دہشت گرد خوارج کا ایک تسلسل ہیں : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

اے آر وائی ون ورلڈ نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا۔ انٹرویو معروف میزبان پی جے میر نے اپنے پروگرام "کیو اینڈ اے" میں 2 فروری 2010ء کو نشر کیا۔ اس انٹرویو کے مندرجات پیش ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ آج اسلام اور بالخصوص پاکستان سے دہشت گردی کو جوڑا جا رہا ہے۔ لیکن دہشت گردی ایسا درخت نہیں ہے جو ایک ہفتے یا دو چار دنوں میں تناور ہو گیا ہو۔ پاکسان میں دہشت گردی کی ابتداء 30 سال قبل ہوئی تھی۔ دوسری جانب دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردی کی الگ ایک طویل تاریخ ہے۔ انتہاء پسندی، مذہبی تنگ نظری اور فرقہ واریت یہ اس کی زمین تھی، جہاں دہشت گردی کا بیج بویا گیا اور اسکی آبیاری کی گئی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں زیادہ عرصہ جمہوری حکومتیں نہیں رہیں۔ دوسری جانب جو حکومتیں عوامی نمائندہ نہیں تھیں، انہیں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے اور اسے طول دینے کے لیے کچھ اسباب چاہییں تھے۔ کچھ اسباب ان کو بڑے اداروں پر قبضہ کر کے میسر آگئے اور کچھ پارلیمنٹ کی خودمختاری کو منسوخ کر کے حاصل کر لیے۔ کچھ اسباب انہوں نے بنیادی انسانی حقوق کو منسوخ کر کے اور آئین کو معطل کر کے حاصل کر لیے۔

ان حکومتوں نے دو کام کیے، ایک یہ کہ اس دور میں افغان وار شروع تھی جو روس سے آزادی کے لئے افغان جہاد کے نام سے لڑی جا رہی تھی، دوسری جانب بین الاقوامی طاقت امریکہ کی سرد جنگ آخری مراحل میں تھی اور وہ ورلڈ پاور بننے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ وہ روس کو ختم کر کے اس خواب کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ لہذا اس نے جہاد کرنے والوں کو اسلحہ دیا، وسائل دیئے اور روسیوں کے اقتدار کو خطے سے ختم کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین کو بالواسطہ استعمال کیا۔ جہاد کے نام پر جنگ لڑنے کے بعد روس سے افغانیوں کو نجات ملی جبکہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کا اس میں مفاد یہ تھا کہ روس کو یہاں سے بھگا دیا جائے اور وہ اپنا مفاد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس معرکے کے بعد امریکہ افغانستان سے تو چلا گیا لیکن جنگ لڑنے والے وہیں موجود رہے۔

سالہا سال سے جن لوگوں کو اسلحہ ملا، ان کے پاس جنگ کے علاوہ کوئی دوسری صلاحیت نہ تھی۔ نہ ان کے پاس علم تھا، نہ عالم، نہ سکالر، نہ سائنسدان، نہ ٹیکنالوجسٹ، نہ انجینئر، نہ وہ پروفیسر تھے اور نہ ہی کوئی دوسری فنی تکنیک ان کے پاس تھی، وہ صرف جنگجو تھے۔ اس کام کو جاری رکھنے کے لیے انہیں کچھ عرصہ کے لیے تو کشمیر کا جہاد میسر آ گیا۔ جب ان کے پاس وہ بھی نہ رہا تو وہ ملک کے اندر آ کر پھلتے پھولتے رہے۔ دریں اثناء پاکستان میں اندرونی سیاست کے لیے غیر جمہوری قوتوں کو کچھ ایسے عناصر درکار تھے جو برین واش ہوں۔ اس کے لیے سیاسی و لسانی اور مذہبی فرقہ وارانہ بیناد پر انہیں جنم دیا گیا۔ ایسے دہشت گرد عناصر کو غیر ملکی امداد ملتی تھی، انڈیا سے وسائل آتے تھے اور خفیہ ایجنسیاں اور بین الاقوامی طاقتیں بھی انہیں سپانسر کرتی تھیں۔ اس وقت یہ ملک کے اندر شیعہ سنی کے نام ایک دوسرے کے گلے کاٹتے رہے۔ جہاں ان کی ضروت ہوتی تو ملک میں انارکی پھیلا دیتے۔ ایک وقت آیا تو وہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کو ہی سیدھا ہونے لگے تو اس وقت انہیں دبا دیا گیا، جس سے وہ دہشت گرد طبقہ اور گروہ انڈر گراؤنڈ چلا گیا۔ پھر انہیں جب دوبارہ ضرورت پڑی تو انہیں پھر دہشت گرد بنا دیا۔ یہ ایک چوہے بلی کا کھیل ہے جو پچیس سال تک چلتا رہا۔

ان میں سے لوگ دہشت گرد، شدت پسند اور انتہاء پسند بن گئے۔ یہ جہاد اسلامی، امت مسلمہ، امریکہ کی مخالفت کے نام پر قتل و غارت کرنے والے تمام گروہ ایک چھتری کے نیچے آ گئے، جن کو طالبان، القاعدہ اور جو بھی نام دیں۔ فوجی اور جمہوری حکومتوں میں ان عناصر کو ایڈہاک بنیادوں یعنی عارضی طور پر ڈیل کیا گیا۔ جب ان کی ضرورت پڑی تو ان کو الیکشن لڑا کر پارلیمنٹ تک پہنچا دیا گیا۔ جب ضرورت پڑی تو ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کر دیا گیا۔ یہ پاکستان، پاکستانی معاشرے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔

جنرل مشرف کے دور میں ان کے نام پر دوہری پالیسی بنائی گئی۔ ایک طرف ان کے نام پر بیرونی دنیا سے وسائل اکھٹے کیے جاتے رہے۔ ان کو ختم کرنے کے لیے ملنے والے فنڈ ان میں بھی تقسیم کیے گئے۔ دوسرا ان کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دے دی گئی۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ ایک وقت تھا کہ دہشت گرد چھوٹے چھوٹے سانپ کے بچے تھے، اب وہ پل کر اژدھا بن گئے ہیں، لیکن اب بھی ان کا خاتمہ ناممکن نہیں ہے۔ اگر ان کے خلاف پالیسی میں تسلسل ہو تو یہ اب بھی ختم ہو سکتے ہیں۔ ان کے آخری فرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہنا چاہیے۔

دوسری بات یہ کہ آئندہ پالیسی طے کر لی جائے کہ اس ملک میں دہشت گردوں، انتہاء پسندوں اور فرقہ پرستوں کو آپ رکھنا چاہتے ہیں کہ نہیں۔ خدا کے لیے، پاکستانی عوام کو اب سیاسی جہنم سے نکال لیں۔ خواہ وہ فوجی حکومت ہے یا جمہوری، اس کی پالیسی میں تسلسل ہے۔ حکومت کو یہ سوچنا ہے کہ آپ کے پاس اپنی آزادی نہیں ہے، آپ نے لالچ اور دو دو ٹکے کے بدلے قومی غیرت کو بیچ دیا۔ قومی وقار کو داؤ پر لگا دیا۔ ملکی سالمیت اور ملک کے کرڑوں عوام کے امن و سکون کو فروخت کر رکھا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ان دہشت گردوں کو ختم کرنے کی پالیسی بنا کر اس پر مکمل عمل کرے۔

تیسرا یہ ہے کہ ملک میں غربت کا خاتمہ اور تعلیم کو سستا ہونا چاہئے۔ ملک میں تعلیم، کاروبار اور تجارت بن گئی ہے۔ پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل کرنا بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ اس کے برعکس پنجاب، سرحد اور ملک بھر کے غریب عوام اپنے بچوں کو پھر ان مدارس میں ہی بھیجیں گے، جہاں کھانا مفت ملتا ہے، رہائش مفت ملتی ہے اور اس کے بعد جو تعلیم ملتی ہے اس کی کسی کو فکر نہیں ہے۔ والدین کو یہ ڈر نہیں ہے کہ ان کا بچہ کیا بن رہا ہے، انتہاء پسند بن رہا ہے یا عالم بن رہا ہے۔ والدین کو اس کا شعور ہی نہیں ہے۔ اس کمی کو ختم کرنا ہوگا، وہاں روز گار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔ وہاں سے انڈسٹری کو فروغ دینا ہوگا۔ ملک سے فیوڈل ازم ختم کر کے دولت بانٹنے کا عمل شروع کیا جائے۔ جب تک حکمرانوں کی ترجیحات نہیں تبدیل ہوں گی، تو اس وقت تک یہ فتنہ کلیتاً ختم نہیں ہو سکتا۔

ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو نظام تعلیم تبدیل کرنا ہوگا۔ آج سے ہزار سال پہلے برصغیر میں مدارس اور جدید تعلیم الگ الگ نہیں تھے، لیکن دو سو سال سے یہ نظام تعلیم الگ الگ ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے جو نظام تعلیم موجود تھا، اس سے غزالی بھی نکلتے تھے اور فارابی بھی بنتے تھے۔ وہیں سے ابن الہیثم نکلتا تھا، وہیں سے جابر بن حیان، امام سیوطی، جابر بن حیان، فخرالدین رازی اور اشعری جیسے نکلتے تھے۔ ایک ہی ایجوکیشن سسٹم کا کمال تھا لیکن اوپر جا کر سکالر تخصص کی فیلڈ چن لیتے، وہیں سے کوئی مفسر بنتا، کوئی فقہیہ بنتا، کوئی مفکر بنتا، کوئی سائنسدان بنتا، کوئی ابن سینا بنتا، کوئی سرجن بنتا اور کوئی طبیب بنتا تھا۔ ہمارے ہاں دو سو سال سے دین، مذہب کے دائرے میں بند کر کے مدرسہ کو دے دیا۔ اب ان کے پاس نماز کا، روزے کا، حج کا، زکوۃ کا، طلاق کا، جنازے کا اور ختم درود کے علاوہ کوئی دوسرے مسائل ہی نہیں بچے۔ دوسری جانب تمام جدید علوم یونیورسٹی اور کالج کو دے دیئے۔ دنیا بھر میں سوشیالوجی، ہیومن سائنسز، سوشل سائنسز، پولیٹکل سائنسز، ماڈرن سائنسز، کمپیوٹر سائنسز اور تمام جدید علوم کے حامل لوگوں کو دین کی الف ب کا علم نہیں ہے۔ دوسری جانب مدرسہ پڑھنے والوں کو جدید علوم اور دنیا کی الف ب کا پتہ نہیں ہے۔ یہ دو انتہائیں اور متضاد ذہن پیدا کر دیئے گئے ہیں، جو ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ آج ان دونوں علوم کو یکجا کرنا ہوگا تا کہ طالب علم دین کو بھی سمجھے اور جدید علوم کو بھی جانتا ہو۔ اس سے وہ دنیا کے عملی کاموں میں شامل ہو گا۔ آج مدرسہ پڑھنے والا تنہائی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ دوسری جانب موڈرن تعلیم حاصل کرنے والے دین سے نفرت کرتے ہیں، ان کو غیر مسلم کے حقوق، روز مرہ معاملات، اسلام کے جمہوری حقوق، اسلام کے سفارتی آداب اور اسلام کے سائنسی نظریات کا علم ہی نہیں ہے۔ انہیں اسلام کے پارلمینٹرین تصور کا پتہ ہوگا تو وہ مسلمان پاکستان اور اسلام کی حفاظت کا ضامن بن سکے گا۔

ایک سوال کے جواب میں آپ نے کہا کہ اسلام، جہاد اور قرآن کا نام لے کر دوسروں کو مارنے والے، بے گناہ اور معصوم جانوں کو قاتل مسلمان نہیں ہیں۔ ایسا کرنا قطعی طور پر کفریہ فعل ہے۔ اسلام، سلم سے نکلا ہے جس کا معنی ہی سلامتی ہے۔ دوسرا لفظ ایمان ہے، جو امن سے نکلا ہے۔ اس کا معنی بھی امن، سلامتی اور عافیت ہے۔ مومن کا معنی یہ ہے کہ جو دوسرے کو سلامتی اور امن دے۔ اسی طرح احسان ہے، اس کا معنی ہے ہر نیک و بد کے ساتھ بھلائی کرنا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں ایک شخص کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ حدیث صحیح بیان کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ اللہ رب العزت کے نزدیک ایک مسلمان کو قتل کرنے سے بہتر یہ ہے کہ زمین و آسمان کی ساری کائنات کو تباہ کر دیا جائے۔ اگر ساری دنیا ملکر بھی ایک انسان کو قتل کر دیں، تو اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص کے قتل کے بدلے میں ساری کائنات کو جہنم میں ڈال دوں۔

آپ نے کہا کہ اسلام میں غیر مسلموں کو قتل کرنے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ آپ جنگ میں غیر ملکیوں کو قتل نہیں کر سکتے۔ سفارتکاروں، راہبوں، عیسائی مبلغین، بوڑھوں، عورتوں، تاجروں، کاشتکاروں، صنعت کاروں، ورکرز اور رات سوئے ہوئے لوگوں کو قتل نہیں کر سکتے۔ اسی طرح مویشوں کو نہیں مار سکتے، فصلوں اور املاک کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کو لکھ کر یہ ہدایات دیتے اور صحابہ کے دور میں یہ پالیسی کے طور پر ہدایات جاری ہوتیں۔ لہذا آج جو شخص اسلام کا نام لیتا ہے اور وہ دوسروں کو قتل کرتا پھر ر ہا ہے تو پھر آپ خود اندازا کر لیں وہ مسلمان ہو سکتا ہے۔ دہشت گرد کا طبقہ خوارج کا ایک تسلسل ہے۔ یہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں فکری طور پر منظم ہوئے اور پہلی بار سر زمین مدینہ پر انہوں نے تلوار اٹھائی۔ اس کے بعد انہوں نے عملی طور پر سیدنا مولا علی شیر خدا کے دور میں منظم ہوئے۔ انہوں نے حرورہ کے میدان میں اپنا درالحکومت بنایا۔ اُس وقت بھی ان کا نعرہ یہ تھا کہ ہم زمین پر اللہ کا حکم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت انہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو کافر قرار دے دیا۔ ان کا نعرہ تھا کہ ہم کفر، بدعت اور شرک ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اللہ کے حکم کے نفاذ کے لیے لڑ رہے ہیں۔ یہ خون کو پانی کی طرح بہاتے۔ آپ نے خوارج کے حوالے سے بتایا کہ بعض لوگ صرف یہی تصور کرتے ہیں کہ خوارج صرف وہ لوگ تھے جو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں آئے۔ آپ نے کہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ خوارج قیامت تک مختلف شکلوں میں منظم ہو کر ظاہر ہوتے رہیں گے۔ یہ ان کی تحریک کا تسلسل ہے جو آج بھی جاری ہے۔ قیامت کے دن ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔

آپ نے کہا کہ اس پر چاروں مذاہب کا اجماع ہے کہ اگر حکمران لوگ فسق و فجور میں مبتلا ہیں تو ہم ان کو کافر نہیں کہہ سکتے۔ اگر وہ اسلام کے خلاف اعلان جنگ نہیں کرتے اور اسلام اور شعار دین کو بزور بازو روکتے نہیں ہیں تو آپ ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھا سکتے۔ ان کے خلاف پرامن احتجاج تو کیا جاسکتا ہے، لیکن ایسے لوگ جو حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھا کر حملہ کریں اور ان کو کافر سمجھ کر اعلان جنگ کر دیں تو وہ لوگ خوارج کہلائیں گے۔ علامہ ابن تیمیہ تک نے یہ خوارج کی نشانیاں بتائیں۔ اس کے علاوہ خوارج کی بڑی اہم علامت بخاری و مسلم کی حدیث مبارکہ میں ہے۔ آج سے پندرہ صدیاں پہلے آقا علیہ السلام نے یہ نشانی بتا دی کہ دہشت گرد طبقہ کم سن نوجوان ہوں گے، یہ حملے کریں گے، یہ برین واش ہوں گے۔ انہیں جہاد کے نام، جنت کے نام پر اور کفر کے خلاف ورغلانہ بڑا آسان ہوگا۔ آج ایک غربت اور بے روزگاری بھی ہے۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ مر تو ویسے ہی جانا ہے، روزگار بھی نہیں ہے۔ روزگار تو سارا اسلام آباد والے لے گئے، اس لیے جنت تو لے لیں۔ کیوں نہ جنت اور شہادت کے لیے مریں، یہ ان کا تصور ہوگا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ ان کا خاتمہ ایسے کر دیا جائے جیسے اللہ تعالیٰ نے قوم عاد اور قوم ثمود کا خاتمہ کر دیا تھا۔ یہ ہیں وہ لوگ، جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے سوال پر آپ نے کہا کہ اگر حکومت دہشت گردوں کے کلیتاً خاتمے کے لئے آج بھی کام شروع کر دے تو یہ تاخیر نہیں ہوگی۔ اس کے لیے انٹرفیتھ ڈائیلاگ یعنی بین المذاہب ہم آہنگی کو ملک بھر میں جاری کرنا چاہیے۔ اس کو انٹر فیتھ بھی ہونا چاہیے اور انٹرا فیتھ بھی ہونا چاہیے۔ غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ مسلمانوں کا انٹرفیتھ ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔ آپ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف فتوی، جو اب 600 صفحات کی کتاب بن چکا ہے۔ یہ اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان پیدا ہونے والے مغالطوں کو دور کر دے گا۔ اس میں سمجھایا گیا ہے کہ اسلام ہیومن رائٹس، جمہوریت، انسانی حقوق، رواداری اور ساری انسانیت کی بھلائی و خوشحالی کا دین ہے۔ جس میں دہشت گردی کا کوئی تصور ہے ہی نہیں۔

آپ نے کہا کہ 16 ویں صدی سے 20 ویں صدی تک یورپ میں جو لٹریچر جمع ہوا، وہ اسلام کے خلاف زہر اگلتا تھا۔ یہ اثر کولڈ وار کا تھا، صلیبی جنگوں کا تھا۔ پھر مغرب میں ایک سو سال کے اندر لوگوں کی سوچ غیرجانبدارانہ ہونا شروع ہوئی۔ اسلام کے خلاف پراپیگنڈا ختم ہوتا گیا۔ لیکن اب پھر گزشتہ بیس سال سے جو دور سامنے آیا ہے، اس نے ہمیں دوبارہ صلیبی جنگوں والی صدی میں پہنچا دیا ہے۔ آج اس کا علاج انٹر فیتھ ڈائیلاگ ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے بغیر یہ تضادات ختم نہیں ہو سکتے۔ اس کے لیے ملک کے اعلیٰ سطحی اور کلیدی عہدے رکھنے والے لوگوں اور مقتدر حلقوں کو کام کرنا ہوگا۔ انہیں مغربی دنیا اور اسلام مخالف قوتوں کو بتانا ہوگا کہ انہیں مغرب کو اسلام کے خلاف اپنی دوہری پالیسی ختم کرنا ہوگی۔ UN کی سطح پر، یورپین یونین کی سطح پر اور امریکہ کی سطح پر اسلام کے خلاف پائے جانے والے پراپیگنڈے کو دور کرنا ہوگا۔ اس انداز کی کوششیں اسلام کی نشاۃ ثانیہ بن سکتی ہیں۔ اس کام کے لیے او آئی سی کے اجلاس بلائے جائیں، جس میں ایران، پاکستان، سعودی عرب، اردن، ملائیشیا، انڈونیشیا اور دیگر بااثر اسلامی ممالک کو یکجا کیا جائے۔ او آئی سی کے اندر کمیٹی بن جائے، جس میں باصلاحیت، علم رکھنے والے اور اسکالر لوگ شامل ہوں، جو ساری دنیا کے سامنے اسلام کے روشن چہرے کو پیش کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہوں۔

اس طرح پھر ملک کے اندر بھی ایک ایسے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جو پاکستان میں فرقہ واریت کو ختم کر دے۔ آج ملک سے دیوبندیت، وہابیت، بریلویت اور شیعیت کے بتوں کو پاش پاش ہونا چاہیے۔ یہ بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں اور ایک دوسرے کو کافر نہ سمجھیں۔ ایک دوسرے کے ہاں ان کے وفود جائیں۔ حکومت پاکستان کے وسائل اور اوقاف کے وسائل ایسے کاموں پر خرچ ہوں۔ تمام فرقوں کی یکساں نمائندگی ہونی چاہیے۔ پھر وہ ایک دوسرے کو سمجھیں۔ آج یورپ اور مغربی دنیا میں بھی ان کی اقدار، قوت برداشت اور ایک دوسرے کے مذہب کو برداشت کرنے کی ہمت چند سالوں میں پیدا نہیں ہوئی، بلکہ اس کے پیچھے صدیاں ہیں، اس کے پیچھے تعلیم کا ہاتھ ہے۔ یہاں بھی ایسے نظام کی ضرورت ہے۔ اگر پچاس برس نیک نیتی اور دیانت داری کے ساتھ اندرون ملک ہم آہنگی کا عمل جاری رہے تو اس سے اندرونی منافرتیں اور فرقہ وارانہ تعصب ختم ہو جائے گا۔

پاکستانیوں کا بطور قوم رویہ کیا ہونا چاہیے اور پاکستان کا مستقبل کیسا ہوگا؟ اس سوال پر آپ نے کہا کہ ہم ایک قوم کے طور پر ہرگز کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔ اس وقت ملک میں جو حالات ہیں، یہ سیاسی انتہاء پسندی اور سیاسی دہشت گردی ہے۔ کچھ اقدامات سیاسی شدت پسندی اور کچھ سیاسی دہشت گردی ہیں۔ ملک میں سیاسی طور پر برداشت کا کوئی رویہ نہیں ہے۔ جب حکومت کی پالیسیاں ہی قومی ترجیحات پر مشتمل نہ ہوں تو پھر ملک میں خرابی تو ہوتی ہے۔ آپ نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنا کردار ذمہ دارانہ بنانا ہوگا، اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان مزید سیاسی بحران میں گرتا چلا جائے گا۔

پاکستان کیسے ترقی کرے گا، اس سوال پر آپ نے کہا کہ چار چیزیں ہیں، اسٹیبلشمنٹ جمہوریت کو فروغ دے، دوسرا اس ملک سے غربت کا خاتمہ کیا جائے، اس غربت میں مہنگائی، بے روزگاری اور ان سے جنم لینے والی سماجی بیماریاں کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ تیسرا ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی پر مشتمل تعلیم عام کی جائے۔ خاطر خواہ بجٹ تعلیم پر مختص کیا جائے اور جدید تعلیم میں ہم کو مغرب سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے، چوتھا سماجی ترقی ہونی چاہیے، اس کے لیے خواتین اور نوجوانوں کو سوسائٹی کا مؤثر کردار بنایا جائے۔ اس کے علاوہ تاجروں، کاشتکاروں، صنعت کاروں کو مؤثر کردار دیا جائے۔ اس کے علاوہ جو دہشت گرد ہیں ان کو عام شہریوں کے طور پر لیا جائے۔ جمہوریت کے حوالے سے آپ نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، اس حوالے سے ہمارا وژن بہت محدود ہو گیا ہے، ہم صرف انتخابات کو جمہوریت کہتے ہیں۔ اگر صرف الیکشنز کا نام جہموریت ہوتا تو میں الیکشن نہ چھوڑتا۔ اسی طرح پارلیمنٹ ہے، جس میں صرف کرسیاں ہیں جہاں پارلمینٹیرین بیٹھتے ہیں، اگر صرف اسی سیٹ اپ کا نام پارلیمنٹ ہے تو اس وجہ سے میں نے پارلیمنٹ سے اپنی نشست پر ٹھوکر ماری۔ اگر یہ پارلمینٹ واقعی پارلمینٹ ہوتی تو میں اس کو کبھی نہ چھوڑتا۔ یہ صرف عمارتیں ہیں، خوبصورتی ہے۔ اس طرح الیکشن بھی برائے نام ہے۔

ہمیں جمہوری الیکشن سے پہلے سماجی جمہوریت لانا ہوگی۔ اس سے پہلے معاشی جمہوریت نافذ کرنا ہوگی۔ یہ ایک مکمل پراسیس ہے جس کو مرحلہ وار طے کرنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں عالم یہ ہے کہ ایک طرف غریب کو کھانے کے لیے نہیں مل رہا، نوے فیصد افراد غربت کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنی محتاجی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دو وقت کی روٹی پوری کرتے ہیں، وہ الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایک الیکشن کروڑوں روپے لیتا ہے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ اس ملک میں نہ کوئی ٹی وی اینکر پرسن الیکشن لڑ سکتا ہے، نہ کوئی چیف جسٹس اور نہ ہی لائرز الیکشن میں حصہ لے سکتے ہیں۔ ہر رزق حلال کمانے اور کھانے والا شخص اس ملک کا الیکشن لڑنے کے لیے عملی طور پر نااہل ہے۔ آپ نے کہا کہ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں تو وہ برے لوگ ہیں، بلکہ میری بات ملک کے نوے فیصد طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ سو میں سے 2 اور 3 فیصد لوگ ان میں اچھے بھی ہوں۔

آپ نے کہا کہ اس ملک کا پڑھا لکھا طبقہ، ڈاکٹرز، انجینئرز بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ہمارے قریبی ممالک میں جو وزیر بنتے ہیں وہ اپنی فیلڈ میں پی ایچ ڈی ہوتے۔ ہمارے ہاں باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہمارے ملک میں بیورو کریٹس ہیں، اس ملک میں سبجیکٹ کو جاننے والا الیکشن نہیں لڑ سکتا اور جس کو کسی بات کا علم ہی نہیں ہے، ان کو وزارتیں مل گئیں۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کو اتنا مہنگا کر دیا گیا کہ جس کے پاس پیسے آئے اس نے اس کو خرید لیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ اس ملک میں 5 فیصد لوگوں نے جمہوریت پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ جو مشکل سے ایک ہزار خاندان بن جاتے ہیں۔ یا یہ 500 خاندان ہوں گے جو اس ملک کی پارلیمنٹ، افسر شاہی، جمہوریت، بیورو کریسی، اسٹیبلشمنٹ اور کلیدی عہدوں پر قابض ہیں۔ اس کے برعکس 95 فیصد لوگ وہ ہیں، جو ان کو ووٹ ڈالتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ ملک میں انتخابات کا عمل ایسا سستا ہو کہ اس میں پی جے میر، ڈاکٹر شاہد مسعود، حامد میر اور اس طرح کا پڑھا لکھا طبقہ بھی الیکشن لڑ سکے۔

آپ نے کہا کہ پارلمینٹ میں دو سال سے سن رہا ہوں کہ سترہویں ترمیم ختم کر دیں گے، 58 ٹو بی ختم کر دیں گے، پارلیمنٹ کو بااختیار بنا دیا جائے گا۔ تعجب کی بات ہے کہ ہر روز یہ گفتگو ہوتی ہے لیکن یہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے کہ کب اس پر عمل ہوگا۔ یہ "گے" کا لفظ تو قیامت تک چلے گا۔ اب عدلیہ آزاد ہوئی ہے تو جمہوریت کا حصہ ہے۔ آپ نے کہا کہ پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ پارلیمنٹ ہے، ایوان صدر نہیں ہے۔ آپ ہر برے کام میں امریکہ کی پیروی کرتے ہیں لیکن اچھے کاموں میں امریکہ کی پیروی نظر نہیں آتی۔ امریکی صدر سینٹ کے پراسیس کے بغیر کسی سپریم کورٹ کے جج کو مقرر نہیں کر سکتا۔ اگر اتنی بڑی طاقت ایسا فیصلہ کر لے تو اس کو سپریم کورٹ کالعدم قرار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ ان کا قانون اور قانون کی حکمرانی ہے۔

آپ نے کہا کہ آج ملکی اداروں میں ایسے لوگ رکھے ہوئے ہیں، جو حکمران طبقے کے ملازم اور محتاج ہیں۔ وہ ملک کو انصاف کیا دیں گے۔ آج ملک میں گندم، چینی کا بحران ہے۔ یہ بحران مصنوعی ہے کہ قانون بنانے والے وہ خود ہیں۔ ان کے خلاف کوئی غریب آواز نہیں اٹھا سکتا۔ اس طرح ملک میں تعلیم کا رونا رویا جا رہا ہے۔ تعلیم اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ غریب آدمی اس کے حصول کے لیے سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ ایجوکیشن میں اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے، جب تک لڑیسی ریٹ سو فیصد نہیں ہوگا۔ ملک میں نصف سے زیادہ آبادی خواتین کی ہے۔ ان کے پاس کچن کی جاب کے علاوہ کچھ اور کرنے کو ہے ہی نہیں۔ یہ ملک کے چاروں پہیے ہیں، ان کو جب تک کوئی صحیح ڈرائیور نہی کرے گا، اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

خارجہ پالیسی کے حوالے سے آپ نے کہا کہ پاکستان کی فارن پالیسی 50 کی دہائی میں ایسی ڈگر پر چلی گئی جس نے ہمیں ایک بلاک میں ڈال دیا۔ ہم ایک بلاک میں جا کر دوسرے ممالک سے قطع تعلق ہو گئے۔ امریکہ کی فارن پالیسی کا ایک اصول ہے کہ وہ نہ کسی کا مستقل دوست ہے اور نہ کسی کا مستقل دشمن۔ امریکیوں کی دوستی ان کے سپریم قومی مفاد پر ہوتی ہے، جب تک ان کا مفاد رہے گا تو اس کے لیے وہ اپنے ہر بالا سے بالا قانون کو بھی مسترد کر دیتے ہیں۔ پھر بین الاقوامی قوانین کی بھی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ جہاں ان کو مفاد نظر آتا ہے تو وہ عارضی دوستیاں بھی کر لیتے ہیں۔ پاکستان اس وقت سے ایک فٹبال بن گیا ہے۔ آج تک پاکستان نے اپنے قومی مفاد میں اپنی خارجہ پالیسی کو حصہ نہیں بنایا، یہ بنیادی ستون ہونا چاہیے تھا۔ آپ نے کہا فارن پالیسی میں دو جہات ہوتی ہیں، ایک علاقائی تعلقات اور دوسرا بین الاقوامی تعلقات۔ انٹرنیشنل ریلیشنز میں پاکستان مکمل طور پر اپنا توازن کھو بیٹھا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ ہم کسی دوسرے ملک کی معاشی مدد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ ہمارا دفاع ناکام ہو جائے گا، ہم ملک نہیں چلا سکیں گے اور ہماری معیشت بیٹھ جائے گی۔ یہ وہ محتاجی ہے جس نے ہماری خارجہ پالیسی میں بھی رخنہ ڈال دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بننے والی فارن پالیسی کبھی بھی خود مختاری کی پالیسی نہیں ہو سکتی۔ بنیادی طور پر آپ نے خود کو کمزور تصور کر کے ہیتھار پھینک دیا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنی بنیادی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگی۔ ہمیں پارٹنرشپ کے طور پر اپنی پالیسی کو رکھنا ہے۔ امریکہ سے ایسی دوستی نہیں رکھنی چاییے کہ وہ ہمارا دشمن بن جائے۔ اس وقت بہترین وقت ہے کہ پاکستان اپنی پالیسی تبدیل کر لے۔ اس وقت امریکہ کے لیے افغانستان کی جنگ بہت مشکل ہو چکی ہے۔ پاکستان اپنی فارن پالیسی کا ریویو کر سکتا ہے۔ جس کے لیے ایک ہمت اور شعور اور وژن چاہیے۔ علاقائی سطح پر ہماری فارن پالیسی کا مرکزی نقطہ ہند دشمنی ہے۔ جب تک ہم اس دشمنی کے چنگل سے باہر نہیں آئیں گے تو اس وقت تک ہم علاقائی سطح پر ترقی نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے ہم ہر وقت خطرے میں رہتے ہیں۔ سارا پیسہ دفاع پر خرچ ہو رہا ہے۔ ہمارا دھیان ادھر لگا ہوا ہے۔ دفاعی بجٹ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ہمیں چین سے دوستی بڑھانی چاہیے اور ایران سے دوستی دوبارہ بحال کرنی چاہئے۔ چین پاکستان کو ہرجائی سمجھ چکا ہے اور ایران پاکستان سے لاتعلق ہو چکا ہے لہذا ہمیں چین اور ایران سے تعلقات کو بڑھانا چاہئے۔ ہندوستان سے ہمیں دشمنی ختم کر لینی چاہیے، ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی بجائے ہم اپنی تعلیم، صنعت، تجارت اور دوسرے امور پر توجہ دیں تو اس سے پاکستان ترقی کر سکتا ہے۔

اس کے علاوہ مسلم ورلڈ سے تعلقات بہتر کرنا ہوں گے۔ او آئی سی کو ہمیں دوبارہ سے زندہ کرنا ہوگا۔ یورپین یونین کی طرح اس کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم مسلم امہ کے اندر بینکنگ، ٹریڈ زون پیدا کریں، اسلامک بینک بنائیں۔ دفاع میں، سائنس اور ٹیکنالوجی میں، معیشت میں آپس کے سمجھوتے کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ مسلم امہ کا مشترکہ فنڈ قائم کیا جائے۔ ایک دوسرے ملک کے اندر مارکیٹس اوپن کریں۔ ہم اپنی پالیسی کو ڈے ٹو ڈے رکھے ہوئے ہیں غریب کی ہنڈیا کی طرح ہیں۔ ہمارے ہاں تو پانچ سالہ پالیسی بھی نہیں بنائی جاتی۔ دوسرے ملک سو سال کی خارجہ پالیسی بناتے ہیں، اس پر ان کے تھنک ٹینکس فیڈ بیک دیتے ہیں، لیکن پاکستان کے کب تھنک ٹینکس بنائے ہیں اور وہ کہاں ہیں؟ مغربی اور یورپی دنیا میں پارلیمنٹس میں ریسرچ ڈیپارٹمنٹس ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا کلچر ہی نہیں ہے۔ ہمارے پارلیمنٹرینز اس لیے ریسرچ نہیں کرتے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں تو پالیسی بننی نہیں ہے، ان کا کام تو صرف ڈیسک بجانا ہے، جو وہ بخوبی کرتے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ ایک مضحکہ خیز نظام ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ان چاروں سطح پر درست کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ہماری خارجہ پالیسی کو ایک نیو سوشو کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔ جس میں ہم تعین کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا بننا چاہتے ہیں؟ اس میں فیصلہ کریں کہ پاکستان آج یہاں کھڑا ہے اور اس کو اگلے دس سال میں اس مقام تک پہنچانا ہے۔ پھر اس کے لیے مرحلے قائم کیے جائیں۔ اگر اس طریقے سے ہم کام کریں تو ان شاء اللہ پاکستانی قوم سے زیادہ ذہین اور باصلاحیت قوم دنیا کے کسی کونے میں نہیں ہے۔ لیکن ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھایا نہیں جا رہا ہے۔ جب ملک سے صلاحیت اور قابلیت قتل ہو جائے گی تو پھر اندازہ کریں کہ اس قوم کا حشر کیا ہوگا؟

مرتب: ایم ایس پاکستانی

تبصرہ

Top