رومی، غزالی، رازی و سیوطی کے فیوضات کا عصری پیکر

ڈاکٹر ابوالحسن الازہری

اسلام کا آفتاب جب سے طلوع ہوا ہے تب سے قرآن لوگوں کو ھدیً للناس کا پیکر بن کر ہدایت سرمدی سے مستنیر اور مستفید کررہا ہے۔ یہ قرآنی ہدایت ہی انسانوں کے لیے راہ نجات ہے۔ اس ہدایتِ قرآنی کی اتباع اور پیروی ایک مسلمان کے لیے تقاضا ایمان بھی ہے اور اطاعتِ رسول بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ظاہری حیات میں امت میں موجود ہونا، ہدایت ربانی کا باعث تھا اور آج آپ کی تعلیمات پر عمل ہی الوہی ہدایت سے متمسک ہونے کی ضمانت ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا وجود ہمارے لیے باعث رشک ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کی حیات ظاہری کا زمانہ پایا اور آپ کی زیارت حالت ایمان میں کی اور آپ کی تعلیمات کو آپ کے سامنے اختیار کیا۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے قابل فخر اعزاز کے مستحق ٹھہرے۔

عصرِ حاضر اور ہدایت ربانی

عصر حاضر کا مسلمان آج اگر یہ سوچے کہ رسول اللہ کی بعثت کا مقصد تو انسانیت کو ہدایت سے ہمکنار تھا۔ آج یہ ہدایت کا تسلسل ہمارے لیے کیسے ہے کہ ہم بھی فیضان رسالتمآب سے مستفید ہونے والے بنیں۔ اس حوالے سے رسول اللہ نے امت کو راہنمائی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

ترکت فیکم امرین لن تضلوا ماتمسکتم بهما کتاب الله وسنة نبیه.

میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری تمہارے نبی کی سنت، اگر تم ان کے ساتھ مضبوط تعلق قائم رکھو گے تو کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے۔

رسول اللہ کا پیغام اپنی امت کے نام ہر دور میں یہی رہا ہے کہ جب تک امت مسلمہ اس پیغام محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناکر رکھے گی۔ دنیوی و اخروی کامیابی و کامرانی اس کا مقدر رہے گی، اس حدیث مبارکہ نے جہاں عامۃ الناس کو صراط مستقیم کی راہ دکھائی ہے وہیں خواص اور اہل علم کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ امت کی اصلاح اور فلاح قرآن و سنت سے وابستگی میں ہی ہے۔ اس لیے ان کی ہر اصلاحی و تجدیدی کاوش کا مرکز و محور قرآن اور سنت رسول ہو۔

عصر حاضر میں اسی نبوی فکر کو اپنی دعوت و تبلیغ، تصنیف و تالیف، تزکیہ و تقریر اور اپنی جملہ دینی مساعی کی اساس اور بنیاد بنانا ہی تمسک بالکتاب والسنہ کی عملی شکل ہے۔ تحریک منہاج القرآن اور اس کے قائد شیخ الاسلام کو یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے اپنے عالمگیر مشن کو قرآن و سنت کی عظیم آفاقی فکر پر قائم کیا ہے۔ قرآنی خدمات کے حوالے سے ان کا تعارف عصر حاضر میں ایک حوالہ بن چکا ہے اور اسی طرح حدیث نبوی پر ان کا کام رہتی نسلوں کے لیے ایک یادگار اور تاریخ ساز ہے۔ اس مضمون کے موضوع کی مناسبت سے شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی قرآنی خدمات کا اجمالی تذکرہ مقصود ہے۔

قرآن کا منہاج ہی تحریک کا تعارف ہے

اس تحریک کے روز اول سے ہی اس کا تعارف یہ کرایا گیا کہ اس تحریک کے قیام کا مقصد قرآن و سنت کی عظیم فکر پر مبنی ایک انفرادی اور اجتماعی اصلاح کے نظام کا بپا کیا جانا ہے جس سے انسان کے زاویہ ہائے نگاہ اور فکر و سوچ کے پیمانے بدل جائیں اور انسان اپنے معاشرے کے لیے خیرو فلاح کا پیغامبر بن جائے اور اس تحریک کی دعوت کا عملی آغاز دروس قرآن سے شروع ہوا ملک کے چاروں صوبوں کو قرآنی دعوت کا مرکز بنایا گیا اور ملک کے کونے کونے تک قرآنی فکر کے ابلاغ کے لیے پاکستان ٹیلی ویژن کے ذریعے ’’فہم القرآن‘‘کے ہفتہ وار پروگرام کو اپنایا گیا، شیخ الاسلام کا پاکستانی قوم کے ساتھ پہلا تعارف ہی دروس قرآن اور فہم القرآن کے نام سے ہوا، یہ تعارف وقتی اور معروضی نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے 1980ء میں اس زمین پر قائم ہونے والی تحریک، منہاج القرآن کی فکر کارفرما تھی، ملک گیر دروس القرآن اور قومی سطح کے فہم القرآن کو جب تحریری شکل میں ڈھالا گیا تو ان کو تفسیر منہاج القرآن کا نام دیا گیا، تفسیر منہاج القرآن نے تحریک کو دعوت قرآن کے ایک محض دعوی سے نکال کر عمل کی دنیا میں ایک شہادت اور ثبوت کے طور پر متعارف کرایا۔

دعوت قرآن کی غیر معمولی قبولیت

شیخ الاسلام کی دعوت قرآن پر لوگوں نے کس قدر لبیک کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال میسر نہیں آتی، ہزاروں لوگ ان کے رفیق و رفقاء بن گئے اور لاکھوں لوگ ان کے محب و وابستگان بن گئے، یہ جہاں گئے شہروں کے شہر اور دیہاتوں کے دیہات ان کی طرف امڈ آئے گویا وہ ایک بہت بڑی مقناطیسی قوت ہیں جو ہر کسی کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے ہر جگہ یہی منظر ہے حتی کہ فہم القرآن کا پروگرام ہو تب یہ منظر ہے۔ منہاج القرآن کانفرنس کی ہو تب یہ روح پرور نظارہ ہے۔ دروس قرآن کتابی صورت میں ڈھلے تو پندرہ روزہ دروس قرآن کے کتابچے کی صورت میں ظاہر ہوئے، دروس قرآن مسلسل اور بڑی پائیدی کے ساتھ چلتے رہے اور ادھر دروس قرآن کے کتابچے مسلسل تقریری و تحریری افادات کے ساتھ چھپتے رہے حتی کہ ان کو جب ایک کتاب کی صورت میں جمع کیا گیا تو وہ 787 صفحات پر مشتمل تفسیر منہاج القرآن کی پہلی جلد بنی اور یہ پہلی جلد صرف اور صرف 4 آیات کی تفسیر تھی، جن کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں، یہ تفسیر بھی آدھی سورہ فاتحہ کی ہے ایاک نعبد وایاک نستعین تک ہے۔

عصر حاضر کا رازی و غزالی

پندرہ روزہ دروس قرآن اور فہم القرآن سننے والے تو پہلے سے ہی حیران تھے مگر اب پڑھنے والے بھی حیرت و استعجاب کی کیفیت میں آئے، یہ اس دور کا رازی و غزالی کون بن کر آیا ہے۔ اگر کسی مخالف کو خواہ مخواہ اس پر اعتراض ہو تو وہ تفسیر منہاج القرآن سورۃ الفاتحہ جز اول اشاعت پنجم 2005ء کھول کر دیکھ لے، استفادہ کی شرعی حیثیت پڑھے، تعوذ کے ایک ایک معنی پڑھے، لفظ شیطان کے اطلاقات جانے، استفادہ کی حکمتوں کو پڑھے اور پھر تسمیہ کی برسات اور شرعی حیثیت پڑھے اور اس کی حکمتوں کو جانے، پھر حرف بار کے معانی معلوم کرنے، لفظ اسم کے معانی کا ادراک کرنے اسم جلالت لفظ اللہ کی اہمیت اور اس کے استقاقات، الرحمن الرحیم کے تفسیری معارف اور ان دونو ںلفظوں کے معنوی اطلاقات رحمت الہٰیہ کے بحر رحمت کو جانے، تسمیہ کی عملی حکمت و افادیت کو پڑھے، سورۃ فاتحہ کے دیگر 23 اسماء کا مطالعہ کرنے، نزول سورۃ فاتحہ اور حقیقت اولیت کا مطالعہ کرنے، سورۃ فاتحہ اور حیات انسانی کے مختلف پہلوؤں کو پڑھے اس کے اعتقادی پہلو، عملی پہلو اور انسانی نظام فکرو عمل کو پڑھے، سورۃ فاتحہ کے مضامین کی منطقی اور عقلی ترتیب و ربط کو دیکھے، سورۃ فاتحہ اور صفات باری تعالیٰ کا مطالعہ کرنے، سورۃ فاتحہ کو بطور صفحات عبدیت پڑھے، اللہ اور بندے کا پنج جہتی تعلق سورۃ فاتحہ کے ذریعے جانیں، سورۃ فاتحہ سے پانچ بنیادی ضابطے معلوم کریں، سورۃ فاتحہ کو بطور اجمال قرآن پڑھیں، سورۃ فاتحہ سے ارکان ایمان کا استدلال پڑھیں۔ سورۃ فاتحہ سے تشکیل سیرت کے سات مراحل جانیں، سورۃ فاتحہ اور تعلیمات طریقت معلوم کریں۔ سورۃ فاتحہ اور فرائض نبوت کی تکمیل کی معرفت حاصل کریں، سورۃ فاتحہ اور تصور وحدت معلوم کریں۔ الحمدللہ کے ہر ہر کلمے کے معانی کو پڑھیں۔ رب العالمین میں لفظ رب اور لفظ العلمین کے اطلاقات جانیں، نظام ربوبیت اور انسانی زندگی کاکیمیائی ارتقاء پڑھیں، نظام ربوبیت اور انسانی زندگی کا حیاتیاتی ارتقاء معلوم کریں، نظام ربوبیت اور انسانی زندگی کے شعوری ارتقاء کو پڑھیں، العالمین کا معنی و مفہوم کیا ہے۔ العالمین کتنی کائناتوں کو محیط ہے۔ انسانی زندگی میں فساد کے الباب کتنے ہیں، تخلیق کائنات کا قرآنی نظریہ کیا ہے۔ عالمین اور سات جہانوں کی حقیقت کیا ہے، سات آسمانوں کی سائنسی تعبیر العالمین کی وسعت اور اجرام فلکی، العلمین اور ارتقائے کائنات کے چھ ادوار، کرہ ارضی پر ارتقائے حیات، پھیلتی ہوئی کائنات کا قرآنی نظریہ Black Hole کا نظریہ اور قرآنی صداقت، رحمت رحمن اور رحیم، مالک یوم الدین کے معانی و معارف، مکان اور زمان کا قرآنی نظریہ، کائنات کا تجاذبی انہدام اور انعقاد قیامت، یوم الدین کے متعلق قرآنی اصطلاحات، لفظ والدین کے معانی و اطلاقات، ایاک نعبد و ایاک نستعین میں عبادت و استعانت کے معانی و معارف۔

بحر قرآن کا غواص عصر حاضر

اسی طرح اگر آپ لفظ قرآن پر شیخ الاسلام کے تفسیری کام کو دیکھیں تو پھر بھی حیرت و استعجاب کی کیفیات کا انسانی ذہن پر تغلب ہوجاتا ہے۔ صرف لفظ قرآن کے معانی و معارف کو بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام کا قلم تفسیر توجیہات توضیحات اور تفسیرات و تشریحات کے باب میں پھیلتا ہوا 150 صفحات کتاب کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ احساسات حیرت کو سماعت کے بعد جب مشاہدہ دی تو دیکھا آپ نے اس موضوع کو بڑی جلی عنوانات میں پھیلایا ہے کہ اصطلاح قرآن الہامی ہے، لفظ قرآن کے لغوی معانی، لفظ قرآن کے مادبہائے اشتقاقات، قرآن کی جامعیت اور اس کی عملی شہادات واقعہ تسخیر ماہتاب اور قرآن کی تصدیق، جامعیت قرآن کی اندرونی شہادات، فلسفہ اور قرآن، سائنس اور قرآن، قرآن تمام نقلی علوم و فنون کا ماخذ، قرآن اور ہدایت کا دائرہ اثر، انفرادی زندگی اور قرآنی ہدایت، ہدایت کے مدارج و مراتب، قرآن سے ہدایت پانے کا حتمی طریقہ، راہ ہدایت کا قرآنی تشخص، تیسرے اور چوتھے مادہ اشتقاق کے معانی و معارف، قرآنی دعوی اور اس کی دلیل، قرآنی صداقت کے داخلی قرائن، عدمِ مثلیت، حفاظت و کاملیت و تمامیت، عدم اختلاف و تناقض، ندرت اسلوب و نظم کلام، فصاحت و بلاغت صوتی ترنم و تغنم، احوال غیب کا بیان، امم سابقہ کے احوال، مستقبل کی پیشین گوئی غلبہ روم کی پیشین گوئی، فتح مکہ، فتح خیبر اور غلبہ اسلام کی پیشین گوئی، نتیجہ خیزی کی ضمانت، امیت صاحب قرآن وغیرہ۔

شیخ الاسلام کی تفسیری قلم اور اتمام حجت

شیخ الاسلام کے تفسیری قلم کے صرف دو شاہکار قارئین کے سامنے پیش کئے گئے ہیں۔ دل و ذہن سے جاننے اور ماننے کے لیے یہ تمام تفصیلات درج کی ہیں تاکہ شیخ الاسلام کا تفسیری مقام و مرتبہ علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کے درجے پر مستقر ہوجائے، دور بیٹھے ہوئے شخص کو اور آپ کے مخالفین سے آپ کے بارے میں سن کر حقیقت سمجھ نہیں آسکتی، حقیقت حال اگر خواہ مخواہ کی مخالفت کا شاہکار ہوجائے اور اس پر تعصبات کے حجابات چھا جائیں اور مخفی عداوت اس پر حملہ آور ہوجائے اور کسی کی اپنی ذہنی اسفلیت روگ بن کر حاسدیت کا لبادہ پہن لے تو پھر روشن دن بھی ظلمت شب میں بدل جاتا ہے پھر آفتاب پر تھوکنا بھی اپنے منہ کو آتا ہے۔

آفتاب تو پھر آفتاب ہے اس کو اسفل زمین سے اچھالا ہوا گند معیوب نہیں کرسکتا، وہ جب طلوع ہوتا ہے تو اس کی روشنی سے اصل کائنات کی روشنی میسر آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے اس تفسیری آفتاب نے فلک تفسیر پر چمکنے والوں کتنے آفتابوں سے اپنے فضائل اور خصائل تفسیر کو آراستہ کیا ہے اور کس کس کا فیض ان میں دکھائی دیتا ہے اور کس کس صفات کا پرتو ان میںنظر آتا ہے اور کس کس کے تفسیری قلم کی جھلکیاں ان کی تفسیری قلم میں موجزن دکھائی دیتی ہیں، جب تفسیری تاریخ کی جھروکوں میں بنظر غائر جھانکا گیا تو یہ مناظر ذہن کی سطح پر ابھرے اور جو یوں بتسلسل سپردِ قرطاس ابیض ہوگئے۔

قلم تفسیر کے تاریخی نقوش اور کہاوت ارتقاء

قرآن حکیم کی تفسیر کی دنیا تو خلفائے راشدین، حضرت عبداللہ ابن عباس، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور دیگر شخصیات سے جگمگا رہی ہے۔ یہی اس میدان کے اولین امام ہیں اور سلسلہ تفسیر کے تمام افراد کے پیشوا ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں دعا کی:

اللهم فقهه فی الدین وعلمه التاویل.

اے اللہ! اسے دین کا فہم عطا فرما اور اسے قرآن کی تفسیر سکھادے۔

(حریری، غلام احمد، تاریخ تفسیر و مفسرین، ملک سنز پبلشرز، فیصل آباد، ص: 103)

دوسری روایت میں اس دعا کے کلمات یوں آئے ہیں:

اللهم علمه الکتاب والحکمة.

اے اللہ اسے کتاب و حکمت سکھادے۔

(حریری، غلام احمد، تاریخ تفسیر و مفسرین ملک سنز پبلشرز، فیصل آباد، ص: 104)

اور اس دعا کی قبولیت کی عملی شہادت دیتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمر یوں اعتراف کرتے ہیں:

ابن عباس اعلم امة محمد بما نزل علی محمد.

جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے ابن عباس ساری امت میں سے سب سے بڑ ھ کر اس کے عالم تھے۔

(اسد الغابه، ج: 5، ص: 192)

غرضیکہ صحابہ کرام سے یہ سلسلہ تفسیر چلتا چلتا تابعین تک پہنچا پھر تابعین جن کو علم تفسیر میں شہرت دوام ملی ان میں مجاہد، عطا بن ابی رباح، عکرمہ مولی ابن عباس، طاؤس، ابوالعالیہ، محمد بن کعب القرظی، زید بن اسلم، علقمہ بن قیس، مسروق، اسود بن یزید، مرہ ہمدانی، عامر شعبی حسن بصری، قتادہ بن دعامہ مردسی کے نام آتے ہیں۔ اس کے اتباع التابعین مفسرین کے نام آتے ہیں۔

(تاریخ تفسیر و مفسرین، ص: 139)

تفسیر بالماثور سے تفسیر منہاج القرآن کی مشابہت

اگر ہم تفسیر منہاج القرآن کو تفسیر بالماثور کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں من وجہ جامع البیان فی تفسیر القرآن از ابن جریر طبری کی کچھ خاصیات بھی دکھائی دیتی ہیں، ابن جریر طبری علم و فضل میں یکتائے روزگار تھے۔ معاصرین میں سے کوئی بھی آپ کا ہمسر نہ تھا قرآن حکیم کے عظیم مفسر تھے اور حدیث میں ثقہ محدث تھے اور ان صفحات کا فیض صاحب تفسیر منہاج میں بھی واضح اور بین جھلکتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ تفسیر ابن جریر طبری اپنی ضخامت کے اعتبار سے 30 جلدوں پر مشتمل ہے۔ تفسیر منہاج القرآن کی بھی موجودہ روش یہی رہے تو کچھ بعید نہیں یہ اپنے تفسیری عدد میں اس کے مشابے ہوجائے۔

(حریری، پروفیسر غلام احمد، تاریخ تفسیر و مفسرون، ملک سنز پبلشرز فیصل آباد، ص: 236)

علوم و فنون میں مابرت کا تسلسل

اسی طرح تفسیر منہاج القرآن کی کچھ مناسبات تفسیر بغوی (معالم التنزیل) سے بھی ہیں۔ امام ابو محمد حسین بن مسعود الفراء شہر بغ، خراسان سے تعلق رکھتے تھے شافعی المسلک عظیم مفسر جلیل القدر محدث اور بے مثل فقیہ تھے، عابد اور زاہد بھی تھے علم و عمل کے جامع تھے، طریق سلف پر گامزن تھے ان ہی صفات میں باری تعالیٰ نے شیخ الاسلام کو اپنے اسلاف کا امین بنایا ہے۔ اسی طرح آپ کو المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز کے مفسر ابن عطیہ سے بھی صفاتی تناسب و مناسبت حاصل ہے۔ ابن عطیہ اپنے زمانے کے بڑے ذہین و فطین فرد تھے اور حسن فہم میں عدیم النظیر تھے اور بہت بڑی خاص شخصیت تھے۔ اپنی تفسیر میں انہوں نے اپنے قلم سے علم تفسیر میں کمال فن اور علم کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ اپنے زمانے میں علوم و فنون میں درجہ امامت پر فائز تھے۔

(البحر المحیط، ج: 1، ص: 10)(مقدمه ابن خلدون، ص: 491)

نابغہ عصر ہونے کی مناسبت اور مشابہت

تفسیر منہاج القرآن اور اس کے مفسر کو تفسیر القرآن العظیم ابن کثیر سے بھی کچھ معنوی مناسبت درج ذیل اوصاف میں حاصل ہے کہ ابن کثیر اپنے عصر و عہد کے یکتائے روزگار فاضل تھے اور حافظ حدیث کے لقب سے یاد کیے جاتے، ابن کثیر کا علمی پابہ نہایت ہی بلند تھا ان کے زمانے کے علماء بھی ان کے علم و فضل کے معترف تھے، تفسیر اور حدیث میں خصوصی مہارت رکھتے تھے، حافظے میں نہایت قوی تھے اور گفتگو میں بڑے ہی شیریں مقال تھے۔ آپ کی زندگی میں آپ کی تصانیف کا چرچا ہوگیا۔ اپنوں اور غیروں نے ان کی تصانیف سے خوب فائدہ اٹھایا ابن کثیر محدثین اور فقہا میں بھی شمار ہوتے تھے اور صاحب تصانیف کثیرہ کے مالک تھے اور صاحب فہم و فراست تھے، ابن کثیر مفسرین کے سرخیل تھے، آپ کے فتاویٰ کو بھی بہت بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ تفسیر اور حدیث کی سیادت آپ کی ذات پر ختم ہوجاتی ہے۔ ابن کثیر دائرہ اعتدال سے خود کو دور نہیں جانے دیتے تھے۔

  1. (تاریخ تفسیر و مفسرون، ملک سنز پبلشرز، فیصل آباد، ص: 270)
  2. (الدر رالکامنه، ج: 1، ص: 373) (شذرات الذهب، ج: 6، ص: 231)

تفسیر منہاج القرآن اور اس کے مفسر کو الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن از ابو زید عبدالرحمن بن محمد بن مخلوف ثوابہی بھی کے ساتھ مناسبت حاصل ہے۔ آپ کی ذات میں یہ وصف پایا جاتا ہے۔ جسے وہ خود بیان کرتے ہیں۔ جب میں تیونس پہنچا تو ان دنوں تیونس میں کوئی شخص بھی ایسا نہ تھا جو علم حدیث میں مجھ پر فائق ہو میں جب بولنے لگتا تو اہل زمانہ خاموش ہوکر میری بات کو سنتے اور حق کا ساتھ دیتے ہیں۔

سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فیوضات کا عصری پیکر

شیخ الاسلام اپنے روحانی اکتسابات میں امام جلال الدین سیوطی سے بھی ایک فیض کثیر سمیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ امام جلال الدین سیوطی سرعت تصنیف میں عدیم النظیر تھے آپ پانچ سو زائد کتب کے مصنف و مولف تھے آپ کی کتب شرق تا غرب پھیل گئی تھیں، عامۃ الناس میں ان کی ذات و خدمات کو بے پناہ مقبولیت حاصل تھی۔ امام جلال الدین سیوطی علم حدیث اور اس کے متعلقہ علوم و فنون متون و اسانید، رواۃ و رجال اور استنباط احکام میں یکتائے روزگار تھے۔ آپ کے بہت زیادہ مناقب اور کثیر کرامات ہیں۔

(شذرات الذهب، ج: 8، ص: 51)

امام جلال الدین سیوطی الاتقان میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک ایسی ہمہ گیر تفسیر تحریر کرنے کا ارادہ کیا ہے جو تفسیر سے متعلق ہر قسم کے ضروری مواد کی جامع ہوگی۔ اس میں عقلی اقوال، بلاغی نکات، صنائع و بدائع، اعراب ولغات اور استنباطات و اشارات سبھی امور شامل ہوں گے اور وہ تفسیر ایسی جامع ہوگی کہ جو قارئین کو دیگر تفاسیر سے بالکل بے نیاز کردے گی۔ اس کا نام میں نے مجمع البحرین ومطلع البدرین، تجویز کیا ہے۔ میری کتاب الاتقان اسی تفسیر کا مقدمہ ہے۔

(الاتقان، ج: 2، ص: 190)

معلوم تاریخ میں پتہ نہیں چل سکا کہ امام جلال الدین سیوطی اس کی تکمیل کرسکے یا نہ کرسکے۔

(تاریخ تفسیر و مفسرین، ص: 279)

عصر حاضر میں صفات رازی کا پیکر مجسم

علم تفسیر کے میدان میں روحانی اکتسابات کے سلسلوں میں شیخ الاسلام کو اپنی تفسیر میں امام فخرالدین رازی اور ان کی تفسیرمفاتیح الغیب سے فیوضات علمیہ کا ایک تسلسل ملا ہے۔ امام رازی اپنے زمانے کے یگانہ روزگار نابغہ عصر، متکلم زماں اور جامع العلوم الفنون تھے، علم تفسیر، علم الکلام، علوم عقلیہ میں درجہ امامت پر فائز تھے۔ امام رازی کو علم الافلاک علم الریاضی، علم الفلسفہ، علوم الطبیعہ اور علوم جدیدہ میں ایک خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کی تفسیر میں ان کے علوم کے حوالے سے بھی مباحث کا ذکر ملتا ہے۔ ان کی تفسیر میں ربط بین الآیات کی خوبی بھی نظر آتی ہے۔ ایک سورت کے نقطہ اختتام کو دوسری سورت کے نقطہ آغاز کے ساتھ مناسبت بھی بیان کرتے ہیں۔ بعض سورتوں میں ایک سے زیادہ مناسبات کا ذکر کرتے ہیں۔ ابن خلکان کہتے ہیں امام رازی نے اپنی تفسیر میں ہر انوکھی بات کو جمع کردیا ہے۔

  1. (وفیات الاعیان، ج: 2، ص: 267)
  2. (حریری، غلام احمد، تاریخ تفسیر و مفسرین، ص: 316)

امام رازی کی تفسیر علم الکلام اور علوم کونیہ و طبیعہ کے باب میں ایک انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔ امام رازی نے اپنی تفسیر کو گنجینہ معلومات بنایا ہے ایک مرتبہ انہوں نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ سورہ فاتحہ کے فوائد ونکات اور معارف و مضامین سے دس ہزار مسائل کو نکالا جاسکتا ہے۔ امام رازی کے اس قول کی عملی مثال عصر حاضر میں شیخ الاسلام کی سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس تفسیر سے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ باری تعالیٰ جس کو اپنے کلام کا فہم اور شرح صدر عطا کرتا ہے۔ اس کے لیے سورۃ فاتحہ سے ہی بے شمار مسائل کا استنباط ممکن ہے۔

شیخ الاسلام جملہ علوم و فنون میں امام بیضاوی کی بھی پیروی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، امام بیضاوی کے فضائل و مناقب کے باب میں بیان کیا گیا کہ امام بیضاوی نے جملہ علوم و فنون میں اپنی شہسواری کے جوہر دکھائے ہیں وہ کہیں تو حسین و جمیل اشارات و استعارات کو بے نقاب کرتے ہیں اور کہیں معقولات کے اسرار و رموز کی پردہ دری کرتے ہیں۔

(حریری، غلام احمد، تاریخ تفسیر و مفسرین، ملک سنز پبلشرز، فیصل آباد، ص: 323)

تفسیر منہاج القرآن اور اس کے مصنف کو لباب التاویل فی معانی التنزیل از امام خازن سے بھی مناسبت اور تعلق خاص حاصل ہے۔ امام خازن و مشق کی ایک خانقاہ کی لائبریری کے انچارج تھے۔ اس لیے خازن الکتب معروف ہوئے، صوفی منش، خوش مزاج اور ہنس مکھ شخصیت کے مالک تھے۔

پیچیدہ عصری مسائل کے افتاء اور حل میں مماثلت

تفسیر منہاج القرآن اور اس کے مفسر شیخ الاسلام کو ایک گونہ موافقت و مناسبت شیخ ابوالسعود کی تفسیر سے بھی ہے جو ارشاد العقل السلیم الی مزایا الکتاب الکریم کے نام سے جانی جاتی ہے، شیخ ابوالسعود محمد بن محمد بن معطفی حنفی المسلک تھے۔ آپ علم و فضل کی گود میں پلے بڑھے اور پروان چڑھے زندگی بھر علوم و فنون کی خدمت میں مشغول رہے، اپنے والد گرامی سے اکثر درسی و علمی کتب پڑھیں اور پھر اپنے زمانے کے جید علماء سے بھی علمی اکتساب فیض کیا۔ آپ سے جیسا کوئی سائل سوال کرتا۔ ویسا ہی جواب اس کی زبان میں دیا کرتے، سوال منظوم ہوتا تو جواب بھی منظوم ہوتا۔ سوال اگر مسجع نثر میںہوتا تو جواب بھی ویسا ہوتا۔ اسی طرح جواب میں زبان کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے تدریس، افتاء اور قضا کے مشاغل میں مصروف رہتے۔

(حریری، غلام احمد، تفسیر و مفسرین، ملک سنز پبلشرز، فیصل آباد، ص: 353)

آپ کی تفسیر، علم تفسیر میں ایک عدیم النظیر ہے حسن تعبیر اور طریق ادا میں کوئی تفسیر اس کا حریف نہیں ہوسکتی۔ صاحب تفسیر نے قرآن کے ابلاغی اسرار و رموز پر اس طرح قلم اٹھایا ہے کہ آج تک کوئی مفسر اس طرح بیان کرسکا، مولانا عبدالحی لکھنوی بیان کرتے ہیں۔ یہ بہترین تفسیر ہے نہ اتنی طویل کے بیزار کردے اور نہ اس قدر مختصر کہ معنی و مفہوم ہی سمجھ نہ آسکے۔ یہ تفسیر ان گنت لطائف و نکات اور فوائد و اشارات کی جامع ہے۔ اس تفسیر کے نسخے اکناف عالم میں پھیل گئے۔ اکابر علماء نے اس کو قبولیت کی نگاہ سے دیکھا اور یہ تفسیر اپنے اسلوب بیان میں ’’حسن تعبیر‘‘ سے متصف ہے۔ اس بناء پر اس کے مفسر ابوالسعود کو خطیب المفسرین کا لقب دیا جاتا ہے۔

(الفوائد البهیه، ص: 82)

جامع المنقول والمعقول ذات و شخصیت

شیخ الاسلام کو اپنے تفسیری اسلوب میں تفسیر روح المعانی از سید محمود آفندی آلوسی سے بھی خاص مناسبت اور موافقت حاصل ہے، آپ کی صفات کو بھی وہ اپنی ذات میں مرتکز کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ علامہ آلوسی اپنے عصر و عہد کے علمائے عراق کے سرخیل تھے اور منقولات اور معقولات کے جامع تھے اور اپنے وقت کے عدیم المثال مفسر اور عظیم محدث تھے، اکابر علماء سے اکتساب فیض کیا، جن میں آپ کے والد گرامی شیخ خالد نقشبندی اور شیخ علی سویدی کے نام بھی آتے ہیں، آپ پر ہر وقت یہ دھن سوار رہتی کہ اپنے اور دوسروں کے علم میں اضافہ کرتے جائیں، اسی وجہ سے یہ شعر آپ کی زبان پر اکثر و بیشتر رہتا۔

سهری لتنقیح العلوم الذلی
من فصل غانیة وطیب عناق

علوم کی نوک پلک سنوارنے کے لیے میری بیداری مجھے دنیا کی حسین و جمیل چیزوں کے ملنے سے بڑھ کر ہے۔

(تاریخ تفسیر و مفسرین، ملک سنز پبلشرز، فیصل آباد، ص: 355)

نثر نویسی اور قوت تحریر میں آب منفرد حیثیت رکھتے تھے اور آپ عجیب و غریب حافظے کے مالک تھے۔ اپنے حافظے کے کرشماتی قوت کے متعلق فرماتے ہیں۔ میں نے اپنے ذہن کو کوئی ایسی امانت سپرد نہیں کی جس میں اس نے کبھی خیانت سے کام لیا ہو اور نہ ہی اپنی قوت فکر و تدبر کو کسی مشکل کے لیے بلایا ہو اور اس نے میری عقدہ کشائی نہ کی ہو۔

(تاریخ تفسیر و مفسرین، ص: 356)

گویا ان کا حافظہ ہر موقع و محل پر قوت استحضار کے ساتھ ان کے سامنے حاضر رہا اور ان کی قوت فکر و تدبر بھی ان کو زندگی کی صعوبات اور مشکلات سے نکالتی رہی، غرضیکہ ان مذکورہ بالا اوصاف میں شیخ الاسلام اپنے اسلاف کی جملہ صفات کے امین نظر آتے ہیں۔ امام آلوسی نے روح المعانی کو روایۃ اور درایۃً اقوال سلف اور خلف کا جامع بنایا تھا، آپ ابن عطیہ ابوحبان، کشاف، ابوالسعود، بیضاوی اور رازی سے اکتساب فیض کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ ابوالسعود کو شیخ الاسلام اور مفسر کے لقب سے یاد کرتے۔ امام بیضاوی کو قاضی کے لقب سے ذکر کرتے اور فخرالدین رازی کو امام کے لقب اعزاز سے پکارتے۔

(تاریخ تفسیر و مفسرون، ص: 357)

علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں آیت کے ظاہری معنی و مفہوم کو بیان کرتے ہیں، اس کے ساتھ آیات کے باطنی معانی کا بھی ذکر کرتے ہیں، روح المعانی اپنی جملہ صفات کے اعتبار سے ایک جامع تفسیر ہے۔

آیات سے معنی احسان و سلوک اخذکرنے میں مماثلت

تفسیر منہاج القرآن اور اس کے مفسر شیخ الاسلام مدظلہ العالی کو تفسیر القرآن از عبداللہ تستری سے آیات قرآنی سے معنی احسان و سلوک اخذ کرنے میں بھی مناسبت و موافقت حاصل ہے۔ شیخ عبداللہ تستری ایک عظیم عارف بالہ، زہد و تقویٰ میں امام اور ایک عدیم المثال شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے مکہ میں معروف و مشہور عارف باللہ حضرت ذوالنون مصری سے ملاقات کی ہوئی تھی، آپ نے باقاعدہ تفسیر لکھی ہیں البتہ منتخب آیات کی تفسیر بیان کی تھی۔ جسے آپ کے شاگردِ رشید ابوبکر محمد بن احمد بلدی نے ترتیب و تدوین کے مراحل سے گذار کر آپ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ آپ کی تفسیر کا اسلوب کچھ یوں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وفدیناه بذبح عظیم.

اور اس (حضرت اسماعیلؑ) کے عوض ہم نے ایک بڑا جانور دے دیا۔

(الصافات: 107)

اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بتقاضائے بشریت اپنے بیٹے سے محبت کرتے تھے۔ اس لیے آزمائش کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ منشائے خداوندی درحقیقت یہ نہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ذبح کردیں بلکہ مقصد یہ تھا کہ ان کے دل سے غیراللہ کی محبت کو نکال دیا جائے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ارادہ ذبح کا عزم مصمم ظاہر ہوگیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کی محبت کامل اور فنا فی حبہ کی کیفیت و عادت کی طرف لوٹ آئے تو آپ اسماعیل علیہ السلام کے بدلے ذبح عظیم کا سلسلہ عطا ہوا۔

(تفسیر تستری، ص: 120)

قرآنی انسائیکلو پیڈیا عصر حاضر کا ایک مثالی تفسیری کام

عصر حاضر میں ایک جامع تفسیر اسلوب، علم تفسیر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آج علوم و فنون کا تنوع ہے ہر شخص اپنے اپنے ایک مخصوص شعبے کا تعین کرچکا ہے اور اس کی زندگی کے شب و روز اسی شعبے میں تخصص کے حصول میں صرف ہورہے ہیں اور اسی شعبے میں عروج و کمالات سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے، دوسری جانب قرآن کا قاری ہر شخص ہے اور ہر کوئی یہ بھی چاہتا ہے کہ قرآن حکیم کے اس اعلان ھدیً للناس اور ھدیً للمتقین کے چشمہ ہدایت سے وہ مستفید ہو اور وہ قرآن حکیم کی ان آیات کی تلاوت بھی کرتا ہے۔

ما فرطنا فی الکتب من شئی.

اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے اپنی تخلیق کردہ کوئی چیز اسی نہیں چھوڑی جس کی تفصیل قرآن میں نہ ہو۔

(الانعام: 38)

اسی طرح قرآن بیان کرتا ہے:

ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شئی.

ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جو ہر شے کا تفصیلی بیان کرنے والی ہے۔

(النحل: 89)

مزید برآں فرمایا:

وتفصیل کل شئی.

قرآن ہر شے کی تفصیل بیان کرتا ہے۔

(یوسف: 111)

اسی طرح سورہ انعام میں اس حقیقت کو مزید واضح کرتے ہوئے فرمایا:

ولا رطب ولا یابس الا فی کتاب مبین.

اس کائنات میں کوئی خشک و تر چیز ایسی نہیں ہے جس کا بیان کلام پاک میں موجود نہ ہو۔

(الانعام: 59)

سورہ بنی اسرائیل میں اس مضمون کو یوں بیان کیا:

وکل شئی فصلناه تفصیلا.

اور ہم نے قرآن میں ہر چیز کا الگ الگ مفصل بیان کیا ہے۔

(بنی اسرائیل: 120)

مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں علامہ ابن برہان نے بطور مفسر قرآن تفسیر کے اسلوب اور منہج کو یوں واضح کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

مامن شئی فهو فی القرآن او فیه اصله.

کائنات کی کوئی شے ایسی نہیں جس کا ذکر یا اس کی اصل قرآن سے ثابت نہ ہو۔

(الاتقان، 2: 126)

تفسیر قرآن کے اس اسلوب کو آگے بڑھاتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی رقمطراز ہوئے:

مامن شئی الایمکن استخراجه من القرآن لمن فهمه الله.

کائنات کی کوئی چیز ایسی نہیں جس کا استخراج و استنباط آپ قرآن سے نہ کرسکیں لیکن یہ قرآنی علوم و معارف اسی پر آشکار ہوتے ہیں جس کو رب ذوالجلال نے خصوصی فہم سے بہرہ ور کیا ہو۔

(الاتقان، ج: 2، ص: 126)

قرآن حکیم کے جامع العلوم ہونے کی عملی گواہی و شہادت ہمیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ تفسیر کے ہاں میسر آتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس جامعیت قرآن کی شہادت یوں دیتے ہیں:

لو ضاع لی عقال بعیر لوجدته فی کتاب الله.

اگر میرے اونٹ کی رسی بھی گم ہوجائے تو قرآن حکیم کے ذریعے اسے تلاش کرسکتا ہوں۔

(الاتقان، ج: 2، ص: 126)

امام شافعی نے اسی جامعیت قرآن کے تصور کو اپنے زمانے کے لوگوں کو چیلنج دیتے ہوئے یوں بیان کیا:

سلونی عما شئتم اخیرکم عنه فی کتاب الله.

جس چیز کی نسبت چاہو مجھ سے پوچھ لو میں تمہیں اس کا جواب قرآن سے دوں گا۔

(الاتقان، ج: 2، ص: 126)

جبکہ ابن ابی الفضل المرسی نے اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے قرآن حکیم کو علوم الاولین اور علوم الاخرین کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔

جمع القرآن علوم الاولین والاخرین. بحیث لم یحط بها علما حقیقة الا المتکلم ثم رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم.

اس قرآن نے اول سے آخر تک ابتداء سے انتہا تک قرآن کے تمام علوم معارف کو اپنے اندر اس طرح جمع کرلیا ہے کہ فی الحقیقت اللہ اور اس کے رسول کے سوا کوئی بھی قرآنی علوم کا احاطہ آج تک کرسکا ہے اور نہ کرسکے گا۔

(الاتقان، ج: 2، ص: 126)

قاضی ابوبکر بن العربی اپنی کتاب قانون التاویل میں بیان کرتے ہیں کہ قرآنی علوم کی تعداد 77450 ہے اور یہی تعداد قرآن حکیم کے کلمات کی بھی ہے۔ ان کے اس قول کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی کتاب مناہج العرفان فی لفظ القرآن میں بیان کرتے ہیں کہ قرآن حکیم میں الحمد سے والناس تک استعمال ہونے والا ہر کلمہ یقینا کسی نہ کسی علم اور فن کی بنیاد ہے۔ گویا ہر قرآنی حرف سے کوئی نہ کوئی علم اور فن جنم لے رہا ہے۔ یہاں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی پیش نظر رہے کہ قرآن کے ہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے اور ہر ظاہر و باطن کے لیے ایک حد آغاز ہے اور ایک حد اختتام ہے۔ اس لحاظ سے ہر قرآنی حرف کے چار پہلو ہوئے۔ قاضی ابوبکر اپنی کتاب قانون التاویل میں اسی حوالے سے مزید بیان کرتے کہ قرآنی علوم کی مذکورہ تعداد پھر چار سے ضرب دیں تو قرآنی علوم کی تعداد 3,09,800 بنتی ہے۔

(طاهرالقادری، شیخ الاسلام، مناهج العرفان فی لفظ القرآن، منهاج پبلی کیشنز، لاهور، ص: 15)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے امام فخرالدین رازی، امام غزالی، ابوالفضل المرسی، امام جلال الدین سیوطی کی پیروی میں قرآن کی حکیم تفسیر اور قرآن کے مضامین کو جامعیت قرآن کے تناظر میں دیکھا ہے۔ ائمہ سلف و خلف کے ان اقوال کو عملی شہادت کی صورت میں ثابت کیا ہے کہ قرآن علوم اولین اور علوم آخرین کا منبع و سرچشمہ ہے۔

شیخ الاسلام نے عصر حاضر میں اس کی واقعی اور عملی شہادت دیتے ہوئے قرآنی انسائیکلو پیڈیا کی صورت میں 8 ضخیم جلدوں پر مشتمل قرآنی خدمت کا ایک تاریخی تسلسل قائم کیا ہے۔ قرآنی انسائیکلو پیڈیا مضامین قرآن کا ایک جامع مجموعہ ہے جو رہتی نسلوں تک ان کی علمی، فکری، اخلاقی، روحانی، سیاسی، معاشی اور معاشی ضرورتوں کے حوالے سے الوہی ہدایات فراہم کرتا رہے گا۔ یہ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے جسمیں تقریباً 5 ہزار موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کی موضوعاتی فہرست ہی صرف 400 صفحات پر مشتمل ہے اور آٹھ جلدوں کے مشمولات کا خلاصہ پیش کرتی ہے اور بطور خاص قرآنی اصطلاحات اور مشکل الفاظ کے معانی و مطالب کو آخری تین جلدوں میں بیان کیا گیا ہے۔ جلد اول عقیدہ توحید کو بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ جلد دوم شرک اور اس کے بطلان، ایمان بالرسالت، بالکتب، بالملائکہ، بالقدر اور بالآخرہ کو بیان کرتی ہے جبکہ جلد سوم میں احوال قیامت، عبادات، معاملات، حقوق و فرائض اور عصری علوم کی ضرورت اور علم جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جلد چہارم میں امن عالم اور محبت و احترام انسانیت، عدم تشدد، غیر مسلموں سے حسن سلوک اور قصص الانبیاء اخلاق حسنہ اور سیئہ کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ جلد پنجم میں نظام حکومت و سیاست، نظام عدل و انصاف نظام معاشیات و اقتصادیات اور اسلام کے تصور جہاد کو بیان کیا گیا ہے جبکہ جلد ششم تا ہشتم ابجدی اشاریہ ہے جس کے ذریعے ایک قاری قرآن کے ہر لفظ تک بآسانی پہنچ جاتا ہے۔ جیسے اس نے تخلیق انسان اور کائنات کا مطالعہ کرنا ہو تو صرف تا کو دیکھے گا وہاں اسے لفظ تخلیق قرآن میں جہاں جہاں استعمال ہوا ہے وہ مل جائے گا۔

شیخ الاسلام نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اس علم کے سمندروں کی غواصی کرکے موتی و ہیرے اپنی قوم کے سامنے اسلاف کے طریق پر پیش کئے ہیں، اپنے موقف کو فتوی اور اپنی رائے کو قطعی فیصلہ نہیں بنایا ہے۔ اہل علم کو خلاف سے نکل کر اختلاف کی طرف لائے ہیں اور علمی اختلاف کو اسلام کی علمی و تحقیقی وراثت قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ اپنے بڑے سے بڑے مخالف کا بھی بدزبانی اور گالی گلوچ سے تذکرہ نہ کیا جائے۔ حتی کہ وہ ایسے کسی فرد کا ذکر اپنی زبان پر لانے کے بھی روا دار نہیں ہیں چہ جائیکہ اس کے لیے فحش بیانی کریں۔ انسان کی نظر اگر مخالفت پر ہی مرتکز ہو تو وہ دنیا کی ہر چیز میں عیب نکال لیتا ہے۔ اگر عقل و ذہن اور قلب و دل سلیم الفطرت ہوں تو وہ حق کو جان لیتا ہے اور اسے جلد اور فوری قبول کرلیتا ہے۔ شیخ الاسلام کا قرآنی انسائیکلو پیڈیا بلاشبہ عصر حاضر کا قرآنی خدمت کے باب میں ایک بے مثال، عدیم النظیر اور تاریخ ساز کام ہے۔ قرآنی ہدایت کو عام کرنے کے حوالے سے ائمہ و مفسرین کی خدمات کا منہ بولتا تسلسل ہے اور ائمہ کے تفسیری قلم کے ارتقاء کا عصر حاضر میں ایک شاندار، جاندار اور قابل افتخار نمونہ عمل ہے۔ قرآن کے معانی ومعارف اور اس کے ترجمہ و تفسیر اور اس قرآن کے جامع علوم الاولین و الاخرین ہونے کے اعتبار سے اس کے ایک قاری ایک عالم، ایک مترجم اور ایک مفسر کے لیے اتنا کہا جاسکتا ہے اور یہی اس باب میں متائب فکر ہے۔

فکر ہر کس بقدر ہمت اوست

ماخوذ از ماہنامہ دخترانِ اسلام، فروری 2019ء

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top