سیرت و سوانح حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادیؒ

شہزاد رسول قادری

برصغیر پاک و ہند کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے فیوض و برکات کا سلسلہ ان کی زندگی میں ہی اس سرزمین میں پہنچ گیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق سب سے پہلے ان کے بڑے فرزند حضرت سیدنا عبدالرزاقؒ ہندوستان تشریف لائے اور کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد واپس بغداد شریف چلے گئے۔ اس کے بعد سے آج تک برصغیر پاک و ہند سے کسبِ فیض کے لیے مشائخ و اولیاء، صلحاء، امراء و سلاطین اور عوام الناس کی بغداد آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر عہد میں اہلِ دل حضور سیدنا غوث الاعظمؒ کی اولاد کو ہندوستان تشریف لانے کی دعوت دیتے رہے اور وقتاً فوقتاً خاندانِ گیلانیہ کے اکابر اور مشائخ ہندوستان تشریف لاتے رہے۔ آل النقیب، قدوۃ الاولیاء، سیدالسادات، شیخ المشائخ، قطب العالم حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رضی اللہ عنہ کی پاکستان تشریف آوری اور سکونت اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔

قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانیؒ کا پورا خاندان اور گھرانہ مشائخ ونقباء پر مشتمل تھا اسی عالی قدر خاندان سے فیض کی کرنیں عالم عرب سے نکل کر مشرق بعید، یورپ، افریقہ اور امریکہ تک پھیلیں۔ اس فیض کا اصل مرکز اور سرچشمہ ان کے جد امجد حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کی ذاتِ گرامی تھی۔ جہاں سے اب بھی دنیا بھر کے طالبانِ حق فیضان سمیٹتے ہیں اور قیامت تک اس مرکزِ انوار کی خیرات بٹتی رہے گی۔

حضور پیر صاحبؒ نے روحانی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی حضرت سیدنا شیخ محمود حسام الدین الگیلانیؒ سے حاصل کی اور انہی کے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔ وہ دربار غوثیہ کے متولی، نقیب الاشراف اور اپنے عہد میں خاندان گیلانیہ کی سب سے عظیم شخصیت تھے۔ انہیں ان کے والد بزرگوار قطب الاقطاب حضرت سیدنا شیخ عبدالرحمن النقیبؒ نے اپنی زندگی میں ہی نقیب الاشراف کی اہم ذمہ داری سے سرفراز کردیا تھا۔ یہی وہ ہستی ہے جسے حضور سیدنا غوث الاعظمؓ نے روحانی طور پر براہ راست اپنی خلافت سے نوازا تھا اور اس عہد کے بیشتر اولیاء کرام نے اس امر کی تصدیق کی تھی۔ پورا عالمِ اسلام آپؓ کی علمی و روحانی اور سیاسی بصیرت کا معترف تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کی خصوصی تربیت کی اور خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ اپنے والد گرامی کے علاوہ بھی آپؓ نے بغداد شریف کے کئی مشائخ سے اکتسابِ فیض کیا۔

خاندانی سیادت و نجابت

شیخ سیدنا طاہر علاؤالدینؒ حسنی حسینی سید تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب 16 واسطوں سے حضور سیدنا غوث اعظمؓ سے اور 28 واسطوں سے حضور اکرم ﷺ سے جاملتا ہے جبکہ آپ کا سلسلہ طریقت 19 واسطوں سے سیدنا غوث الاعظمؓ تک اور 35 واسطوں سے سلسلہ طریقت سید دو عالم حضور نبی اکرم ﷺ سے جاملتا ہے۔

پاکستان میں تشریف آوری اور اقلیمِ ولایت کی سپردگی

حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کے روحانی حکم پر حضور قدوۃ الاولیاء 1956ء میں پاکستان تشریف لائے۔و اقعہ یہ ہے کہ آپ کو حضور غوث صمدانیؓ نے پاکستان کی اقلیمِ ولایت سپرد کرنے کے لیے لاہور میں حضور سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویریؓ کی خدمت میں بھیجا۔ آپ بغداد شریف سے سیدھا لاہور تشریف لائے اور چند دنوں کے لیے حضور داتا گنج بخشؓ کے مزار اقدس پر چلہ کش ہوگئے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں حضرت خواجہ اجمیرؒ ولایتِ ہند کی تاجداری کی سپردگی کے لیے چلہ کش ہوئے تھے اور ہر زمانہ میں اکابر و اصاغر سب اولیاء کرام حاضری دیتے رہے۔

حضور قدوۃ الاولیاء کی جوانی کا زمانہ تھا۔ آپ احاطہ مزار میں چند دن خیمہ زن رہے۔ بالآخر یہاں سے تقرری کا حکم نامہ جاری ہوا اور کوئٹہ (صوبہ بلوچستان) میں سکونت اختیار کرنے کا اشارہ ملا۔ آپؓ نے کوئٹہ میں سکونت اختیار فرمائی جو بعد میں مستقل قیام میں بدل گئی۔

دین کی تڑپ اور طریقت و شریعت کی خدمت کا جذبہ آپ کو ورثہ میں ملا تھا اور طبیعت میں بچپن سے ہی روحانی میلان غالب تھا۔ یہاں آکر آپؓ نے سلسلہ قادریہ میں ایک نئی روح پھونکی۔ شب و روز دین کی دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا اور بہت تھوڑے عرصہ میں پاکستان سمیت برصغیر کے کونے کونے میں آپؓ کے روحانی مقام و مرتبہ کا شہرہ ہوگیا اور مسافرانِ راہِ عشق اور طالبانِ راہِ حق کشاں کشاں کوئٹہ میں آپؓ کے آستانہ عالیہ میں حاضر ہونے لگے، جہاں قدم قدم پر تقویٰ، طہارت اور پاکیزگی کے پھول اپنی بہار دکھا رہے تھے اور فعال تصوف کی خوشبو مشامِ جاں کو معطر کررہی تھی۔

حضور سیدنا غوث الاعظمؓ سے آپ کی نسبی قربت کا منفرد اعزاز تو تھا ہی لیکن آپ نے اپنے حسنِ خلق، پاکیزہ سیرت، اتباع شریعت و طریقت، انوارِ معرفت و حقیقت اور برکات و کرامات کے باعث ایک جہان زندہ کردیا۔ نگاہِ مردِ مومن سے تقدیریں بدل جاتی ہیں اور اندر کے احوال تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کی گفتگو میں ایسی تاثیر رکھ دی تھی کہ حسنِ مقال کی تمام رعنائیاں پھول بن کر آپ کے لفظ لفظ میں کھل اٹھتیں اور جو تشنہ لب بھی آپ کے در پر آتا وہ معرفت کے آبِ خنک سے سیراب ہوکر اور اپنے دامنِ آرزو میں حکمت و دانش کے جواہر سمیٹ کر جاتا۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے حسن وجمال کی دولت بھی وافر عطا فرمائی تھی چنانچہ اس ظاہری و باطنی جمال اور تقویٰ و طہارت کے کمال نے آپؓ کو عوام و خواص سب کے لیے نہایت اعلیٰ مرتبت بنادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنے جد امجد حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے روحانی سفیر اعظم تھے۔ اس لیے اللہ پاک نے آپ کو صورت و سیرت میں ان کا جانشین بنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت عوام الناس تو کیا صوفیاء اور مشائخ کے لیے بھی باعثِ رشک اور قابلِ تقلید تھی۔ انہیں کئی بار عالمِ عرب و عجم کے علماء و مشائخ کے جھرمٹ میں دیکھا گیا مگر ہر بار وہی سب کے سرخیل نظر آئے۔ آپؓ کی موجودگی میں کسی کی عظمت و جلالت کا چراغ جلتا تھا اور نہ کسی کی پیشوائی ان سے زیادہ معتبر لگتی تھی۔

علماء و مشائخِ ہند کی قدر دانی

ہندو پاک کے جملہ مشائخ اور علماء و محدثین عظام آپؒ کی اس قدر تعظیم و تکریم کرتے کہ اس کی مثال عصرِ حاضر میں ملنا مشکل ہے۔ حضور قدوۃ الاولیاءؒ جب حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خانؒ کی دعوت پر بریلی شریف (ہندوستان) تشریف لے گئے تو حضرت مفتی اعظم ہندؒ نے بریلی شریف کے ریلوے اسٹیشن پر آپؓ کا فقیدالمثال استقبال کیا۔ لاکھوں مسلمانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر حاضر تھا۔ آپ کی گاڑی کو لمبے لمبے بانسوں کے ذریعے ہزارہا مسلمانوں نے عظیم مشائخ و علماء سمیت اپنے کاندھوں پر اٹھالیا اور کئی میل کا سفر اسی طرح طے کرکے عقیدت و احترام کا ایک نیا باب رقم کیا۔

مولانا مفتی تقدس علی خان مرحوم نے بیان فرمایا کہ میں خود بھی آپ کی گاڑی کو کندھوں پر اٹھانے والوں میں شامل تھا۔ آپ نے بریلی شریف میں تین دن قیام فرمایا اور اس دوران مفتی اعظم ہند آپ کی تعظیم میں تینوں دن ننگے پاؤں رہے اور آپ کے وضو کے لیے ہر وقت خود خدمت بجالاتے رہے۔ اسی دوران آپ کے صاحبزادگان بشمول مولانا اختر رضا خان حضور قدوۃ الاولیاؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔

اسی طرح حضور قدوۃ الاولیاءؒ جب محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمدؒ کی دعوت پر فیصل آباد تشریف لائے تو انہوں نے ریلوے اسٹیشن سے جامعہ رضویہ جھنگ بازار تک راستوں پر سفید کپڑوں کے تھان بچھوائے جس پر آپ کی گاڑی چلتی تھی۔ ایک مرتبہ حضور قدوۃ الاولیاءؒ جلسہ گاہ میں تشریف لائے تو رش کی وجہ سے زمین پر بچھائی گئی سفید چادر ہٹ گئی، زمین ننگی ہوگئی، حضرت محدث اعظم پاکستان حضور قدوۃ الاولیاءؒ کے سامنے زمین پر گر پڑے اور اپنی ریش مبارک سے جگہ صاف کرنے لگے۔ موقع پر موجود علماء کرام حضور سیدنا غوث الاعظمؓ اور آپ کی اولاد اطہار کے لیے حضرت محدث اعظمؒ کا حد درجہ ادب اور کمال تواضع اور انکساری دیکھ کر دھاڑیں مار کر رونے لگے۔

یہی حال دیگر علماء کرام اور مشائخ کا تھا۔ غزالی زمان حضرت علامہ احمد سعید کاظمیؒ کراچی میں آپ کے درِ دولت پر بغرضِ زیارت حاضر ہوئے تو قدم بوسی کے لیے نیچے گر پڑے اور حضرت کی قدم بوسی کی۔ لاہور میں حزب الاحناف کے سالانہ جلسہ کے موقع پر حضرت مولانا ابوالبرکات سید احمد قادریؒ نے آپ سے چند گھونٹ نوش فرمانے کے بعد آپ کی چائے مانگی اور چائے کی دیگ میں ڈال دی، تمام مشائخ عظام اور علماء کرام اس میں سے ایک ایک دو دو گھونٹ تبرکاً لے کر پیتے رہے۔

الغرض حضور قدوۃ الاولیاءؒ کی شخصیت میں قدرت نے وہ تمام خوبیاں سمودی تھیں جن کی وجہ سے طول العمر آپ اکابر مشائخ و علماء کی عقیدتوں کا مرکز رہے۔

سلسلہ قادریہ کی سرپرستی

آپؓ کو بجا طور پر سلسلہ عالیہ قادریہ کا مجدد کہا جاسکتا ہے۔ آپ نے دنیا کے بیشتر ممالک میں سلسلہ قادریہ کا فیض پہنچایا اور زندگی بھر سلسلہ قادریہ کی سرپرستی فرمائی۔ حضور پیر صاحب شرق سے غرب دنیا بھر کے ممالک میں سلسلہ قادریہ کے سرپرست اور مربی کی حیثیت رکھتے تھے۔ اندرون و بیرون پاکستان سے لاکھوں مریدین آپ سے بالمشافہ اور خط و کتابت کے ذریعے روحانی اور علمی رہنمائی حاصل کرتے رہے۔

دین کی دعوت و تبلیغ اور حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کا فیض پہنچانے کے لیے آپؓ نے اسلامی ممالک کے علاوہ افریقہ، یورپ، انگلینڈ، سویڈن، ناروے، ہالینڈ، مغربی جرمنی مناکو، بیلجیم، کینیڈا، کوریا، سائیگان، انڈونیشیا، برما، جاپان، سری لنکا، سنگاپور اور بھارت کے دورے کیے۔ مشرق وسطیٰ کے جملہ ممالک اور ریاستوں میں تو بارہا آپ کا آنا جانا رہتا تھا۔

جمالِ محمدی ﷺ کا عکس نشین

سید دو عالم نور مجسم حضور نبی اکرم ﷺ جس طرح جمال صورت اور کمال سیرت میں یکتا تھے اسی طرح آپ کے اہل بیت اطہار میں بھی یہی خوبی نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ آپ کے نسبی و روحانی فرزندوں کے حسنِ صورت و سیرت کو دیکھ کر آج بھی لوگ جمالِ محمدی ﷺ کا کیف محسوس کرتے ہیں۔ اسلام کے تذکروں میں اکثر یہ بات بیان کی گئی ہے کہ حسنین کریمینj کی طرح ائمہ اہل بیت اور بالخصوص حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سیرت و صورت میں اپنے جد امجد حضور خاتم المرسلین رحمۃ للعالمین ﷺ کا عکس جمیل تھے۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم نے جس طرح تذکروں میں پڑھا اسی طرح اپنے شیخ قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدینؓ کو حسن و خلقِ محمدی ﷺ کی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ پایا۔ آپؓ کی خدمت میں حاضر ہونے والا ہر شخص آپ کی پروقار شخصیت کے سحر میں گرفتار ہوجاتا تھا۔ آپ کی مجلس میں جلال و جمال کی کیفیات کا یکساں غلبہ رہتا۔ ہر آنے والا اپنی ہستی، مرتبہ اور جاہ و منزلت بھول جاتا اور گلستانِ محمدی ﷺ کے اس سدا بہار پھول کی دلنشین مسکراہٹوں سے بکھرنے والی کیف آور مستی میں ڈوب جاتا۔ آپؓ محض کہنے کی حد تک شہزادہ غوث الوریٰ نہیں تھے بلکہ فی الواقع آپ کا پیکرِ دلربا سر سے پاؤں تک جمال و جلال غوثیت مآبؓ کا پرتو تھا۔ چہرہ مبارک بیک وقت انوار و تجلیات الہٰیہ کا مظہر بھی تھا اور حسن وجمال مصطفوی ﷺ کا پرتو بھی۔ جب انوار و تجلیاتِ الہٰیہ کی بارش ہورہی ہوتی تو وہ الوہی جلال کا مظہر لگتا جسے نظر بھر کر دیکھنا بھی محال ہوتا اور جب اس پر حسنِ مصطفوی ﷺ کی بہار ہوتی تو ان کی تبسم کناں صورت نظروں سے گزر کر دل میں اتر جاتی۔ دل چاہتا یہی صورت پیشِ نظر رہے اور دید و دل دیدار کے جام نوش کرتے جائیں۔

مخزنِ علم و عرفان

حضور پیر صاحبؒ کے پاس وقت کے حکمرانوں سے لے کر عام سائلین تک ہر شعبہ زندگی کے لوگ حاضر ہوتے، ان میں اکثر دعا کے لیے عرض کرتے اور آپ دعا فرمادیتے۔ بعض لوگ عمداً یا احتیاجا مختلف مسائل پر آپ کی رائے بھی لیتے یا پھر بات سے بات چل نکلتی، دونوں صورتوں میں آپ مخاطب کی ذاتی، علمی، خاندانی اور پیشہ وارانہ حیثیت کو سامنے رکھ کر سیر حاصل گفتگو فرماتے بلکہ ہم نے تو اکثر یہ دیکھا ہے کہ آپ سرجھکا کر بیٹھے ہوتے اور آپ کی نیچی نگاہیں حاضرین کے دل و دماغ میں اٹھنے والے سوالات کا تعاقب کررہی ہوتیں اور زبان مبارک ٹھہر ٹھہر کر لعل و جواہر کے موتی بکھیرتی چلی جاتی۔

آپ کی محفل میں ہر آنے والے کو حسبِ حال مراد مل جاتی۔ گویا علماء کو علم کے موتی، حکماء کو حکمت و تدبر کے جواہر اور اہلِ عشق و محبت کو قرب و نظر کا سکون و قرار میسر آتا۔ آپ کی محافل و مجالس علم و معارف کا ایسا متنوع خزانہ تھیں جہاں پوری دنیا کی ثقافت، سیاست، معیشت اور تاریخ زیر بحث آتی۔ آپؓ کی گفتگو میں تصوف و روحانیت کے اسرار و رموز بھی ہوتے اور معاصر علمی افکار پر سیر حاصل تبصرے بھی۔ آپ سے دنیا کے جس خطے کا بھی آدمی ملتا، آپ اس کے ساتھ وہاں کی صنعت و حرفت، عادات و خصائل اور زبان و ادب اور تاریخ پر کھل کر اظہار خیال فرماتے۔

علمی تبحر اور استحضار

علم شریعت کے بغیر فقر و درویشی اور ولایت کو حاصل کرنے والوں کی اکثریت کفر و ضلالت میں ٹھوکریں کھاتی ہے۔ یہ تو ہے ظاہری علوم کی فضیلت۔ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو اس علم کے علاوہ خصوصی ’’ علمِ لدنی‘‘ سے بھی نوازتا ہے جس طرح وہ انبیاء و رسلf کو علم و معرفت کے سمندروں سے نوازتا رہا۔ یہی علم اولیاء اللہ کی بصیرت اور فراست سے جھلکتا ہے۔ سیدنا طاہر علاؤالدینؒ کو بھی اسی علم و معرفت کے خزانے سے نواز رکھا تھا۔ آپؒ مسائل پر ائمہ اربعہ کی آراء سے پوری طرح آگاہ تھے۔ تاہم اکثر و بیشتر امام اعظم ابوحنیفہؒ کی رائے کو ترجیح دیتے۔ علاوہ ازیں امہات الکتب، تفاسیر، احادیث اور عقائد سے متعلق ذخیرہ کتب پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔ اس ضمن میں کئی شواہد درج کیے جاسکتے ہیں۔ آپ کے قابلِ فخر عقیدت مند اور مرید بامراد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کہتے ہیں:

’’ایک مرتبہ حضور پیر صاحب کی بارگاہ میں حاضر تھا، اس دن کاتب موجود نہیں تھا، آپ کا چونکہ معمول تھا کہ ہر روز کی ڈاک دیکھتے اور وضاحت طلب امور کا جواب بھی دیتے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ آپ خود لکھنے کی بجائے ہمیشہ املاء کرواتے تھے۔ اس دن آپ نے مجھے حکم دیا۔ ڈاک میں ایک عقیدت مند نے ’’قصیدہ روحی‘‘ کے بارے میں پوچھا تھا کہ یہ حضور غوث الاعظم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیا واقعی یہ آپؓ کا اپنا کلام ہے یا کسی اور کا؟ آپ نے یہ سوال سن کر مجھ سے فرمایا: ’’پروفیسر صاحب! آپ کیا بولتا ہے‘‘؟ میں نے ادباً اپنی رائے محفوظ رکھی اور عرض کیا: حضور جو آپ حکم فرمائیں گے، میری بھی وہی رائے ہوگی۔ آپ نے حسبِ معمول سرجھکا کر تھوڑا توقف فرمایا پھر فرمانے لگے: ’’لکھ دو قصیدہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا ہی ہے۔‘‘ ساتھ ہی آپ نے غوث الاعظمؓ کی مشہور سوانح حیات ’’بہجۃ الاسرار‘‘ کے حواشی اور تین چار کتب کے حوالے بھی لکھوادیئے۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اندر جاکر وہ کتب بھی لے آئے اور مجھے دکھا بھی دیں۔ میں آپ کے اس استحضار پر حیران رہ گیا۔‘‘

اسی طرح بے شمار مواقع پر جب بھی فقہی، کلامی یا دیگر ادق علمی مسائل پر آپؒ سے رجوع کیا جاتا، آپ اپنا مختصر، واضح اور دو ٹوک موقف سامنے رکھ دیتے۔ اس کے بعد ائمہ اربعہ کی آراء محدثین اور مفسرین کا نقطہ نظر اور دیگر ضروری تفاصیل پر گفتگو فرماتے۔ یوں لگتا جیسے آپ کے سامنے امہات الکتب کھلتی جاتی ہیں اور آپ وہاں سے دیکھ دیکھ کر اپنے موقف میں دلائل دیتے جارہے ہیں۔

دراصل اولیاء اللہ کی اکثریت کو اللہ تعالیٰ ایسے لدنی اور وہبی علوم عطا فرماتا ہے کہ ان کے سامنے علومِ ظاہری کے مجتہد اور فقیہانِ عصر تاب نہیں لاسکتے۔ عرفاء کاملین کے سامنے کتابی علوم ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔

منبعِ فیض سے مضبوط تعلق اور فنائیت

حضور قدوۃ الاولیاء پابندِ شریعت، عارف باللہ اور فنا فی الرسول ﷺ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یقین و ایمان کی فراوانی سے نواز رکھا تھا۔ یہ کیفیت اس وقت نصیب ہوتی ہے جب انسان منبعِ فیض یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نبی کریم ﷺ سے اطاعت و محبت کا مضبوط تعلق رکھتا ہو اور یہ تعلق اسے اٹھتے بیٹھتے سراپا ذکر بنادے۔ اسی تعلق کو تصوف و طریقت میں ’’فنائیت‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ ایک بامراد مرید کی طرح آپ بھی اپنے جد اعلیٰ حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سے فنائیت کی حد تک عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ بیعت فرمانے کے بعد جب آپ اوراد و وظائف کی تلقین فرماتے تو ہمیشہ فرماتے: ’’تم غوث الاعظمؓ کا مرید ہوگیا ہے۔‘‘ یہ معمولی بات نہیں، بہت بڑے حوصلے، اعلیٰ مقام و مرتبہ اور حضور غوث الاعظمؓ سے قربِ تعلق کی علامت ہے۔

محافل ذکر و نعت میں آپؓ جذب و ضبط کا مجسمہ بنے رہتے لیکن کئی بار دیکھنے میں آیا کہ حضور غوث الاعظمؓ کی منقبت سنتے سنتے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے اور بے اختیار وجد آور کیفیت میں ’’المدد یا غوث الاعظم المدد یا دستگیر‘‘ کا ورد فرماتے۔ آپ کو اپنے جد اعلیٰ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سے جو جذباتی لگاؤ اور موانست تھی اس کا ظہار لفظوں کی زبان سے ناممکن ہے۔

جب بھی دعا فرماتے تو حضور نبی کریم ﷺ اور حضور غوث پاکؓ کے وسیلہ جلیلہ سے مانگتے۔ الغرض آپ کی ہر سانس اور ہر دھڑکن میں ذکرِ الہٰی کے بعد سرورِ کائنات حضور نبی اکرم ﷺ اور سیدنا غوث الاعظمؓ کی یادیں اور ادائیں سمٹ آتی تھیں۔ ان دونوں ہستیوں سے آپؓ کا نہ صرف قابلِ رشک روحانی اور دینی تعلق تھا بلکہ نسبی اور خونی تعلق بھی تھا اور یہ نسبت کوئی عام نسبت نہیں، بہت بڑی سعادت اور منفرد شرف ہے جس پر آپ جتنا ناز کرتے، کم تھا۔

آپ اس نسبت کی لاج بھی رکھتے اور ہمیشہ اس کا ادب و لحاظ بھی فرماتے۔ ہر فضل و کمال کی نسبت نبی اکرم ﷺ اور سیدنا غوث الاعظمؓ کی طرف منسوب فرماتے۔ یہ آپ کا اظہار عجز بھی تھا اور مقامِ محبت و فنائیت بھی۔

اہلِ پاکستان کے لیے یہ بھی سعادتِ عظمیٰ ہے کہ حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے فیوضات کا یہ چشمہ اب ہمیشہ کے لیے سرزمین لاہور میں جاری ہوگیا ہے۔ دربار شریف کے قرب میں واقع ’’منہاج القرآن تربیتی مرکز‘‘ ایک عالمی تربیتی مرکز ہے، جہاں ہر سال دس روزہ عشرہ اعتکاف میں ہزاروں معتکف پوری دنیا سے شریک ہوتے ہیں اور سالانہ روحانی اجتماع میں لاکھوں عقیدت مند حاضر ہوکر روحانی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں ایک عظیم الشان تحفیظ القرآن کالج بھی قائم ہوچکا ہے۔ یوں حضور قدوۃ الاولیاءؒ کے فیض و برکت کی شعاعیں تیزی کے ساتھ اطراف و اکناف عالم میں پھیل رہی ہیں۔ اسی مقام پر اب تصوف و روحانیت کی تعلیم کے لیے عظیم الشان خانقاہ ’’خانقاہ غوثیہ‘‘ تعمیر ہورہی ہے۔ جس کی سرپرستی براہ راست حضور قدوۃ الاولیاءؒ کے صاحبزادگان السید محمود محی الدین الگیلانی، السید عبدالقادر جمال الدین الگیلانی اور السید محمد ضیاء الدین الگیلانی فرمارہے ہیں۔ یہ عظیم روحانی خانقاہ ان شاء اللہ العزیز اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی نقیب ٹھہرے گی۔

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top