن میں لگانا 17 جون 2014 کا وقوعہ کروانے کی منصوبہ بندی کو ثابت کرتا ہے۔

اسی طرح مورخہ 16 جون 2014 کو رانا ثناءاللہ نے سول سیکرٹریٹ میں میٹنگ کی اوراس میٹنگ میں سپیشل برانچ کے نمائندہ نے رپورٹ پیش کی کہ ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری صاحب23 جون 2014 کو پاکستان آرہے ہیں اورحکومت کے خلاف تحریک چلانے جارہے ہیں اور PAT ورکرز گرمجوشی سے ڈاکٹر صاحب کی آمد کے سلسلہ میں استقبال اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کیلئے زبر دست تیاریوں میں مصروف ہیں تو رانا ثناءاللہ نے اس میٹنگ میں کہا کہ ہم نے کسی بھی صورت ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو اپنے مقاصد کو مکمل کرنے نہیں دینا۔ خواہ اس کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانا پڑا تو ہم گریز نہیں کریں گے۔

شہباز حکومت نے آئی جی پنجاب کو تبدیل کرکے پولیس کو کور کیاپھر کیس کو کنٹرول کرنے کے لیے پراسیکیوشن کو بھی کور کیا۔ اسطرح مورخہ 17جون 2014 کو وقوعہ کے دن ہی سید احتشام قادر شاہ کی بطور پراسیکیوٹر جنرل خصوصی تقرری کی گئی۔ پراسیکیوٹر جنرل کی 3سال کیلئےخصوصی تقرری کے بعد ان کو سپیشل پیکیج اور مراعات کے طور پر تقریبا 10 لاکھ روپے ماہانہ دیے گئے۔

مورخہ 17جون 2014 کو 3 سال مکمل ہونے پر پراسیکیوٹر جنرل احتشام قادر شاہ کو مزید توسیع نہ مل سکتی تھی۔

مورخہ 22 جون 20 17 کو حکومت پنجاب اور وزیر اعلی پنجاب نے گورنر پنجاب سے آرڈیننس جاری کروایا۔ آرڈیننس کے سیکشن 6 کے تحت حکومت پنجاب اور وزیراعلی کو Amendment کا اختیار دے دیا گیا جس کے تحت پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں مزید 2 سال کی توسیع کر دی گئی اور یہ توسیع اس لیے دی گئی کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

پراسیکیوٹر جنرل کو نہ صرف توسیع ملازمت دی گئی بلکہ مزید ترمیم بھی کی گئی کہ پراسیکیوٹر جنرل کی رائے کو کورٹ اہمیت دے گی اور پراسیکیوٹر جنرل ملزمان کی سزا بھی تجویز کرے گا۔

نواز، شہبازحکومت کا قتل و غارت گری کروانا اور بعد ازاں اپنے آپ کو تحفظ دینے کیلئے قانونی منصوبہ بندی کرنا یہ تمام اقدامات، تقرریاں، برطرفیاں، تبادلے، خصوصی مراعات، توسیع ملازمات، آرڈیننس اور ترمیمات یہ سب واضح کرتے کہ شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اس پورے وقوعہ/سانحہ کے ذمہ دار ہیں اور اس وقوعہ سے پہلے تیاری اور اس کے بعد تحفظ دینے کے اقدامات سے ان کے Motive اور جرم کو ثابت کرتا ہے۔ اس وقوعہ کی پولیس ہی صرف ذمہ دار نہیں ہے بلکہ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جس کی ایماء پر تمام وقوعہ ہوا ہے۔

ہمارے پاس جو ثبوت اور شہادتیں میسرتھیں وہ انسداددہشت کورٹ میں دے دی تھیں لیکن کچھ ایسی شہادتیں اورثبوت ہیں جن تک ہماری رسائی ناممکن ہے جو جے آئی ٹی کے ذریعہ ہی سامنے لائی جاسکتی تھی۔ اس لئے نئی JIT کی تشکیل ناگزیر تھی تاکہ اصل حقائق منظر عام پر آسکیں تاکہ سانحہ کی منصوبہ بندی، سازش کرنے والے اصل قاتل بھی کیفرکردار تک پہنچیں تاکہ آئندہ اقتدار کے نشہ میں بدست حکمرانوں کو ایسا کرنے کی جرت نہ ہو سکے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کے لئے بننے والی نئی جے آئی ٹی نے اصل ملزموں تک پہنچنے کے لیے مختلف پہلوؤں پرتفتیش کی تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا اس کے پیچہے کیا سازش کار فرما تھی اس وقوعہ کے پیچہے کون کون سازشی عناصر موجود ہیں۔ اور یہ سازش کہاں سے چلی اور کس طرح اس سازش پر عملدرآمد ہوا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انوسٹی گیشن کیلئے JIT کے سامنے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی طرف سے تمام ثبوت زبانی و دستاویزی شہادتوں کی شکل میں پیش کردیے گئے اور اسطرح سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کرنے والے ملزمان سے بھی JITنے تفتیش کی۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے منصوبہ ساز نواز شریف اور شہباز شریف اور رانا ثناءاللہ سے جب جے آئی ٹی نے انوسٹی گیشن کی تو کچھ قوتیں متحرک ہو گئیں کہ ان کو جے آئی ٹی گنہگار ٹھہرا کر انسداد دہشت گردی کورٹ میں چالان پیش نہ کر دے اور انکے ٹرائیل کا آغاز نہ ہوجائے اسطرح جے آئی ٹی کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کرواکر جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا جائے اور یہاں تک کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھی اس کیس کی فیکسیشن اور بینچ کی تشکیل تک کامعلوم نہ ہو سکا۔ اسی لیے کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل موجود نہیں تہے جب ایڈووکیٹ جنرل کو معلوم ہوا تو وہ فوری طور پر عدالت میں پہنچ گئے لیکن ایڈووکیٹ جنرل نے جب فل بینچ کے سامنے یہ ساری صورتحال سامنے رکھی تو ایڈووکیٹ جنرل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا گیا۔

ڈویژن بینچ نے مورخہ 24 جنوری 2019 کو اس رٹ کی maintainability پر سوالات اٹھا دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں بننے والی جے آئی ٹی کے خلاف ہم کسطرح سماعت کرسکتے ہیں تو پٹیشنر کے وکلاء نے تیاری کےلئے کورٹ سے ٹائم مانگ لیا۔

اس طرح مورخہ 31 جنوری 2019 کو ڈویژن بینچ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے ملزمان کے وکلاء نے request کی کہ ہم چیف جسٹس کو درخواست دینا چاہتے ہیں کہ اس کیس میں لارجر بینچ بنایا جائے۔

مورخہ 20 فروری 2019 کو ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو فل بینچ بنانے کیلئے درخواست دی گئی۔ حالانکہ یہ درخواست ریگولر طریقے سے جوڈیشل سائیڈ پر اوپن کورٹ میں دینی چاہیے تھی۔ اور اوپن کورٹ میں اس درخواست کو لگنا چاہیے تھا لیکن اوپن کورٹ میں یہ درخواست نہیں دی گئی۔

مورخہ 5 مارچ 2019 کو یہ درخواست ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کی Noting کے ساتھ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے سامنے پیش کی گئی۔ اوراس درخواست کو ایڈمنسٹریٹو سائیڈ پر لگادیا گیا اور اس کیس کو چیف جسٹس نے خود بخود ہی Take up کرلیا اور فل بینچ تشکیل دے دیاگیا۔

مورخہ 13 مارچ 2019 کو سینئر ممبر فل بینچ کے پاس یہ کیس جاتاہے تو سینئر ممبر فل بینچ 22 مارچ کے لیے اس کیس کو فکس کردیتے ہیں لیکن یہ کیس Regular weekly لسٹ میں نہیں آتا بلکہ 22 مارچ کو Supplementary List کیس کی سماعت سے آدھا گھنٹہ پہلے نکلتی ہے اور فل بینچ اس کیس کی سماعت کرتا ہے اور ایڈووکیٹ جنرل کو سنے بغیرہی JIT کے نوٹیفیکیشن کو معطل کر دیا جاتا ہے۔

اسطرح فل بنچ کی تشکیل کو لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ کے ذریعہ چیلنج کیا ہوا ہے۔ اس رٹ کی Maintabily کے حوالے سے رجسٹرار آفس لاہور ہائی کورٹ نے اعتراض لگا دیا تھا۔ اب یہ رٹ As a Objection Case چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے پاس زیرسماعت ہے۔ مورخہ 2 مئی 2019 کو Urgent کیس کے طور پر لگا۔ لیکن چیف جسٹس کی صحت کی خرابی کی وجہ سے چیف جسٹس رخصت پر چلے گئے جس کی وجہ سےاس کیس میں سماعت نہ ہو سکی۔ اسی طرح 6 مئی، 7 مئی اور 8 مئی 2019 کو کیس فکس ہوا لیکن چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی رخصت پر ہونے کی وجہ سے اس کیس کی سماعت نہ ہو سکی۔ اس کے بعد ابھی تک اس کیس میں تاریخ پیشی مقرر نہیں ہوئی ہے۔

اسطرح JIT کی تشکیل کے خلاف جورٹ دائر ہوئی ہیں وہ بھی فل بنچ لاہور ہائی کورٹ کے پاس زیر سماعت ہے جسکا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے فیصلہ مورخہ 22 مارچ 2019 کے خلاف جس میں فل بنچ نے JIT کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کیا ہے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کردیا ہے۔

سانحہ کےذمہ داران کو دی جانے والی مراعات

اس وقت کي ظالم نواز، شہباز حکومت کي مذموم مقاصد کو عملي جامہ پہنانے اور پاکستان عوامي تحريک کی سياسي جدوجہد کو بزورِ بازو روکنے کے لیے آئی جی پنجاب خان بيگ نے آپريشن کرنےسے انکار کر ديا تو سپيشل ٹاسک کے لیے خصوصي طور پر قتل وغارت گری کے لئے مشتاق احمد سکھيرا کو بلوچستان سے ٹرانسفر کيا گيا حالانکہ آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھيرا کا گریڈ 21 وين تھا اور يہ پوست 22 وين گریڈ کی تھی۔ بعد ازاں مشتاق احمد سکھيرا کو مراعات کي طور پر ريٹائرمنٹ کے بعد وفاقي ٹيکس محتسب لگا ديا گيا جو کہ ايک Constitutional post ہے جبکہ دوسری طرف خان بيگ کو ريٹائرمنٹ تک OSDرکھا گيا۔

٭ سابق وزيراعليٰ مياں شہباز شريف کے پرسنل سيکرٹری توقير شاہ کو بھی خصوصی طور پر نوازتے ہوئے WHO میں نمائندہ مقرر کرديا گيا۔

٭ اسی طرح اس وقت کے ڈی سی او احمد جاويد قاضی نے بھی آپريشن کرنے سے انکار کر ديا تھا تو کيپٹن (ر) عثمان کو بطور ڈی۔سی۔ او لايا گيا اور اس وقوعہ کے بعد کيپٹن (ر) عثمان کو مراعات کے طور پر صاف پاني پراجيکٹ سربراہ بنايا گيا اور سپيشل پيکج پر دس لاکھ روپے ماہانہ دیے گئے۔

٭ اسی طرح خصوصي طور پر تعينات پراسيکيوٹر جنرل احتشام قادر شاہ کی 3 سال کيلئے خصوصی تقرری کے بعد ان کو سپيشل پيکيج اور مراعات کے طور پر تقريبا 10 لاکھ روپے ماہانہ ديے گئے۔ مورخہ 17جون 2017ء کو 3 سال مکمل ہونے پر پراسيکيوٹر جنرل احتشام قادر شاہ کو مزيد توسيع نہ مل سکتی تھی۔ مورخہ 22 جون 2017 کو حکومت پنجاب اور وزيراعلي پنجاب نے گورنر پنجاب سے آرڈيننس جاري کروايا۔ آرڈيننس کے سيکشن 6 کے تحت حکومت پنجاب اور وزير اعلي کو Amendment کا اختيار دے ديا گيا جس کے تحت پراسيکيوٹر جنرل کی مدت ملازمت میں مزيد 2 سال کی توسيع کر دی گئ اور يہ توسيع اس لیے دی گئ کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ کا فيصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

پراسيکيوٹر جنرل کو نہ صرف توسيعِ ملازمت دی گئی بلکہ مزيد ترميم بھی کی گئی کہ پراسيکيوٹر جنرل کی رائے کو کورٹ اہميت دے گی اور پراسيکيوٹر جنرل ملزمان کی سزا بھی تجويز کرے گا۔

نواز، شہباز حکومت کا قتل و غارت گری کروانا اور بعد ازاں اپنے آپ کو تحفظ دينےکيلئے قانونی منصوبہ بندي کرنا يہ تمام اقدامات، تقررياں، برطرفياں، تبادلے، خصوصی مراعات، توسيعِ ملازمت، آرڈيننس اور ترميمات يہ سب واضح کرتےہیں کہ شہباز شريف بطور وزير اعليٰ پنجاب اس پورے وقوعہ/سانحہ کے ذمہ دار ہيں اور اس وقوعہ سے پہلے تياری اور اس کےبعد تحفظ دينے کے اقدامات ان کے جرم کو ثابت کرتے ہيں۔ اس وقوعہ کی پوليس ہی صرف ذمہ دار نہیں ہے بلکہ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جس کی ايماء پر تمام وقوعہ ہوا ہے۔

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top