ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی (ص) - جنوری 2010ء

تحریک منہاج القرآن کے گوشہ درود کی ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا 49 واں پروگرام 7 جنوری 2010ء کو مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں ہوا۔ صفہ ہال (گوشہ درود) میں روحانی اجتماع کا باقاعدہ آغاز نماز عشاء کے بعد شب 8 بجے ہوا۔ امیر تحریک مسکین فیض الرحمن درانی نے مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدارت کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے میڈیا ایڈوائزر اور مسلم لیگ (ن) کے ممبر پنجاب اسمبلی خواجہ عمران نذیر مہمان خصوصی تھے۔

قائمقام ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض، نائب ناظم اعلیٰ رانا محمد ادریس قادری، نائب ناظم اعلیٰ رانا فاروق محمود، راجہ زاہد محمود، انچارج خدمت کمیٹی گوشہ درود الحاج علامہ فرحت حسین شاہ، ناظم تعمیرات حاجی محمد الیاس قادری، زندہ پیر غالب پرویز لاہوری، ناظم اجتماعات جواد حامد، علامہ ظہیر احمد، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے افتخار شاہ بخاری، نائب ناظم دعوت علامہ محمد شکیل ثانی، اور تحریک منہاج القرآن کے دیگر مرکزی قائدین بھی سٹیج پر موجود تھے۔ پروگرام میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شریک تھی، جن کے لیے پنڈال کا ایک الگ حصہ مختص کیا گیا تھا۔

تلاوت قرآن کے بعد نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ کالج آف شریعہ کے حیدری بردران، رضا فریدی، شہزاد عاشق قادری، شہزاد برادران، امجد بلالی برادران، ظہیر بلالی برادران اور انصر علی قادری نے باری باری نعت خوانی میں حصہ لیا۔ اس موقع پر محرم الحرام کی مناسبت سے امام حسین علیہ السلام کی یاد میں منقبت بھی پیش کی گئیں۔ پروگرام میں نعت خوانی کا سلسلہ شب گیارہ بجے تک جاری رہا۔ جس کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کینیڈا سے ٹیلی فونک خطاب کیا۔ آپ کا یہ خطاب راولپنڈی، اسلام آباد، کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بذریعہ ٹیلی فونک سنانے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ اپنے خطاب سے قبل شیخ الاسلام نے بتایا کہ ماہ دسمبر میں پڑھے جانے والے درود پاک کی تعداد 52 کروڑ 230 ہے جبکہ اب تک پڑھا جانے والا درود پاک 11 ارب 64 کروڑ 30 لاکھ 49 ہزار اور 546 ہے۔

خطاب شیخ الاسلام (آداب صحبت و دوستی)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کینیڈا سے ماہانہ مجلس ختم الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماہانہ اجتماع سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے مگر بدقسمتی سے مادیت کے غلبہ کے باعث آج لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں، ساری کاوشیں جسم کو آسائش اور آرام دینے کیلئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روح اس لئے مقدم ہے کہ جسم نے تو ختم ہوجانا ہے مگر روح کو موت نہیں آنی۔ انہوں نے کہا کہ روح اگر نیک اور صالح ہے تو جنت میں رہے گی، اگر نہیں تو اس کے ساتھ دوسرا معاملہ رہے گا۔ روح کو ملائکہ کی طرح دوام حاصل ہے جسم تو فنا ہونے والی چیز ہے مگر آج عارضی پر محنت ہے اور دائمی کو نظر انداز کر کے اپنے اوپر ظلم کیا جارہا ہے اور اس خسارے کا شعور بھی نہیں ہے۔ چونکہ دائمی حقیقت اور اسکے ثمرات چھپے ہوئے ہیں اور جو نظر آرہا ہے اس کے پیچھے لوگ اندھا دھند بھاگے جا رہے ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ جیسے روح جسم پر مقدم ہے ویسے روحانی رشتہ خونی رشتہ پر مقدم ہے، دین کے رشتہ کو دنیاوی رشتوں پر فوقیت ہے، جب تک ہم انہیں عملی زندگی میں مقدم نہیں ٹھہرائیں گے فائدہ نہیں ہوگا، اس کے لئے ضروری ہے کہ روحانی اور دینی رشتے کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس سے دوستی، محبت، صحبت اور سنگت کا رشتہ رکھو اس کے دین، تقویٰ اور سیرت و کردار کو ضرور دیکھو۔ دوستی کرتے ہوئے اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ اس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عملی تعلق کیسا ہے؟ اس کا تعلق اللہ اور رسول سے قائم ہے کہ ٹوٹ گیا ہے؟ ایسا اس لئے ضروری ہے کہ دوست دوست کے دین پر چلا جاتا ہے، اگر دوست بری عادات کا حامل ہے اور اسکی شخصیت مؤثر ہے تو اس کا زنگ آپ کے رنگ پر چڑھ جائے گا۔ انہوں نے سمجھانے کے لئے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ لوہے پر زنگ اچانک نمودار نہیں ہوتا، پہلے رطوبت نظر آتی ہے لیکن خبرتب ہوتی ہے جب وہ رطوبت زنگ کی صورت میں لوہے پر نمایاں ہوجاتی ہے۔ اسی طرح بدبو یا پھولوں کی خوشبو آنکھوں سے نظر نہیں آتی، سونگھنے سے محسوس ہوتی ہیں مگر افسوس آج سونگھنے کی حس بھی دم توڑتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بری صحبت کے تسلسل سے دینی غیرت اور شروع میں قائم ہونے والی ایمان کی پختگی کمزور پڑ جاتی ہے نتیجتاً انسان باطنی طورپر تباہ و ہلاک ہو جاتا ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ صحبت کے دو طریقے ہیں۔ اگر کامل کی صحبت نہ مل سکے تو اُن کی سنگت اختیار کرو جو کامل کی صحبت میں رہتے ہیں، اس طرح بالواسطہ فیض ضرور ملے گا۔ ایمان لانے کے بعد سب سے زیادہ نفع دینے والا عمل نیک لوگوں کی صحبت ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحبت کی پہلی شرط یہ ہے کہ دوسرے کی برائی کا جواب اچھائی سے دیا جائے۔ مومن وہ ہے جو صحبت والے دوستوں کا عذر قبول کرتا ہے۔ دوسرے نے آپ سے زیادتی کی اور آپ کی ناراضگی ختم کرنے کیلئے اسے عذر پیش کرنا پڑگیا تو تعلق اور صحبت کے حق کے باب میں آپ نے اسے شرمسار کردیا۔ اس لئے مومن وہ ہے جو دوسرے کی غلطیوں پر بھی خود دوسرے کے لئے عذر تلاش کرے۔ جبکہ منافق اپنے تعلق والوں کی غلطیاں تلاش کر کے انہیں پچھلی کڑیوں سے جوڑتا ہے اور مختلف طریقوں سے دوسرے کو تکلیف اور اذیت پہنچاتا ہے، وہ دوسرے کی غلطیوں کو گن گن کر ناراضگی پالتا ہے اور غلطی کر بیٹھنے والے کو معذرت کا موقع بھی نہیں دیتا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دوستوں کو ان کی کوتاہی اور لغزش پر معاف کریں اور ان کے لئے 70 دفاع، عذر اور صفائیاں خود تلاش کریں تاکہ دوستوں کی غلطی اور گناہ کا خیال بھی آپ کے دل سے ختم ہوجائے۔ اگر دل پھر بھی راضی نہ ہو تو سمجھیں کہ یہ آپ کی اپنی غلطی ہے۔ انسان اگر اس انداز سے صحبت اور تعلق کو قائم کرلے اور نبھانا سمجھ لے تو یہ عبادت ہے۔ بندے کو چاہیئے کہ اکابر کی صحبت میں تعظیم، خدمت اور ان کے امور کی انجام دہی میں پیش پیش رہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ بدقسمتی کہ پاکستان کے حالات ایسے ہوگئے کہ غصہ اور فرسٹریشن بڑھ گیا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسرے کے غصہ کا جواب غصہ سے نہ دیا جائے۔ ایک کا غصہ دوسرے پر صادر ہو جائے تو دوسرا برداشت کرجائے۔ آج ہمارے معاشرے سے بالخصوص خیر رخصت ہو رہا ہے، بدی کا مقابلہ بدی سے ہو رہا ہے اور برے رویوں کا جواب اچھے اخلاق سے نہیں بلکہ برائی سے ہی دیا جا رہا ہے۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ اللہ نے نیکی میں مقابلہ کرنے اور برائی کے بدلے میں بھی دوگنانیکی اور احسان کرنے کا حکم دیا ہے مگر بدقسمتی سے آج دھوکہ دینے کو فخریہ انداز سے بیان کر کے اس عمل پر اترایا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ نوجوان بڑوں کی تعظیم اس لئے کریں کہ وہ ان سے عمر میں بڑے ہیں، بڑے کا ادب اس کے اعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے عمر میں بڑے ہونے کے باعث کیا جائے کیونکہ تقویٰ اور پرہیزگاری کی وجہ سے ادب صرف اولیاء کا ہوتا ہے۔ اسے اگر ہر کسی کیلئے معیار بنا لیا جائے تو ادب نہیں رہے گا، عمل کا غرور آڑے آجائے گا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ والدین اگر شرابی اور گناہ گار ہی کیوں نہ ہوں ان کا ادب اور تعظیم اولاد پر فرض ہے، ان کی گستاخی پر اللہ گرفت کرے گا۔ انہوں نے سمجھانے کیلئے مثال دیتے ہوئے کہا کہ نافرماں اور گستاخ بیٹا جسے والدین بد دعا بھی دیتے ہوں مگر اس نفرت اور بد دعا کے باعث بھی اسے حق وراثت سے محروم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ حق صرف اولاد ہونے کے باعث ہے۔ اس لئے والدین کا ادب تعظیم اور احترام ہر حال میں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں غیر مسلم کافر، یہودی اور عیسائی ضعیف کی عزت و احترام اور ادب اس کے ایمان کی وجہ سے نہیں، اس کے بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے ہے اس لئے بوڑھوں کی عزت ان کی عمر رسیدگی کی وجہ سے کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے تو کتے اور بلیوں سے حسن سلوک، بدسلوکی اور ظلم پر جنت اور دوزخ کے فیصلے رکھے ہیں انسان تو بہت عظیم ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ نصیحت حکمت کے بغیر نہ کی جائے، کسی کو غلط راستے سے ہٹانے کیلئے اسے منہ پر نہ ٹوکیں بلکہ بالواسطہ اسے احساس دلا دیں۔ آج ہمارے معاشرے میں طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو سمجھاتے ہوئے ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’جی میں تو کھرا آدمی ہوں بات منہ پر کرتا ہوں کسی کو اچھی لگے یا بری مجھے اس سے سروکار نہیں۔‘‘ یہ طریقہ خالی از حکمت ہے اور اس کے نتائج منفی ہوتے ہیں۔ کھری بات کو بھی ایسے سلیقے سے کریں کہ وہ دوسرے کو بری نہ لگے۔ انہوں نے تحریک منہاج القرآن کے جملہ وابستگان اور محبان کو نصیحت فرمائی کہ جب بھی دعا کریں شرق تا غرب اپنے بھائیوں کو یاد رکھیں، پھر پاکستان، پاکستانیوں اور ساری امت کیلئے دعا کریں۔ شیخ الاسلام نے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ عملی زندگی میں دوستوں کی خیر خواہی اور ان کی پریشانی کا ازالہ کرنے کیلئے ایک دوسرے پر خرچ کرنے کو شعار بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ حضرت ذوالنون مصری کا قول ہے کہ ہمیشہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کر جس سے تیرا دین سلامت رہے، جس سے خیر اور نیک کاموں کیلئے دل میں رغبت پیدا ہو اور نیکی کیلئے شوق مزید بڑھے اور ان کا چہرہ دیکھنے سے اللہ یاد آجائے۔

تبصرہ

Top