امن و امان کے داعی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری

ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن

اس رنگا رنگ اور متنوع الجہات کائنات کے خالق نے اس دنیا کو ایک ہشت پہلو نگینہ بنا کر خلق کیا ہے۔ یہ دنیا مختلف النوع چیزوں سے مل کر تشکیل پائی ہے۔ کبھی یہ متضاد اورمتنوع اشیاء اپنی جداگانہ حیثیت کا اعلان کرتی ہیں اور کبھی کبھی یہ تمام چیزیں مل جل کر ایک مرکب شکل میں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں۔ اس تمام صورتِ حال کے باوجود ہر شے اور ہر شخص کی اپنی علیحدہ جداگانہ اور منفرد حیثیت ہے اور ہر تخلیق اپنی اپنی صلاحیت اور طاقت کے مطابق اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔

اپنا اپنا کر رہا ہے جس کا جیسا کام ہے

اسی ہشت پہلو کائنات میں ایک ایسی شخصیت بھی تخلیق ہوئی ہے جسے دنیا طاہرالقادری کے نام سے جانتی، پہچانتی اور مانتی ہے۔ یہ جامع الصفات شخصیت اپنی علمی وجاہت اور اصابت الرائے کے باعث اہلِ علم و ادب کی آنکھ کا تارا اور صاحبانِ فہم ذکا کے لیے روشنی کا مینارہ ہے۔ یہ طاہر الصفات شخصیت اسم بامسمیٰ ہے کہ جب ساری دنیا زور و زر کی متلاشی ہے تو مولا علی علیہ السلام کا یہ دیوانہ اپنے علم اور فقر پر قانع نظر آتا ہے۔ دنیاوی دولت اس کی نگاہوں میں ہیچ ہے۔ اس فردِ فرید نے اپنا سب کچھ بیچ کر دل میں حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایسا چراغِ مودّت روشن کرلیا ہے جو اس کے لیے دنیوی عظمت او ردینی بخشش کا ذریعہ ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تہذیبِ حاضر کی خیرگی سے بچنے کا یہ طریقہ وضع کیا تھا کہ اپنی ایک آنکھ میں خاکِ مدینہ اور دوسری آنکھ میں خاکِ نجف کو سرمہ بنا کر لگا لیا تھا۔ طاہرالقادری نے عصرِ حاضر کی تاریکیوں سے بچنے کے لیے دل میں چراغِ اُلفتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روشن کر لیا ہے اور اب وہ اہلِ دنیا سے برملا کہہ رہے ہیں۔

دل میں روشن کر لیا ہے حبِّ احمد (ص) کا چراغ
ہم کبھی لیتے نہیں ہیں در بدر کی روشنی

اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان کو خلق کیا اور اپنی اس احسن تخلیق کی دلجوئی کے لیے کائنات تشکیل دی۔ اس طرح اب یہ پوری دنیا اللہ، انسان اور کائنات کی مثلث پر استوار ہے۔ اس مثلث کے تینوں کونے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں اور کسی ایک کونے سے لاتعلق ہونے کا مطلب اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔ انسان ایک ہی وقت میں اللہ او رکائنات دونوں سے تعلقِ خاطر جوڑتا ہے۔ اسی طرح اللہ انسان اور کائنات دونوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور کائنات خدا اور انسان کے معاملات کی نگرانی کرتی ہے۔ ہمارے نزدیک افضل ترین انسان وہ قرار پاتا ہے جو خدا اور کائنات دونوں سے ربط خاص رکھتا ہے۔ انسان کا خدا سے رشتہ کمزور ہو جائے تو اس کو مضبوط کرنے کے کئی طریقے وضع کیے جا سکتے ہیں لیکن کائنات سے رشتہ ٹوٹ جائے تو انسان خود کو تنہا تنہا محسوس کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بازارِ حیات میں آنے کے بعد انسان کا خریدار بن جانا اپنے اندر ایک خاص طرح کی معنویت رکھتا ہے جو چشمِ معنی آشنا پر ظاہر ہے۔

بازار میں آئے ہیں خریدا بھی بہت ہے
دنیا میں ہیں تو خواہشِ دنیا بھی بہت ہے

لطف کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ فرد لائقِ تکریم و صد افتخار ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے رضائے انسانی کا طلب گار ہوجاتا ہے اور اپنی زندگی کا مقصد اولین مخلوقِ خدا کی خدمت قرار دیتا ہے۔

یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا

وی دوست ہے خالقِ دوسرا کا
خلائق سے ہے جس کو رشتہ ولا کا

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

اس کائنات میں کچھ ایسے نفوس طاہرہ موجود ہیں جو بیک وقت انسان کا رشتہ خدا اور بندگانِ خدا دونوں سے مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ اپنی دولت و ثروت، حکمت و دانائی، علم و عمل سب کچھ مخلوقات خدا کی بہتری کے لیے صرف کر رہے ہیں۔ ان عظیم المرتبت شخصیات میں سے ایک معتبر فردِ فرید ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی ہیں جو دہشت و بارود کی اس فضا میں دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے والے استعماری ایجنٹوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ہیں۔ وہ نفرت پھیلانے والے انسانیت دشمنوں کے ارادوں کو اپنے حسنِ خلق اور انسان دوستی سے ختم کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ ظلم و تمرد کے بازار گرم کرنے والوں کے سامنے کلمۃ الحق کہنے میں مصروف ہیں۔ وہ اپنے ہاتھوں میں حق اور سچ کا علم اٹھائے اور امن کی فاختہ سر پر سجائے ہر اس فرد، طاقت اور قوت سے مخاطب ہیں جو اپنی عیاری، مکاری اور ریاکاری سے انسانوں میں نسلی، قومی، صوبائی اور مسلکی تعصبات کا زہر گھولنے میں مصروف ہے۔

تم عداوت پر بضد ہو ہم محبت پر مصر
وہ تمہارا کام ہے اور یہ ہمارا کام ہے

اس کائنات میں ایک فرد کے دوسرے فرد کے ساتھ چار سطحوں پر رشتے قائم ہو سکتے ہیں۔

  • آدمیت
  • انسانیت
  • وطنیت
  • مذہب

ہر فرد حضرتِ آدم علیہ السلام کی اولاد ہے اور اس نسبت سے ہر فرد کا دوسرے فرد سے ایک تعلقِ خاطر قائم ہو جاتاہے اور یہ وہ رشتہ ہے جس میں تمام نفوسِ انسانی ایک تسبیح آدمیت میں جڑے ہوئے ہیں۔ ان تمام آدمیوں میں سے کچھ نفوس کے اندر شمعِ انسانیت روشن ہو جاتی ہے اور وہ انسان کہلانے لگتے ہیں۔ اُنس و محبت کا یہ جذبہ ہر آدمی کے اندر نہ تو پیدا ہوتا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے ریاضت، صلاحیت اور محنت کے ساتھ ساتھ توفیقِ الٰہی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میّسر نہیں انساں ہونا

انسانیت اور آدمیت کے ساتھ ساتھ ایک فرد کا دوسرے فرد سے وطنیت کا رشتہ بھی مضبوط اساس بنتا ہے۔ وطن کی محبت میں بعض اوقات انسان اپنے نسبی کمالات کو بھی ترک کر دیتا ہے اور بسا اوقات ذاتی مفادات کو بھی بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔ وطن کی محبت سے سرشار ہو کر جب کوئی فرد یہ شعر گنگناتا ہے تو وطن کا ایک ایک ذرّہ مسکرانے لگتا ہے۔

ہیچ ہر رنگ ہے اس رنگِ چمن کے بدلے
ہم تو جنت بھی نہ لیں اپنے وطن کے بدلے

ہر فرد کا دوسرے فرد سے ایک روحانی رشتہ بھی قائم ہوتا ہے جسے دانش مند مذہب کا نام دیتے ہیں۔ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ تمام ادیانِ عالم میں اس مذہبی رشتے میں ایک تقدس، بھائی چارہ، انسان دوستی اور مخلوق خدا کی بھلائی کا درس پوشیدہ ہوتا ہے۔ دانا وہ ہوتا ہے جو ہر مذہب و مسلک کے انسان کی عزت و احترام کو اپنا مطمح نظر بنائے۔ طاہر القادری ایک ایسے دین سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سرِ تسلیم کو خم کرنا عظمت انسان کی دلیل ہے۔ وہ ایک ایسے دین کے پاسدار ہیں جو معاشرے میں اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کا طلب گار ہے۔ طاہر القادری عالم انسانیت کے تمام نفوس کے دلوں پر دستک دیتے ہوئے کہتے ہیں۔

دین کوئی بھی اختیار کرے
آدمی آدمی سے پیار کرے

عصرِ حاضر میں انسان جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ یہ دنیا اب گلوبل ولیج سے سمٹ کر ’’گلوبل ہٹ‘‘ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اس خیمۂ کائنات میں اب کوئی فرد یا قوم دوسرے افراد یا اقوام سے جدا ہو کر زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس صورتِ حال میں ہر فرد اور قوم کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اس حقیقت سے باخبر ہونے کے بعد جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے والے ایک معروف دانشور ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے افکار و نظریات کو انسان دوستی، امن، انسانی فلاح اور بھائی چارے کے لیے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے ساری دنیا میں بین المذاہب مکالمے کی ضرورت کا احساس دلایا اور منتشر الخیال اقوام کو احساس دلایا کہ اب کشادہ دلی اور وسیع القلبی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے احساس سے مالا مال قوموں کو یقین دلایا کہ اب اقوام عالم کو گزشتہ رنج و الم کو فراموش کر کے یگانگت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے روغنِ دماغ سے ایسی شمع روشن کرنا چاہیے جو قلوبِ اقوام کے دلوں کو تاباں کر دے۔ وہ دردمندی کے ساتھ ہر فرد اور ہر قوم سے ملتمس ہیں۔

شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر ہے
اپنے حصہ کی کوئی شمع جلاتے جاتے

ڈاکٹر طاہرالقادری آدمی پرست، وطن دوست، حبِّ انسانیت سے سرشار اور مذہبی اقدار کے امین ہیں۔ انہوں نے تخت و تاج کو ٹھکرا کر اہلِ دنیا کو یہ سبق دیا ہے کہ اس کائنات میں وہی افراد لوحِ تاریخ پر اپنے نشان ثبت کرواتے ہیں جو امن کے سفیر بن جاتے ہیں۔ آئیے امن و امان کے اس داعی ڈاکٹر طاہرالقادری کی جلائی ہوئی شمع سے اپنے چراغِ فکر کو روشن کریں۔ اس جلیل القدر ہستی کی آواز پر لبیک کہیں اور دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا دیں۔ آئیے ڈاکٹر طاہرالقادری کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے دیں۔ آئیے ڈاکٹر طاہرالقادری کی انسان دوستی کی تحریک میں شامل ہو جائیں اور اس دنیا کو ایک نیا رنگ، آہنگ اور روپ عطا کردیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ہر ہوش مند اور ذی شعور کو یہ پیغامِ دل نشیں دے رہے ہیں کہ

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top