تحریک منہاج القرآن کراچی کے زیراہتمام استقبال ربیع الاول کانفرنس

(ایم ایس پاکستانی)

تحریک منہاج القرآن کراچی، سندھ کے زیراہتمام استقبال ربیع الاول کانفرنس مورخہ 28 فروری 2009ء کو ریجنٹ پلازہ میں منعقد ہوئی۔ جس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب ہوا اور کیو ٹی وی کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا۔ پروگرام کی صدارت کیو ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو حاجی عبدالرؤوف نے کی۔ جبکہ تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، ڈاکٹر خواجہ محمد اشرف تاحیات چیئرمین جامع مسجد رحمانیہ کراچی، احمد ندیم ہاشمی منہاجین، کراچی کے مفتی رحیق الحسن، قیصر اقبال قادری اور دیگر مرکزی قائدین تحریک منہاج القرآن بھی معزز مہمانوں میں شامل تھے۔ اس کے علاوہ امیر تحریک منہاج القرآن کراچی حاجی محمد اقبال، صدر پاکستان عوامی تحریک کراچی ڈاکٹر ضمیر، سید محمد ظفر اقبال نائب امیر کراچی، قیصر اقبال قادری نائب امیر کراچی، ڈاکٹر نعیم انور نعمانی، علامہ عطاء محمد فہیم ناظم تربیت کراچی اور دیگر عہدیداران و کارکنان کے علاوہ کثیر تعداد میں خواتین و حضرات نے شرکت کی۔

پروگرام کا آغاز شب گیارہ بجے تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کی بعد نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھی گئی۔ پروگرام کے لیے خوبصورت پنڈال بنایا گیا جس میں نماز عشاء کے بعد تمام نشستیں مکمل ہو چکی تھیں۔ پروگرام میں ہزاروں خواتین و حضرات نے شرکت کی جبکہ کیو ٹی وی کے ذریعے دنیا بھر کے ناظرین اس میں شامل تھے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے "محبت" کے موضوع پر خطاب کیا۔ آپ نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے بڑھ کر محبت ہی ایمان اور راہ نجات ہے۔ آپ نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ایمان کی پہلی علامت ہے۔

آپ نے حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث) کی گردن اڑا دوں، فرمایا : رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے۔ لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہو گا اور تیر (جانور کے ) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہوگا)۔‘‘

اب بتائیے کہ کس شے نے ان کو دین اور ایمان سے خارج کیا۔ ان کا عمل تو بہت زیادہ اور اتنا زیادہ تھا کہ آقا علیہ السلام نے صحابہ کرام کو فرمایا کہ تم کو اپنی عبادات ان سے کم لگیں گی۔ لیکن ان کی ظاہری وضع قطع اور عمل ان کو شریعت سے خارج کرنے سے نہ بچا سکی۔ کس شے نے اسے دین اور ایمان سے خارج کر دیا۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ کل کتب احادیث اٹھا کر دیکھ لیں کہ ایک شے تھی جسے اس نے دین سے خارج کر دیا، وہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی اور گستاخی تھی۔ محبت کرنے والا تو محبوب کے کتوں کو بھی چومتا پھرتا ہے۔

یہ ایک فتنہ ہے جو سر اٹھا رہا ہے۔ نہ عمل کی اہمیت سے محبت کی نفی کی جائے اور نہ محبت سے عمل کی نفی کی جائے۔

صحیح بخاری کی حدیث ہے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں ایک صحابی عبداللہ بیٹھا کرتے تھے۔ ان کے پاس عمل کی کمی تھی لیکن محبت بہت زیادہ تھی۔ اس کا کام صرف اتنا تھا کہ سارا دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکتا رہتا تھا اور وہ سارا دن دیکھتا کہ سارا دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگ اپنے مسائل پیش کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنساتا کوئی نہیں۔ اس پر وہ آقا علیہ السلام کو تھوڑی دیر بعد ایک لطیفہ سناتا جس سے حضور صلی اللہ وآلہ وسلم کی طبعیت مبارکہ ریلیکس رہتی۔ اس صحابی میں ایک خرابی بھی تھی کہ اس نے کوئی گناہ کبیرہ کر لیا کہ اسے کوڑوں کی سزا دی گئی۔ اس کو بار بار گناہ کبیرہ پر کوڑوں کی سزا ملی۔ ایک روز مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ اس صحابی عبداللہ کی بات چل پڑی تو کچھ صحابہ نے اس پر لعنت بھیجی۔ ابھی اتنی بات ہی ہوئی تھی کہ اچانک آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی سے باہر تشریف لائے اور لعنت کا سن کر فرمایا خبردار: "اس (صحابی عبداللہ) پر لعنت نہ بھیجنا۔ خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے۔

علامہ ابن تیمیہ نے اس حدیث کو ایمان کی تعریف میں لیا۔ انہوں نے اس حدیث کے مفہوم سے لب لباب نکالا ہے کہ اعمال کی کمی کے باوجود کوئی شخص مصطفیٰ سے محبت کرتا ہے تو بندہ مومن رہے گا اور وہ ایمان سے خارج نہیں ہوگا۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ادھر کثرت اعمال محبت مصطفیٰ کی علامت نہیں ہے۔ اگر محبت کے ساتھ عمل مل جائے تو وہ کامل ہو جاتی ہے لیکن اگر عمل نہ ہو تو وہ ناقص رہتی ہے۔ اگر عمل کے پہاڑ موجود ہوں اور محبت نہ ہو تو وہ بندہ دین اور ایمان سے خارج ہو جاتا ہے۔

خدا اور مصطفیٰ ذات میں دو ہیں لیکن نسبت میں ایک ہیں۔ ذات میں دو ہیں حکم میں ایک ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مصطفیٰ کو راضی کرنا خدا کو راضی کرنا اور رضائے مصطفیٰ و رضائے خدا ایک ہی نام ہے۔

الصارم المسلول میں علامہ ابن تیمیہ نے فصل کا عنوان قائم کیا کہ اللہ نے اپنے اور اپنے رسول کے لیے ایک ضمیر استعمال کر دی اور فرق بھی مٹا دیا۔ ایک اور مقام پر علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ مصطفیٰ کے بغیر مخلوق کا خالق تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔

اللہ اور اس کے رسول کا تعلق محبت پر قائم ہے۔

آپ نے کہا کہ کوئی شخص اس وقت مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے نبی کو جان سے بڑھ کر محبت نہ کرے۔ قرآن مجید نے یہ معیار مقرر کر دیا کہ ذات مصطفیٰ سے اس حد تک قرب ہو تو بندہ مومن ہے۔ اس طرح حدیث مبارکہ کا بھی مفہوم یہی ہے کہ تم میں سے اس وقت کوئی بندہ مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت نہ کرے۔

آپ نے کہا کہ امت کو آج دونوں سمتوں میں اعتدال کے ساتھ چلنا چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ساتھ لے کر چلتے تھے اور دوسری جانب آل اطہار، امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کو کندھوں پر بٹھا کر چلتے۔ امت کو سوچنا ہو گا کہ ہمیں دونوں سمتوں میں اعتدال رکھنا چاہئے، مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کرنی چاہیے بلکہ دونوں کی محبت ہی اصل ایمان ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو فرمایا کہ اے عمر تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم مجھ سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت نہ کرو۔ اس کے بعد حضرت عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے ایک جملے نے میری کائنات بدل دی اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر اب مومن کامل ہو گئے۔ پھر کہا کہ یارسول اللہ اب مجھے ہر شے سے بڑھ کر آپ سے محبت ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ امت مسلمہ آج عمل میں کمی کی وجہ سے مار کھا رہی ہے۔ برتاؤ میں اچھی نہیں، اس وجہ سے ذلیل ہو رہی ہے۔ اخلاق کی وجہ سے مار کھا رہی ہے لیکن سن لو کہ یہ تمام اعمال بعد میں آئیں گے جب تک آپ کا آقا علیہ السلام سے محبت کا رشتہ قائم نہ ہوا تو اس وقت تک بیڑہ پار نہیں ہوگا۔ آج مغربی دنیا میں آپ سے امور اور اخلاقیات لاکھوں درجے بہتر ہیں۔ اس طرح آپ عبادات پر آ جائیں تو ذوالخویصرہ کی عبادات سب سے زیادہ تھیں لیکن جب تک محبت مصطفیٰ کا رشتہ پختہ نہیں ہوگا، اس وقت تک بات نہیں بنے گی۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک اپنے چاہنے اور محبت کرنے والوں کو جانتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں۔ کتاب فضائل الصحابہ میں امام مسلم نے بیان کیا، حضرت ابوھریرہ سے مروی ہے کہ ایک دیوانہ حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ تھے۔ وہ عمر بھر نہ مدینہ آئے اور نہ ہی آقا علیہ السلام یمن کے گاؤں قرن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا کہ یمن کے گاؤں قرن میں ہمارا ایک عاشق رہتا ہے، وہ اپنی ماں کی تیمار داری کی وجہ سے مدینہ نہیں آ سکے۔ انہیں ملنے کے لئے ضرور جانا اور دعا کروانا۔ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ جب تم ان سے ملو تو ان سے میری امت کی بخشش کی دعا کروانا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو ایک ولی کی طرف دعا کے لیے بھیجا۔

صحیح مسلم میں ہے کہ حج کے دن تھے۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حرم مدینہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب لوگ ہٹ جاؤ اور یمن کے لوگ آگے آ جاؤ۔ پھر یمن والوں سے کہا کہ اب تم میں سے قرن والے آگے آ جاؤ۔ پھر آپ نے کہا کہ تم میں سے کوئی اویس بھی ہے۔ قبیلے والے بولے کہ اویس نامی بندہ ہمارے قبیلے سے تو ہے لیکن وہ تو دیوانہ سا ہے۔ عرض کیا کہ اسے ہی آگے آنے دو۔ اس سے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا تماری والدہ بیمار ہے؟ اویس قرنی اس نے عرض کی جی بیمار ہے۔ پھر آپ نے اس کے ہاتھ کی نشانی بھی دیکھی اور حرم کعبہ میں کھڑے ہو کر عرض کی کہ اویس ہمارے لیے دعا کرو۔

پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر یمن کے گاؤں قرن میں حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کی زیارت کے لئے گئے اور ان سے دعا کروائی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمل ہر کوئی کرتا ہے، نمازیں ہر کوئی پڑھتا ہے لیکن قیامت تک میری امت کے لوگ آتے رہیں گے۔ وہ مجھ سے شدید محبت کریں گے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا مجھے اس رب کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، مجھ سے شدید محبت کرنے والوں کی یہ خواہش ہو گی کہ مولا ہمارا گھر، مال و متاع سب لے لے اور بھلے ہم لٹ جائیں لیکن محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک زیارت دے دیں۔ ان کی نشانی یہ ہو گی۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی نسبت کا تذکرہ عمل سے نہیں بلکہ محبت سے کرتے ہیں۔

ایک صحابی آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں آئے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں۔ پھر بولے میں آپ سے اپنے پیارے پیارے چھوٹے بچوں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں۔ آقا میں گھر میں بیٹھا ہوتا ہوں، آپ کی یاد ستاتی ہے تو پھر صبر کا دامن چھوٹ جاتا ہے، گھر سے آپ کی گلیوں میں آ جاتا ہوں اور تکتا ہوں کہ آپ گھر سے باہر تشریف لائیں تو میں آپ کو دیکھ سکوں۔ ہر کوئی اس انتظار میں ہوتا کہ محبوب کب گھر سے باہر تشریف لائیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکھڑے کی زیارت کر سکیں۔ اس صحابی نے کہا میں سوچتا ہوں کہ جب میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا۔ جنت میں محبوب ہم آپ کو دیکھنے کہاں جائیں گے کیونکہ آپ تو بہت بلند مقام پر ہوں گے۔ ہم وہاں کیسے جا سکیں گے۔ اس سوال کا جواب آقا علیہ السلام نے نہیں دیا بلکہ اسی وقت جبرئیل علیہ السلام آئے اور سورہ نساء کی آیت 69 اتری۔

وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًاO

اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo‬

ایک صحابی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آیا اور اس نے عرض کی یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بتا تو نے قیامت کے لیے تیاری کیا کی ہے؟ اس صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے لیے اعمال کا زیادہ ڈھیر میرے پاس نہیں ہے۔ نمازوں کی کثرت اور روزے بھی بہت سے جمع نہیں کر سکا۔ اعمال کا خزانہ میرے پاس جمع نہیں ہے لیکن یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں۔ آقا علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ مبارک ہو جس کے ساتھ تمہاری محبت ہے قیامت کے دن اسی کے ساتھ کھڑے ہو گے۔

متفقہ علیہ حدیث ہے کہ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں۔ قبول اسلام کے بعد صحابہ کرام کو اتنی خوشی کسی دن نہیں ہوئی، جتنی اس دن اس حدیث کو سن کر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق وہ رکھو جس میں محبت ہو۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ لاکھوں ذخیرہ حدیث میں سے مجھے کوئی شخص ایک حدیث ایسی دکھا دے جس میں آقا علیہ السلام نے کبھی کوئی بات صحابہ کرام سے پوچھی ہو تو انہوں نے کہا ہو کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ یہ کہتے کہ "واللہ و رسولہ اعلم"۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ جو شخص مجھے کوئی ایک حدیث مبارکہ ایسی دکھا دے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب صرف "واللہ اعلم" دیا ہو تو میں اپنی تصیحیح کر لوں گا۔ آپ نے کہا کہ ہم روز مرہ معاملات میں کسی بات کا علم نہ ہونے پر جواب دیتے ہیں کہ "یہ اللہ ہی بہتر جاننا ہے۔" شیخ الاسلام نے کہا کہ یہ پاکستانی و ہندوستانی عقیدہ ہے یہ صحابہ اور مکہ و مدینہ کا عقیدہ نہیں۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ قرآن پاک میں ایک آیت کریمہ بھی ایسی نہیں ہے جہاں اللہ تعالی نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے بغیر اپنی اطاعت کی بات کی ہو۔ آپ نے کہا کہ قرآن پاک میں 42 مقامات ایسے ہیں جہاں اطاعت کا حکم آیا۔ ان 42 مقامات میں سے 22 مقامات پر "اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت" کا حکم ایک ساتھ آیا ہے۔ باقی 20 مقامات ایسے ہیں جہاں صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔‬ آپ نے کہا کہ اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اطاعت الٰہی کا ذریعہ اور اصل ایمان ہے۔ تحریک منہاج القرآن اس پیغام کو دنیا بھر میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے عام کر رہی ہے۔

پروگرام کا اختتام شب دو بجے صلوٰۃ السلام سے ہوا جس کے بعد باقاعدہ اختتامی دعا بھی مانگی گئی۔

تبصرہ

Top