اللہ رب العزت انبیائے کرام اور اولیائے عظام کی طبائع کے اندر اخلاقِ حسنہ کو ودیعت فرما دیتا ہے: شیخ حماد مصطفی المدنی القادری

انبیاء و رسل کے مراتب جتنے بلند ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کے اخلاق کو بھی اتنا ہی بلند و بےمثال فرما دیتا ہے: خطاب

اللہ ربّ العزّت نے اپنے برگزیدہ بندوں انبیائے کرام، رسلِ عظام اور اولیائے کاملین کی طبیعتوں کو ابتداء ہی سے نورِ اخلاق اور جمالِ کردار سے مزیّن فرما دیا ہے۔ اُن کے مزاج میں پاکیزگی، سچائی، شفقت اور فیاضی پیدائشی طور پر رچی بسی ہوتی ہے۔ جیسے جیسے انبیاء و رسل کے مراتب بلند ہوتے ہیں، ویسے ہی اللہ تعالیٰ اُن کے اخلاق کو بھی اُسی شان کے مطابق اُتنے ہی بلند، بےمثال اور کامل بنا دیتا ہے۔ اُن کے اَخلاق انسانی دائرۂ حُسن کی حدوں کو عبور کر کے ربانی جمال کی اُس بلندی کو چھو لیتے ہیں جہاں سے خیر پھوٹتی ہے، کردار نکھرتا ہے، اور انسانیت کو اپنی اصل پہچان ملتی ہے۔ یوں یہ نفوسِ قدسیہ اپنی پاکیزہ طبیعتوں کے ذریعے دنیا کو اخلاق، محبت اور نورِ ہدایت کا عملی درس دیتے رہتے ہیں۔

اَنبیاء و اولیاء کی فطرتِ پاکیزہ اور اَخلاقِ عظیم:

شیخ حماد مصطفی القادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اللہ ربّ العزّت نے انسان کو ایک طبیعت اور ایک عادت عطا فرمائی ہے۔ طبیعت پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا، البتہ عادت پر اس کا پورا اختیار ہوتا ہے۔ لیکن یہ اصول انبیاء، رسل اور اولیاء کرام کے بارے میں مختلف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طبیعتوں میں ابتداء ہی سے اخلاقِ حسنہ کو ودیعت فرما دیا ہوتا ہے۔

انبیاء و رسل کے مقامات جتنے بلند ہوتے ہیں، اُن کے اخلاق بھی اُسی شان کے مطابق بلند، پاکیزہ اور بےمثال ہوتے ہیں۔ جب اخلاق حسنہ اپنے اعلیٰ ترین درجے تک پہنچ جائیں تو اسے درجۂ اَتَم کہا جاتا ہے؛ اور اسی درجۂ اَتم سے بھی بلند مرتبہ اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب مصطفیٰ ﷺ کو عطا فرمایا جسے قرآن نے’’خُلُقِ عظیم‘‘کے نام سے متّصف کیا ہے۔

انبیاء کرام اور رُسل عظام کی طبیعتیں پیدائش سے لے کر دنیا سے رخصت ہونے تک حُسنِ اخلاق سے آراستہ رہتی ہیں۔ اُن کے مزاج میں جھوٹ، بخل، کنجوسی، غصہ، نفرت یا کوئی بھی اخلاقی کجی نہیں پائی جاتی۔ اللہ تعالیٰ اُن کی سرشت ہی میں خیر، پاکیزگی اور جمالِ اخلاق رکھ دیتا ہے؛ وہ فطرتًا حَسین، مزاجًا پاکیزہ اور باطنًا نورانی ہوتے ہیں۔

خُلُقِ عظیم: اَخلاقِ انسانی کی انتہا سے بلند تر مقام:

شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے مزید کہا کہ: جیسے جیسے آپ انبیاء و رسلِ عظام کے مقام، مرتبے اور قدر و منزلت کی معرفت حاصل کرتے جاتے ہیں، ویسے ہی ایک حقیقت روشن ہوتی جاتی ہے کہ اللہ ربّ العزّت جس نبی یا رسول کو جتنا بلند مقام عطا فرماتا ہے، اُسی کے مطابق اُن کے اخلاقِ حسنہ کو بھی بلند، پاکیزہ اور بےمثال بنا دیتا ہے۔ جب اخلاقِ حسنہ اپنے منتہائے کمال تک پہنچتے ہیں، جسے درجۂ اَتَم کہا جاتا ہے، تو اس سے بھی برتر اور اعلیٰ مقام وہ ہے جو اللہ ربّ العزّت نے حضور نبی اکرم ﷺ کو عطا فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے ارشاد فرمایا: وَإِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيمٍ۔ یعنی آپ ﷺ اخلاق کے عظیم ترین مقام پر فائز ہیں۔

جہاں انسانی اخلاق کی انتہا ہو جاتی ہے، وہ مقام بھی حضور نبی اکرم ﷺ کے خُلُقِ عظیم کے مقابلے میں کم تر ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ ان تمام درجات سے بالا، بلند اور منفرد مقامِ اخلاق پر سرفراز کیے گئے ہیں۔

حاصلِ کلام:

انبیاءِ کرام، رسلِ عظام اور اولیائے کاملین کی شخصیات کا بنیادی جوہر یہ ہے کہ اللہ ربّ العزّت نے ان کی فطرتوں میں آغاز ہی سے حُسنِ اخلاق کا نور رکھ دیا ہے۔ اُن کے مزاج اپنی اصل میں پاکیزہ، نرم، سچے اور کریمانہ ہوتے ہیں، اور جیسے جیسے اُن کے روحانی مرتبے بلند ہوتے ہیں، ویسے ہی اُن کے اخلاق بھی الوہیت کے فیضان سے مزید نکھرتے اور کمالات کی سمت بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اخلاقِ انسانی کی وہ بلندیاں جنہیں لوگ کمال کی انتہا سمجھتے ہیں، انبیاء کے ہاں وہ صرف ابتدا ہوتی ہے، اور اِن تمام اعلیٰ درجوں سے بھی آگے وہ بلند ترین مقام ہے جو اللہ نے اپنے محبوب رسولِ اکرم ﷺ کو عطا فرمایا۔ وہ مقام جسے قرآن نے ’’خُلُقِ عظیم‘‘ کہا، اور جو انسانی اخلاق کی ہر حد، ہر پیمانے اور ہر تعریف سے ماورا ہے۔ یہی مقدّس نفوس اپنی پیدائشی طہارت اور نورانی سرشت کے ذریعے دنیا کو بتاتے ہیں کہ حقیقی اَخلاق کیا ہے اور انسانیت کا اصل معیار کس بلندی پر قائم ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top