گوشہ درود کا روحانی اجتماع اور شب معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 2011ء

مورخہ: 29 جون 2011ء

تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام شب معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سالانہ پروگرام اور گوشہ درود کا روحانی اجتماع 29 جون کو منعقد ہوا۔ پروگرام کا انعقاد گوشہ درود کے ہال میں کیا گیا، جہاں خواتین کے لیے الگ باپردہ انتظام تھا۔ پنڈال کے سامنے گوشہ درود کے گوشہ نشینان الگ نشتوں پر موجود تھے۔

پروگرام کی صدارت تحریک منہاج القرآن کے امیر تحریک مسکین فیض الرحمن درانی نے کی۔ سینئر نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض، پروفیسر علامہ محمد نواز ظفر، مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی، علامہ احمد نواز انجم، راجہ زاہد محمود، علامہ فرحت حسین شاہ، علامہ محمد حسین آزاد، راجہ محمد جمیل، سید الطاف حسین شاہ، جواد حامد، خدام گوشہ درود سید مشرف شاہ حسین شاہ اور الحاج محمد سلیم قادری، ڈاکٹر تنویر اعظم سندھو، میاں محمد عباس نقشبندی اور دیگر قائدین تحریک نے بھی پروگرام میں موجود تھے۔

اس روحانی اجتماع میں لاہور اور گرد و نواح سے شرکاء کی بڑی تعداد نے بھرپور شرکت کی۔ نماز عشاء کے بعد شب 10 بجے پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ جس کے بعد نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوا۔

بلبل منہاج محمد افضل نوشاہی، بلالی برادارن، منہاج نعت کونسل، حیدری براداران سمیت دیگر ثناء خوان حضرات نے نعت خوانی میں حصہ لیا۔ شب ساڑھے 11 بجے تک نعت خوانی کا سلسلہ جاری رہا۔ پروگرام میں کمپیئرنگ کے فرائض علامہ فرحت حسین شاہ اور علامہ احمد نواز انجم نے مشترکہ طور پر ادا کیے۔

خطاب شیخ الاسلام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے برطانیہ سے ٹیلی فونک خطاب کیا۔ آپ نے "شب معراج مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ آپ نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج عرش معلیٰ دنیا کے ظلمت و اندھیرے کے خاتمے کا اعلان تھا۔ شب معراج نے دنیا کو وہ شعور دیا، جس سے پہلے انسانیت اس شعور سے محروم تھی۔ انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے لیے اعتدال پسند بن کر آئے۔ آپ انتہاء پسندی کے خلاف تھے۔ قرآن پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو بھی متوسط امت قرار دیا گیا۔

تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و کارکنان آپ کو مبارک ہو، جو متوسط ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔ آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہیں۔

شب معراج میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو یاد رکھا۔ پہلے انہوں نے کائنات کی بات، پھر انسانیت کی بات کی اور پھر اپنی امت کی بات اور آخر میں اپنی ذات اقدس کی طرف آئے کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ میرے لیے کھول دیا۔

اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بند نہیں رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سارا بوجھ اتار دیا، کوئی ٹینشن نہیں رکھی۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے خوش کر دیا۔

تیسری بات یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ میرا ذکر بھی بلند کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر، ذکر خدا کے ساتھ ہو رہا ہے۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قاطع نبوت بنایا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ مسجد اقصیٰ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلسہ تھا، جس میں تمام انبیاء و رسل نے شرکت کی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب انبیاء کے سامنے یہ خطاب ختم ہوا تو پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ جو آپ نے فرمایا ہے ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ جلسہ معراج تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انبیاء کرام سے خطاب کیا۔

معراج مصطفیٰ کا پیغام یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری دنیا کو ایک گلوبل ویو دیا ہے۔ انسانیت کا نظریہ دیا، رحمت و شفقت کا نظریہ دیا، ساری دنیا کے لیے محسن انسانیت کا نظریہ دیا۔ یہی طریقہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے لیے مقرر فرمایا کہ جو میری امت میں سے اس پر قائم رہے گا وہی نجات اور فلاح پائے گا۔

شیخ الاسلام کا خطاب شب پونے دو بجے ختم ہوا، جس کے بعد آپ نے خصوصی دعا بھی کروائی۔ دعا کے بعد محمد افضل نوشاہی نے درود و سلام اور معراج کی رتیہ پیش کی، جس کے بعد تمام شرکاء میں لنگر بھی تقسیم کیا گیا۔

تبصرہ

Top