کورونا وائرس: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خصوصی گفتگو

مورخہ: 14 مارچ 2020ء

عامۃ الناس کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے حکومتی ہدایات پر عمل کریں
بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے تقدیر اور تدبیر کو خلط ملط کرتے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وباء سے متاثرہ علاقوں میں آمدورفت اور میل ملاپ سے منع کیا

Youtube

لاہور (14 مارچ 2020ء) قائد تحریک منہاج القرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مشاورتی کونسل کے اجلاس میں ویڈیو لنک پر کورونا وائرس پر خصوصی گفتگو کی ہے، گفتگو کا مکمل متن دیا جا رہا ہے۔

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے اسے ایک عالمگیر وباء قرار دیا گیا ہے، اس سے بچاؤ کے لیے ملکی بین الاقوامی ہیلتھ آرگنائزیشن جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات جاری کر رہی ہیں ان پر من و عن عمل درآمد کیا جائے، ایسی آفات پر قرآن و سنت اور نبوی تعلیمات سے جو ہدایات اور راہنمائی ملتی ہے میں وہ آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں۔

انسانی تاریخ میں کورونا وائرس سے قبل دس تباہ کن وباءئیں پھوٹ چکی ہیں، جن میں ایک وباء طاعون کی بھی تھی جسے پلیگ کہتے ہیں، ایسی عالمگیر وباؤں کے موقع پر کچھ کام اور اقدامات حکومتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں اور کچھ کام سوشل ریسپاسبیلٹی کے تحت عامۃ الناس کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔ سوسائٹی کے ہر فرد اور خاندان پر لازم ہے کہ ایسی آفات کی آمد پر وہ اپنا ذمہ دارانہ سماجی کردار ادا کریں، کورونا وائرس ایک خطرناک وباء ہے یہ کوئی روایتی وباء نہیں ہے کہ اس سے روایتی طور طریقے اختیار کر کے نمٹا جا سکے۔ کچھ حفاظتی اقدامات کا ذکر اگرچہ تکرار کے زمرے میں آتا ہے اور آپ متعدد بار یہ ہدایات سن بھی چکے ہونگے تاہم معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر بار بار دہرائے جانے کا مقصد ذہن نشین کرنا ہے۔

کرونا وائرس سے بچنے کیلئے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ صابن سے ہاتھوں کو اچھی طرح دھوتا رہے، یہ پہلا حفاظتی قدم ہے، ایک وقت میں کم از کم 20 سیکنڈ تک ہاتھوں کو دھوئیں، اس آفت سے خود کو اور دوسروں کو محفوظ بنانے کی یہ ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ کھانسی اور چھینک کی صورت میں ٹشو پیپر، رومال یا کوئی کپڑا منہ پر رکھیں تاکہ جراثیم ہوا میں نہ جائیں اگر ہاتھ دھلے ہوئے نہیں ہیں تو اپنے ہاتھوں کو منہ، ناک، آنکھ چہرے کو نہ لگائیں۔ کرونا وائرس منہ، ناک اور آنکھ کے راستے سے جسم میں داخل ہوتا ہے اگر نزلہ فلو، بخار ہے تو کسی دوسرے کو ٹچ نہ کریں اور گھر میں رہیں۔ اس دوران مصافحہ بھی نہ کریں، کسی کو گلے بھی نہ ملیں۔

اجتماعات میں جانے سے پرہیز کریں اس کا اطلاق نماز جمعہ کے اجتماعات، سیاسی، سماجی، سوشل میٹنگز پر بھی کریں یہاں تک کہ خاندان اور گھر کے اندر بھی اس پر عمل پیرا رہیں۔ ان ہدایات کو نظر انداز ہر گز نہ کریں اور خوفزدہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں، احتیاط اور تدبیر کو نظر انداز کرنے والا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہیں ہے۔ تدبیر اور احتیاط کو نظر انداز کرنے کا نام توکل نہیں ہے اور نہ ہی اس تعلق تقدیر سے ہے۔

تقدیر اور تدبیر الگ الگ موضوعات ہیں، پیشگی حفاظتی اقدامات بروئے کار لانا الگ چیز ہے، اللہ اور اس کی مشیت پر بھروسہ کرنا الگ باب اور موضوع بحث ہے، بعض لوگ کم علمی کی وجہ سے ان دونوں امور کو آپس میں خلط ملط کرتے ہیں، بیماریوں سے بچنے کیلئے تدابیراختیار کرنے کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے دیا ہے، موجودہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر بڑے یا محدود پیمانے پر باڈی کا انٹرایکشن ختم کر دیں، غیر ضروری سفر ختم کر دیں، گھروں میں رہیں، اگر ناگزیر نہ ہو تو سفر اختیار نہ کریں، اگر آپ سفر کریں گے تو لامحالہ جس ٹرین، بس، رکشے، ٹیکسی میں آپ سفر کریں گے اس میں آپ کے بیٹھنے سے قبل کوئی اور بھی بیٹھا ہو گا، آپ کو نہیں معلوم کہ کس انسانی جسم کی علامات کیا تھیں، کس باڈی میں وائرس تھا یا نہیں تھا۔

کرونا وائرس کی یہ خاصیت ہے کہ وہ لکڑی پر بھی منتقل ہو جائے تو ایک مخصوص مدت تک کسی دوسرے نفس میں منتقل ہونے کی طاقت رکھتا ہے، کرونا وائرس لکڑی، کرسی، ٹیبل، کیبل زیر استعمال رہنے والی اشیاء کے ذریعے دوسروں تک منتقل ہو سکتا ہے، نہ صرف یہ وائرس بلاواسطہ منتقل ہونے کی طاقت رکھتا ہے بلکہ بلواسطہ بھی یہ منتقل ہو سکتا ہے۔ جس جگہ بھی آپ بیٹھیں اسے اچھی طرح صاف کریں اور اپنے زیر استعمال اشیاء کی صفائی کا بھی پوری طرح خیال رکھیں، سب سے اہم چیز ہاتھوں کی صفائی ہے۔

ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ ان تدابیر کو اختیار کرے، میں تمام تنظیمی، تحریکی ذمہ داران، کارکنان کو یہ سختی سے ہدایت کررہا ہوں کہ وہ اپنی سماجی، قومی، ملی، جماعتی، تحریکی، معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے مذکورہ بالا حفاظتی تدابیر اختیار کرے اور اس ضمن میں کسی قسم کی غفلت کا مرتکب نہ ہو، نا صرف خود ان ہدایات پر عمل کرے بلکہ اپنے اہلخانہ، عزیز و اقارب اور دوست احباب تک بھی یہ پیغام قومی، ملی، دینی فریضہ سمجھ کر پہنچائے، سکولوں، کالجوں، یونیورس ٹیز، نجی محفلوں میں ہر جگہ ان ہدایات پر عمل ہونا چاہیے۔

میری دنیا بھر کے کارکنان، تنظیمات اور ذمہ داران کو یہ ہدایت ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے ضمن میں حکومتوں اور ان کے متعلقہ اداروں کی طرف سے جو ہدایات ملیں ملک، معاشرے اور انسانیت کی حفاظت اور بقا ء کے جذبہ کے ساتھ ان پر عمل کریں اور حکومتی مہمات کے ساتھ تعاون کریں اس سے وباء کو روکنے میں مدد ملے گی۔ اس حوالے سے ماڈرن سائنس سے آگاہی مل رہی ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشنز کی طرف سے بھی تلقین کی جارہی ہے اور ڈاکٹرز بھی اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ سب سے بڑی آگاہی، رہنمائی اور ہدایت کا سرچشمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات ہیں، پہلے وقتوں میں طاعون کی وباء آتی تھی یہ بھی ایک طرح کا وائرس تھا، اس سے ہزارہا اموات ہوتی تھیں، تاریخ میں مختلف معاشروں اور سوسائٹیز میں یہ وباء آتی رہی ہے، اس وقت میڈیکل سائنس، شعور اور آگاہی نہیں ہوتی تھی اور احتیاط بھی نہیں برتی جاتی تھی جس کی وجہ سے ہزاروں اموات ہوتی تھیں۔

بخاری شریف کی کتاب میں ایک باب الطب کے نام سے اس میں ایک مضمون طاعون کا ہے۔ بخاری شریف میں حدیث نمبر 5728 میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے اگر تم سنو کسی ملک، کسی شہر، کسی سرزمین کے بارے میں کہ وہاں طاعون کی وباء پھیل گئی ہے تو اس ملک میں، اس خطے میں، اس علاقے میں ہر گز داخل نہ ہوں اور اگر کسی علاقے، شہر، ملک میں یہ وباء پھیل جائے جہاں آپ پہلے سے موجود ہوں تو پھر وہاں سے باہر نہ جاؤ، اس زمانے میں ٹیسٹ لیبارٹریز نہیں ہوتی تھیں کہ اس بات کا پتہ چلایا جا سکے کہ کس شخص میں وباء کے اثرات ہیں اور کس میں نہیں ہیں؟ لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ایک ایسی احتیاطی تدبیر بتا دی جس کی آج کی ماڈرن سائنس توثیق کررہی ہے کہ متاثرہ علاقہ، ملک اور معاشرہ کا سفر اور آمدروفت کو روک دیا جائے تاکہ اس موذی وباء سے ان علاقوں، خطوں اور ملکوں کے عوام کو بچایا جا سکے۔

چونکہ طاعون ایک متعدی مرض ہے جو ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے اسی لیے دونوں صورتوں میں انٹرایکشن سے روک دیا گیا،

یہ حدیث بخاری شریف کے علاوہ مسلم شریف میں بھی روایت ہوئی ہے جس کا نمبر 2218 ہے۔ حضرت حبیب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم مدینہ میں تھے، ہمیں خبر ملی کہ کوفہ میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی ہے، مجھے حضرت عطاء بن یسار، صحابہ اور تابعین نے بتایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اگر تم کسی علاقے، خطے یا ملک میں پہلے سے موجود ہوں اور وہاں وباء آجائے تو پھر اس شہر سے نکل کر باہر نہ جاؤ جہاں وباء نہیں ہے تاکہ اس کے جراثیم تم ساتھ لے کر نہ جاؤ۔ اگر آپ کو یہ خبر پہنچے کہ یہ وباء پہلے سے کسی علاقے، ملک یا شہر میں موجود ہے اور آپ باہر ہیں تو پھر اس ملک یا شہر میں داخل نہ ہوں۔

ایک دوسری روایت میں امام مسلم نے یہ الفاظ بھی لکھے ہیں اگرکسی ایک علاقے میں یہ وباء آگئی ہے اور تم وہاں موجود ہو تو پھر اس علاقے کو چھوڑ کر نہ جاؤ ورنہ تم ان علاقوں تک بھی یہ وباء اپنے ساتھ لے جاؤ گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدی امراض کے پھیلاؤ کی روک تھام کیلئے جو ہدایات اور گائیڈ لائن دے دی ہے اس پر سختی سے عمل کرنا ہم سب پر فرض اور لازم ہے۔

آج کل جس شخص میں کرونا وائرس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اسے آئسولیشن میں بھیج دیا جاتا ہے جسے Quarantine اور اردو میں قرنطینہ کہا جاتا ہے، ایسے متاثرہ مریض کو دوسروں سے الگ تھلگ کر کے اس کا علاج کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو جائے، مرض کی موجودگی تک دوسروں سے کٹ آف ہو جانے اور میل میلاپ نہ رکھنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا آج کا یہ جدید طبی تصور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے 14سو سال قبل ارشاد فرما دیا تھا اور آج چین سمیت کورونا وائرس سے متاثرہ ترقی یافتہ ملک ان احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہیں۔

بخاری اور مسلم شریف کی ایک اور حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ متاثرہ ملک میں داخل نہ ہوں اور اگر متاثرہ ملک میں آپ پہلے سے موجود ہیں تو وہاں سے نہ نکلو، اگر نکلو تو پھر آئسولیشن میں جائیں، لوگوں سے میل میلاپ نہ رکھیں جب تک وباء ٹل نہ جائے، یعنی صرف اس صورت میں متاثرہ علاقے سے نکلنے کی اجازت ہے کہ آپ مکمل تنہائی اختیار کریں جسے آج کی جدید طبی اصطلاح میں Quarantine کہا جاتا ہے۔

صحیح بخاری کی ایک اور حدیث یہاں نقل کرنا چاہتا ہوں اس حدیث کا نمبر 5771 ہے۔ حضرت ابو سلمیٰ روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص ایسے مرض یا وباء میں مبتلا ہے جس سے دوسرے کو منتقل ہونے کا اندیشہ ہے وہ صحت مند آدمی کے قریب نہ جائے یا صحت مند آدمی اس متاثرہ شخص کے قریب نہ جائے اور کسی قسم کا معانقہ یا باڈی کا انٹرایکشن نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب ہے مصافحہ سے پرہیزکیا جائے، فزیکلی قربت اختیار کرنے سے احتراز برتا جائے، گلے نہ ملا جائے، ساری احتیاطیں شامل ہیں اسی میں نماز جمعہ کے اجتماع سمیت تمام سیاسی، سماجی اجتماعات بھی شامل ہیں۔ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات گرامی ہیں، اس لیے اس حوالے سے اگر کوئی اور طرح کی بات کرتا ہے تووہ محض لاعلمی کی وجہ سے کرے گا۔ تدبیر اختیار کرنا نبوی تعلیمات ہیں۔

دوسرا معنی محدثین نے ممرد لکھا ہے، ممرد ایسے لوگوں کو کہا جاتا تھا جن کے پاس بیمار اونٹ، بکریاں، گائے، بھینسیں مویشی ہوتے تھے اور یہ مرض کسی دوسرے مویشی کو لگنے کا احتمال ہو تو بیمار مویشیوں کو صحت مند مویشیوں کے قریب جانے سے روکا گیا تاکہ صحت مند مویشی بھی مرض سے متاثر نہ ہو جائیں، اگر صحت مند مویشی بھی متاثر ہوں گے تو لامحالہ ان کا دودھ عام آدمی پیے گا اور اس کے اثرات اس تک بھی پہنچیں گے اور پھر بیماری پھیلے گی۔

ممردہر اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو متعدی مرض میں مبتلا ہے اور اس کی بیماری دوسروں میں منتقل ہو سکتی ہے ایسے مریضوں کے لیے حکم ہے کہ وہ کسی سے فزیکل رابطہ یا کسی قسم کا معانقہ یا میل میلاپ نہ رکھیں، صحیح بخاری شریف اور مسلم شریف میں ایک اور حدیث بھی روایت ہوئی ہے کہ جس کا مرض دوسرے کو ٹرانسفر ہو سکتا ہے وہ انسان ہے خواہ جانور ہے وہ صحت مند لوگوں کے ساتھ میل میلاپ نہ رکھے، اس سے مرض ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتا ہے۔

بخاری شریف میں ایک اور حدیث مبارکہ روایت ہوئی ہے جو جزام سے متعلق ہے جزام بھی ایک متعدی مرض ہے۔ یہ بیماری کثرت سے تعلق رکھنے سے منتقل ہوتی ہے، بخاری شریف کی حدیث نمبر5707 ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو جزام ہو اس سے اس طرح دور بھاگو جس طرح شیر سے آپ اپنے آپ کو بچانے کیلئے بھاگتے ہو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر آپ ایسے مجزوم شخص کی صحبت میں زیادہ وقت گزاریں گے تو یہ مرض آپ کو بھی لاحق ہو سکتا ہے لہٰذا متاثرہ مریض سے دور رہیں۔

ایک حدیث مبارکہ صحیح مسلم میں روایت ہوئی ہے جس کا مفہوم ہے کہ مدینہ منورہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں طائف کے نواحی علاقے ثقیف سے ایک وفد آیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت کرنا چاہتا تھا، اس وفد کو ایک جگہ پر ٹھہرایا گیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ ان میں سے ایک شخص جزام کے مرض کا شکار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وفد کی طرف ایک آدمی کو بھیجا اور کہا کہ ان کو بتائیں کہ ہم نے آپ کو بیعت کر لیا ہے، آپ کا حلقہ اسلام میں داخل ہونا قبول کر لیا، لہٰذا وہاں سے واپس چلے جائیں۔

چونکہ مسجد نبوی میں لوگوں کا کثرت سے آنا جانا تھا جو صحت مند تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے تو ان کی حفاظت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفد کو کہلوا بھیجا کہ وہیں سے واپس چلے جائیں اور متعدی امراض سے بچاؤ کیلئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک کے لیے ایک نسخہ کیمیاء اور تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت فرما دی (یہاں عام مرض اور متعدی مرض کے درمیان بطور خاص تفریق رکھنا ہو گی کیونکہ ہر ہرض متعدی مرض نہیں ہوتا)۔

مسند امام احمد بن حنبل میں ایک حدیث میں یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں کہ ان کو خبر کر دو کہ ان کو میں نے بیعت کر لیا ہے اور چلے جائیں، یہی الفاظ نسائی میں روایت ہوئے ہیں۔

بیعت کا مطلب ارادہ ہوتا ہے جب ارادہ کر لیا تو حلقہ اسلام میں داخل ہو گئے، اس کے لیے مصافحہ کرنا یا معانقہ کرنا شرط نہیں ہے، یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدی مرض میں مبتلا شخص کو اپنی مجلس میں نہیں آنے دیا، یہ ہم سب کے لیے مرض سے بچنے کیلئے ایک واضح تدبیر ہے جس پر عمل کرنا گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو زندہ کرنا ہے۔

میں آخر میں ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتا ہوں، یہ واقعہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں متفق علیہ طور پر آیا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ لشکر لیکر شام گئے وہاں پہلے سے ابو عبیدہ الجراح اور مسلمانوں کا لشکر موجود تھا، اس لشکر کی مدد کیلئے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ شام گئے تھے، شام کے باہر ایک جگہ جس کا نام سرغ تھا۔ جب وہ سرغ کے مقام پر پہنچے تو وہاں ابوعبیدہ الجراح اور اسلامی فوج کے دیگر کمانڈر آپ کے استقبال کیلئے موجود تھے تو انہوں نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ ملک شام میں طاعون کی وباء پھیل گئی ہے، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ وہیں رک گئے اور اپنا لشکر بھی وہیں روک لیا، شام میں داخل ہونے کے حوالے سے سینئر صحابہ کرام میں اختلاف رائے تھا، آپ نے مشاورت کیلئے سینئر صحابہ کرام کوباری باری بلایا جن میں انصار بھی شامل تھے اور مہاجرین بھی اور قریش بھی۔

کچھ صحابہ نے مشورہ دیا کہ ہم ایک عظیم مقصد کیلئے آئے ہیں لہٰذا یہ مقصد پورا کرنا چاہیے، کچھ کا خیال تھا واپس لوٹ جانا چاہیے، انسان کے مزاج جدا جدا ہوتے ہیں کچھ پر جوش غالب آجاتا اور کچھ جوش میں بھی ہوش کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے جن کی طبیعت میں جوش اور جذبہ زیادہ تھا ان کا موقف تھا ہم ایک مقصد کیلئے نکلے ہیں اور ہمیں اس مقصد کو ہر حال میں پورا کرنا چاہیے، لہٰذا ہمیں ملک شام میں داخل ہونا چاہیے۔

بعضوں کا موقف تھا اے امیر المومنین آپ کے ہمراہ جید صحابہ ہیں اور بہت سے اور صحت مند لوگ بھی ہیں آپ ان سب کو اس وباء کی سرزمین میں لیکر داخل نہ ہوں یہ ان کی صحت کیلئے مناسب نہیں ہے یعنی مشاورت کے اس عمل میں دو آراء سامنے آئیں ایک کا موقف تھا صحت مند لوگوں کو بیمار لوگوں میں مکس اپ نہ کیا جائے ایک رائے تھی کہ جس عظیم مقصد کیلئے آئے ہیں اسے ہر حال میں پورا کیا جائے، پھر آپ نے ان قریش کو مشاورت کے لیے بلایا جو فتح مکہ کے سال میں مہاجر ہوئے تھے، ان تمام نے کہا کہ ہماری متفقہ رائے ہے کہ آپ مرض سے متاثرہ علاقہ میں نہ جائیں اور سب کو لیکر واپس چلے جائیں۔

ان صحت مند لوگوں کو وباء زدہ علاقہ میں داخل کرنا مناسب نہیں ہے، پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان تینوں مشاورتی نشستوں کے بعد اپنا فیصلہ سنایا کہ میں اپنا لشکر لیکر واپس جارہا ہوں، یہ الفاظ اس طرح روایت ہوئے ہیں کہ میں صبح کے وقت واپس مدینہ کیلئے روانہ ہورہا ہوں لہٰذا سب لوگ اپنی اپنی سواریاں تیار کر لیں، جب آپ نے اپنا فیصلہ سنایا اور روانگی کے وقت کا بھی اعلان کر دیا تو اس وقت شام کے لشکر کے کمانڈر انچیف حضرت ابوعبیدہ الجراح جوش میں آگئے اور انہوں نے امیر المومنین سے عرض کیا، کیا آپ اللہ کی تقدیر سے فرار اختیار کر رہے ہیں؟

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا ”کاش ابوعبیدہ یہ بات کسی اور نے کی ہوتی“ یعنی ابوعبیدہ تو اچھی جانتے ہیں انہیں یہ بات نہیں کہنی چاہیے تھی پھر آپ نے جواب دیا ہاں ابو عبیدہ ہم اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ کی تقدیر کی طرف جا رہے ہیں، یعنی شام میں وباء کا آنا اور لوگوں کا بیمار ہونا بھی اللہ کی تقدیر ہے اور جو میرے ساتھ آئے ان کو بیماری سے بچا کر واپس لے جانا بھی اللہ کی تقدیر ہے۔

تقدیر کا مطلب ہے علم الٰہی میں ہونا یعنی کہ بیماری کا آنا بھی علم الٰہی میں ہے اور جو لوگ میرے ہمراہ آئے ان کو بیماری سے بچا کر لے جانا بھی علم الٰہی میں سے ہے۔ کبھی تدبیر کامیاب ہو جائے تو وہی تقدیر ہو جاتی ہے۔ عالم الغیب اللہ ہے اور اصل علم اللہ کو ہے۔

حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس جواب کے بعد حضرت عبدالرحمن بن عوف اس موقع پر تشریف لائے اور انہیں جب معاملے کا علم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ امیر المومنین اس موضوع کی مناسبت سے میرے پاس کچھ معلومات ہیں، امیر المومنین نے فرمایا بیان کرو! انہوں نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنا ہے کہ جب سنو کہ کسی زمین پر وباء آچکی تو ا س میں داخل نہ ہو اور اگر کسی ایسے علاقے میں وباء پھوٹ پڑے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے باہر نہ نکلو۔

میری دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں ہر آفت اور وباء اور بلاء سے محفوظ و مامون رکھے، اول آخر 11 مرتبہ درود شریف کے ورد کے ساتھ 100 بار سورۃ فاتحہ کا یومیہ ورد کریں۔ جن کے پاس وقت کم ہو وہ اسے 40 مرتبہ بھی پڑھ سکتا ہے، سورۃ فاتحہ کا ورد شفاء کا باعث ہے موت کے سوا ہر عارضہ اس ورد سے رفع ہو جاتا ہے۔

Dr Tahir-ul-Qadri will deliver a special talk on tackling deadly Coronavirus on March 14

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top