اسلام کا تصور تجدید اور مجدد رواں صدی

مورخہ: 11 مارچ 2015ء

(تحریر : عبدالستار سراج (ناظم منہاج سکالرز فورم، یورپ

اللہ رب العزت نے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ اور فرائض نبوت و رسالت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا!

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

(الجمعه: 2)

وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ

(الاعراف:157)

(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا.

(البقره: 143)

اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ.

(التوبه: 33)

وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگےo

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان فرائض نبوی کی بنفس نفیس ادائیگی فرماتے رہے

  1. تلاوت آیات
  2. تزکیہ نفس
  3. تعلیم کتاب و حکمت
  4. امربالمعروف
  5. نہی عن المنکر
  6. پاکیزہ چیزوں کا حلال اور ناپاک چیزوں کا حرام کرنا گویا حلال کھانے اور کمانے اور حرام کھانے اور کمانے سے بچنے کا ماحول میسر کرنا
  7. انسانی زندگی کے ناروا بوجھ ختم کرنا
  8. غلامی(قومی، علاقائی، فکری، معاشرتی) کی زنجیروں سے آزاد کرانا
  9. غلبہ دین حق یعنی اسلامی حکومت کا قیام
  10. عالمی امور امت و انسانیت کی نگرانی کرنا

تاجدارکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تن تنہا ان تمام چیزوں کو اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں نقطہ کمال پر پہنچا دیا تھا اور خلافت راشدہ بھی اسی کا تسلسل تھ۔ خلافت راشدہ کا دور پوری کائنات کے لئے ہر اعتبار سے رول ماڈل رہے گا اور اسی کے لئے تجدید ہوتی رہے گی۔

دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیامت تک حفاظت کا الوہی وعدہ

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

(الحجر: 9)

بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گےo

  • دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیامت تک حفاظت کا الوہی نظام
  • فرائض نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادائیگی بذریعہ امت مسلمہ (مخصوص جماعت کے ذریعے)
  • مخصوص جماعت کا کردار اور پہچان

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.

(العمران: 104)

اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیںo

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ.

(العمران: 110)

تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو

عالمی امور پر امت مسلمہ کی نگرانی وشہادت و حفاظت:

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ.

(البقره: 143)

اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو

مخصوص جماعت اور گروہ سے مراد مصلحین، مجتہدین اور مجدد دین ہیں

اگر لوگوں کے ایمان، عقیدے، معاملات اور نظام حکومت میں کوئی معمولی نوعیت کی خرابی ہوئی تو اسے مصلحین درست کرتے رہیں گے اور اگر بگاڑ بہت بڑھ گی، لوگ دین سے دور ہونے لگے، دین پر عمل پیرا ہونا مشکل ہو گیا تو اس کی اصلاح کے لئے مجتہد آئیں گے لیکن اگر دین کی قدریں پامال ہونا شروع ہوگئیں۔ دین کی اقدار مٹنا شروع ہو جائیں، دین کے اعمال مردہ رسوم میں بدلنے لگیں۔ شعار دین کا مزاق اڑایا جانے لگے، دین پر عمل پیرا ہونا ناممکن دکھائی دینے لگے۔ دین مخالف قوتیں بہت طاقتور ہو جائیں، دین کا نام اور کام محض دکھلاوے کے لئے رہ جائے، حقیقی دین کا کام کرنے والوں کے لئے حالات انتہائی ناساز گار ہو جائیں اور بڑے بڑے مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑے تو ان حالات میں مجدد کو بھیجا جاتا ہے۔

حفاظت دین بذریعہ مجدّدین

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه فِيْمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ اﷲَ عزوجل يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَي رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.

رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالْحَاکِمُوَالطَّبَرَانِيُّ.

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس (علم) میں سے جو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا روایت کرتے ہیں کہ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص (یا اشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اس (امت) کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔

مجدّدین کی علامات، خصوصیات اور کردار

1۔ صاحبان انتخاب خدا وندی

ایسے لوگ بچپن ہی سے منتخب کر لئے جاتے ہیں، ان کا بچپن عام بچوں سے بہت مختلف ہوتا ہے، یہ بچپن ہی میں بہت ذہین و فطین ہوتے ہیں، باکردار، حیا دار، بہت محنتی اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، ان کے والدین کو بچپن ہی سے ان کے کام اور مقام و مرتبہ سے اگا ہ کر دیا جاتا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے!

اللَّـهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ.

(الشوریٰ: 13)

اللہ جسے (خود) چاہتا ہے اپنے حضور میں (قربِ خاص اور خدمت دین مبین کے لئے) منتخب فرما لیتا ہے، اور اپنی طرف (آنے کی) راہ دکھا دیتا ہے (ہر) اس شخص کو جو (اللہ کی طرف) قلبی رجوع کرتا ہےo

2۔ براہ راست فیض یافتگان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سورہ جمعہ کی یہ آیت مبارکہ بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے بعد بھی تاجدارکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی تربیت فرما رہے ہیں اور قیامت تک فرماتے رہیں گے۔ یہاں تک حضرت امام محمد مہدی علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی تعلیم و تربیت کا عظیم مظہرہوں گے۔ ولایت کی دنیا میں اس سلسلہ کو سلسلہ اویسیہ کہتے ہیں۔ اس سلسلے کے اولیاء کی روحانی، علمی اور فکری تربیت براہ راست تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود کرتے ہیں جیسےسیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر کئی مشائخ ہیں اور بالخصوص مجدد دین ہوں گے۔

اسی تصور کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے!

وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ. ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ.

(جمعه: 3-4)

اور اِن میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تزکیہ و تعلیم کے لئے بھیجا ہے) جو ابھی اِن لوگوں سے نہیں ملے (جو اس وقت موجود ہیں(صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ) یعنی اِن کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے)، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo

3۔ صاحبان علم تجدید و اجتہاد و احیاء الدین

ان کا علم روائتی نہیں ہوتا بلکہ ان کا علم تخلیقی اور تجدیدی ہوتا ہے جس سے مشکل، لاینحل اور نئے آنےوالے مسائل کا حل ملتا ہے۔

قرآن مجید انہیں صاحبان امر کہتا ہے مشکل اور لاینحل مسائل کے حوالے سے انہی سے رجوع کرنے کا حکم دیتا ہے۔

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا.

(النساء: 83)

اور جب ان کے پاس کوئی خبر امن یا خوف کی آتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں اور اگر وہ (بجائے شہرت دینے کے) اسے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنے میں سے صاحبانِ امر کی طرف لوٹا دیتے تو ضرور ان میں سے وہ لوگ جو (کسی) بات کا نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں اس (خبر کی حقیقت) کو جان لیتے، اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتےo

تاجدارکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! ان کا علم تجدید و احیائے دین کے لئے ہوگا :

عَنِ الْحَسَنِ بِنْ عَلِيٍّ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ جَاءَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِيُحْيِي بِهِ الإِسْلَامَ فَبَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِيْنَ دَرَجَةٌ وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دورانِ حصولِ علم اگر کسی شخص کو موت آجائے اور وہ اس لئے علم حاصل کررہا ہو کہ اس کے ذریعہ سے اسلام کو زندہ کرے گا تو اس کے اور انبیاءِ کرام کے درمیان جنت میں صرف ایک درجے کا فرق ہو گا۔

4۔ صاحبان علم لدّنی

ان کا علم محض کتابی نہیں ہوتا بلکہ بہت زیادہ علم ڈائریکٹ بارگہ الوہیت و مصطفویت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عطا ہوتا ہے گویا ان کے علم کا بہت بڑا حصہ وہبی اور عطائی ہوگا محض کتابی نہیں ہو گا۔ جیسے ارشاد خدا وندی ہے!

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا.

(الکهف: 65)

تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علم لدنی (یعنی اسرار و معارف کا الہامی علم) سکھایا تھاo

5۔ صاحبان مظہر علوم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نےمخلوقات کے تما م علوم عطاکر رکھے ہیں

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا.

(النساء: 113)

اور (اے حبیب!) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان (دغابازوں) میں سے ایک گروہ یہ ارادہ کر چکا تھا کہ آپ کو بہکا دیں، جب کہ وہ محض اپنے آپ کو ہی گمراہ کر رہے ہیں اور آپ کا تو کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتے، اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جوآپ نہیں جانتے تھے، اورآپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہےo

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما بال أقوام طعنوا في علمي لا تسألوني عن شيء فيما بينكم وبين الساعة إلا أنبأتكم به.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ! اس قوم کا کیا انجام ہوگا جو میرے علم پر اعتراض کرتی ہے تم مجھ سے اپنے اور قیامت کے درمیان کوئی بھی سوال پوچھو، میں تمہیں جواب دوں گا۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ رَفَعَ لِيَ الدُّنْيَا فَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهَا وَإِلَى مَا هُوَ كَائِنٌ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى كَفِّي هَذِهِ: » حلية الأولياء لأبي نعيم »

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی نے دنیا اور جو کچھ قیامت تک اس میں ہونےوالا ہے اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا ہے اور میں اسے ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو۔

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ علوم اپنے غلاموں کو بتانے میں کبھی بخل نہیں کرتے بلکہ ہر ایک کے ظرف کے مطابق حصہ وافر عطا کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے!

وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ

(التکوير: 24)

اور وہ (یعنی نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لئے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔

مجدّد دین کے علم کی شان:

امام شافعی رحمتہ اللہ نے فرمایا۔

سلونی عمّا شئتم اخبرکم عنه فی کتاب الله تعالیٰ (الاتقان)

تم مجھ سے جو چاہو سوال کرو میں تمہیں کتاب اللہ سے اس کا جواب دوں گا

سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی شانِ علم و نظر:

نَظَرْتُ الیٰ بَلاَد الله جَمعاً کخردَلَة عَلیٰ حکمِ اتصَّالی

میں نے اللہ تعالی ٰ کی ساری کائنات کو یوں دیکھا ہے جیسے ہتھیلی پر رائی کا دانہ

6۔ صاحبان نور، قاسمین نور، کثیر الاسفار اور صاحبان ِفراست ِنور

اللہ رب العزت انہیں نور ایمان سے ایک خاص زندگی عطا کرتا ہے اور اس زندگی کے ساتھ ایک خاص نور عطا کرتا ہے۔ یہ صاحبان خاص چلتے بھی نور کےساتھ ہیں، رہتے بھی نور پر ہیں، دیکھتے بھی اس خاص نور الہی سے ہیں اور جہاں جہاں بھی جائیں نور تقسیم کرتے جاتے ہیں۔ یہ لوگ نہ خود اندھیروں میں رہتے ہیں اور نہ کوئی ان کو اندھیروں میں رکھ سکتا ہے بلکہ خلوص نیت کے ساتھ جو بھی ان کے ساتھ لگ جاتا ہے یہ اسے بھی اندھیروں میں نہیں رہنے دیتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے !

أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

(الانعام: 122)

بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔

أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ

(الزمر: 22)

بھلا اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے، (اس کے برعکس) پس اُن لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہو کر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیںo

قال رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ! اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ، فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ".

الترمذي في التفسير

7۔ صاحبان وسعت ظرف و قلب

یہ لوگ بڑے وسیع الظرف اور وسیع القلب ہوتے ہیں۔ یہ اپنے اوپر ڈھائے جانے والے بڑے بڑے ظلم معاف کرتے ہیں۔ یہ کبھی بھی ذاتی انتقام نہیں لیتے لیکن حق کی خاطرکسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ان کے ہاں تنگی اور تنگ نظری کا کوئی تصورنہیں ہوت۔

فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا

(الانعام: 125)

پس اﷲ جس کسی کو (فضلاً) ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کسی کو (عدلاً اس کی اپنی خرید کردہ) گمراہی پر ہی رکھنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ (ایسی) شدید گھٹن کے ساتھ تنگ کر دیتا ہے

8۔ صاحبان قلب سلیم و منیب

یہ لوگ دل کے بڑے صاف و شفاف ہوتے ہیں، ان کی محبت و نفرت فقط اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتی ہے، ان کے دل بغض، عداوت، نفرت، حسد اور کدورت سے پاک ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ

(الشعرا: 89)

مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہواo

مَّنْ خَشِيَ الرَّحْمَـٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ. ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ. لهُم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ.

(ق: 33 - 35)

جو (خدائے) رحمان سے بِن دیکھے ڈرتا رہا اور (اﷲ کی بارگاہ میں) رجوع و اِنابت والا دل لے کر حاضر ہواo اس میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ، یہ ہمیشگی کا دن ہےo اِس (جنت) میں اُن کے لئے وہ تمام نعمتیں (موجود) ہوں گی جن کی وہ خواہش کریں گے اور ہمارے حضور میں ایک نعمت مزید بھی ہے (یا اور بھی بہت کچھ ہے، سو عاشق مَست ہوجائیں گے)o

9۔ صاحبان استقامت، بیباک، نڈراور بےخوف

یہ لوگ بڑے صاحب استقامت، بیباک، نڈر اور بے خوف ہوتے ہیں۔ انہیں دنیا کی کوئی طاقت اپنے مشن، مقصد اور منزل سے ہٹا نہیں سکتی۔ انہیں کوئی خوف حق اور سچ کہنے سے روک نہیں سکت، انہیں کوئی بڑے سے بڑا لالچ دے کر خرید ا نہیں جا سکتا اور انہیں بڑے سے بڑانقصان بھی غمزدہ نہیں کر سکت۔

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.

(الاحقاف: 13)

10۔ صاحبان حکمت انبیاء کی طرح

ان لوگوں کو حکمت انبیاء علیہ السلام کا حصہ وافر عطاکیا جاتا ہے، یہ لوگ جزباتی قسم کے فیصلے نہیں کرتے بلکہ بڑے حکیمانہ اور دوررس نتائج کے حامل فیصلے کرتے ہیں۔ ممکن ہے وقتی طور پر ان کے فیصلے عام لوگوں کی سمجھ سے بہت بالاتر ہوں مگر وقت بتا دیتا ہے کہ درست، مبنی بر حکمت و حقیقت وہی فیصلہ تھا

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ.

(البقره: 269)

اللہ رب العزت جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے، اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیںo

11۔ صاحبان غناء و بے نیاز انبیاء کی طرح

یہ لوگ دین کا کام فقط اپنے مولا کی خاطر کرتے ہیں ان کا کوئی دنیوی مفاد نہیں ہوتا۔ ان کے دل حب دنیا سے خالی ہوتے ہیں۔ یہ کبھی دین کے کام پر معاوضہ طلب نہیں کرتے اور دنیا جہاں کی سب نعمتیں اور حکومتیں بھی مل جائیں پھر بھی اپنے دین کا سودا نہیں کرتے۔ انہیں انبیاء کرام کی طرح بے نیاز کیا جاتا ہےانبیاء کے بارے میں قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے

وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ

(الشعراء: 127)

اور میں تم سے اس (تبلیغِ حق) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگت، میرا اجر تو فقط تمام جہانوں کے رب کے ذمہ ہےo

کہاں سے تُو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

12۔ صاحبان آزمائش انبیاء کی طرح

ان لوگوں پر بڑی بڑی آزمائشیں آتی ہیں۔ یہ لوگ انبیاء کرام علیہ السلام کے نقش قدم پر چل رہے ہوتے ہیں اور دین میں بڑے بلند رتبے اور درجے پر فائز ہوتےہیں اس لئے ان کی آزمائشیں بھی بڑے بلند درجے کی ہوتیہیں مگر وہ آزمائشیں بھی ان کے قدمون و ڈگمگا نہیں سکتیں۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کے بارے میں ارشاد فرمایا !

عن مصعب بن سعد بن أبي وقاص عن أبيه قال : قلت يا رسول الله أي الناس أشد بلاء ؟ قال : الأنبياء، ثم الأمثل فالأمثل، يبتلى الرجل على حسب دينه

(والنسائي، ابن ماجه، حاکم. ترمذی الحديث)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روائت کرتے ہیں کہ میں نے آقا علیہ السلام سے پوچھا کہ انسانوں میں سب سے زیادہ کسے آزمایا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا! انبیاء مرام علیہ السلام کو، پھر کن کو، توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو ان کی مثل ہوئے اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ انسان کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔

13۔ صاحبان مخالفت انبیاء کی طرح

ان کی مخالفت بھی انبیاء کرام علیہ السلام کی طرح ہوتی ہے۔ معاشرے کے بڑے بڑے مجرم اور ان کے سر غنے ان کے دشمن ہوتے ہیں اور ان کی دشمنی میں تمام اخلاقی حدوں کو پار کر جاتے ہیں مگر ان کا بگاڑ کچھ نہیں سکتے کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت ہی کافی ہوتی ہے۔ قرآن مجید ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے۔

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا.

(الفرقان: 31)

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے جرائم شعار لوگوں میں سے (ان کے) دشمن بنائے تھے (جو ان کے پیغمبرانہ مشن کی مخالفت کرتے اور اس طرح حق اور باطل قوتوں کے درمیان تضاد پیدا ہوتا جس سے انقلاب کے لئے سازگار فضا تیار ہو جاتی تھی)، اور آپ کا رب ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لئے کافی ہےo

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا.

(الانعام: 123)

اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وڈیروں (اور رئیسوں) کو وہاں کے جرائم کا سرغنہ بنایا تاکہ وہ اس (بستی) میں مکاریاں کریں

اور پھر یہی وڈیرے اہل حق کے دشمن ہوتے ہیں اور ان کے خلاف منصوبہ بندی کرتے ہیں اور بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کے ذریعے اہل حق کی کردار کشی کرتے ہیں

14۔ ان کی مخالفت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی

عن معاوية، رضي الله عنه، قال: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: "لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ.

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ میری امت میں ایک جماعت( صاحبین امر) اللہ تعالیٰ کے امر سے قائم رہے گی، ان کو رسوا کرنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور نہ ہی ان کی مخالفت کرنے والے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ حق پر قائم رہیں گے۔

15۔ ان کی کامیابی وعدہ الہی کے مطابق یقینی ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی

یہ لوگ کبھی ناکام نہیں ہوسکتے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہنمائی میں کام کرتے ہیں، ان کے پاس خاص نور اور علم ہوتاہے جس کے مطابق ان کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی بنتی ہے اور وعدہ الہی کے مطابق یہ اپنی منزل کو پاتے ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا.

(النور: 55)

اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل امت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدار کے ذریعہ) مضبوط و مستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور (اس تمکّن کے باعث) ان کے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اور سماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لئے امن و حفاظت کی حالت سے بدل دے گا۔

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ.

(العمران: 139)

اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہوo

مجدد دین کے کام کا دائرہ کار بااعتبار شعبہ جات دین

مجدد، دین کا امام باعتبار شعبہ دین:

دین مبین کے کام کو بنیادی طور پر چار بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے

  1. (1)علم العقائد
  2. (2) علم الفقہ
  3. (3) علم ا لتزکیہ والاحسان
  4. (4) علم السیاست والحکومت

اس اعتبار سے مجددین کی درج ذیل اقسام بنتی ہیں

1. یک جہتی مجدد:

بعض مجدد صرف ایک شعبہ زندگی میں تجدید کرتے ہیں جیسے عقائد، فقہ، تصوف اور سیاست و حکومت میں سے کسی ایک شعبہ دین میں تجدید کرتے ہیں مثلاً حضرت عمر بن عبدالعزی رضی اللہ عنہ حکومت و خلافت میں، آئمہ فقہاء فقہ میں، آئمہ تصوف تصوف و سلوک میں، پچھلی صدی میں حضرت پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ عقائد کے باب میں فتنہ قادیانیت کے خلاف اور حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سیاسی شعور کی بیداری کے باب میں مجدد تھے۔ یہ تمام مجددین ہمہ پہلو شخصیت رکھتے تھے مگر ان کا تخصص اور سپیشلائزیشن کسی ایک شعبہ دین میں تھی۔

2. دو جہتی مجدد:

بعض مجدد ایسے ہوتے ہیں جو دو شعبہ ہائے دین کی تجدید کرتے ہیں جیسے پچھلی صدی میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے عقائد اور فقہ کے باب میں تجدیدی کام کیا۔ بالخصوص فتنہ گستاخی رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جس انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا یہ آپ ہی کا کارنامہ تھا اور اسی طرح فقہ کے باب میں آپ کے بہت سے فتاویٰ جات اور فیصلے تجدیدی نوعیت کے تھے

3. ہمہ جہتی مجدد:

بعض مجدد ایسے ہوتے ہیں جو ہمہ جہت دین کی تجدید کرتے ہیں۔ وہ عقائد، فقہ، تصوف اور سیاست و حکومت کے تمام شعبوں میں اصلاح و تجدید کرتے ہیں اور ایک نئی روح کے ساتھ پورے دین کو پھر قابل عمل اور حسین و جمیل بنا کر پیش کرتے ہیں جیسے حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ عالم اسلام کے وہ عظیم مجدد ہیں جنکی تجدیدی کاوشیں ہمہ جہت نوعیت کی تھیں اور ہر شعبہ زندگی میں دور رس اثرات مرتب ہوئے۔

مجددین کے کام کا دائرہ کاربااعتبار علاقہ و زمانہ

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں مجدّد بنیادی طور پر اسلامی صدی کے اختتام پر تشریف لاتے ہیں اور اپنی اپنی فیلڈ اور شعبہ میں اتنی محنت اور کوشش کرتے ہیں کہ اگلے سوسال تک دین زندہ و تا بندہ ہو جاتا ہے۔

ایک ہی علاقے اور زمانے میں ہر شعبہ دین کے لئے الگ الگ مجدد بھی ہوسکتا ہے اور کبھی کبھی کسی ایک کو تمام شعبوں کی ذمہ داری کسی خاص علاقے، ملک، براعظم یا عالمی سطح پر بھی دی جاسکتی ہے۔ بعض مجدد دین کے کام کے اثرات سو سال تک رہےہیں اور کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کام کے اثرات صدیوں تک رہتے ہیں جیسے آئمہ فقہاء رضی اللہ عنہ، آئمہ تصوف و روحانیت رضی اللہ عنہ، آئمہ عقائد رضی اللہ عنہ، حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ علم دین کے باب میں ایسے مجددین کو مفہمین کہتے ہیں۔

مجدّد کاظہور

علامہ اسماعیل حقی رحمتہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مجدد اسلامی صدی کے آخری حصے میں پیدا ہو اور صدی کے آغاز میں اس کا کام بطور مجدد شروع ہو چکا ہو۔ جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی ولادت تریسٹھ (63 ہجری)، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اسی (80 ہجری)، غوث الا عظم حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ (470 ہجری)، حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ (971 ہجری) اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ (1272ہجری)۔

علمائے اہل السنہ والجماعت سے مؤدّبانہ گزارش

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے مجدد ہونے پر علمائے اہل السنہ والجماعت کا اجماع ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ چودہویں صدی کے مجدد ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کے تقریباً سوسال بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ولادت 19 فروری 1951 اور اسلامی کیلنڈر کے مطابق 12 جمادی اوّل 1370 ہجری بروز سوموار ہوئی۔

اسلامی تاریخ میں جتنے بڑے بڑے مجددیں پیدا ہوئے ہیں ان سب کی پیدائش ستر (70) کی دہائی میں ہوئی ہے۔

آئے علمائے اہل سنت ! تھوڑا سوچو، غور کرو، تعصب کی عینک اتار کر، حسد کی آگ سے نکل کر، حقیقت کی دنیا میں دیکھو کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے بعد کون سا ایسا شخص ہے جو علم و معرفت کا سمندر ہو۔ جو ایک ہزار کتابوں کا مصنف ہو اور چہار دانگ عالم میں جس کے علم کا چرچا ہو۔ جو پوری دنیا کے عالم اسلام و کفر کو چیلنج کرے کہ کوئی سوال لیکر آؤ قرآن و سنّت سے جواب دوں گا۔ جس سے جس نے جو سوال کیا موقع پر اس کا ایسا جواب دیا کہ سوال کرنے والے دنگ رہ گئے۔ جس کے علم و فضل کے علمائے عرب و عجم معترف ہیں اور ان سے سندات لے رہے ہیں

مجدّد رواں صدی

مجدد کی تمام صفات، اوصاف و کمالات اور کام کے اثرات و نتائج اور تاریخ ولادت کو دیکھتے ہوئے اس بات میں کوئی شک نہیں رہتا کہ موجودہ صدی کے مجدد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں اور آپ مجددین کی صف میں ہمہ جہت مجدد ہیں جنہوں نے عقائد، فقہ، تصوف و طریقت اور حکو مت و سیاست کی اصلاح و تجدید کے لئے تجدیدی نو عیت کی کوششیں کی ہیں اور آپ کے علمی کارناموں سے پورا عالم منوّر ہو رہا ہے۔ آپ کے کام کا دائرہ کار نہ صرف کوئی خاص خطہ، علاقہ یا ملک ہے بلکہ آپ کاکام بین الاقوامی ہے۔

آپ کے کام کی مخالفت بھی اس دور کے بڑے بڑے فرعون اور مجرموں کے سرغنے کر رہے ہیں، آپ کی کردار کشی کے لئے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز خریدے جاتے ہیں مگر اتنی بڑی مخالفت اور کردار کشی کے باوجود کوئی آپ کی عظمت کو کم نہیں کرسکا بلکہ آپ جس طرف بھی تشریف لے جاتے ہیں عوام الناس کا جم غفیر زیارت و ملاقات کے لئے بے تاب ہوتا ہے اور جو ایک بار زیارت کرلیتا ہے اس کی لذت و حلاوت زندگی بھر محسوس کرتا رہتا ہے اور وعدہ الہی کے مطابق آپ مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع کرکے اور اللہ رب العزت کے دین کو دنیا میں غالب کر کے تشریف لے جائیں گے۔ جیسے پہلے کوئی مجدد ناکام نہیں ہوا یہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ تھوڑا مزید صبر کیجیئے اور آنے والے وقت کا انتظار کرو۔ آج بھی ان کا ہے اور کل بھی انہی کا ہوگا مگر دیکھنے کے لئے دلِ بینا چاہیئے

آپ کے کام کو دیکھ کر شاعر یوں گویا ہوتا ہے

ہزاروں سال نرگس اپنی بےنوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

کلیوں کو خون جگر دے کے چلا ہوں
صدیوں گلشن کی فضا مجھے یاد کرے گی

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top