تحریک پاکستان میں قصور کا کردار

تحریر : پروفیسر محمد الیاس اعظمی
(کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سٹڈیز، لاہور)

لاہور پاکستان کا دل ہے تو قصور اس کی آنکھ ہے اس لئے کہ دل کسی سے متعلق اسی وقت فیصلہ کرتا ہے جب آنکھ اس سے متعلق مشاہدہ کر کے دل و دماغ کو صحیح صحیح معلومات فراہم کرتی ہے اس لئے دل کے کسی پر آنے یعنی کسی کو پسند کرنے یا کسی سے نفرت کرنے میں بنیادی کردار آنکھ کا ہی ہوتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ’’حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے‘‘ مطلب یہ کہ کوئی بھی چیز بذات خود خوبصورت یا بدصورت نہیں ہوتی بلکہ دیکھنے والی آنکھ کو جو بھا جائے وہی حسین ہے اور جو آنکھوں میں سما نہ سکے وہ حسن نہیں ہے۔

ہم نے قصور کو جو پاکستان کی آنکھ قرار دیا ہے تو اس لئے نہیں کہ ہمارا تعلق قصور سے ہے بلکہ ہمارے اس مؤقف کے پیچھے بہت سی تاریخی شہادتیں موجود ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں ان میں سے چند تاریخی واقعات تحریک پاکستان کے حوالے سے پیش کئے جاتے ہیں۔

قصور پاکستان کا ایک قدیم اور پرانا تاریخی شہر ہی نہیں بلکہ یہ ہماری ملی تاریخ کا ایک ایساکردارہے جس نے اسلامی تہذیب و تمدن اور مسلم ثقافت کی ترقی اور اس کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس مردم خیز خطے نے تمام شعبہ ہائے زندگی بالخصوص مذہب و روحانیت، علوم و فنون، تہذیب وثقافت، فنون لطیفہ، ادب، آرٹ، صنعت و حرفت، معیشت و معاشرت، سیاست اور بطور خاص موسیقی کے میدان میں ایسے نادر روزگار افراد کو جنم دیا ہے کہ جو اپنے اپنے میدان میں آفتاب بن کر یوں چمکے ہیں کہ بعد میں آنے والے ان کی روشنی میں گہنا نہیں سکے۔ بابر بادشاہ سے لے کر اورنگ زیب تک اور پھر 1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر پاکستان کی آزادی تک ہماری قومی و ملی سیاسی تاریخ میں اٹھنے والی کوئی تحریک ایسی نہیں ہے جس میں اس دھرتی ماتا کے سپوتوں نے دفاع وطن اور بقائے ملت کیلئے قربانی نہ دی ہو۔ سکھوں کے ساتھ معرکہ آرائی ہو یا برطانوی سامراج کے خلاف میدان جہادہو خلافت عثمانیہ کے تحفظ کیلئے چلائی جانے والی تحریک خلافت ہو یا جلیانوالہ باغ کا خون آشام واقعہ ہو۔ مسجد شہید گنج کا واقعہ ہو یا مسجد شب بھر کا تحفظ ہو تحریک علی گڑھ ہو یا انجمن حمایت اسلام کی تحریک ہو، مسلمانوں کی علمی ترقی کا مسئلہ ہو یا مسلم لیگ کے پیغام کو گلی گلی، کوچہ کوچہ، شہر شہر اور نگر نگر عام کرنے کا کٹھن وقت ہو ہر موقعہ اور ہر مرحلہ پر اہل قصور نے کمال جرات و بصارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قربانیوں کی ایک لازوال داستان رقم کی ہے۔ آئندہ سطور میں صرف تحریک پاکستان کے حوالے سے فرزندان قصور کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے کہ جنہوں نے اپنا سکھ، چین، راحت و آرام اور جان ومال قربان کر کے ہمارے لئے ایک آزاد وطن قائم کر دیا۔

آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس

1940ء میں مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس 22 تا 24 مارچ تک لاہور میں منعقد ہوا جس میں ملک کے طول وعرض سے مسلم زعماء اور عام مسلمانوں نے دینی جوش و جذبہ کے ساتھ شرکت کی۔ اس تاریخ ساز اجلاس کے دوسرے روز 23مارچ کو ایک قرار داد منظور کی گئی جو بعد میں قرار داد لاہور اور قرار داد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق کی پیش کردہ اس قرار داد میں حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا گیا کہ ’’ہندوستان کے ایسے علاقوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں مسلمانوں کی آزاد اور خودمختار ریاستیں قائم کی جائیں (یعنی ہندوستان کے شمال مشرقی اور شمال مغربی علاقوں میں) ان ریاستوں کے دساتیر میں اقلیتوں کے مشورے سے ان کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور انتظامی حقوق اور مفادات کیلئے کافی اور مؤثر تحفظات فراہم کئے جائیں۔ اسی طرح کے تحفظات کے ذریعے ہندوستان کے ان حصوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے حقوق کی حفاظت کی جائے‘‘

یہ قرارداد مسلمانان ہند کے جذبات کی ترجمان اور دلوں کی آواز تھی چنانچہ جب اجتماع کے سامنے منظوری کیلئے اس کو پیش کیا گیا تو جذبہ ایمانی سے معمور مسلمانوں کے اس بحر بے کنار کے اندر طلاطم پیدا ہو گیا اور انہوں نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ ’’مسلم لیگ زندہ باد ‘‘ ’’قائد اعظم زندہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ فضاؤں میں ہاتھ لہرا لہرا کر قرار داد کی منظوری دی۔ ہر طرف ایک دیدنی منظر تھا جس طرح ہندوستان بھر کے کونے کونے سے مسلمان بوڑھے، جوان اور بچے بلکہ خواتین تک اس تاریخی اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔ قصور کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے غیور مسلمان بھی اپنے تمام تر جوش ایمانی کے ساتھ اس اجلاس میں شریک تھے۔ بالخصوص حاجی محمد سعید شیخ، بابا صاحب دین، بابا نواب دین عرف بے دھڑک، حاجی محمد نذیر سہنہ، حاجی خوشی محمد، پیر عبدالقادر چشتی، بابا قمر الدین بھٹی، مولوی عبدالکریم انصاری، حاجی رب نواز خان، شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد عبداللہ قصوری، بابا برکت علی انصاری، سید محمد عالم شاہ قادری وغیرہ کے نام زیادہ نمایاں ہیں۔

مسلم لیگ کے مرکزی وصوبائی قائدین

لاہور پنجاب کا ہی نہیں بلکہ برصغیر کا ایک قدیم سیاسی و تہذیبی مرکز ہے جبکہ قصور اس کے ساتھ جڑواں قدیم تاریخی شہر ہے اس وجہ سے لاہور سے جو بھی تحریک خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی علمی، فکری ہو یا تہذیبی اس کے اثرات قصور اور اس کے باسیوں پر یقینی طور پر پڑتے ہیں۔ 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد بالخصوص مسلم لیگ پنجاب کی سرگرمیوں کا مرکز لاہور ہی تھا اور اس زمانے میں قصور ضلع لاہور کی ایک تحصیل ہوا کرتا تھا۔ اس لئے جب ضلع لاہور میں پاکستان کی تحریک نے زور پکڑا اور عروج حاصل کیا تو قصور میں بھی ہر روز جگہ جگہ مسلم لیگ کے جلسے ہونے لگے، جلوس نکالے جانے لگے، ہر طرف مسلم لیگ کا سبز ہلالی پرچم لہلہانے لگا۔ اس سلسلہ میں آل انڈیا مسلم لیگ بالخصوص مسلم لیگ صوبہ پنجاب کے صوبائی اور ضلع راہنماؤں کی کثرت کے ساتھ قصور میں آمدورفت جاری رہتی تھی۔ نواب افتخار حسین خان ممدوٹ صدر پنجاب مسلم لیگ کا تعلق ہی قصور سے تھا۔ علاوہ مولانا داؤد غزنوی، شیخ فصیح الدین وغیرہ نے بھی قیام پاکستان کے سلسلہ میں قصور کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے رکھا ہے۔

قصور جیل اور قائدین تحریک

1946ء میں حضرت قائداعظم کے حکم پر پنجاب بھر میں خضر حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اہل قصور نے بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔ جب اس تحریک نے پورے پنجاب میں زور پکڑا اور ہر طرف ’’خضر! ہائے ہائے‘‘ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ نو خضر حکومت کے کارکنان قضاء قدر نے فدایان پاکستان لیگی قائدین اور کارکنوں کو مظالم کا نشانہ بنانے کیلئے جیلوں کے دروازے کھول دیئے۔ صوبے کی کم و بیش تمام جیلیں لیگی کارکنوں سے بھر گئیں۔ صوبے کی وہ جیلیں جہاں سے سب سے زیادہ قائدین کو نذر زنداں کیا گیا تھا ان میں سے ایک جیل قصور کی بھی تھی یہاں بند رہنے والے مسلم لیگی قائدین میں سے نواب افتخار حسین خاں ممدوٹ، ملک فیروز خاں نون، سردار شوکت حیات خاں‘‘ میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ، چوہدری محمد حسین چٹھہ وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔

ضلع مسلم لیگ لاہور کے قصوری قائدین

قصور کا خطہ ایک مردم خیز زمین ہے جس نے بڑے بڑے ذہین لوگوں کو پیدا کیا اور ان کی پرورش کی ہے۔ صنعت و حرفت، تجارت، علم و حکمت، تہذیب و ثقافت اور ادب و موسیقی کے میدانوں کی طرح سیاست کے میدان میں بھی اس سرزمین کے سپوتوں نے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ ان پر فخر کرتی رہے گی۔ فرزندان قصور نے مقامی سطح سے لے کر مرکزی اور بین الاقوامی سطح تک سیاسی راہنمائی کرنے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ 1940ء میں قصور میں مسلم لیگ کے قیام سے لے کر قیام پاکستان اگست 1947ء تک اور اس کے بعد طویل عرصہ تک قصور کے مختلف سپوتوں کا شمار مسلم لیگ ضلع لاہور کے نمایاں قائدین میں ہوتا رہا ہے بلکہ تنظیمی سطح پر بڑی اہم ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ اگست 1947ء تک قصور سے تعلق رکھنے والے چند مسلم لیگی راہنماؤں اور عہدیداروں کے نام ملاحظہ ہوں کہ ان کے پاس کس قدر اہم ذمہ داری رہی ہے۔

نواب افتخارحسین ممدوٹ صدر پنجاب مسلم لیگ اور وزیر اعلیٰ پنجاب، سردار محمد حسین آف گنجہ کلاں صدر مسلم لیگ ضلع لاہور، بابا صاحب دین کونسلر پنجاب مسلم لیگ، جوائنٹ سیکرٹری مسلم لیگ ضلع لاہور، چوہدری ہدایت اللہ گل ممبر فنانس کمیٹی ضلع مسلم لیگ لاہور

تحریک پاکستان گولڈ میڈل یافتگان

یوں تو کارکنان تحریک پاکستان کیلئے سب سے برا گولڈ میڈل یہی کافی ہے کہ انہیں حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں آزادی وطن کیلئے خدمات سرانجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی ہے بہت سوں کو براہ راست اس عظیم قائد کو دیکھنے، سننے کا موقع ملا ہے۔ یہ اعزاز ان کیلئے بڑا تھا اور انتہائی قیمتی تھا مگر اس کے باوجود نواز شریف کے دور حکومت میں سرکاری سطح پر ان محسنین قوم کی خدمات کے اعتراف اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ایسے مخلص لوگوں کو گولڈ میڈل کی صورت میں انعام و اکرام سے نوازنے کا سلسلہ شروع کیا ہے جو یقیناً ایک اچھی روایت ہے جس سے نسل نو میں پاکستانیت کے جذبات فروغ پانے میں ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرح قصور کے کارکنان تحریک پاکستان کو بھی حکومت نے میڈل اور نقد انعامات سے نوازا ہے۔ ایسے خوش نصیبوں میں حاجی محمد سعید شیخ (گولڈ میڈ لسٹ تحریک پاکستان)، بابا صاحب دیں (گولڈ میڈ لسٹ تحریک پاکستان)، حاجی رب نواز خان (گولڈ میڈ لسٹ تحریک پاکستان)، چوہدری مہتاب خان (گولڈ میڈ لسٹ تحریک پاکستان)، ماسٹر بشیر اختر (گولڈ میڈ لسٹ تحریک پاکستان)، بابا فیروز دین بھٹی (4000 روپے نقد بدست ڈپٹی کمشنر ضلع قصور)

چند نمایاں کارکنان

ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرح قصور اور اس کے گرد و نواح کے رہنے والے مسلمانوں نے پورے جوش ایمانی کے ساتھ قیام وطن کی اس جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ کیا مرد کیا عورت، کیا بوڑھے اور کیا جوان یہاں تک کہ بچوں کے اندر بھی قابل دید جوش تھا۔ ان میں سے ہر ایک کا نام تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے۔ ذیل میں ایسے چندجاں فروش اور سربکف مجاہدین تحریک پاکستان کے نام قارئین کی نذر کئے جا رہے ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ قادری، ڈاکٹر ایس ایم صفدر، میاں ریاض قصوری ایڈووکیٹ، حاجی عبدالقادری قصوری، حکیم محمد اسلم چشتی، سید حسن علی شاہ ہمدانی، محمد لطیف المعروف کرنل، مستری محمد صدیق غازی، حاجی لق لق، بابو شمس الدین قصوری، بابا محمد صابر، حاجی نور محمد ساقی، حاجی چراغ دین جو ٹیکے والے، خاں عبداللہ خاں سموترئی، مستری محمد شفیع المعروف جرنیل، شیخ محمد اشرف، صاحبزادہ سید علی احمد شاہ، شیخ افتخار احمد قصوری، پیر عبدالقادر چشتی، بابو بشیر اللہ خان، بابا کریم خاں آف فتح پور، حکیم محمد یعقوب خاں، بابا فیروز دین بھٹی، شیخ فضل الٰہی، چوہدری مہتاب خاں آف گرین کوٹ، میاں محمد رفیع کارخانے والا، مولانا عبدالعظیم انصاری، چوہدری سردار احمد، مولوی عبدالقادر، چوہدری ظہور احمد نمبردار، شیخ نذیر احمد سہنہ، سید علی احمد شاہ، حاجی شیر محمد چاولہ، ملک محمد حنیف، میاں محمد غازی، حاجی ماسٹر محبوب احمد، رشید احمد کتاباں والے، شیخ دلاور حسین، سید شریف حسن شاہ اور ان کے علاوہ دیگر بے شمار کارکن ہیں جن کے نام یا حالات معلوم نہیں ہو سکے۔

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top