علم اور قلم فکری وراثت کے محافظ اور رہنمائی کا مضبوط ذریعہ ہیں: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ننکانہ صاحب میں منعقدہ سیرت النبی ﷺ کانفرنس میں خصوصی شرکت و خطاب
سیرت النبی ﷺ کانفرنس کے اس بابرکت اجتماع میں شرکت باعثِ سعادت ہے۔ میں سب سے پہلے اس تعلیمی ادارے کے طلبہ و طالبات کو ان کی شاندار کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تحریکِ منہاج القرآن ننکانہ کے ذمہ داران خصوصاً چوہدری خاندان اس مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے علم و تربیت کے اس سفر میں نمایاں کردار ادا کیا۔
آج کا موضوع ’’سیرتِ النبی ﷺ کی روشنی میں عصرِ حاضر میں طلبہ کی کردار سازی میں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں‘‘ ہے، جو دراصل تعلیماتِ نبوی کی روشنی میں قیادت اور کامیابی کے حقیقی اصولوں پر مبنی ہے۔ کامیابی کی تلاش ہر عمر کے انسان کو ہے، لیکن اس کی حقیقی کنجی صرف اور صرف سیرتِ مصطفیٰ ﷺ میں پوشیدہ ہے، جیسا کہ قرآن اعلان کرتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی کہ آج کا معاشرہ اخلاقی، فکری اور قیادت کے بحران سے دوچار ہے۔ چودہ سال کے نوجوان سے لے کر پچاس سال کے بالغ فرد تک ہر شخص صحیح سمت کی تلاش میں ہے، مگر حقیقی رہنمائی کرنے والے افراد کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ راستہ نامعلوم ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس راستے پر عملی طور پر چلنے سے گریز کرتے ہیں، حالانکہ وہ راستہ نبی اکرم ﷺ کی مبارک تعلیمات میں واضح طور پر موجود ہے۔ نوجوان نسل کو یہ پیغام دیا گیا کہ انہیں بلا تاخیر سیرتِ نبوی ﷺ سے اپنا تعلق مضبوط کرنا ہوگا۔
قیادت کسی منصب یا حکومت کا نام نہیں، بلکہ عاجزی، خدمت، محبت اور تحمل کا مجموعہ ہے۔ ایک سچا لیڈر اپنی کامیابی کو اس بات سے نہیں ناپتا کہ وہ خود کہاں پہنچا، بلکہ اس بات سے جانچتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کتنے لوگوں کو منزل تک لے کر گیا۔ سیرتِ طیبہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ قیادت ایک مسلسل تربیتی عمل ہے، جس میں انسان خود کو بھی سنوارتا ہے اور دوسروں کو بھی۔ حقیقی قائد وہی ہے جو معاشرے میں امن، محبت اور ہمدردی کو فروغ دے، دلوں کو جوڑے اور تفریق کو ہوا نہ دے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ جدید مینجمنٹ اور پرسنل ڈویلپمنٹ کے اصول دراصل سیرتِ رسول ﷺ سے ہم آہنگ ہیں۔ جذبات پر قابو رکھنا، غصے کو کنٹرول کرنا اور تحمل و بردباری اختیار کرنا ایک مضبوط اور متوازن شخصیت کی پہچان ہے، جبکہ جذباتی ذہانت کامیاب قیادت کی بنیادی خصوصیت ہے۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کے لیے خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے، اور یہی فہمِ دین قیادت کی اصل بنیاد ہے۔ ایک لیڈر کے لیے علم سب سے بڑی دولت ہے۔ سچا قائد دلیل سے بات کرتا ہے، حکمت سے فیصلے کرتا ہے اور حالات کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے۔ وہ ضد، ہٹ دھرمی اور تکبر سے دور رہتا ہے، نئی معلومات سیکھنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے اور جب اس کی رائے غلط ثابت ہو جائے تو بغیر جھجک اسے بدل لیتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ لیڈر کی طبیعت میں نرمی ہونی چاہیے، اس کا دل وسیع ہو اور اس کے فیصلوں میں اعتدال ہو۔ وہ غصے کے بجائے حلم اختیار کرتا ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اصل پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ اسی کو آج کی زبان میں ایموشنل انٹیلیجنس کہا جاتا ہے۔ ایسا قائد جذبات کو بھڑکانے کے بجائے انہیں متوازن رکھتا ہے اور اختلاف کو ہوا دینے کے بجائے اسے حکمت سے سلجھاتا ہے۔
انہوں نے ابلاغ اور کمیونیکیشن کو بھی قیادت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ ایک اچھا قائد موقع و محل کے مطابق الفاظ کا انتخاب کرتا ہے اور بعض اوقات خاموشی کے ذریعے بھی اپنی حکمت ظاہر کر دیتا ہے۔ اس کا اخلاق نرم، برتاؤ شائستہ اور مزاج متوازن ہوتا ہے۔ وہ شاگرد کی غلطی پر اسے مجمع کے سامنے شرمندہ نہیں کرتا بلکہ تنہائی میں اصلاح کرتا ہے۔ وہ تاحیات سیکھنے کے عمل سے جڑا رہتا ہے، فضول گفتگو سے دور رہتا ہے اور اپنی شخصیت کو مسلسل بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔
خطاب میں یہ نکتہ بھی شامل کیا گیا کہ حقیقی قیادت کا معیار یہ ہے کہ انسان ضد پر اڑنے کے بجائے دلیل کو قبول کرے۔ جو شخص نئے دلائل ملنے پر اپنی رائے بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہی دانا اور سمجھ دار ہے، جبکہ حق واضح ہو جانے کے بعد بھی اپنی پرانی رائے پر اصرار کرنا جہالت ہے۔ علم سے جڑا ہوا لیڈر کبھی ہٹ دھرم نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ نئے علم اور درست بات کو خوش آمدید کہتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے یہ بھی واضح کیا کہ قیادت محض سیاست کا نام نہیں، بلکہ ہر وہ شخص جو اپنے ماحول میں مثبت تبدیلی لاتا ہے، حقیقی معنوں میں رہنما ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے قیادت عطا فرماتے ہیں، اسے دین کی صحیح سمجھ بھی عطا کرتے ہیں، تاکہ وہ لوگوں کو جوڑنے اور خیر کے راستے پر چلانے کا ذریعہ بنے۔
انہوں نے مزید بیان کیا کہ قیادت ایک عظیم امانت ہے، جس کا حساب دنیا اور آخرت دونوں میں ہوگا۔ اس لیے ایک سچا قائد ذمہ داریوں کو اپنے پاس روک کر نہیں رکھتا بلکہ انہیں منظم انداز سے آگے منتقل کرتا ہے۔ وہ اپنے بعد افراد، ٹیم اور مضبوط نظام چھوڑ جاتا ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ غیر ضروری امور سے بچنا، وقت اور صلاحیت کو ضائع نہ کرنا اور صرف اہم کاموں پر توجہ دینا بھی قیادت کی علامت ہے۔ حقیقی لیڈر جھوٹی تعریف سے بھی بچتا ہے اور بے بنیاد تنقید سے بھی متزلزل نہیں ہوتا، بلکہ توازن کے ساتھ ہر بات سنتا اور اپنی اصلاح کے لیے استعمال کرتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ علم اور قلم ہی وہ طاقت ہیں جو فکری وراثت کو محفوظ اور آگے منتقل کرتے ہیں۔ قلم کی قوت قیادت کا ایک اہم ستون ہے، جس کے ذریعے رہنمائی، تربیت اور اصلاح کا عظیم فریضہ انجام پاتا ہے۔ اسی تسلسل میں موجودہ دور کی علمی و فکری خدمات کا ذکر کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی، فکری اور اصلاحی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا کہ انہوں نے علم، کردار، صبر، حلم اور استقامت کے ذریعے ہزاروں افراد کی فکری و اخلاقی تربیت کی اور امت کو مثبت سمت عطا کی۔
یہ بھی بتایا گیا کہ موجودہ دور میں تحریکِ منہاج القرآن امت کو جوڑنے اور محبت و امن کے پیغام کو عام کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور نوجوان نسل کی دینی و اخلاقی تربیت کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے۔
آخر میں پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے نوجوان طلبہ و طالبات کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ ملک و قوم کا روشن مستقبل ہیں اور امید ظاہر کی کہ وہ علم اور کردار کے ذریعے آنے والی نسلوں کے لیے مثال بنیں گے۔ والدین کو بھی اس بات پر مبارکباد دی کہ وہ ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو پاکستان اور امتِ مسلمہ کے لیے باعثِ فخر بنے گی۔ اختتام پر دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ سب کو علم، حکمت، اعلیٰ کردار اور اخلاص کی دولت سے نوازے، ملک و ملت کے لیے مفید بنائے، ہمیں ہر قسم کے فتنہ و فساد سے محفوظ رکھے اور ہمیں سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کو اپنا کامل رہنما بنا کر دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین


























تبصرہ