راستے میں سے ایک پتھر ہٹانے کی معمولی سی نیکی نے چالیس دن کے جادو کو زائل کر دیا: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی سب سے چھوٹی نیکی کو بھی اتنی عظمت سے قبول فرماتا ہے کہ باطل کی سب مضبوط قوتیں اُس کے سامنے ماند پڑ جاتی ہیں: شیخ الاسلام کا خطاب
اللہ تعالیٰ کے ہاں نیکی کی قدر و قیمت ظاہری حجم سے نہیں، بلکہ نیت کی سچائی اور دل کی صفائی سے طے ہوتی ہے: شیخ الاسلام کا خطاب
جادو کے اَثرات، باطل کی سازشیں اور دل و دماغ میں اُترنے والے شیطانی وساوس وخیالات اُس وقت بے وزن ہو جاتے ہیں جب بندہ اپنے رب کے حضور نیکی کا معمولی سا چراغ بھی روشن کر دے۔ راستے سے ایک چھوٹا سا پتھر ہٹانے جیسا بظاہر معمولی عمل بھی جب خالص نیت سے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اُسے ایسی عظمت عطا فرما دیتا ہے کہ چالیس دن کا جادو، باطل کی ساری قوتیں اور شیطانی تدبیریں ایک لمحے میں ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ ربِ کریم کا یہ اصول ازل سے قائم ہے کہ وہ اپنے بندے کی کوئی نیکی ضائع نہیں کرتا، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔ یہی نیکیوں کا نور ہے جو جادو کی تاریکی کو کاٹ دیتا ہے، دل و جان کو مضبوط کر دیتا ہے اور بندے کو اس یقین سے بھر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سامنے کوئی جادو، کوئی باطل، کوئی فتنہ قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ حقیقت انسان کو یاد دلاتی ہے کہ نجات بڑے دعووں میں نہیں، نیت کے اخلاص اور عمل کی سادگی میں پوشیدہ ہے۔
ایک نیکی کے باعث جادو کا اَثر زائل:
مجدّد المئۃ الحاضرۃ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیۃنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: حضرت ابو حفص عمر بن سالم ایک بڑے ولی اللہ گزرے ہیں۔ نیشاپور کے قصبے شہرستان کے کچھ لوگوں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا حال کیسے بدلا؟ انہوں نے اپنا واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک لونڈی پر فریفتہ ہو گئے تھے اور ہر ممکن کوشش کی کہ وہ اُن کے نکاح میں آجائے، مگر بات نہ بنی۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ شہر میں ایک یہودی جادوگر ہے، اُس کے پاس جاؤ وہ تمہارا مسئلہ حل کر دے گا۔ وہ اُس جادوگر کے پاس گئے اور اس سے درخواست کی۔ جادوگر نے کہا کہ چالیس دن کے لیے نماز چھوڑنی ہوگی۔ انہوں نے کہا: میں تیار ہوں۔ پھر اُس نے کہا کہ چالیس دن کے لیے تمام نیک اعمال بھی چھوڑنے ہوں گے، اسلام کے ہر رکن اور ہر نیکی سے چالیس دن دور رہنا ہوگا، انہوں نے یہ بھی قبول کر لیا۔ چالیس دن گزر گئے، جادو کا عمل پورا ہوا مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا، اور لونڈی کا دل نہ بدلا۔
حضرت ابو حفص نے جادوگر سے کہا کہ میں نے تمہارے کہنے پر پورا دین چھوڑ دیا مگر مقصد پورا نہیں ہوا۔ جادوگر نے کہا کہ میرا جادو کبھی خطا نہیں جاتا، ضرور تم نے چالیس دنوں میں کوئی نیک عمل کیا ہوگا جو میرے عمل کو توڑ گیا ہے۔ حضرت ابو حفص نے کہا کہ: میں نے کوئی نیکی نہیں کی سوائے اس کے کہ راستے میں ایک پتھر دیکھا تھا، اسے ہٹا دیا تاکہ کسی راہ گیر کو ٹھوکر نہ لگے۔ یہودی یہ سن کر رو پڑا اور کہنے لگا: ’’یہی وہ نیکی تھی جس نے میرے چالیس دن کے جادو کو برباد کر دیا۔‘‘ پھر اس نے ابو حفص کو جھنجوڑ کر کہا: تو نے چالیس دن اپنے رب اور دین سے بے وفائی کی، مگر تیرے رب نے پھر بھی تیرے اس چھوٹے سے عمل کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ تو اتنے وفادار رب کو کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ یہ سن کر حضرت ابو حفص غش کھا کر گر گئے اور بے ہوش ہو گئے اور وہ یہودی فورًا مسلمان ہو گیا۔
محبتِ قرآن کی مستی اور حضرت ابو حفص کی توبہ کا نقطۂ آغاز:
شیخ الاسلام نے مزید کہا کہ: وہ رب جو بندے کی انتہائی معمولی سی محنت بھی ضائع نہیں کرتا، اے انسان! تُو اُسی رب کے ساتھ بے وفائی کرتا ہے۔ حضرت ابو حفص فرماتے ہیں کہ اِس واقعہ کے بعد جب میں گھر واپس آیا تو دیکھا کہ ایک نابینا شخص قرآن کی تلاوت کر رہا ہے۔ میرے دل کی حالت بدل چکی تھی، دل توبہ کر چکا تھا اور ایک روحانی سرشاری نے مجھے گھیر لیا تھا۔ میں تلاوتِ قرآن سنتا رہا، کیفیت ایسی غالب تھی کہ مجھے احساس تک نہ ہوا کہ میں آگ کی بَھٹی کے قریب بیٹھا ہوں۔ اسی محویت میں میں نے بے اختیار اپنا ہاتھ بھٹی میں ڈال دیا، ہاتھ جل گئے مگر قرآن کی لذتِ سماعت میں ڈوبا ہوا میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ شاگردوں نے چیخ کر کہا: اے استاد! آپ کے ہاتھ جل گئے۔ جب میرا دھیان ٹوٹا تو میں نے صرف اتنا کہا: جب ہم نے دنیا کے کاموں سے ہاتھ اٹھا لیے، تو اُس کی محبت نے ہمیں ہر شے سے بے نیاز کر دیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے میری زندگی کا نیا سفر شروع ہوا۔
حاصلِ کلام:
اللہ تعالیٰ کے ہاں نیکی کی قدر و قیمت کسی بڑے نام یا ظاہری حجم سے نہیں، بلکہ نیت کی سچائی اور دل کی صفائی سے طے ہوتی ہے۔ انسان کبھی کبھی کسی چھوٹے سے بھلے کام کو معمولی سمجھ کر کرتا ہے، مگر اسی ہلکی سی روشنی میں ربِ کریم وہ تاثیر رکھ دیتا ہے جو باطل کے مضبوط ترین جالوں کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ حضرت ابو حفص کے راستے سے ہٹائے گئے پتھر نے نہ صرف چالیس دن کے جادو کو باطل کیا بلکہ ایک یہودی کے دل کو ایمان کی روشنی سے منوّر کر دیا۔ پھر جب قرآن کی تلاوت نے اُن کے باطن کو جھنجھوڑا تو وہ کیفیت اُن پر اتنی غالب ہوئی کہ دنیا کی آگ نے ان کے ہاتھ تو جلا لیے مگر ان کے دل سے غفلت کی ہر تہہ کو بھی جلا کر پھینک دیا۔ ایک ادنیٰ سی نیکی نے نہ صرف ایک شخص کی زندگی بدل دی بلکہ یہ حقیقت بھی واضح کر دی کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی عمل حقیر نہیں۔ وہ رب جب بندے کی چھوٹی سی کوشش کو یوں سنوارتا ہے، تو پھر انسان کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ ہر قدم خیر کے راستے میں رکھے اور کبھی بھی نیکی کو کم نہ سمجھے۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)


















تبصرہ