ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی (ص) - نومبر 2009ء

رپورٹ: ایم ایس پاکستانی

تحریک منہاج القرآن کے گوشہ درود کی ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روحانی اجتماع 5 نومبر 2009ء کو منعقد ہوا۔ پروگرام کی صدرات امیر تحریک مسکین فیض الرحمن درانی نے کی۔ ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سینئر نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض، نائب ناظم اعلیٰ رانا محمد ادریس قادری، مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی، راجہ زاہد محمود، سربراہ خدمت کمیٹی گوشہ درود حاجی محمد سلیم قادری، حاجی ریاض احمد اور دیگر مرکزی قائدین تحریک سٹیج پر موجود تھے۔ پروگرام میں پنڈال کا نصف حصہ خواتین کے لیے مختص تھا جہاں خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ملکی حالات کے پیش نظر سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے۔

تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ہونے والے پروگرام کا باقاعدہ آغاز نماز عشاء کے بعد شب 8 بجے ہوا۔ اس موقع پر قاری خالد حمید قادری نے تلاوت قرآن پاک کی سعادت حاصل کی۔ اس کے بعد نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوا جس میں کالج آف شریعہ کے حیدری برادران، یاسر عرفات، شہزاد عاشق، بلالی برادران اور منہاج نعت کونسل نے ثناء خوانی کی۔ نعت خوانی کا یہ سلسلہ شب سوا گیارہ بجے تک جاری رہا، اس دوران سامعین نے جھوم جھوم کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ شیخ الاسلام کا خطاب شب ساڑھے گیارہ بجے شروع ہوا۔ آپ نے بتایا کہ گوشہ درود میں اب تک پڑھے جانےوالے درود پاک کی تعداد 10 ارب 78 کروڑ، 44 لاکھ، 52 ہزار اور 430 ہے۔ جبکہ ماہ اکتوبر میں 23 کروڑ 18 لاکھ، 85 ہزار اور 787 مرتبہ درود پاک پڑھا گیا۔

خطاب شیخ الاسلام

شیخ الاسلام نے "تعلق کیا ہے" کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے آیت مبارکہ تلاوت کی۔

وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ.

اور اپنے رب کا ذکر کیا کریں جب آپ بھول جائیں (الكہف، 18 : 24)

شیخ الاسلام نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا تعلق قائم ہوجائے تو وہ ہر اس دوسرے تعلق کو کاٹ دیتا ہے جو اللہ کے تعلق سے منافی ہو اور جو تعلق بندے کو اللہ کی اطاعت سے دور کر دے۔ آپ نے کہا کہ ہماری زندگی بہت بری قسم کی دوئی کا شکار رہتی ہے۔ اس وجہ سے ہماری روحانی زندگی میں ایک تضاد اور تصادم سا رہتا ہے۔ مثلا ہم زندگی کے ایک گوشے میں اللہ کے ساتھ اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ ہماری طبعیت میں نیکی کا گوشہ ہے۔ دوسری جانب ہماری زندگی میں اللہ کی بندگی کے منافی گوشہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے انسان گمراہی کا شکار ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمیں اس کا شعور نہیں ہوتا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ ہماری طبعیت کے منفی پہلو کی وجہ سے اللہ کی عبادت اور اس کے تعلق کا گوشہ ایک رسم بن جاتا ہے۔ مثلا ہم اللہ کے حضور معمولی سی عبادت کی رسم ادا کرنے پر ہی خوش ہوجاتے ہیں کہ ہم پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں، بڑے اہتمام سے گوشہ درود میں جاتے ہیں، بڑی شان سے گیارہویں شریف کراتے ہیں۔ ہم باقاعدگی سے حضور داتا صاحب حاضری دیتے ہیں اور لنگر میں حصہ دیتے ہیں۔ ہم ہر سال حج کرتے ہیں۔ اور بڑے اہتمام سے اللہ کی راہ میں صدقہ دیتے ہیں۔ یہ سب زندگی کا ایک گوشہ ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اپنی طبعیت کے اس گوشے کو ہم زندگی بھر کی کل نیکی تصور کر لیتے ہیں۔

دوسری جانب اس پر ہماری توجہ نہیں جاتی کہ ہم یہ نیکیاں تو کرتے ہیں لیکن اس کی قبولیت کی بھی کچھ شرائط ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو اس کی نیکی یعنی نیک عمل کا اجر ضرور دیتا ہے۔ یعنی اگر ایک بندہ نے جب نماز کی نیت کر لی اور ساری نماز میں اس نے نماز کے مکمل اراکین کو ادا بھی کیا لیکن اس کا دھیان کسی اور طرف بھی رہا۔ پوری نماز میں اس کی توجہ اللہ کی طرف نہیں رہی۔ کیونکہ اگر اسے نماز میں اللہ یاد آتا تو پھر اسے کوئی اور چیز یاد نہ آتی۔ آپ نے کہا کہ آج کتنے نمازی لوگ ایسے ہیں جن کے جسم نماز میں ہوتے ہیں لیکن ذہن غیر حاضر ہوتا ہے۔ کھڑے اللہ کی بارگاہ میں ہوتے ہیں لیکن ذہن کہیں اور ہوتا ہے۔ آپ نے کہا کہ نماز کے دوران تلاوت کرنا اور عبادات کی طرف دھیان کرنا ایک الگ چیز اور اس دوران اللہ کی طرف دھیان کرنا الگ چیز ہے۔ بدقسمتی سے ہم نماز تو پڑھتے ہیں لیکن ہمارا دھیان اللہ کی طرف نہیں ہوتا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ اوائل زمانے میں لوگوں کی نمازوں کا یہ عالم ہوتا تھا کہ انہیں نماز میں کوئی خبر تک نہ ہوتی، وہ نماز میں ماسواء اللہ سب کچھ بھول جاتے۔ یہ اقابر اولیاء، صلحاء اور تابعین کے زمانے تھے کہ اگر کسی کے جسم کا عضو خراب ہو گیا اور حکماء نے اسے کاٹنے کا مشورہ دیا تو اس شخص نے صرف اس وجہ سے عضو کو جس سے الگ کرنے سے انکار کر دیا کہ اس کی نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں نے مشورہ دیا کہ جب یہ نماز میں ہوں گے تو عضو کاٹ لینا، پھر جب اس شخص نے نماز قائم کی تو اس کا وہ متاثرہ عضو کاٹ دیا جاتا لیکن اس شخص کو اس کی تکلیف کی خبر تک نہ ہوتی۔ یہ صرف اس وجہ سے ہوتا کہ اس شخص کی ساری توجہ اللہ کی طرف ہوتی۔

شیخ الاسلام نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ امام مالک ایک مجلس میں درس دے رہے تھے اور اس دوران 16 مرتبہ بچھو نے آپ کو کاٹا لیکن آپ نے درس کو منقطع نہیں کیا اور اس میں منہمک رہے۔ اس طرح حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے کا جنازہ سامنے رکھ دیا گیا لیکن آپ درس میں متوجہ رہے۔ جب درس سے فارغ ہوئے تو اس وقت انہوں نے اپنے بیٹے کا جنازہ پڑھایا۔ اللہ والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اللہ اور اس کے رسول کی یاد میں رہتے ہیں۔

دوسری جانب ہماری حالت یہ ہے کہ نماز میں ہمارا جسم اللہ سے جڑا ہوا ہی نہیں ہوتا۔ ہم مکمل توجہ سے ڈرامہ تو دیکھ لیتے ہیں لیکن نماز توجہ سے نہیں پڑھتے۔ اللہ سے ہمارا تعلق یہ ہے کہ اگر ہم پانچ وقت کے نمازی ہیں تو اس دوران اللہ سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کے کچھ لمحات ہیں۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ اس محدود سے وقت کے لیے ہم اللہ سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں تو اس کا معیار بھی وہ نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ یوں نماز ہماری صرف جسمانی ورزش بن کر رہ گئی ہے۔

آپ نے حدیث مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال کی قبولیت کا انحصار نیت پر ہے۔ نیت تو دل کے اندر ایک چھپی ہوئی کیفیت کا نام ہے۔ انہوں نے کہا اگر دل میں یہ ہو کہ ہم اللہ کی رضا، اللہ کے قرب، اللہ سے معافی، اللہ سے بندگی کا تعلق بحال کرنے، اللہ کی بارگاہ میں خود کو حاضر کرنے کے لیے نماز پڑھ رہے ہیں، تو یہ صحیح نیت ہے۔ دوسری جانب ہماری حالت یہ ہے کہ ہم نمازیں پڑھ رہے ہیں، حج کر رہے ہیں، صدقات دے رہے ہیں، اس طرح کی اور بھی نیکیاں کر رہے ہیں لیکن ان تمام اعمال کے پیچھے نیت وہ نہیں ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہئے۔ ان اعمال کے بدلے ہماری نیت یہ ہوتی ہے کہ اس عمل کے بدلے میری فلاں پریشانی حل ہو جائے، بیماری سے نجات مل جائے، قرض سے چھٹکارا مل جائے اور فلاں فلاں کام ہو جائے وغیرہ۔ اس سے عمل کی کوالٹی خراب ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق محض لالچی بن کر رہ جاتا ہے۔

آپ نے کہا کہ اعمال کا نیت سے تعلق ہونے کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جس طرح امتحانات میں طلبہ کے نمبر ہیں۔ کوئی طالب علم زیادہ نمبر لے گیا اور کسی نے بہ مشکل پاسنگ مارکس حاصل کیے۔ اب عمل پڑھائی ایک اور سب میں مشترکہ ہے، لیکن تمام طلبہ کا نتیجہ الگ الگ ہو گیا۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ 80 اور 90 فیصد لوگ جب کوئی نیک عمل کرتے ہیں تو ان کے نیک عمل کے دوران کوئی نیت ہی نہیں ہوتی۔ ان کی نیت وہ روایتی نیت ہوتی ہے جو بچپن میں امام صاحب سے سیکھی ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ نیت غلط نہیں ہے، اس سے نماز تو ہوگئی لیکن خود نماز کا پڑھنا کس غرض اور نیت سے ہے اور کیوں پڑھ رہا ہے؟ یہ الگ بات ہے جسے کوئی نہیں جانتا اور اس کی نماز کی نیت محض لفظی بن کر رہ جاتی ہے اور انسان دل کی نیت سے محروم رہتا ہے۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ نیت کی اصل غرض و غایت کو سکھانے کےلیے مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منعقد کی جاتی ہے۔ یعنی یہاں باطن نیت کا بتایا جاتا ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ نیت کی اہمیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ میں ہے، جس میں آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے، نہ تمہارے اعمال کی شکل و صورت اور ترتیب کو دیکھتا ہے اور نہ ہی تمہارے اعمال اور دولت کو دیکھتا ہے۔ اللہ صرف تمہاری باطنی نیتوں کو دیکھتا ہے۔ اس نیت کو دیکھتا ہے جو تمہارے دل میں ہے۔ جب نماز میں ہماری ابتداء ہی اصل نیت سے نہیں تو پھر ہماری نماز کا کیا فائدہ۔ اگر بندہ اصل دل کی نیت سے نماز کے لیے کھڑا ہو جائے تو پھر نماز بھی اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی ہے۔ آپ نے کہا کہ نماز میں انسان صرف کلمات نماز پر ہی توجہ دے تو اس میں بندہ اللہ کو براہ راست مخاطب کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ کو پکار رہا ہوتا ہے۔

دنیا میں اس کی مثال یوں ہے کہ جب آپ کسی حکمران کی مجلس میں کھڑے ہوں، صدر مجلس کے سامنے ہوں تو پھر صدر مجلس بھی اس کی طرف توجہ دیتا ہے کہ یہ بندہ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کا دھیان بھی اس کھڑے ہونے والے بندے کی طرف ہوتا ہے۔ یہ اللہ کا طریق ہے کہ جب بندہ حقیقی طور پر اس کو بلاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف توجہ فرماتے ہیں۔ لیکن ہم ہر روز اللہ کے حضور ظاہری طور پر کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن باطنی طور پر ہماری توجہ کہیں اور ہوتی ہے۔ نماز کے دوران طرح طرح کی سوچیں ہمارے ذہن کے دروازے پر دستک دے رہی ہوتی ہیں۔ اور اس سے ہم نماز میں اللہ کے ساتھ مذاق کر رہے ہوتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم نماز میں اللہ کے حضور کھڑے ہوگئے اور اس کو پکارے جا رہے ہیں، لیکن ہمارا ذہن کسی اور طرف ہے۔ یہ گستاخی کا وہ پہلو ہے جس کا ہمیں ادراک ہی نہیں ہے۔

دوسری جانب ظاہری دنیا میں جب ہم کسی بھی ایونٹ میں شریک ہوتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ کوئی بھی پروگرام جب ہم ٹی وی یا دوسرے میڈیا پر دیکھتے ہیں تو سارا کچھ بھول جاتے ہیں لیکن جب اللہ کو یاد کرنے کی باری آتی ہے تو ہم اس کے سامنے کھڑے ہو کر اسے بھول جاتے ہیں۔ جب اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر بندہ اللہ سے ہمکلام ہوتا ہے تو کم از کم اس وقت تو اللہ کو توجہ دے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے بندوں کی نشانیاں یہ بتائیں کہ

رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (النُّوْر ، 24 : 37)

فرمایا کہ (اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مردان حق قرار دیا ہے۔ جب اللہ کی یاد کا وقت آ جائے تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوتا ہو گا؟ اس کے لیے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہتھ کار ول، تے دل یار ول۔ شیخ الاسلام نے کہا کہ آج ہماری زندگی میں کتنی بڑی تبدیلی آ گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق صرف رسمی رہ گیا ہے۔ ہم نے اللہ کے ساتھ عبادات کو پارٹ ٹائم جاب سمجھ لیا اور وہاں بھی اس کا حق ادا نہیں کرتے۔ شیخ الاسلام نے دعوت فکر دیتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں اس رسم کو تبدیل کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق بحال کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم نماز میں مکمل یکسوئی کے ساتھ اللہ کے تصور کو جاگزیں کریں۔ دل و دماغ میں ذہن نشین کریں، اس کو زندگی کا عمل اور زندگی کا حال بنا کر اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں۔ آپ نے تمام تحریکی کارکنان کو پیغام دیا کہ وہ آئندہ سے کعبۃ اللہ کا تصور سامنے لا کر نمازیں ادا کریں۔ درود پاک پڑھیں تو مدینہ پاک کا تصور لائیں۔ جن لوگوں کو اس سے آگے توفیق ہے تو وہ اس تعلق کو اور زیادہ پختہ کریں۔

آپ نے کہا کہ نماز میں کعبۃ اللہ کا تصور کرنا محبت آثاری ہے۔ محبوب کی جگہ کے ساتھ پیار کرنا، ان کو بار بار یاد کرنا۔ یہ وہ محبت ہے جو سارے حج میں اللہ تعالیٰ ادا کراتا ہے۔ صفاء مروہ کے چکر لگانا، کعبہ کا طواف کرنا بھی محبت آثاری ہے۔ آپ نے کہا کہ کعبہ میں اللہ تعالیٰ خود تو نہیں رہتے وہ تو لامکاں ہیں، یہ تو شرف کے طور پر اللہ نے اپنا گھر قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس کعبۃ اللہ میں اللہ اتنا ہی رہتا ہے جتنا آپ کے دل میں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جتنا مرد مومن میں رہتا ہے تو اتنا کہیں اور نہیں رہتا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ

نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِO

ہم آپ کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ عبادات میں نمازیں بھی نسبت آثار میں شمار ہوتی ہے۔ جس جس وقت اللہ کے کسی برگزیدہ بندے نے نوافل پڑھے تو اس اس وقت میں اتنی اتنی رکعات نماز بن گئیں۔ یہ تصوف ان چیزوں پر قائم ہوتا ہے اور ساری شریعت ہی ان تصورات تصوف پر قائم ہے۔ آپ نے کہا کہ قربانی دینا بھی نسبت آثار ہے۔ اس طرح احرام باندھنا اور شیطان کو کنکریاں مارنا بھی نسبت آثار میں شامل ہیں۔ شیخ الاسلام نے کہ اس طرح جب آپ آقا علیہ السلام پر درود پاک پڑھیں تو آپ کی توجہ بھی ان کی طرف ہونی چاہیے۔ کیونکہ وہاں آقا کا گھر ہے، آقا کی آرام گاہ ہے۔

شیخ الاسلام نے بتایا کہ یہ تصوارات انسان کی نیت کو ایک طرف لگانے اور یکسوئی دینے میں مدد کرتے ہیں۔ جب کسی سے محبت ہوتی ہے تو یہ محبت انسان کی توجہ کھینچنے میں مدد دیتی ہے۔ جب آپ اپنے شیخ کے سامنے بیٹھے ہوں تو اس کا تصور کر لیں تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ باقی تصورات آہستہ آہستہ سارے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ جب تصور میں انسان کو یکسوئی ہوجائے تو باقی ہر شے بھول جاتی ہے۔ جوں جوں انسان کی طبعیت میں یکسوئی آ جاتی ہے تو پھر اس کی شخصیت مضبوط اور مستحکم ہو جاتی ہے۔ اس سے انسان ہر طرح کے خوف اور حرص و لالچ سے پاک ہو جاتا ہے۔ آپ نے کہا کہ جب ہم نے نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کر لیا تو پھر اس کا اثر انسان کی ساری زندگی میں ہوتا ہے۔ پھر بندہ رہتا تو دنیا میں ہے لیکن ہر وقت اس کے ذہن اور دل و دماغ میں اللہ کا خوف رہتا ہے۔ پھر وہ کسی کی غیبت، چغلی، گناہ، نافرمانی، تکبر اور حرص و لالچ نہیں کرے گا۔

شیخ الاسلام نے خطاب کے آخر میں کہا کہ آج ہماری زندگی ایک رسماً بن گئی ہے۔ ہم رسمی عبادات کرتے ہیں۔ جب کوئی خاص وقت آتا ہے تو ہم رسم عبادت ادا کر لیتے ہیں لیکن جب وہ مخصوص وقت گزر گیا تو پھر اللہ کا خوف اور ڈر ایک طرف رکھ دیا اور باقی ساری زندگی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شاید ہمارا سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ نے کہا کہ یہ ہماری زندگی میں دونوں انتہائیں ہیں۔ ہم اللہ کی عبادت میں بھی اس کا حیاء نہیں کرتے۔ اگر دو آدمی آپس میں ملیں اور کسی تیسرے آدمی کی برائی کو اس کی پشت کے پیچھے کریں تو سمجھیں کہ اس کو اللہ کا بھی حیاء نہیں ہے۔ ہمیں اپنی زندگی میں ایک ڈسپلن قائم کرنا ہے۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی بیماری ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بے تکلف بات کرتے ہیں تو اس میں حیاء کی حدوں کو بھی کراس کر جاتے ہیں۔ آج ہمیں اس کو ختم کر کے اپنی زندگی کو ایسا ڈھالنا ہے کہ اس مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے ہماری زندگیاں بدل جائیں۔

شیخ الاسلام کا خطاب شب ایک بجے ختم ہوا۔ جس کے بعد مسکین فیض الرحمن درانی نےاختتامی دعا کرائی۔ اس پروگرام کی نقابت کے فرائض سحر ٹی وی کے معروف کمپیئر اور منہاج یونیورسٹی کے سکالر علامہ محمد وقاص واصل نے سر انجام دیئے۔ پروگرام کے بعد شرکاء میں لنگر بھی تقسیم کیا گیا۔

تبصرہ

Top