نئی جے آئی ٹی، سپریم کورٹ کا فیصلہ اور شیخ الاسلام کے دلائل

(نوراللہ صدیقی)

5 دسمبر 2018ء کے دن سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی درخواست پر نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔ پنجاب حکومت کی طرف سے تحریری جواب داخل کیا گیا کہ انہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ازسرنو تفتیش پر اعتراض نہیں جس پر سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے ایک ہی تاریخ پر فیصلہ سنا دیا۔ 8 ماہ قبل 8 اپریل 2018ء کے دن لاہور رجسٹری میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی نمائندگی کرتے ہوئے تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجدچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی عدالت میں پیش ہوئی تھیں اورانہوں نے درخواست دی تھی کہ 17 جون 2014ء کے دن میری والدہ تنزیلہ امجد اور میری پھوپھو شازیہ مرتضیٰ سمیت 14 افراد کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا اوردرجنوں کو زخمی کیا گیا مگر انصاف ملنا تو دور کی بات، آج کے دن تک ملکی تاریخ کے اس بدترین سانحہ کی غیر جانبدار تفتیش بھی نہیں ہوسکی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درخواست منظور کی اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے کچھ احکامات بھی جاری کیے جن پر بلاتاخیر عملدرآمد ہوا۔ چیف جسٹس نے انصاف کی فراہمی کے حوالے سے اپنے غیر متزلزل عزم کا اظہار کرتے ہوئے بسمہ امجد کو یقین دلایا کہ آئین اور قانون کے مطابق انصاف ہوگا۔ تاہم نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کی عدالت میں قانونی وجوہات کے باعث معاملہ زیر غور رہا۔

نئی جے آئی ٹی بنوانے کے لیے 6 اکتوبر 2018ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری لاہور رجسٹری میں بسمہ امجد اور شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے۔ انسانی حقوق کے اس بنچ کی سربراہی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کررہے تھے۔ شیخ الاسلام نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عوام کی داد رسی کے لیے چیف جسٹس کے اقدامات اور خصوصی دلچسپی قابلِ تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی جے آئی ٹی بنانا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ جو پہلی جے آئی ٹی بنائی گئی تھی اس میں ملزمان خود شامل تھے اور جانبدا رجے آئی ٹی سے انصاف کی کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ سابق حکمرانوں کے احکامات پر بننے والی جے آئی ٹی نے یکطرفہ شہادتیں ریکارڈ کیں جبکہ متاثرین حکومتی دباؤ اور خوف کی وجہ سے پیش نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا استغاثہ دائر ہونے کے بعد نئی جے آئی ٹی بنائی جا سکتی ہے؟ جواب میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ ماضی میں سانحہ بلدیہ سمیت متعدد مقدمات پر جے آئی ٹیز بنائی جانے کی مثالیں موجود ہیں جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب پراسیکیوشن، حکومت پنجاب اور ملزمان کو نوٹس جاری کیے اور کہا کہ 5دسمبر 2018ء کو لارجر بنچ نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے ضمن میں قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے قانونی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ماضی کی پنجاب حکومت نے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کی خصوصی تعیناتی کی اور انہیں ایسی مراعات دیں جس کی اس تقرری سے قبل اور بعد میں کوئی مثال موجود نہیں۔ انہیں صرف اور صرف سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمے کی مانیٹرنگ کیلئے بطور پراسیکیوٹر جنرل تعینات کیا گیا اور نوٹیفکیشن میں یہ لکھا گیا تھا کہ اضافی مراعات ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کسی دوسرے پراسیکیوٹر جنرل کیلئے نہیں ہونگی۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اس آرگومنٹ پر بنچ نے بھی اظہار حیرت کیا اور ثبوت کے طور پر ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے نوٹیفکیشن کی کاپی بھی بنچ کو پیش کی۔

5 دسمبر 2018ء کے دن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری دوسری بار اسلام آباد میں لارجر بنچ کے سامنے پیش ہوئے اور انہوں نے نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے لارجر بنچ کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کیلئے لاہور ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں عدالتی کمیشن بھی بنا جس کی فائنڈنگز میں واضح طور پر پنجاب حکومت کو سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس رپورٹ کی روشنی میں پنجاب حکومت نے قانونی اقدامات کرنے کی بجائے اس رپورٹ کو دبا لیا اور ہمیں اس رپورٹ کے حصول کے لیے کئی سال کٹھن قانونی مراحل سے گزرنا پڑا۔ جن حکمرانوں سے ہمیں رپورٹ ہی بڑی مشکل سے ملی وہ انصاف دینے میں کیوں کر سنجیدہ ہو سکتے تھے؟ انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ ساڑھے 4 سال سے انصاف نہیں ملا، اب ہماری بات سنی جارہی ہے اور اب ہم محسوس کررہے ہیں کہ انصاف کا دروازہ کھل گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے چیف جسٹس کے استفسار پر بتایا کہ سانحہ کے 157گواہ تھے، 23گواہان کے بیانات ہو چکے ہیں اور سانحہ کے ایک مرکزی کردار مشتاق سکھیرا کی طلبی کے فیصلہ کے بعد اب کیس پھر زیرو پر آگیا ہے، آج کے دن کیس وہیں پر کھڑا ہے جہاں پہلے دن تھا۔

عدالت کی طرف سے نئی جے آئی ٹی بنانے کے حق میں فیصلہ سنانے کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے ثابت کر دیا کہ عدل کے چراغ ابھی گل نہیں ہوئے، سپریم کورٹ نے اپنا قول پورا کر دیا، انصاف کا بول بالا کر دیا اور مظلوم کی داد رسی کی۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے لارجر بنچ کے پانچوں ججز کا شکریہ ادا کیا اور اس بات پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کیا کہ لارجر بنچ نے محبت اور اطمینان سے بات سنی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری جب دلائل دے رہے تھے تو لارجر بنچ کی طرف سے ریمارکس آئے کہ آپ کی گفتگو مسحور کن ہوتی ہے، آپ کو لوگ ساری ساری رات سنتے ہیں، ہم بھی آپ کو سننا چاہتے ہیں۔ الحمدللہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مظلوموں کا مقدمہ لڑنے کا حق ادا کر دیا اور لارجر بنچ کے معزز ممبران کو مطمئن کیا۔ یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آج تک پاکستان میں کسی لیڈر نے اس طرح اپنے کارکنوں کے کندھے سے کندھا نہیں لگایا جس طرح شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے کارکنوں کا مقدمہ لڑا اور انہیں انصاف کی دہلیز تک لائے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ حصولِ انصاف کا ایک بڑا مرحلہ طے ہوگیا۔ ان سطور کی اشاعت تک نئی جے آئی ٹی کی تشکیل کیلئے قانونی مراحل طے پا جائینگے اور سانحہ کی ازسرنو غیر جانبدار تفتیش کا آغاز بھی ہوچکا ہوگا۔ سابق حکمرانوں نے کیس کو داخل دفتر کرنے کیلئے اور حقائق مسخ کرنے کے لیے ریاستی طاقت کا بے رحم استعمال کیا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ اب سانحہ کے نہاں گوشوں سے پردے اٹھیں گے اور جو سچ ہے وہ سامنے آئے گا۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثائ، عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کی قیادت انصاف چاہتی ہے۔ ہم نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو سیاسی مفادات کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری کے حکم پر اس وقت تک پرامن احتجاج ہوتا رہا جب تک ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی اور غیر جانبدار جے آئی ٹی نہیں بنائی گئی تھی اور جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک نہیں کی گئی تھی۔ جب سے سپریم کورٹ نے درخواست پر غور کیا، نہ کوئی مظاہرہ کیا گیا اور نہ ہی کسی عدم اطمینان یا تشویش کا اظہار کیا گیا کیونکہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا سب سے بڑاموقف اور مطالبہ غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کا تھا اور الحمدللہ اس مؤقف کو تسلیم کر لیا گیا۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جنوری 2019ء

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top