شہر اعتکاف 2008ء : تیسرا دن (اعتکاف ڈائری)

شہر اعتکاف سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایم ایس پاکستانی
(معاون : محمد نواز شریف)

مورخہ 24 ستمبر 2008ء کو شہر اعتکاف کے تیسرے دن کا آغاز نماز فجر سے ہوا۔ بعد از نماز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے معتکفین کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ان دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کریں اور کوشش کریں کہ ایک بار قرآن پاک کا ختم ہو جائے۔ آپ نے کہا کہ ہمارے لیے سال بھر میں یہ واحد موقع ہے کہ ہم قرآن پاک کو ایک بار ختم کر سکیں۔ اس کے بعد سال بھر میں ایسا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک منہاج القرآن قرآن فہمی کی تحریک ہے۔ اس لیے آپ قرآن پاک کی تلاوت سے بھی اپنے قلوب و اذہان کو منور کریں۔

نماز فجر کے بعد قاری حافظ ظہیر احمد کی تسبیحات نے ایک بار ماحول کو معطر کر دیا اور فضا سبحان اللہ والحمد للہ سے گونج اٹھی۔ نماز فجر اور اشراق کی ادائیگی کے بعد معتکفین نے حسب معمول آرام کیا۔ دوپہر 12 بجے جب معتکفین بیدار ہو رہے تھے تو آج ایک بار پھر ہلکی ہلکی دھوپ نے موسم سہانا کر دیا۔ جس سے کھلے آسماں کا منظر سردیوں کے موسم کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ ایسے میں نماز ظہر کی اذان کی آواز آئی تو ہر طرف سے مسجد میں آنے کی جلدی شروع ہو گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام معتکفین نماز کے لئے جمع ہو گئے۔ نماز کے بعد تربیتی حلقہ جات شروع ہو گئے۔ ان میں مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی کے سوال و جواب کی نشست، نظامت دعوت، نظامت تربیت اور دیگر حلقہ جات شامل تھے۔

شہر اعتکاف میں یہ پہلا موقع ہے کہ اجتماعی تربیتی حلقہ جات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سالوں میں ہر اقامتی حلقہ کی الگ کلاس ہوتی تھی جس میں ایک نصاب کے تحت پڑھایا جاتا تھا۔ اب آٹھ مختلف مقامات پر ہونے والے ان حلقوں میں تربیتی لیکچرز کے علاوہ معتکفین کو معلمین بننے کی عملی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔ پانچ بجے تک جاری رہنے والے ان حلقوں کے بعد معتکفین نے انفردای ذکر اذکار شروع کئے۔

نماز عصر کی ادائیگی کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بیرون ممالک سے آئے معتکفین کیساتھ افطار پروگرام شروع ہوا۔ اس پروگرام کو تحریک منہاج القرآن کی نظامت امور خارجہ نے منعقد کیا تھا۔ سوا چھ بجے شروع ہونے والے اس پروگرام میں شیخ الاسلام ساڑھے چھ بجے تشریف لائے۔ آپ سے قبل شہر اعتکاف میں دو سو سے زائد شرکت کرنے والے معتکفین اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل کویت کے سابق امیر یوسف بختاور نے اس پروگرام میں خصوصی شرکت کی۔ آپ 28 سالہ خدمات کے بعد ان دنوں پاکستان واپس آ چکے ہیں۔ اس موقع پر ان کے اس 28 سالہ دورانیے میں ملنے والے ایوارڈز کو بھی رکھا گیا تھا۔

برطانیہ سے ڈاکٹر زاہد، شاہد مرسلین، ڈی آئی جی آپریشنز پنجاب، امیر تحریک مسکین فیض الرحمن درانی، ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، نائب امیر تحریک بریگیڈئر (ر) اقبال احمد خان، ناظم امور خارجہ جی ایم ملک اور دیگر شیخ الاسلام کیساتھ سٹیج پر موجود تھے۔ تحریک منہاج القرآن کے مرکزی قائدین میں سے مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی، جاوید اقبال قادری، کرنل (ر) محمد احمد، بشیر خان لودھی، احمد نواز انجم، راجہ زاہد محمود اور دیگر مرکزی قائدین بھی یہاں موجود تھے۔
اس پروگرام میں شیخ الاسلام سے تمام معتکفین کا فرداً فرداً تعارف کرایا گیا۔

شیخ الاسلام نے مختصر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج تحریک منہاج القرآن کا کام دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کا سہرا بیرون ممالک تنظیمات کے عہدیداران کے سر ہے جن کی دن رات کاوشیں شامل ہیں۔ اس موقع پر آپ نے بیرون ملک تنظمیات کو اعلیٰ کام کرنے پر خصوصی مبارکباد بھی پیش کی۔ آپ نے یوسف بختاور کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ یہ گزشتہ 28 سال سے کویت میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ ان کا کام قابل تحسین ہے اور بعد میں آنے والوں کے لئے رول ماڈل ہوگا۔

شہر اعتکاف کی دوسری نشست کا آغاز نماز عشاء سے ہوا۔ جس سے قبل ہی لوگ مسجد کے ہال میں آنا شروع ہو چکے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ساڑھے گیارہ بجے شیخ الاسلام کا خطاب شروع ہوا۔

خطاب شیخ الاسلام

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انسانی حقوق کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ اسلام دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ دنیا کے کسی بھی مذہب میں اسلام سے بڑھ کر انسانی حقوق کی حفاظت نہیں کی گئی۔ آپ نے کہا اسلام بچے کی پیدائش سے قبل انسانی حقوق شروع کرتا ہے اور اس کی موت کے بعد تک اس کی حفاظت کرتا ہے۔ آپ نے کہا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو قرآن نے اس کو دودھ پلانے کی مدت کا ذکر کیا ہے کہ ماؤں کو چاہیے کہ وہ اتنی دیر تک اپنے بچوں کو لازمی دودھ پلائیں۔ آپ نے کہا آج یورپی دنیا میں معاشرہ نہ صرف تہذہبی سطح پر ٹوٹ رہا ہے بلکہ وہاں عائلی روایات بھی دم توڑ رہی ہیں۔ خاندان کے تمام لوگ ایک دوسرے سے الگ الگ ہوتے جا رہے ہیں۔ آج یورپ کے اکثر ممالک میں یہ صورتحال ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کو ان کی بالغ العمری سے قبل ہی علیحدہ کر رہے ہیں۔ بچے پارٹ ٹائم جاب کر کے اپنے سکول کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اس صورتحال سے ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ماں، باپ، بیٹے اور بیٹی کی باہمی محبت ختم ہو گئی ہے۔ دوسری طرف اسلام کی روایات اس کے برعکس ہیں اور اس نے اجتماعی معاشرہ کی نہ صرف تلقین کی ہے بلکہ عائلی و خاندانی نظام کی پختگی پر بھی بڑا زور دیا ہے۔

آپ نے کہا کہ آج نام نہاد مغربی مفکرین صرف دہشت گردی کے نام پر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام دنیا کا پرامن ترین مذہب ہے جس میں کسی کی دل آزاری کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ اس صورتحال میں مسلمانوں کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں کہ وہ دنیا کے سامنے اسلام کا پرامن چہرہ پیش کریں۔ اس کے لیے بیرون ملک مقیم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک باسیوں کو بھی ذمہ داری سے کام کرنا ہو گا۔ اس کا بہترین حل تعلیم اور شعور کی بیداری ہے۔ اس شعور کی بیداری کے لیے تحریک منہاج القرآن کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ منہاج القرآن دہشت گردی اور انہتاء پسندی کیخلاف ہے۔ ہم کسی بھی سطح پر ہونے والی دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی مذمت کرتے ہیں۔ دہشت گرد اور انتہا پسند نہ مسلمان ہیں اور نہ ہی ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہے۔

آپ نے کہا کہ اسلام نے بچے اور عورتوں سمیت معاشرہ کے ہر طبقہ کے حقوق کی ترجمانی کی اور حفاظت کی ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے آپ نے ایک حدیث مبارکہ بیان کی کہ ایک مرتبہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آرام فرما رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے آپ کو مدد کے لیے پکارا۔ آپ فوری اپنی جگہ سے اٹھے اور اس بڑھیا کی امداد کے لیے ننگے پاؤں اس کے ساتھ چل پڑے، سامان اپنے کندھوں پر رکھا اور اسے گھر تک چھوڑ آئے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسانی ہمدردی تھی۔

شیخ الاسلام نے کہا اسلام وہ دین ہے جس نے زندوں کے حقوق کی حفاظت کے علاوہ مردوں کو بھی حقوق دیئے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اسلام نے اس کی تدفین اور اس کے بعد کے رسومات کا ایک طریقہ کار مقرر کر رکھا ہے تاکہ کسی بھی انسان کی میت کی بے حرمتی نہ ہو۔ اس کے لیے جنازہ وہ عمل ہے جو صرف مسلمانوں کے پاس ہے اور کسی مذہب میں مردہ کو اس شان سے دفن نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ تعلیمات صرف اسلام نے دی ہیں۔ اس ضمن میں آپ نے بتایا کہ میت کو ایصال ثواب پہنچتا جو اس کی قبر والی حالت بدل دیتا ہے۔ اگر اس عمل سے میت کو فائدہ نہ ہو تو پھر ایصال ثواب میت کے ساتھ سب سے بڑا مذاق ہے۔ لہذا ہمیں اس عقیدہ کو مزید پختہ کرنا ہوگا۔

جھلکیاں

  1. گراؤنڈ اعتکاف گاہ کی بحالی کے بعد معتکفین دوبارہ وہاں مقیم ہوگئے۔
  2. نظامت تربیت اور نظامت دعوت نے الگ الگ مقامات پر اپنے حلقہ جات منعقد کیے۔
  3. نماز عشاء کے بعد شیخ الاسلام کا خطاب شروع ہوا۔
  4. شیخ الاسلام کے خطاب کے لیے بڑی دیجٹیل سکرین کے علاوہ مسجد ہال کے جنوبی سمت احاطہ میں بھی بڑی سکرین نصب کی گئی۔
  5. ڈسپنسری پر چھوٹی امراض کے مریضوں کا رش رہا۔
  6. شیخ الاسلام کا خطاب پونے چار بجے ختم ہوا۔

تبصرہ

Top