تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف 2011ء کا چوتھا دن

مورخہ: 25 اگست 2011ء

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 24 رمضان المبارک کی صبح نماز فجر کے بعد شہر اعتکاف کے ہزاروں معتکفین و معتکفات سے لندن سے بذریعہ ویڈیو ٹیلی کانفرنس خطاب کیا۔ آپ نے "حقائق تصوف اور طرائق معرفت" کے سلسلہ میں "سلوک الی اللہ، علم اور احکام شریعت" کے موضوع پر خطاب کیا۔

شیخ الاسلام نے  کہا کہ سلوک الی اللہ کا سفر ایک مسلسل ہجرت ہے۔ جس کے مختلف مقامات ہیں۔ سب سے پہلے طہارت سے اطاعت کی طرف ہجرت ہے، پھر استقامت کی طرف، پھر ریاضت کی طرف ہجرت، پھر معرفت، محبت اور پھر قربت کی طرف ہجرت کا سفر ہے۔ احادیث مبارکہ کے مطابق آقا علیہ السلام ہر روز 70 اور بعض روایات کے مطابق 100 مرتبہ استغفار کرتے۔ اس پر بعض محدثین اور اہل اللہ و اولیاء نے تشریح کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو معصوم تھے، استغفار کس کے لیے کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ہر روز آپ کے 100 درجے شان بلند ہوتی۔ یہ آقا علیہ السلام کا مقام عبدیت تھا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پچھلے مقام کو اگلے مقام سے فروتر اور بلند دیکھ کر استغفار کرتے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ اہل اللہ ہر لمحہ اپنے حال کی بہتری کا انتظام کرتے ہیں، کیونکہ جوں جوں وقت بیت رہا ہے تو عمر کم ہو رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عمر بڑھ رہی ہے لیکن اہل اللہ کے نزدیک عمر وہ ہے جو باقی رہ گئی۔ یاد رکھ لیں کہ تصوف میں سلوک کا سفر اس وقت شروع نہیں ہوتا جب تک انسان اپنے حال سے باخبر نہ ہو۔ بیداری، روشنی اور غفلت کی نیند اندھیرا ہے۔ جن لوگوں کے من میں اندھیرے کا راج رہتا ہے تو انہیں خبر ہی نہیں ان کے من میں کیا کیا غلاظتیں اور خرابیاں ہیں، جنہوں نے انسان کو اندھیرے میں گھیرا ہوا ہے۔ لہذا صوفیاء کہتے ہیں کہ سلوک میں پہلا سفر اپنے حال کی خبر رکھنا ہے۔ جب اپنے حال کی خبر ہوگی تو انسان کو فکر ہوگی، اور جب فکر ہو گی تو انسان تدبیر کرتا ہے۔ اس تدبیر سے پہلے عملی انتباہ کرتا ہے۔ پھر انسان کی دوسری ہجرت توبہ کی طرف ہے۔ پھر انسان کہتا ہے کہ

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی؛ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گےo

آپ نے کہا کہ تصوف میں ان لوگوں کو کذاب کہا گیا ہے، جو سلوک کا تصوف بغیر علم کے طے کرنے کا کہتے ہیں۔ جو لوگ طریقت میں علم کو پس پشت ڈال کر محض طریقت اور تصوف کی بات کرتے ہیں تو وہ جھوٹ بولتے اور دین کو جھٹلاتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے دین میں فہم حاصل کرنے کو سب سے بڑی عبادت قرار دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف سے ایک ہزار عابد اور عبادت گزار ہوں مگر علم سے خالی ہوں تو ان سے ایک فقیہ، جس کو اللہ نے علم دیا تو وہ ان ہزار عابدین سے افضل ہے۔ کیونکہ بغیر علم کے شیطان ان عبادت گزاروں کو ہلاکت میں ڈال سکتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ قرآن مجید نے فیصلہ کر دیا کہ بے عمل کو عالم کہتے ہی نہیں۔ صرف وہی لوگ عالم ہوتے ہیں، جن کا قلب اللہ کی خشیت سے لرزہ لرزہ ہو۔ عالم اس وقت تک نہیں بنتا جب تک علم نافع نہ ہو اور آقا علیہ السلام نے علم نافع نہ ہونے سے پناہ مانگی ہے۔ قیامت کے دن اللہ پاک عالم اور عابد کو کھڑا کریں گے۔ جو مخلص عبادت گزار ہوں گے، ان کو جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ عالم باعمل کو روک لے گا۔ اس کو کہا جائے گا کہ تجھے اس لیے روکا ہے کہ جن جن لوگوں کو تو نے زندگی میں علم سکھایا تھا تو ان کی شفاعت کر کے جنت میں اپنے ساتھ لے جا۔

آج جن لوگوں کے پاس نہ علم ہے اور نہ عمل، وہ سالک، نہ فقیر اور نہ پیر ہیں، ان کا تصوف سے دور کا بھی واسطہ نہیں، بلکہ ایسے لوگوں کی صحبت اور مجلس میں بیٹھنا ہلاکت اور بربادی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہم تصوف کو علم سے بالکل جدا سمجھنے لگ گئے ہیں۔ حضور داتا گنج بخش کی کتاب "کشف المحجوب" کا پہلا باب علم پر ہے۔ غور طلب بات ہے کہ کتاب سلوک و تصوف پر ہے، لیکن آغاز علم کے باب سے ہے۔ کیونکہ تصوف کا سارا خلاصہ خشیت الٰہی کا حاصل کرنا ہے۔ کوئی شخص اس وقت تک صاحب حال نہیں ہو سکتا، جب تک وہ صاحب "قال" نہ ہو۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس نے علم فقہ حاصل کیا اور علم تصوف سے محروم رہا تو وہ شخص فاسق و فاجر ہوگیا۔ جس نے علم تصوف حاصل کیا اور احکام شریعت سے عاری رہا تو وہ شخص زندیق اور ملحد ہو گیا۔ جس نے علم شریعت اور علم طریقت، علم زہد اور تصوف دونوں کو جمع کیا تو وہ شخص فلاح پا گیا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے تصوف کو عجمی قرار دے رکھا ہے، ان کا یہ تصور سراسر جہالت پر مبنی ہے۔ انہوں نے صوفیاء کو پڑھا ہی نہیں۔ وہ تصوف کو خلافِ شریعت سمجھ رہے ہیں، جو بہت بڑی جہالت اور ضلالت و گمراہی ہے۔

حضرت سیدنا عثمان نیشاپوری، ان کی وفات 298 ھجری میں ہوئی اور وہ موسسینِ تصوف میں سے ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے ظاہر و باطن پر سنتِ مصطفیٰ کی حکومت کر لی تو اللہ رب العزت اس پر حکمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔

حضرت ابوالحسن ہواری مامون اکابر صوفیاء میں سے تھے، امام بخاری کے ہم زمانہ تھے، ان کی وفات 230 ہجری میں ہوئی، فرماتے ہیں کہ جو شخص اتباع سنت کے خلاف عمل کرے، اس شیخ کی کوئی تعمیل نہیں کرنی چاہیے۔ اس شخص کی ہر بات کو رد کر دیا جائے۔

آپ نے کہا کہ تصوف کو بدعت کہنا بدبختی ہے بلکہ تصوف تو روح قرآن ہے، روح سنت رسول ہے، یہ روح صحابہ ہے۔ تصوف وہ نور ہے جو پردے اٹھا دیتا ہے، اس نور کا نام تصوف و طریقت ہے۔ جو نور انسان کو تاریکی سے نکال کر روشنی دیتا ہے، اس کا نام تصوف ہے۔ یہ انسان کے اندر گندگی کو ختم کر کے نور کی روشنی پیدا کرتا ہے۔ تصوف میں امام غزالی جیسے بڑے بڑے علماء لوگوں کے احوال کو سنوارتے تھے۔ حضرت جنید بغدادی ہوں یا سری سقطی، داتا گنج بخش علی ہجویری ہوں یا بابا فرید گنج شکر، سب نے تصوف کے ذریعے ہی لوگوں کو عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشق خدا کے جام پلائے۔ اس لیے تصوف کو خارجی چیز، ہندوستانی یا ایرانی پودا سمجھنا بذاتِ خود بدعت ہے۔

علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کتاب "الاستقامہ" کے جز اول، صفحہ 87 میں شیخ شہاب الدین سہروردی کے طریق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضور غوث الاعظم نے انہیں کہا کہ ابن تیمیہ جو تم کتابیں پڑھنا چاہتے ہو یہ علم قبر کا سامان نہیں ہیں۔ اب ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ حضور غوث الاعظم نے کشف سے میرے دل کا حال جان لیا۔

آخر میں شیخ الاسلام نے کہا کہ سلوک و تصوف کی راہ میں آج مشائخ، شاگردوں اور تلامذہ پر یہ لازم اور بھاری ذمہ داری عائد ہے کہ وہ علم اور عمل کے ساتھ تصوف کی تعلیم کو عام کریں۔

شیخ الاسلام کا خطاب 7 بجے ختم ہوا۔

تبصرہ

Top