شیخ الاسلام کا حیدرآباد (انڈیا) میں لاکھوں کے اجتماع سے خطاب

مورخہ: 03 مارچ 2012ء

اتحاد اور وحدت میں ہی امت مسلمہ کی کامیابی مضمر ہے
دشمنان اسلام نے مسلمانوں کو منقسم کر دیا ہے، اسلام ایک عالمگیر مذہب
ایمان کی حفاظت اور کامیابی کیلئے مسلمان سواد اعظم، جماعت اور مسجد سے جڑ جائیں
دارالسلام میں بعنوان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس و اتحاد امت سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا بصیرت افروز خطاب

سیرۃ النبی (ص) کانفرنس و اتحاد امت کے عنوان سے تاریخی جلسہ عام دارالسلام (حیدر آباد، انڈیا) میں مورخہ 2 مارچ 2012ء کو منعقد ہوا۔ یہ جلسہ احیاء کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے 54سال کی تکمیل کے ضمن میں منعقد کیا گیا تھا۔ جس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی خطاب کیا۔ جلسہ کی نگرانی نقیب ملت بیرسٹر اسد الدین اویسی صدر مجلس ورکن پارلیمنٹ حیدر آباد نے کی۔ شہ نشین پر علماء، مشائخ، معززین، مجلسی ارکان مقننہ موجود تھے۔ اندرون وبیرون دارالسلام سامعین کی لاکھوں تعداد موجود تھی۔ دارالسلام کا وسیع وعریض میدان اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کر رہا تھا۔ تاحد نظر سروں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ دارالسلام کا نہ صرف اندرونی حصہ پُر ہو چکا تھا بلکہ بیرونی راستوں پر بھی ہزاروں فرزندان اسلام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو سننے کیلئے جمع ہو گئے تھے جو وقفہ وقفہ سے نعرہ تکبیر اللہ اکبر، نعرہ رسالت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ دارالسلام کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ دارالسلام میدان میں سامعین کو بیٹھنے زیادہ سے زیادہ گنجائش کی فراہمی کیلئے بڑی تعداد میں کرسیوں کی بجائے فرش کا انتظام کیا گیا تھا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جائیں۔ کسی بھی قوم کی بقا ہمیشہ اتحاد میں ہے۔ قوموں کی موت افتراق اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے میں ہے۔ دنیا کا ہر فرد دہشت گرد ہو سکتا ہے لیکن غلام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ غلام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا انسانیت کا علمبردار ہوتا ہے۔ اسلام سے بڑھ کر نفس انسانی کے احترام کا فلسفہ کسی مذہب نے نہیں دیا۔ مسلمان اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق مضبوط کریں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف اس دنیا میں بلکہ قبر، برزخ اور قیامت میں ہر جگہ ہمارے کام آئیں گے۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک، اسوہ حسنہ پر عمل کریں تو دنیا وآخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے قرآن مجید و کتب حدیث کے حوالہ سے مسلمانوں کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں تبدیل ہو جانے کی تلقین کی۔ انہوں نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل جہاں قتل وغارت گری اور جنگ کی صورتحال تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد دلوں میں باہمی الفت اور محبت پیدا ہوگئی۔ اس نعمت کے حصول کی بعد مسلمان دوبارہ ٹکڑے ٹکڑے اور اختلافات کی نذر نہ ہو جائیں۔ انہوں نے حدیث پاک کے حوالہ سے کہا کہ مسلمانوں میں اگر کوئی اختلاف ہو تو مشاورت باہمی مؤدت کے ذریعہ سے اسے ختم کر دیا جائے۔ مسلمان اکثریتی جماعت کے ساتھ جڑے رہیں، اجتماعیت کاساتھ دیں، متفرقہ سے بچیں، مسلمان الگ الگ ٹکڑوں میں ہوں گے تو ان پر شیطان اس طرح حملہ کرے گا جس طرح تنہا بکریوں پر بھیڑیے حملہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی روایت سے حدیث پیش کی کہا کہ اسلام کی بنیاد تین چیزوں ایمان، نماز اور جماعت پر ہے۔ جس نے جماعت سے ایک بالشت علیحدگی اختیار کرلی گویا اسلام کا پٹہ گردن سے نکال دیا۔ حدیث کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ آپس میں مسائل پیدا ہوجائیں تو اسے مشاورت سے حل کر لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ احادیث جمہوریت کی بنیادیں ہیں۔ دنیا میں پارلیمانی جمہوریت کی بانی مغربی دنیا نہیں بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصل جمہوریت کے بانی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا امن و رحمت ہیں، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دہشت گردی کا تعلق اسلام سے ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ دہشت گرد کا تعلق نہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوسکتا ہے نہ نظام مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے۔

انہوں نے کہا کہ آج دنیا جمہوریت اور حقوق انسانی، بچوں، عورتوں اور حقوق کی بات کرتی ہے لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے وقت میں انسانی حقوق کو دنیا کےسامنے پیش کیا اور امن و محبت کا پیغام دیا جب کہ اس طرح کی باتیں نہ سنی جاتی تھیں نہ بولی جاتی تھیں۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شفاعت کا اختیار دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گناہگاروں کیلئے شفاعت کا حق اختیار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات گناہ سے نفرت کرنا، گناہگاروں سے نفرت نہ کرنا ہے۔ اسی تعلیمات کو غوث و خواجہ و قطب و فرید رحمۃ اللہ علیہم نے اپنایا ہے۔ اسکی وجہ سے ہر مذہب کا فرد ان کی مجلس میں آتا ہے اور دائرہ اسلام میں شامل ہو جاتا ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ اسلام سے بڑھ کر کسی مذہب میں نفس انسانی کے احترام کا فلسفہ پیش نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف موقعوں پر اپنے عمل کے ذریعے جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی تربیت دی، جانور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر شکایت کرتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی مشکلات کو دور کرتے تو جانور آپ کو سجدہ کرتے اور یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعرے لگاتے ہوئے واپس جاتے۔ ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ جانور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ تعظیمی کرتے ہیں کیا یہ جانور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتے ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سوائے بد عقیدہ انسانوں اور جنوں کے زمین و آسمان کی ہر شے میری عظمت، حقیقت اور میرے مقام و مرتبہ کو پہچانتی ہے۔ ایسے میں اگر انسان ہو کر ہم عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ پہچانیں تو ہم جانوروں سے بد تر ہوں گے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ وہ اسلام کا پیغام امن ومحبت اور سیرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالہ سے شرق سے غرب تک سفر کرتے ہیں اور وہ یہ پیغام دیتے ہیں کہ دہشت گردی کو اسلام سے منسوب نہ کیا جائے، دہشت گرد ایک مجرم ہوتا ہے جو ہر مذہب اور ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔ امریکہ اور ناروے میں دہشت گرد حملہ پر کسی نے عیسائی دہشت گردی کا ایک نام نہیں دیا تو اسے اسلام سے مربوط نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے تعلق کو استوار کریں اور مضبوط کریں کیونکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف دنیا میں بلکہ قبر، برزخ اور قیامت میں ہر قدم پر ہمارے کام آئیں گے۔ مسلمان اسوہ حسنہ کو اپنائیں اور سیرت پاک پر عمل پیرا ہو جائیں تو وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتے ہیں۔ مسلمان اپنے اعمال اچھے کر لیں کیونکہ ہمارےاعمال جہاں اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جائیں وہیں ہر وقت ہمارے اعمال آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ روئے زمین کے کسی بھی حصے سے مسلمان اگر درود و سلام پیش کرتے ہیں تو امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی روایت کے مطابق ہمارے درود و سلام کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا ہے۔

شیخ الاسلام نے اہل دکن کے عشق و محبت کو دیکھ کر کہا کہ انہیں اس جذبہ کو دیکھ کر اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی یاد آتی ہے۔ انہوں نے مجلس اتحاد المسلمین کے 54ویں یوم تاسیس کے موقع پر دعا کی کہ اللہ مجلس کے کاروان میں خیر و برکت عطا کرے اسے ترقی دے اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرے۔ انہوں نے بطور خاص دعا کی کہ اللہ مجلس اتحاد المسلمین کی سیاسی ڈھال کو سلامت اور آباد رکھے۔ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ان کے دورہ ہند کے موقع پر انہیں جو سیکورٹی فراہم کی گئی اس پر ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت کے علاوہ بیرسٹر اسد الدین اویسی ایم پی کی ذاتی کاوشوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔

شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ مفتی خلیل احمد نے اتحاد ملت کی ضرورت اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مختلف پہلوؤں کا اپنے خطاب میں احاطہ کیا۔ انہوں نے قدرت وعادت کے دو علیحدہ پیمانوں کی مثال دی اور کہا کہ خالق کائنات قدرت وعادت پر ہر دو پر قادر ہیں۔ بارش کو برساتے ہوئے اس کے ذریعہ زمین پر اناج کو اگانا عادت ہے۔ لیکن بنا بارش کے زمین کو زرخیزی دینا اس کی قدرت ہے۔ سارے لوگوں کو وہ ایک ہی امت، عقیدہ اور ایک ہی گروہ بنا سکتی ہے یہ اس کی قدرت ہے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے لوگوں کو سوچنے، سمجھنے اور فکر کرنے کی صلاحیت دی تاکہ وہ اس کے ذریعہ حق کو پہچان سکیں۔ ان میں ہدایت کیلئے انبیاء پیدا کئے۔ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہدایت کے چراغ کو اس نے علماء کرام سے روشن رکھا اور یہ کام قیامت تک جاری رہے گا۔

صدر مجلس بیرسٹر اسد الدین اویسی نے احیاء مجلس کے 54 سال کے موقع پر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنس و اتحاد ملت کے عنوان پر اس جلسہ عام میں عالم اسلام کے سرکردہ شخصیت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی شرکت کو اہل حیدر آباد کیلئے ممنونیت کا باعث قرار دیا۔ اسد الدین اویسی نے ادارہ منہاج القرآن کی ستائش کی اور کہا کہ دورہ پاکستان کے موقع پر انہوں نے لاہور میں ادارہ منہاج القرآن کے مختلف شعبوں کا مشاہدہ کیا۔ دہشت گردی اور خود کش بمبار کے خلاف شیخ الاسلام کے فتویٰ پر مبنی کتاب کا انہوں نے حوالہ دیا اور کہا کہ ہندوستان کے ادارہ دیوبند نے بھی دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔

شہ نشین پر علماء مشائخ معززین اور سیاسی قائدین کی بڑی تعداد موجود تھی جن میں قابل ذکر مولانا سید محمد مقبول بادشاہ قادری شطاری، مولانا سید مسعود حسین مجتہدی، مولانا محمد رحیم الدین انصاری، مولانا سید تقی رضا عابدی، مولاناسید فضل اللہ قادری الموسوی، مولاناسید اسرار حسین رضوی، مولانا سید محمود بادشاہ قادری زرین کلاہ، مولانا سید شاہ ظہیر الدین علی صوفی قادری، مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی، جناب محمد ماجد حسین مئیر گریٹر حیدر آباد، مجلسی ارکان مقننہ مسرس سید احمد پاشا قادری، محمد ممتاز احمد خاں، محمد مقتدا افسر خاں، محمد وراثت رسول خاں، محمد معظم خاں، احمد بلعلہ، سید الطاف حیدر رضوی، سید امین الحسن جعفری کے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری مجلس ایس اسے حسین انور، مولانا انوار احمد، ڈاکٹر امین الدین اویسی، جعفر حسین معراج سابق ڈپٹی مئیر، مولانا محمد فاروق علی، مولانا محمد عبدالرشید، مولانا سید آل رسول قادری حسنین پاشا، مولانا عبید عثمان العمودی اور دوسرے موجود تھے۔

بیرسٹر اسد الدین اویسی نے شہ نشین پر موجود تمام علماء مشائخ کا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری سے تعارف کروایا۔ دارالسلام کے اندرونی حصہ میں مکمل فرش کا انتظام کیا گیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ سامعین کو سہولت حاصل ہوسکے اسکے باوجود دارالسلام کا وسیع و عریض گراؤنڈ سامعین سے پر ہو چکا تھا۔ پارکنگ کیلئے دارالسلام کے اندرونی وبیرونی حصہ میں بڑے ایل سی ڈی اسکرینز اور جگہ جگہ ٹی وی اسکرینز نصب کی گئی تھیں۔  سیکورٹی کے مثالی انتظام کئے گئے تھے۔ مجلسی ارکان مقننہ کی نگرانی میں مجلسی کارپوریٹرز، ابتدائی مجالس کے صدور معتمدین اور کارکنوں کی بڑی تعداد کو والینٹرز کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ آخر میں جناب سید احمد پاشا قادری معتمد عمومی مجلس ورکن اسمبلی چار مینار نے کارروائی چلائی اور شکریہ ادا کیا۔

جلسے کا اختتام دعائے خیر پر ہوا۔

تبصرہ

Top