اسلام کے تصور حلال و حرام کے پس پردہ طبی وجوہات کار فرما ہیں: ڈاکٹر طاہرالقادری

اسلام انسانی زندگی کے تحفظ اور صحت و تندرستی کے لئے مکمل گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے
جدید طبی سائنس نے جو نتائج آج اخذ کئے قرآن نے 14سو سال قبل بیان کر دئیے
آپ ﷺ نے خوراک کے استعمال اور اجتناب سے متعلق واضح رہنمائی عطا فرمائی ہے، فکری نشست
آپ ﷺ نے فرمایا گائے کا دودھ شفا، گھی دوا ہے اور گوشت سے اجتناب کریں، گفتگو

لاہور (30 دسمبر 2020ء) قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تربیتی فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام وہ واحد ضابطہ حیات ہے جو انسان کو پیدائش سے لے کر آخری سانس تک زندگی کے جملہ امور و افعال میں رہنمائی مہیا کرتا ہے۔ خوراک صحت مند انسانی زندگی کے حوالے سے بنیادی کردار کی حامل ہے۔ اسلام انسانی زندگی کے تحفظ اور صحت و تندرستی کے لئے مکمل گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے۔ اسلام نے خوراک کے حوالے سے جو حکمتیں آج سے 14 سو سال قبل بیان کیں، جدید طبی سائنس اور نیوٹریشنسٹ اس پر تصدیق کی مہر ثبت کررہے ہیں۔

انہوں نے فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت نے بعض چیزوں کو حلال فرمایا اور بعض کو حرام کیا، اس کی اپنی جگہ متعدد حکمتیں ہیں، ان حکمتوں تک انسانیت بتدریج رسائی حاصل کرتی رہے گی۔ طبی نکتہ نظر سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو حلال قرار دی گئی ہے مگر اس میں طبی حکمت نہ ہو اور کوئی حرام ایسا نہیں ہے جس کی حرمت کے پس منظر میں کوئی حکمت کارفرما نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ اللہ رب العزت نے حلال کے اندر بھی ترجیحات مقرر کی ہیں اور درجہ بندی کی گئی ہے، حضور نبی اکرم ﷺ نے جانوروں کے اندر حلال اور حرام کا فرق بیان فرمایا ہے، بڑے جانوروں میں گائے، بھینس وغیرہ کو حلال قرار دیا گیا ہے، جتنے بھی بڑے جانور ہیں ان میں کولیسٹرول لیول زیادہ ہوتا ہے، جانور کا سائز جیسے جیسے چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے اس کے گوشت میں کولیسٹرول لیول کم ہوتا چلاجاتا ہے۔

اللہ کے نبی ﷺ نے گائے اور بھینس کے گوشت کو حلال قرار دیا لیکن اس میں ایک بات قابل توجہ ہے، آج کی جدید طبی تحقیق بتاتی ہے کہ گائے کے گوشت میں ایک کیڑا پایا جاتا ہے اس کا نام ہے ”Taenia saginata“ ہے۔ اس کیڑے سے پیٹ کے کئی امراض جنم لیتے ہیں لیکن اس کیڑے کی وجہ سے جنم لینے والے امراض شکم قابل علاج ہیں، یہ کیڑا جدید تحقیق کے نتیجے میں منظر عام پر آیا جب دنیا اس کیڑے کے نام تک سے واقف نہیں تھی حضور نبی اکرم ﷺ نے اس وقت اس کی حکمت بیان فرما دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا میرے امتیوں گائے کا دودھ پیا کرو اس میں شفاء ہے، گائے کا گھی کھایا کرو اس میں دوا ہے اور گوشت سے بچا کرو اس میں بیماری ہے۔

اب ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گائے کے گوشت کے استعمال کو بیماری قرار دیا گیا ہے تو پھر اسے حلال کیوں قرار دیا گیا؟ اس میں حکمت یہ ہے کہ جو بیماری لاعلاج ہے اللہ کے رسول اسے حرام قرار دے دیتے ہیں جو قابل علاج ہے اسے حلال قرار دے دیتے ہیں۔ بکرے کا گوشت صحت کے لئے مفید ہے کیونکہ اس میں کولیسٹرول لیول کم ہوتا ہے، بکرے کے گوشت کے بھی مختلف حصوں میں کولیسٹرول کا لیول مختلف ہے، اس میں کلیجی ہے، گردے ہیں جن میں کولیسٹرول لیو ل زیادہ ہوتا ہے، بکرے کے گوشت میں گردن ایک ایسا حصہ ہے جس میں چربی اور کولیسٹرول لیول سب سے کم پایا جاتا ہے، حضور نبی اکرم ﷺ جنہیں حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ دانائے راز، دانائے سبل کہتے ہیں کا فرمان عالیشان ہے کہ بکرے کا سارا گوشت اچھا ہے لیکن گردن کا گوشت کھانے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ بکرے کے گوشت سے بھی کم کولیسٹرول والے جانور پرندے ہیں، یہ وائٹ میٹ میں آتے ہیں، مچھلی اور چکن وائٹ میٹ ہے، ڈاکٹر امراض قلب میں مبتلا افراد کو وائٹ میٹ تجویز کرتے ہیں، جیسا کہ میں نے کہا کہ سب سے کم کولیسٹرول پرندوں میں پایا جاتا ہے اور اس حکمت کو قرآن مجید میں سورۃ واقعہ میں بیان کیا گیا ہے اور پرندوں کے گوشت کو جنتی گوشت قرار دیا گیا ہے اور ترغیب دی گئی کہ اسے کھاؤ یہ سب سے بہتر گوشت ہے، جنتیوں کو بشارت دی گئی ہے کہ جنت میں پرندے اڑتے ہونگے اور ان کا گوشت تمہیں ملے گا۔ کیونکہ جنت وہ جگہ ہے جہاں بیماری کا نام و نشان تک نہیں ہو گا۔ وہاں گوشت بھی وہ ہو گا جس سے مرض کے پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔

حضور نبی اکرم ﷺ مچھلی کو پسند فرماتے تھے کیونکہ یہ کولیسٹرول فری ہے، آج مغربی دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ گھی اصلی ہو یا بناسپتی جو چیز بھی جمنے والی ہے وہ مضر صحت ہے، دل کی شریانوں کے اندر جم کر دل کی سنگین بیماریوں کا سبب بنتی ہے، ہمارے ہاں بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں ذائقوں کے اعتبار سے تصورات مختلف ہیں، مغربی دنیا بہت پہلے اس نتیجے پر پہنچ گئی تھی کہ گھی کی جگہ تیل استعمال کیا جائے وہ جمتا نہیں ہے اور صحت کے لئے مفید ہے۔ ہمارا یہ خطہ اس حقیقت کا بہت بعد میں قائل ہوا کہ ہاں گھی کی بجائے تیل بہتر ہے، جو لوگ آج اس نتیجے پر پہنچے کہ گھی کی نسبت تیل انسانی صحت کے لئے مفید ہے کاش وہ ہمارے نبی حضور نبی اکرم ﷺ کے 14 سو سال قبل کے ارشادات ملاحظہ کر لیتے اور قرآن حکیم کا مطالعہ کر لیتے تو انہیں پتہ چل جاتا کہ جس تحقیق کے بعد ہم نے یہ نتائج اخذ کئے ہیں یہ نتائج آج سے 14 سو سال پہلے حضور نبی اکرم ﷺ نے قرآن مجید کی زبان میں بیان کر دئیے تھے۔

قرآن میں آتا ہے ”والتین والزیتون“ یعنی زیتون کے تیل کی قسم کھا کر اس کی افادیت بیان کر دی گئی اور بتا دیا گیا کہ زیتون شفا ہے، یہ ایک ایسا تیل ہے جو نہ باہر جمتا ہے اور نہ جسم کے اندر جمتا ہے۔ زیتون کا تیل امراض قلب میں مبتلا افراد کے لئے نہ صرف مفید ہے بلکہ زیتون کا تیل کولیسٹرول لیول کو کم کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ 14 سو سال قبل حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سینے کے درد کے امراض کے لئے زیتون تیل استعمال کیا کرو۔ آج دنیا اور جدید سائنس بتدریج جو نتائج اخذ کررہی ہے اللہ کے رسول نے یہ سب 14 سو سال قبل فرما دئیے ہیں، بات صرف اتنی ہے کہ دین سے جڑ جائیں، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کلام اور تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کریں، غور و فکر اور تدبر سے کام لیں۔

اللہ نے ہمارے نبی کو جس تعلیم و تحقیق کے پراسیس سے گزارا ہے وہ آج کی جدید تحقیق سے کروڑ ہا درجہ بلند ہے۔ کم از کم مسلم سائنسدانوں کو اپنی تحقیق کا آغاز صدق دل سے قرآن و سنت پر ایمان لانے کے ساتھ کرنا چاہیے اور اس بات کا یقین کر لینا چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو 14 سو سال قبل فرما دیا وہ عین حق ہے اور اس اعتراف کے ساتھ وہ اپنی تحقیق کو آگے بڑھائے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو حکمتیں بیان فرما دی ہیں وہ حق ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی عقل غور و فکر کے نتیجے میں ان حقائق تک رسائی حاصل کرتی چلی جائے گی اور یہ سارے حقائق ایک دن اظہر من الشمس ہوں گے۔

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top