منہاج یونیورسٹی لاہور اور المصطفےٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران کے زیراہتمام سیمینار

آج عالم اسلام میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص جس بدامنی سراسیمگی، بداعتمادی، مایوسی اور ناامیدی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ان کے اسباب وقتی بھی ہیں اور تاریخی بھی۔ ان میں ہماری اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں بھی شامل ہیں اور اغیار کی سازشیں بھی۔ مگر تاریخ کا کوئی طالب علم یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ حالات پہلی دفعہ پیدا ہوئے ہیں۔ ہر قوم کی طرح اسلامی تاریخ میں بار بار ایسے نازک مراحل آتے رہے ہیں۔ قوم کو ان حالات سے نکالنے کے لئے ہمیشہ اہل علم و فکر سامنے آتے رہے ہیں جن کی بروقت اور برمحل رہنمائی قوموں کو تباہ ہونے سے بچاتی رہی۔

ان حالات کی سنگینی اور بروقت ضرورت کو بھانپتے ہوئے ہمارے پڑوسی اسلامی ملک ایران کی المصطفی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں زیر تعلیم کچھ پاکستانی طلباء نے باہمی تعاون سے چند سال قبل ایک علمی فکری تحقیقی اور دعوتی ادارہ قائم کیا۔ انہوں نے طویل غور و خوز کے بعد اس ادارے کو ’’آذان‘‘ کا ٹائٹل دیا۔ ’’آذان‘‘ اسلامی ثقافت کا ایک انوکھا اور متحرک عنصر ہے جو عام طور پر ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ یہ صرف نماز کے لئے اعلان کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ بیک وقت اس میں توحید و رسالت کی دعوت، باطل نظام فکر و عمل سے بیزاری اور حق کے لئے متحد و مستعد ہونے کا عزم شامل ہے۔ آذان خود بیداررہنے اوردوسروں کو بیدار اور آمادہ فلاح رکھنے کا اعلان ہے۔ یہ تحفہ قیامِ ریاست مدینہ کے ابتدائی ایام میں اللہ پاک نے خصوصی امتیاز کے طور پر تاجدار کائنات حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے توسط سے اسلامی معاشرے کو عطا فرمایا۔ آج رسم آذاں تو باقی ہے روح بلالی اس سے مفقود ہوچکی ہے۔ یہ کبھی صحابہ  رضی اللہ عنہم کے لئے ترانہ عشق تھا جو اب ہماری بے حسی کا روائتی استعارہ بن چکا ہے۔ اس اعلیٰ اور مقدس فریضے کو بے جان روایت سے اٹھا کر دوبارہ حقیقی روح کے ساتھ اجاگر کرنے کا خوشگوار فریضہ سرانجام دینے والوں میں مردان کوہستان محترم کاظم سلیم، محمد یونس، احسان علی رضی، مظاہر شگری اور یاسر شمسی پیش پیش ہیں۔ یہ نوجوان جدید و قدیم تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں اور اسلام اور پاکستان سے تفرقہ بازی کی لعنت کو ختم کرکے پاک سر زمین پر پرامن بقائے باہمی کے فروغ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہی خواب آنکھوں میں سجائے انہوں نے گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران پاکستان کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا وہ گذشتہ دو مہینوں سے کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور گلگت، بلتستان کی یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی و دعوتی اداروں کے سربراہان سمیت ہزاروں اساتذہ اور طلباء سے مل چکے ہیں۔ انہوں نے ’’آذان‘‘ کے نام سے ہی ایک خوبصورت اردوماہنامہ بھی جاری کررکھا ہے جس میں بلا تفریق مسلک و مذہب عرب و عجم اور یورپ کے نامور قلمقاروں کی زندہ اور مفید تحریریں چھپتی ہیں۔ ایران کی المصطفی یونیورسٹی سے بلند ہونے والی یہ ’’صدائے آذان‘‘ اب پاکستان میں بھی اہل علم و فکر کی سماعتوں سے ٹکرا رہی ہے۔

وطن عزیز کے یہ پرعزم نوجوان جب پاکستان آئے تو ان کی ملاقات ہمارے ساتھ بھی ہوئی۔ انہوں نے اہل پاکستان اور بالخصوص زندہ دلان لاہور کو اپنے پروگرام اور اہداف سے باخبر کرنے کے لئے ایک انٹرنیشنل سیمینار منعقد کرنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ انہوں نے پورے پاکستان سے جن اداروں کواتحادِ امت، پرامن بقائے باہمی اور اخلاص وفاداری کے جذبوں کا امین پایا اُن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں چلنے والی تحریک منہاج القرآن کی نمائندہ منہاج یونیورسٹی سرفہرست تھی۔ یونیورسٹی کے ذمہ داران نے بھی ان کے نیک مقاصد اور تعمیری عزائم کی حوصلہ افزائی کی۔

گذشتہ دونوں 2 اکتوبر بروز ہفتہ منہاج یونیورسٹی اور آذان ایجوکیشل اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ المصطفی یونیورسٹی ایران کے باہمی اشتراک سے منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں یہ عظیم الشان سیمینار منعقد ہوا جس میں کراچی سے سکردو تک اعلیٰ تعلیمی اداروں کے سربراہان اور بیرون ملک سے وفود نے بھرپور شرکت کی۔ انٹرنیشنل سیمینار کے مہمان خصوصی المصطفی یونیورسٹی ایران کے پرووائس چانسلر سید سجاد ہاشمیان تھے جو ایک دن قبل براستہ کراچی اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ لاہورپہنچے تھے۔

٭ حافظ عامر عبد السمیع کی تلاوت قرآن اور راجہ مہدی علی کی نعت خوانی کے بعد ڈاکٹر علی محمد وائس چانسلر منہاج یونیورسٹی نے افتتاحی خطاب میں مہمانان گرامی کو خوش آمدید کہا، انہوں نے تحریک منہاج القرآن اور اس کے بانی و سرپرست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی ان قومی اور عالمی خدمات کا مختصراً تذکرہ کیا جو بین المذاہب اور بین المسالک پر امن بقائے باہمی کے لئے تحریک کے پلیٹ فارم سے عملاً جاری و ساری ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی کے کالج آف شریعہ کے فارغ التحصیل علماء اور تحریک کے ان لاکھوں رفقاء کی سرگرمیوں کی مثال دی جو پوری دنیا میں حضرت شیخ الاسلام کی نگرانی میں سرانجام دی جا رہی ہیں۔

٭ سیمینار کے شریک میزبان، آذان انسٹی ٹیوٹ کے بانی ڈائریکٹر محمد کاظم سلیم نے سیمینار کے اغراض و مقاصد اور ’’آذان‘‘ کے اھداف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم ایران اور پاکستان کے تعلیمی اداروں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں تاکہ ایک دوسرے کی مثبت چیزیں دونوں طرف شیئر ہوسکیں۔ انہوں نے کہا میں اپنی آذان ٹیم کی طرف سے منہاج یونیورسٹی کے جملہ اساتذہ کرام خصوصاً ڈاکٹر رحیق احمد عباسی اور ڈاکٹر علی اکبر الازھری کے خصوصی تعاون کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جن کی کاوشوں سے یہ انٹرنیشنل سیمینار منعقد ہوسکا۔ ایران سے المصطفی انٹریونیورسٹی کے ان مہمانوں کو یہاں آکر اپنی آنکھوں سے اہل پاکستان کی محبت اور بالخصوص شیخ الاسلام کے علمی فکری اور دینی کارناموں کو دیکھنے کا موقع ملا۔

٭ پرو وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر جمیل انور نے اہلِ ایران و پاکستان کے درمیان دینی تاریخی اور فکری و ثقافتی رشتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعلق دائمی اور ابدی ہے۔ بالخصوص شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال جو ہمارے قومی مفکر ہیں وہ ہم سے زیادہ ایران میں پڑھے اور سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ’’پر امن بقائے باہمی‘‘ کے لئے تعلیمی اداروں کے کردار کو اساسی حیثیت دیتے ہوئے زور دیا کہ ہمارے اساتذہ اور طلباء کو پاکستان اور عالم اسلام کے مسائل و مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے اپنا مثبت کردار پیش کرنا چاہیے تاکہ ہمارے اعلی تعلیمی ادارے ملک میں جاری انارکی کو ختم کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرسکیں۔

٭ شیعہ مدارس کی نمائندگی کرتے ہوئے پرنسپل جامعہ العروۃ الوثقیٰ حجۃ الاسلام علامہ غلام عباس رئیسی نے اس سیمینار کو وقت کی ضرورت قرار دیا اور علماء و مفکرین اسلام سے اپیل کی کہ وہ اپنی مقدور بھر کاوشیں اتحاد امت کے لئے وقف کر دیں۔

٭ کراچی یونیورسٹی سے چار رکنی اعلیٰ سطحی وفد کی نمائندگی علوم اسلامیہ کے ڈین ڈاکٹر حسام الدین نے کی۔ انہوں نے خطاب میں اتحادِ امت اور پر امن بقائے باہمی کے ان حقیقی جذبوں کی تعریف کی جو تحریک منہاج القرآن بجا لارہی ہے۔ انہوں نے کہا یہی خلوص اور جذبہ محبت ہے کہ آج ایران سے مہمان ہمارے ملک کی اس عظیم مادر علمی میں رونق افروز ہیں۔ انہوں نے کہا اس طرح کے سیمینار ملک کے ہر بڑے شہر اور تعلیمی ادارے میں ہونے چاہیں۔

٭ پنجاب یونیورسٹی اساتذہ یونین کے صدر ڈاکٹر مہر محمد سعید نے مذکورہ دونوں عالمی اسلامی تعلیمی اداروں کے اشتراک سے منعقدہ سیمینار کو سراہا اور اسے پاکستان کی دیگر یونیورسٹیوں کے لئے قابل تقلید کاوش قرار دیا۔

٭ پنجاب یونیورسٹی گجرانوالہ کیمپس کے ڈائریکٹر جنرل اور شعبہ M.B.A  کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر احسان ملک نے اپنے پر جوش خطاب میں عالم اسلام کے نمائندہ تعلیمی اداروں اور ان میں تدریس کا فریضہ سر انجام دینے والے اساتذہ کے نام پیغام دیا کہ وہ جدید تحقیق کے میدان میں اپنا لوہا منوائیں جب علمی اور تحقیقی ترقی ہو گی تو سازشی عناصر خود برابری کی سطح پر مسلمانوں سے ڈیل کریں گے۔ یہی پرامن بقائے باہمی میں یونیورسٹیوں کا کردار ہے جو ہمارے زمہ قرض ہے۔ اپنے اسلام کے مشن کو باوقار طریقے سے آگے بڑھائیں۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ ہر شعبے میں تدریسی کتب دوسروں کی لکھی ہوئی پڑھاتے ہیں ہم خود تعلیم تحقیق سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں؟ اس پس منظر میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ہر موضوع پر علمی اور تحقیقی شاہکار تخلیق کر دیے ہیں اور وہ امن عالم کے لئے عالمی سطح پر کوشاں ہیں۔

٭ سابق وزیر قانون، معروف قانون دان سینٹر ایس ایم ظفر نے زیر بحث عنوان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا منتظمین نے عالم اسلام اور پاکستان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر باقی اداروں کو بھی بروقت ایسی سرگرمیاں منعقد کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کلمہ گو لوگ معصوم لوگوں پر گولیاں اور بم چلا رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے کسی بھی قوم کی اہم ترین تربیتی مراکز ہوتے ہیں۔ پر امن بقائے باہمی کی ایسی آوازیں اگر اعلی تعلیمی اداروں سے مسلسل آنا شروع ہو جائیں اور یہ ادارے عملاً اسکی تصویر بھی پیش کرتے رہیں تو مسلمان اس چیلنج سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔

٭ سابق وائس چانسلر PU اور نگران MES ڈاکٹر خیرات ابن رسا نے کہا اگر مسلمان ممالک اپنی جامعات کے نصاب کو وقت کے تقاضوں کے ساتھ update کرتے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ علم و تحقیق کے عالمی معیار کو حاصل نہ کرسکیں۔ تعلیمی ادارے اپنا کام کرتے رہیں تو معاشرہ امن اور وقار کے ثمرات سے ضرور مستفید ہوتا ہے۔ انہوں نے نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت پر زور دیا اساتذہ و طلباء کے لئے جدید علوم حاصل کرنے کی اہمیت واضح کی۔

٭ خطیب مسجد داتا گنج بخش علی ہجویری مفتی عثمان سیالوی نے مختصر خطاب میں خانقاہی نظام کی افادیت اور قیام امن کے سلسلے میں صوفیاء کی تاریخی خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے منعقدہ سیمینار کو سراہا۔

٭ سینئر ممبر اسٹیڈنگ کمیٹی برائے تعلیم، حکومت پنجاب محترمہ ڈاکٹر اَسماء ممڈوٹ نے سیمینار میں حکومت پنجاب شعبہ تعلیم کی نمائندگی کرتے ہوئے دونوں تعلیمی اداروں کی ذمہ دار قیادت کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے پاکستان کو درپیش مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے قیام امن کے لئے پنجاب حکومت کی کاوشوں کا بھی حوالہ دیا اور جامعات کی ایسی نمائندہ کاوشوں کو تعلیمی ضرورت قرار دیا۔ خواتین پر زور دیتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو تربیت کی اہمیت کو واضح کیا۔

٭ سیمینار میں ڈائریکٹر فارن افیئر تحریک منہاج القرآن راجہ جمیل اجمل صاحب نے اعلان کیا کہ تحریک منہاج القرآن حضرت شیخ الاسلام کی ہدایت کی روشنی میں ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئے دنیا بھر اور پورے ملک میں شجر کاری مہم کا آغاز کر رہی ہے۔ اس کا آغاز ایرانی مہمان خصوصی خیر سگالی کے طور پر اپنے ہاتھوں سے پودا لگا کر فرمائیں گے۔

٭ مہمان خصوصی نے اپنے مختصر خطاب میں اسلامی تہذیب کی خوبیوں کو اجاگر کیا اور مسلمانان عالم کو آپس میں مروت و محبت کے ساتھ برتاؤ پر زور دیا۔ انہوں نے بجا طور پر کہا کہ ہم غیروں کے ساتھ تو اچھے برتاؤ کا تذکرہ کرتے ہیں اور مسلمان ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے بھی ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم آپس میں زبان، رنگ، نسل اور علاقائی تعصبات کو ختم نہیں کرسکے۔ ان تعصبات کو ختم کرکے مسلمانوں کو دنیا کی دوسری تہذیبوں کے درمیان باعزت مقام و مرتبہ دلانے کے لئے ہماری تعلیمی درسگاہوں کو قائدانہ رول ادا کرنا چاہئے۔ نیز معیاری تحقیق اور مکالمے کو رواج دینا چاہئے تاکہ غلط فہمیاں دورہوسکیں۔ مہمان خصوصی کے فارسی خطاب کا اردو ترجمہ ساتھ ساتھ محترم یاسر شمسی کرتے رہے تمام شرکاء نے اس خطاب کو گہری دلچسپی کے ساتھ سنا۔

٭ سیمینار میں عالم اسلام کی معروف مادرِ علمی جامعۃ الازھر سے شعبہ اردو کے چیر مین ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے خصوصی شرکت کی۔ انہوں نے جامعہ الازھر کا پیغام دیتے ہوئے کہا ’’مسلمانوں کے جملہ مسالک کے درمیان 95 فیصد مشترکات ہیں مگر ہم ان مشرکات کو بھلا کر 5 فیصد اختلافات کو اچھالنے پر اپنا سارا علمی اور فکری زور صرف کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا جامعات آگے بڑھیں اور نوجوانوں کو اضطراب اور مایوسی سے بچائیں۔

٭ UK سے خصوصی شرکت کے لئے تشریف لائے ہوئے معروف سکالر پروفیسر نثار احمد سلمانی نے مغربی ممالک میں ڈاکٹرطاہر القادری کی خدمات کا تذکرہ کیا اور اسلام کے پیغام امن و محبت کو عام کرنے میں ان کی تاریخی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے تاریخی فتویٰ دہشتگردی اور فنتہ خوارج کے نام سے شیخ الاسلام کے خصوصی فتویٰ کا حوالہ دیا اور کہا کہ آئندہ سال 10 ستمبر اسلام کے اسی پیغام امن و محبت کو ویمبلے کانفرنس میں مزید پھیلانے کاعالمی سطح پر اہتمام کیا جارہا ہے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں کے سربراہان پر زور دیا کہ وہ شیخ الاسلام کی تقلید کرتے ہوئے مسلکی دائروں سے باہر نکل کر اسلام اور مسلمانوں کی جدید تقاضوں کے مطابق رہنمائی کریں اور نوجوان طلباء و طالبات کے لئے پرامن اور خوشگوار تعلیمی ماحول مہیا کریں تاکہ اسلام کو درپیش چیلنجز سے سرخروئی حاصل کرسکے۔

٭ اختتام پر چیف آرگنائزر سیمینار نائب امیر تحریک بریگیڈیئر محمد اقبال نے معزز مہمانوں کا بار دگر شکریہ ادا کیا اور ایسے پروگرام منعقد کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے شرکاء اور Participent حضرات کا بھی شکریہ ادا کیا جبکہ مرکزی امیر مسکین فیض الرحمن درانی کی دعا کے ساتھ سیمینار کا اختتام ہوا۔

٭ سیمینار میں آذان ٹیم کے سرگرم ممبران محمد کاظم سلیم، محمد یونس، احسان رضی، یاسر شمسی اور مظاہر شگری کوپر امن بقائے باہمی کیلئے انکی پر خلوص خدمات پر منہاج یونیورسٹی کی طرف سے خصوصی شیلڈز دی گئیں۔ یاد رہے کہ اسی ٹیم کے محترم محمد یونس نے ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی فکری اور عملی خدمات پر المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ایم فل کا مقالہ لکھا ہے۔

٭ سیمینار کی کارروائی بیک وقت چار زبانوں میں جاری رہی اور سیمینار کے آرگنائزر ڈاکٹر علی اکبر الازھری (ایسوسی ایٹ پروفیسر/ ڈائریکٹر ریسرچ) نے خود پورے سیمینار کی کاروائی کو کنڈکٹ کیا۔

٭ اس موقع پر ماہنامہ ’’اذان‘‘ کا خصوصی شمارہ شائع کیا گیا تھا جس میں حضور شیخ الاسلام اور ڈاکٹر علی اکبر الازہری کے خصوصی مقالات شامل اشاعت تھے جو شرکاء کو مفت تقسیم کیا گیا۔

٭ پروگرام کے اختتام پر تمام شرکاء کے لیے پر تکلف کھانے کا اہتمام تھا۔

٭ تمام شرکاء نے دونوں جامعات کے اس خوبصورت اشتراک عمل کو سراہا اور اسے وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔

تبصرہ

Top