پاکستان اسلام کا قلعہ (قائداعظم کی نظر میں)

تحریر : پروفیسر محمد رمضان ایوبی (ناظم دعوت تحریک منہاج القرآن، لاہور)

اسلامی جمہوریہ پاکستان بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس ملک کو اللہ نے بے شمار وسائل عطا فرمائے ہیں۔ دریا، سمندر، وادیاں، میدان، صحرا، معدنیات، مختلف پھلوں سمیت کئی موسم اور سب سے بڑھ کر پاکستانی قوم کے اندر بے شمار صلاحتیں اور دین اسلام پر مر مٹنے کا جذبہ بھی عطا فرمایا ہے۔ اس کے برعکس ہم خوشحال کیوں نہیں ہیں؟ اس حوالے سے مختصر بحث کے بعد ہم قائداعظم کے خطابات سے بھی رہنمائی لیں گے۔

سورۃ طہٰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَمَن اَعَرَضَ عن ذکری فان لہ معیشتہ فنکا۔ ۔‘‘ ’’جس (شخص/ قوم) نے میرے ذکر (قرآن، نصیحت نظام...) سے منہ موڑا ہم اس پر دنیا میں معیشت تنگ کردیں گے اور ہم اسے قیامت کے دن بھی اندھا اٹھائیں گے۔‘‘

آج ہماری اقتصادی و معاشی زبوں حالی کی واحد وجہ سودی نظام معیشت ہے۔ اگر ہم نظام زکوٰۃ حقیقی انداز میں نافذ کردیں تو پورے ملک میں کوئی ایک شخص بھی بے روزگار نہیں رہے گا۔ قرآنی تعلیم کی رو سے سود کھانے والا شخص ہمیشہ کے لیے دوزخی ہو جاتا ہے جو قیامت کے دن مخبوط الحواس کیفیت میں گرتا پڑتا ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’سود کی 73 قسمیں ہیں اور ادنیٰ قسم ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’سود کا ایک درہم کھانا حالت اسلام میں 36 دفعہ بدکاری کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے‘‘۔

قرآنی افکار کی روشنی میں اگر ہم قائداعظم محمد علی جناح کے ارشادات پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ نے معاشی استحکام کی تلقین کی۔ 30 اکتوبر 1947ء کو یونیورسٹی گراؤنڈ لاہور میں شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے کہا "پروردگار عالم کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں باطل کی ان قوتوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمت دی اور اعتماد سے نوازا۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ فتح بالآخر ہماری ہوگی بشرطیکہ ہم قرآن کریم کو اپنے لیے فیضان و ہدایت کا سرچشمہ بنائے رکھیں"۔

آپ نے مزید کہا کہ میں آپ سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص جس تک بھی میرا یہ پیغام پہنچے نہ صرف پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عہد کرے بلکہ اس عزم کا بھی اظہار کرے کہ ہمیں پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا ہے اور ایسی قوتوں کی صف میں کھڑا کرنا ہے جن کا مقصد ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ہر جگہ امن ہو۔

بحثیت قوم ہمیں دنیا میں معاشی ابتری سے سبق سیکھنا ہوگا اور مالک حقیقی پر بھروسہ کرتے ہوئے مکمل اور غیر مشروط غیر سودی بینکاری کو اپنانا ہوگا۔ جب لیڈر کہلانے والے لوگ بھاری قرضے لیکر معاف کرا لیں اور مغربی ممالک میں اپنا پیسہ محفوظ کریں یا محفوظ سمجھیں تو ایسے لوگوں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ یہ لوگ وہ قومی مجرم ہیں جن سے ملکی سرمایہ کی پائی پائی وصول کی جائے۔ آیئے آج ہم قائداعظم کی فکری و نظریاتی اساس پر اظہار یکجہتی و تجدید عہد کریں تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک قابل تقلید مثال بن سکے۔

قائد اعظم نے مزيد کہا کہ شریعت اسلامی کی رو سے ہر مسلمان پر یہ فرض عائد ہے کہ وہ بلا لحاظ مذہب و ملت اپنے ہمسایوں اور اقلیتوں کی حفاظت کریں۔ ہندوستان میں مسلم اقلیت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے اس کے باوجود ہمیں اقلیتوں کی حفاظت اور ان میں احساس تحفظ پیدا کرنے کے سوال کو اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ سمجھنا چاہیے۔ اپنا فرض ادا کیجئے اور اللہ پر بھروسہ رکھیے، دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی۔ یہ ملک قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔

یکم جولائی 1948ء اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر گورنر، میں آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن کے کام کا بھی دلچسپی اور غور کے ساتھ مطالعہ جاری رکھوں گا کہ وہ بنکاری کے لیے کون کونسے ایسے اصول وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی میں اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں۔ مغرب کے اقتصادی نظام نے نوع انسانی کے لیے عجیب عجیب لاینحل مسئلے کھڑے کر دیئے ہیں اور ہم میں سے بہت سے یہ خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ آنے والی تباہی کو شاید کوئی معجزہ ہی روک سکے گا کیوں کہ اس نظام نے انسان کے ہاتھوں انسان کے ساتھ انصاف ختم کر دیا ہے اور بین الاقوامی فضاء میں سے منافقت اور خلفشار کو بھی دور کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس یہ نظام پہلے ہی نصف صدی کے اندر اندر دو عالمگیر جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔ مغربی دنیا ہزار تکنیکی اور صنعتی ترقی کے دعوے کرے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس کی حالت کبھی اتنی زبوں حال اور خراب تر نہیں تھی جتنی آج ہے۔ ہم نے یہ سر زمین ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کے لیے حاصل کی ہے جو ہر لحاظ سے مسرور اور مطمئن ہو مگر اقتصادی نظریات ہمیں یہ مقصد پورا کرنے میں ہرگز کوئی مدد نہیں دے سکیں گے، ہمیں اپنی تقدیر کو آپ بنانا ہے اور انسانی مساوات، معاشرتی انصاف اور اسلامی تصورات کے تحت دنیا کے سامنے ایک مثالی اقتصادی نظام پیش کرنا ہے۔ ہم ایسا کریں تو تبھي ہم بحثیت داعیان اسلام اپنا صحیح مقام حاصل کرسکیں گے اور اسی طرح ہم دنیا کو ایسی امن دوستی کا پیغام پہنچا سکیں گے جس میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود، خوشحالی اور ترقی کی راہیں کھلی ہوں'۔

علامہ اقبال نے بھی کہا تھا "مزدکیت فتنۂ فردا نہیں اسلام ہے"۔

قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے مورخہ 6 اگست 1948ء کو عید کے موقع پر قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے جہاں پوری اسلامی دنیا کو متحد ہو جانے کا مشورہ دیا وہیں روزے کے فلسفے، ضبط نفس اور اپشار پر روشنی ڈالتے ہوئے قوم سے اپیل کی کہ وہ عام زندگی میں قربانی اور فرض شناسی کے اوصاف پر عمل پیرا ہوں تاکہ ترقی اور خوشحالی ان کے قدم چومے۔

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top