27 ویں سالانہ شہرِ اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مثنوی مولانا روم پر علمی و روحانی دروس

رپورٹ: محمد یوسف منہاجین
محبوب حسین

تجدیدِ دین و احیائے اسلام کی عالمی تحریک، تحریک منہاج القرآن کو یہ سعادت و اعزاز حاصل ہے کہ اس کے زیر اہتمام حرمینِ شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف منعقد ہوتا ہے۔ یہ شہرِ اعتکاف شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء حضور سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی قربت و معیت اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی صحبت و انداز تعلیم و تربیت کی بناء پر منفرد حیثیت کا حامل ہے۔یہ اعتکاف قرآن، حدیث، فقہ اور تصوف کی تعلیمات پر مبنی ہونے کی بناء پر تعلیم و تربیت کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔

تحریک منہاج القرآن نے اجتماعی اعتکاف کی اس سنت کو زندہ کرکے عالم اسلام میں نئے ایمانی جذبوں کی تحریک پیدا کردی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مرکز حرمین شریفین کے بعد عالمِ اسلام کی سب سے بڑی اعتکاف گاہ بن گیا ہے۔ اعتکاف کا مقصد تعلق باللہ، ربطِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، رجوع الی القرآن اور فکرِ آخرت پیدا کرنا ہے جو تنہا بیٹھنے کی بجائے اجتماعی اعتکاف کے ذریعے زیادہ موثر انداز میں حاصل ہوتی ہے کیونکہ تنہائی و گوشہ نشینی الا ماشاء اللہ عام شخص کو انتشارِ خیالی اور غفلت کا شکار بھی کردیتی ہے۔

اس شہرِ اعتکاف میں تلاوت، ذکر و اذکار، نعت خوانی، درس و تدریس کے حلقہ جات، نوافل اور وظائف ایک خاص شیڈول کے مطابق معتکفین کے ذوقِ عبادت کو بڑھانے کی غرض سے منظم انداز میں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ اس دوران ان کی فکری و نظریاتی اور اخلاقی و روحانی تربیت کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ وہ اخلاص و للہیت سے معمور ہو کر مزید بہتر انداز میں معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کرسکیں۔ یہ اجتماعی اعتکاف نہ صرف اللہ رب العزت کے حضور اجتماعی توبہ اور گریہ و زاری کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ غلامیِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفا کرنے تک لے جانے کا باعث بھی بنتا ہے۔

  • امسال تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام 27 واں سالانہ اجتماعی اعتکاف 5 جون 2018ء کو منعقد ہوا جس میں اندرون و بیرون ملک سے ہزاروں خواتین و حضرات نے خصوصی شرکت کی۔ تزکیہ نفس، فہم دین، توبہ اور آنسووں کی اس بستی میں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کے حصول کے لئے دنیا و ما فیھا سے بے نیاز ہزار ہا خواتین و حضرات معتکفین و معتکفات کا یہ اجتماع ہر پہلو اور ہر رنگ سے اپنی نظیر آپ تھا۔
  • ناظم اعلی محترم خرم نواز گنڈا پور (سربراہ اعتکاف کمیٹی)، محترم جواد حامد (سیکرٹری اعتکاف کمیٹی) اور 53 انتظامی کمیٹیوں کے سربراہان و ممبران نے اس شہرِ اعتکاف کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
  • شہرِ اعتکاف میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین القادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین القادری، محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی، محترم احمد مصطفی العربی اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیا ت، مشائخ عظام، علماء کرام، وکلاء، صحافی حضرات اور تحریک منہاج القرآن کی جملہ نظامتوں کے ناظمین اور مرکزی قائدین نے خصوصی شرکت کی۔
  • شہر اعتکاف میں جملہ معتکفین و معتکفات کو باقاعدہ ایک شیڈول دیا گیا جس پر عمل کرنا ہر معتکف کے لئے ضروری تھا۔ اس شیڈول کے مطابق فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، اوابین اور دیگر نوافل کی ادائیگی کا ایک ماحول قائم تھا جس میں ہر معتکف ذوق و شوق کے ساتھ شریک رہا۔ علاوہ ازیں حلقہ ہائے درود، تربیتی حلقہ جات اور طاق راتوں میں محافل نعت کا خصوصی اہتمام بھی معتکفین کے ذوقِ عبارت، نورانیت و روحانیت کو جِلا بخشنے کا ذریعہ بن رہے تھے۔
  • شہرِ اعتکاف میں عامۃ الناس کو درپیش فقہی مسائل کا بھی دورِ حاضر کی ضروریات و تقاضوں کے مطابق ایک جامع اور مکمل حل پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ہر روز باقاعدہ فقہی مسائل کی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں محترم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی نے معتکفین کے فقہی سوالات کے جوابات مرحمت فرمائے۔
  • شہر اعتکاف میں معتکفین کی علمی و فکری اور روحانی تربیت کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ یہ احباب اپنے انفرادی معمولات و معاملات کو بھی دینِ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میںبحسن و خوبی انجام دے سکیں۔ اس سلسلے میں نظامت تربیت کے زیر اہتمام قرآن مجید، عبادات و عقائد، اخلاق حسنہ اور فقہی مسائل پر مشتمل باقاعدہ اسلامی تربیتی نصاب مرتب کیا گیا۔ ان تربیتی حلقہ جات میں نظامت دعوت کے ناظمین، منہاجینز اور کالج آف شریعہ منہاج یونیورسٹی کے طلبہ نے معتکفین کو شیخ الاسلام کی کتاب اللباب فی الحقوق والآداب (حقوق و آداب)، خدمت دین کی اہمیت اور نظامت تربیت کا تیار کردہ قرآن مجید سے منتخب آیات، فضیلتِ علم، عبادات، محبتِ رسول، عقائدِ اسلامی اور فقہی مسائل پر مشتمل نصاب ’’نصاب زندگی‘‘ سے لیکچرز دیئے۔
  • معتکفین کی علمی و فکری آبیاری بھی تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ اس اجتماعی اعتکاف کا اہم خاصہ ہے۔ شہر اعتکاف میں معتکفین کی علمی و فکری اور ذہنی استعداد کو مزید اجاگر کرنے کے لئے تحریک منہاج القرآن کی جملہ نظامتوں اور فورمز منہاج القرآن یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج القرآن ویمن لیگ، نظامت دعوت و تربیت اور منہاج ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام بھی تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔ ان نشستوں میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری اور دیگر مرکزی قائدین و ناظمین نے مختلف موضوعات پر خصوصی لیکچرز دیئے۔ علاوہ ازیں کالج آف شریعہ، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی اور منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کی مجموعی کارکردگی رپورٹس بھی شرکاء اعتکاف کے سامنے پیش کی گئیں۔
  • اعتکاف کے دوران ایک طرف نماز تراویح میں محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی اور حفاظ کرام نے اپنی خوبصورت آواز میں تلاوت قرآن مجید کے ذریعے معتکفین کے قلوب و ارواح کو قرآن مجید کے نور سے منور کیا اور دوسری طرف بعد از نماز تراویح منعقدہ محافل نعت میں محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی، محترم صاحبزادہ احمد مصطفی العربی، محتر محمد افضل نوشاہی، محترم خرم شہزاد، محترم شکیل احمد طاہر اور دیگر ثناء خوانانِ مصطفی نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے شرکائِ اعتکاف کے ایمان کو محبتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے مزید روشنی اور جلا عطا کی۔
  • اعتکاف کے دوران ناظم تربیت محترم علامہ غلام مرتضیٰ علوی اور نظامت تربیت کے دیگر سکالرز نے جملہ محافل میں نقابت کے فرائض احسن طور پر سرانجام دیئے۔
  • شہر اعتکاف کی تمام علمی، فکری اور روحانی سرگرمیوں کی نشریات منہاج IT بیورو نے www.minhaj.tv کے ذریعے پوری دنیا میں براہ راست پیش کیں۔ اس طرح یہ شہر اعتکاف صرف جامع مسجد المنہاج بغداد ٹاؤن لاہور تک محدود نہ رہا بلکہ پوری دنیا سے لاکھوں سامعین و ناظرین اس میں برابر شریک رہے۔
  • علاوہ ازیں دوران اعتکاف ہی منہاج IT بیورو کی خصوصی کاوش سے متعارف ہونے والی Minhaj TV Android Mobile App کے ذریعے بھی پوری دنیا میں شہر اعتکاف کی جملہ سرگرمیوں اور شیخ الاسلام کے خطابات کو سماعت کیا جاتا رہا۔
  • امسال شہر اعتکاف میں 600 سے زائد چھوٹے معصوم بچے اور بچیاں اپنے والدین کے ہمراہ مسنون اعتکاف میں شریک ہوئے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان تمام بچوں اور بچیوں کو اور ان کے والدین کو خصوصی مبارکباد اور دعاؤں سے نوازا۔ علاوہ ازیں شیخ الاسلام نے جملہ تنظیمات اور کارکنان کو بھی شہرِ اعتکاف میں اس قدر کثیر تعداد میں شرکت پر خصوصی مبارکباد دی۔
  • اعتکاف کے دوران شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے درج ذیل مرکزی قائدین کو ان کی غیر معمولی کارکردگی پر گولڈ میڈلز اور شیلڈز سے نوازا۔ یہ اعزازات محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، محترم صاحبزادہ حماد مصطفی المدنی اور محترم صاحبزادہ احمد مصطفی العربی کے ہاتھوں سے دیئے گئے۔

گولڈ میڈلز حاصل کرنے والے مرکزی قائدین:

محترم خرم نواز گنڈا پور (ناظم اعلیٰ)، محترم جی ایم ملک (ڈائریکٹرDFA)، محترم سید الطاف حسین شاہ گیلانی (نائب ناظم اعلیٰ)، محترم جواد حامد (ڈائریکٹر ایڈمن و اجتماعات)، محترم سید مشرف علی شاہ (نگران گوشہ درود)، محترم احمد نواز انجم (نائب ناظم اعلیٰ)، محترم انجینئر محمد رفیق نجم(نائب ناظم اعلیٰ)، محترم رانا محمد ادریس(نائب ناظم اعلیٰ)، محترم سردار شاکر مزاری(نائب ناظم اعلیٰ)، محترم جاوید اقبال قادری (نظامت مالیات)، محترم حاجی منظور حسین (ڈائریکٹر پریس اینڈ پبلی کیشنز)، محترم عدنان جاوید (ناظم مالیات)، محترم مظہر محمود علوی (صدر یوتھ لیگ)، محترم عرفان یوسف (صدر MSM)، محترم علامہ غلام مرتضیٰ علوی (ناظم تربیت)، محترمہ فرح ناز (صدر ویمن لیگ)۔

شیلڈز حاصل کرنے والے مرکزی قائدین:

محترم نوراللہ صدیقی (ڈائریکٹر میڈیا)، محترم سید امجد علی شاہ (ڈائریکٹر MWF)، محترم سرفراز احمد خان (ناظم ممبر شپ)، محترم شہزاد احمد (سٹاف ممبر IT بیورو) اور محترم انس اعوان (سٹوڈنٹ منہاج یونیورسٹی) کے لیے منہاج TV کی موبائل App کی تیاری پر شیلڈز اور کیش پرائزز، مرکزی عہدیداران منہاج القرآن یوتھ لیگ، مرکزی عہدیداران مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، مرکزی عہدیداران منہاج القرآن ویمن لیگ۔

  • تمغہ استقامت: اعتکاف کے موقع پر مرکزی سیکرٹریٹ پر عرصہ دراز سے خدمات بجا لانے والے سٹاف کو بھی تمغہ استقامت سے نوازا گیا۔ اس سٹاف میں محترم قاضی فیض الاسلام (پرنسپل سیکرٹری چیئرمین سپریم کونسل)، محترم امتیاز حسین اعوان (سیکرٹری قبلہ آفس)، ڈرائیورز اور گارڈز شامل ہیں۔
  • علاوہ ازیں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآن انٹرنیشنل کی گلف میں موجود جملہ تنظیمات کو ان کی غیر معمولی خدمات پر شیلڈز سے نوازا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات

معتکفین کے لئے اس اعتکاف کا ماحصل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات ہوتے ہیں۔ جن کے ذریعے وہ اپنے علمی، فکری، روحانی، تربیتی اور تنظیمی امور میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ امسال شیخ الاسلام نے معتکفین کی علمی و روحانی آبیاری کے لئے ’’دروس مثنوی مولانا روم‘‘ اور دیگر اہم تربیتی موضوعات پر اظہار خیال فرمایا۔ان تمام خطابات کے خلاصہ جات نذرِ قارئین ہیں:

1۔ 21 ویں شبِ رمضان 1439ھ (5 جون)

ہر سال کی طرح امسال بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہرِ اعتکاف میں اپنا پہلا خطاب حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے یوم شہادت کی مناسبت سے ’’شانِ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم‘‘ کے عنوان سے فرمایا۔ اس خطاب میں انہوں نے فرمایا کہ:

اہل بیت اطہار کون ہیں؟ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا اہل بیت میں درجہ کیا ہے؟ ان کی محبت، قدرو منزلت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین میں کیا ہے؟ امت مسلمہ کا عقیدہ اس باب میں کیا ہے؟ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس لیے کہ کچھ سالوں سے اہل سنت کے نام پر فتنہ خارجیت پھر سر اٹھا رہا ہے۔ اس فتنہ کا سدِّباب انتہائی ضروری ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات پر قرآن مجید اور اہل بیت کے ذکر کو اکٹھا جوڑ کر بیان فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’میں تمہارے اندر دو عظیم بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ایک قرآن مجید اور دوسری میری اہل بیت۔ اگر ان کا دامن تھام لو گے تو لن تضلوا بعدی۔ میرے بعد گمراہ نہ ہوں گے‘‘۔

ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اذکرکم فی اهل بیتی ’’میرے اہل بیت کے حقوق، ادب اور تعظیم میں کمی نہ کرنا اور اس حوالے سے اللہ سے ڈرتے رہنا۔

ان تمام فرامین سے ایک طرف یہ واضح ہورہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اہلِ بیت سے کتنی محبت فرماتے اور دوسری طرف یہ امر بھی واضح ہورہا ہے کہ قرآن اور اہل بیت کا رشتہ کبھی نہ کٹنے والا ہے۔ اہل بیت کی محبت اور حضرت علی اور حسنین کریمین علیھم السلام بارے تذبذب میں رہنے والا منکرِ اہل بیت ہی نہیں بلکہ منکرِ قرآن بھی ہے۔ جو قرآن کا دامن تھامتا ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اہل بیت کا بھی دامن تھامے۔ افسوس! آج جب کوئی اہل بیت کی بات کرتا ہے تو اس پر شیعہ ہونے کی تہمت لگادی جاتی ہے۔ یہ فتنہ خارجیت ہے، اس سے پریشان نہ ہوں۔ قرآن اور اہل بیت کو جوڑ کر بیان کرنا عقیدہ اہل سنت ہے۔

اہلِ بیت نبوی کے برابر کسی کو بناکر کھڑا کردینا اور دونوں کو برابر قرار دینا ممکن ہی نہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’’ولا تقصروا‘‘ کے الفاظ کے ذریعے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ اہل بیت کی شان میں کمی نہ کرنا، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اس لیے کہ ایمان کا مرکز و محور ہی یہ ہیں۔ ایسی تاکیدات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل بیت کے علاوہ کسی کے لیے نہ فرمائی۔ ان فرامین کی موجودگی میں اہل بیت اطہار اور مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کے برابر میں ایسا نام ذکر کرنا جس سے ذہن ڈگمگائے اور دونوں کو برابر قرار دینا یہ ساری مداہنت اور منافقت ہے۔ یاد رکھیں خلفاء راشدین کی ترتیب حق ہے، آخری خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ہیں۔ لہذا کسی کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے برابر کھڑا کردینا، دین پر حملہ اور دہشت گردی ہے۔

ہر وہ چیز جس کا حق ادا کرنا مشکل ہو، اس کو ثقل کہتے ہیں، اس لیے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن اور اہل بیت اطہار کو ثقلین کہا۔ جس کا مطلب ہے کہ ان کا حق ادا کرنا نہایت مشکل امر ہے۔ آج کے دور میں اہلِ بیت سے محبت و مودت کرنا آسان کام نہیں ہے۔ صحابہ کرام بھی اہل بیت کی محبت و تکریم کا بالخصوص اہتمام کرتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے کہ لوگو! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کرو اور اہل بیت کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کی حفاطت کرو، یعنی اہل بیت کو عزت دو، ان کو عزت دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزت دینا ہے۔ اہلِ بیت نبوت کی شان کی پہرہ داری کرنا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کی پہرہ داری کرنا ہے۔ مومن وہ ہے جو اہلِ بیت کے آئینہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چادر کے اندر اہلِ بیتِ اطہار کو چھپانا اس بات کا اعلان ہے کہ اب ان پر طعن و تشنیع کرنا مجھ پر حملہ کرنا ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے درمیان کچھ اختلافات ہوئے مگر اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ راشد تھے۔ جس نے بوجوہ آپ کی خلافت کو نہیں مانا، اس کے اس اقدام کو اہل سنت نے بالاجماع خروج اور بغاوت قرار دیا ہے۔ اس طبقہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بغاوت قرار دیا ہے۔ اہلِ سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان اختلافات میں کسی کو کسی صحابی کی گستاخی کا حق حاصل نہیں۔ صحابہ کرام میں سے کسی پر طعن، لعن، سب و شتم، تکفیر و تسفیق جائز نہیں۔ جنگ صفین میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف ایک گروہ کو لیڈ کررہے تھے۔ ان کے خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف اس اقدام پر اہل سنت کاموقف اعتدال پر مبنی ہے اور وہ یہ کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے کفِ لسان کا حکم ہے اور ان تمام مشاجرات میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم حق پر ہیں، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا موقف درست نہیں تھا۔

تمام آئمہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اقدام کو خروج اور بغاوت قرار دیا ہے۔ کسی ایک کتاب میں بھی آئمہ اہل سنت نے ان کے اس عمل کی توثیق نہیں کی اور نہ ہی کسی نے ان کے عمل کا دفاع کیا۔ نہ ان کی تعریف کی اور نہ ان کے قصیدے پڑھے۔ 12/ 13 سو سال کی تاریخ میں کسی بھی علم کے امام نے ان کے عمل کی توثیق نہیں کی۔ ہر ایک نے ان کے عمل کو خروج کہا، مولیٰ علیٰ کو حق پر کہا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مجتہد خاطی کہا اور ان کے بارے کفِ لسان کا حکم دیا۔ 13 سو سال سے آئمہ ان پر زبانِ طعن دراز کرنے سے روکتے رہے مگر آج افسوس ان کے نام کے ڈنکے بجائے جارہے ہیں، ان کے نام پر مسجدوں کے نام رکھے جارہے ہیں اور ان کو بے خطا قرار دیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ دونوں صحابی تھے لہذا دونوں برابر ہیں۔ افسوس! تم نے کفِ لسان کے بجائے چپ توڑ دی اور ان کے بارے میں بولنا شروع کردیا جن کے بارے آئمہ چپ کراتے رہے۔

سن لیں! خلفائے راشدین کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مقابلے میں کسی کو کھڑا کرنے والا، اپنے ایمان کی جڑ کاٹتا ہے۔ صحابہ کرام میں فضیلت کے درجات ہیں، جس پر اہل السنت کا اتفاق ہے۔ درجات کی اس ترتیب کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کا درجہ دیگر خلفاء راشدین کے درجے کے ساتھ پہلا درجہ ہے جبکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ چونکہ فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے لہذا صحابہ میں فضیلت کے درجات کے مطابق امام حاکم کی قائم کردہ ترتیب کے مطابق ان کا گیارھواں درجہ ہے۔ اس طبقہ کا الطلقاء کہتے ہیں۔ عقیدہ طحاویہ کی شرح میں ہے کہ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ ، یزید بن سفیان اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تینوں طلقاء میں ہیں۔ جن کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معافی کا اعلان کیا تھا۔ افسوس! آج ان کو مولیٰ علی کے سامنے اس طرح رکھیں کہ لوگوں کے دل ڈگمگا جائیں کہ وہ بھی صحابی، یہ بھی صحابی۔۔۔ یہ بھی سچے وہ بھی سچے۔۔۔ ایسا کرنا فتنہ ہے۔ خلافتِ راشدہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شامل نہیں، جو ان کو خلافتِ راشدہ میں شامل کرے وہ پرلے درجے کا جاہل اور بے علم ہے۔ خلافت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق 30 سال ہے، اس کے بعد ملوکیت ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور امام حسن رضی اللہ عنہ پر یہ 30 سال مکمل ہوجاتے ہیں۔ جو ان کے زمانہ کو خلافت کہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کی نفی کررہا ہے۔ خلافتِ امیہ، خلافتِ عباسیہ کو عرفاً خلافت کہا جاتا ہے، درحقیقت یہ ملوکیت اور بادشاہت تھی۔ لہذا ہمیں شانِ اہل بیت اور شانِ حضرت سیدنا مولیٰ علیٰ المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے حوالے سے عقیدہ اہل سنت کے مطابق اپنے ایمان کی حفاظت کرناہوگی۔

  • اس موقع پر شیخ الاسلام نے احادیث نبویہ، عقائد اور تاریخ کی کتب سے بھی اس حوالے سے متعدد حوالہ جات ارشاد فرمائے۔

2۔ 22 ویں شبِ رمضان المبارک

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شہرِ اعتکاف میں ارشاد فرمائی گئی دوسری گفتگو دو حصوں پر مشتمل تھی۔ گفتگو کے پہلے حصہ میں انہوں نے گذشتہ موضوع ’’شانِ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ‘‘ ہی کو مکمل کیا۔ اس موقع پر انہوں نے فرمایا:

دو چیزیں کبھی نہ بدلیں:

  1. عقیدہ وفکر
  2. اخلاق سیرت و کردار

یہ دونوں قیامت کے دن تک نہ بدلیں، بقیہ ہر چیز بدلتے رہیں۔ اخلاق و سیرت میں وہی پرہیزگاری، تقویٰ، محبتِ الہٰی، عبادت، طاعت، عرفان، معرفت کی چمک رہے جو پہلے زمانوں میں تھی۔ اس طرح اکابر، آئمہ مجتہدین، مفسرین، فقہاء اور سلف صالحین کی کتب اور تعلیمات کے ذریعے جو عقیدہ ملتا ہے اس پر قائم رہیں اور اس میں رتی برابر تبدیلی گوارا نہ کریں۔

انسانی علوم، سائنسز ترقی کررہے ہیں مگر دین میں ترقی نہیں جو دین آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ، اہل بیت، سلف صالحین دے گئے ان سے بہتر عقیدہ کوئی نہ دے گا۔ تیز رفتار بدلتی ہوئی زندگی میں عقیدہ پرانا رکھنا ہے۔ تن جدید دور میں داخل ہوتا رہے مگر مَن قدیم دور میں ہی رہے۔ میں انسانیت کو وہ بھولا ہوا سبق یاد دلا رہا ہوں جو نئے افکار کی آندھیوں نے بھلادیئے ہیں۔

بتقاضائے بشریت صحابہ کے مابین بھی مشاجراتِ، حادثات، تنازعات، مخاصمت آگئی۔ یہ بشریت کا حصہ ہے۔ مشاجراتِ صحابہ کے حوالے سے اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ کہنا غلط، مداہنت اور منافقت ہے کہ اُدھر بھی صحابہ اور ادھر بھی صحابہ لہذا دونوں حق پر تھے۔ یاد رکھیں! آئمہ دین اس معاملہ پر واضح تھے کہ کون حق پر تھا اور کون غلط تھا۔

عقائد، حدیث اور تاریخ کی کتب کی طرح کتب فقہ میں بھی اس موضوع پر دلائل موجود ہیں۔ حنفی مذہب کی مشہور کتاب ’’الہدایہ‘‘ میں امام مرغینانی نے کتاب ادب القاضی میں یہ سوال اٹھایا کہ اگر حکمران ناجائز طریقے سے اقتدار میں آئے اور وہ کسی ایسے شخص کو کو جج مقرر کرے جو جج/ قاضی بننے کے اہل بھی ہو تو کیا اس شخص کو یہ منصب قبول کرنا چاہئے یا نہیں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مصنف فرماتے ہیں کہ جج کو چاہئے کہ وہ منصب قبول کرے تاکہ عوام کے مسائل حل کرے اور لوگوں کی مشکلات حل کرے۔

اس کو بیان کرکے صاحبِ ہدایہ دلیل دیتے ہیں کہ صحابہ نے بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کہنے پر قاضی کے منصب سنبھالے حالانکہ حق علی کی طرف تھا۔

دوسری مثال صاحب الہدایہ نے یہ دی کہ حجاج بن یوسف ایک ظالم حکمران تھا مگر ان کے دور میں بھی تابعین نے قاضی کے طور پر منصبی ذمہ داریاں قبول کرلیں۔ لہذا اگر بندہ خود اہل ہو تو ذمہ داریاں لے لے۔

فتح القدیر میں امام ابن الھمام لکھتے ہیں کہ هذا تصریح بجور معاویه. یہ حضرت معاویہ کے دورِ حکمرانی کے جائر (مبنی بر ظلم) ہونے کی تصریح ہے۔ مراد یہ نہیں کہ وہ ظلم کرتے تھے بلکہ ان کا دور حکومت اس لیے جائر (مبنی بر ظلم) ہے کہ انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف خروج کیا تھا جبکہ حق بغیر کسی شک و شبہ کے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی طرف تھا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے العنایہ شرح الھدایہ، البنایہ علی الھدایہ (امام عینی)، کنزالدقائق، تبیین الحقائق، الدرر اور دیگر کتب فقہ سے کثیر دلائل دیتے ہوئے فرمایا کہ:

آج اہلِ بیت اطہار کے ساتھ محبت کے عقیدہ کو متزلزل کیا جارہا تھا لہذا میرا فرض تھا کہ میں پردے اٹھاؤں اور معاملہ واضح کروں۔ ہم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اسلاف کے عقیدہ پر عمل کرتے ہوئے کفِ لسان کریں گے، ان کے مرتبہ صحابیت کااحترام کریں گے لیکن ان جھنڈے نہیں اٹھائیں گے۔ جو ان کی منقبت کے جھنڈے اٹھاتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں، مساجد کے نام رکھتے ہیں وہ خارجیت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ لہذا رافضیت و خارجیت کی طرف نہ بڑھو بلکہ اعتدال اور اہل سنت کے ساتھ رہو۔ جس کو اْا الفئہ الباعی ان کے فیضان کے نعرے لگانا اور ان کے عرس منانا کہاں کی سنیت ہے۔

بتقاضائے بشریت مغالطے، کوتاہیاں ہوتے ہیں۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جنگ صفین میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف دوسری سمت کھڑے تھے۔ صحابہ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ معصوم تھے۔ صرف اللہ کا نبی معصوم ہوتا ہے، صحابی اور ولی معصوم نہیں بلکہ محفوظ ہوتے ہیں۔ تاریخ کی کتب اس با ت پر شاہد و عادل ہیں کہ صحابہ کرام میں دوسری طرف جانے والے یا تو تائب ہوگئے یا بعد ازاں افسوس کرتے رہے کہ میں مولیٰ علی کی طرف نہ جاسکا۔ کئی صحابہ جو آپ کے لشکر میں کسی عذر کی بناء پر شامل نہ ہوسکے وہ بھی افسوس کرتے رہے۔ اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت مسبوق رضی اللہ عنہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

اس تمام گفتگو کا مقصد اس معاملہ پر عقیدہ صحیحہ کو واضح کرنا تھا۔ امید کرتا ہوں کہ لوگ اس سے ہدایت کا راستہ لیں گے، رجوع کرلیں گے اور اصل عقیدہ کی طرف پلٹ آئیں گے۔ اللہ رب العزت اہلِ بیتِ اطہار کی جو خدمت کی اس کو قبول فرمائے۔

  • شیخ الاسلام نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصہ میں مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے درس کا آغاز کیا اور ابتداء میں مولانا روم کے حالات و واقعات کو بالتفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ

مولانا روم حضرت شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت کے فیض سے قال سے حال میں ایسے داخل ہوئے کہ سلطان العارفین ہوئے اور دنیا کو صاحبِ حال کرنے کے لیے مثنوی لکھی۔ اس مثنوی کا آغاز وہ اس شعر سے کرتے ہیں:

بشنو از نے چوں حکایت می کند
و ز جدائی ھا شکایت می کند

اے طالبِ حق! بانسری کی آواز سن وہ کیا کہانی بیان کرتی ہے اور کن کن جدائیوں کی شکایت کرتی ہے۔ اس کو کتنی جدائیاں لاحق ہیں جس پر روتی اور آہ و زاری کرتی ہے۔ ’’نے‘‘ سے مراد روحِ انسانی ہے۔ روح ایک وقت میں عالمِ ملکوت/ عالمِ ارواح میں رہتی تھی۔ جہاں اس روح کو کئی قربتیں حاصل تھیں۔ اللہ کی معرفت میں ہمہ وقت مشغول و مستغرق تھی لیکن وہاں سے جدا کرکے اسے بدن انسانی میں ڈال دیا گیا اور اس جدائی کی وجہ سے اِسے کئی جدائیاں ہوگئیں۔

  1. عالم ملکوت کی جدائی (فرشتوں اور روحوں کی سنگت)
  2. عالم جبروت، عالم ملکوت کے اوپر پڑوس میں ہے، اس عالم میں صفات الہٰیہ کے تجلیات اترتی تھیں۔ اس عالم کی بھی جدائی اسے سہنا پڑی۔
  3. عالم جبروت کے ساتھ عالم لاہوت ہے۔ جہاں ذات الہٰیہ کے انوار اترتے ہیں، اس عالم کی جدائی بھی درپیش تھی۔

اب روح کو وہ ساری جدائیاں یاد آتی ہیں۔

جب بندہ کسی ایک ماحول میں کچھ دن گزار کر جائے تو جانے کے بعد اُسے اس ماحول کے شب و روز یاد آتے ہیں، اسی طرح روح نے بھی چونکہ ایک خاص عرصہ عالم ارواح/ ملکوت میں گزارا لہذا اس بدن میں قید ہوجانے کے بعد اُسے وہ لمحات یاد آتے ہیں جب وہ معرفت و قربت کی رہتی تھی۔ پس ان لمحات کو وہ یاد کرکے روتی ہے۔

3۔ 23 ویں شبِ رمضان المبارک

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف کی تیسری رات میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ کے سیاسی حالات اور آپ کی سیرت و کردار کے چند واقعات کو بیان فرماتے ہوئے سلف صالحین کے نزدیک تصوف کیا تھا؟ اس امر کو واضح کیا۔ شیخ الاسلام نے فرمایا:

مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 604ھ میں ہے جبکہ وفات 672ھ میں ہوئی۔ اس زمانے میں تاتاری اور ہلاکو خان کا فتنہ پھیل چکا تھا۔ اسلامی سلطنت کی شمع بجھی جارہی تھی اور ہلاکو خان نے قونیہ/ترکی کی طرف اپنا لشکر بھیج دیا تھا۔ اس وقت صوفیاء کرام کے وجود سے ہی شمعِ اسلام روشن تھی۔ قونیہ سلطان علاؤالدین سلجوقی کا دارالحکومت تھا۔

سلطان شمس تبریز رحمۃ اللہ علیہ سے مولانا روم کی پہلی ملاقات کے بعد 6 ماہ تک دونوں ایک حجرہ میں تنہا رہے۔ وہ توجہ و فیض دیتے رہے اور یہ لیتے رہے۔ اب یہ مولانا روم مولائے روم ہوچکے تھے اور ’’قال‘‘ کی دنیا چھوڑ کر ’’حال‘‘ کی دنیا اپنا چکے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب عشقِ حقیقی کی بولی بولی جاتی اور اس کو سمجھنے والے لوگ بھی تھے۔ زبان عشقِ حقیقی کے راز بولتی تھی اور یہ راز سننے اور سمجھنے والے کان بھی تھے، ایسے موسم بھی تھے اور زمانہ بھی تھا۔ افسوس! اب رت بدل گئی، موسمِ خزاں ہے۔ نہ پھول ہے، نہ ہریالی ہے، حبس ہے، گھٹن ہے، تازگی نہیں ہے۔ سال کے بعد 10 دن کے لیے یہ خانہ (شہر اعتکاف) آباد ہوتا ہے اور دس دن اُس پرانی شراب کا جام یہاں چلتا ہے۔ ان 10دنوں میں کوشش ہوتی ہے کہ پرانے زمانوں میں کھوجائیں اور اِس زمانہ کو بھول جائیں۔ 10 دن کے بعد یہاں سے اس حال میں جائیں کہ بدل جائیں۔ میں خزاں کے موسم میں بہار لانا چاہتا ہوں۔ پت جھڑ میں پھول اگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ ایک عجیب کوشش ہے مگر میرے مولیٰ! تجھ سے بعید نہیں، یہ بستی تیرے کرم کی محتاج ہے۔ تیرے کرم سے کوئی زمانہ محروم نہیں رہا، تو چاہے تو ماضی کی بہاریں پلٹادے۔

اکابر اولیاء حضرت مولائے روم سے ملتے۔ حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی سے آپ کی پہلی ملاقات 11 سال کی عمر میں ہوئی، بعد ازاں 40 سال کی عمر میں آپ نے شیخ اکبر سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔ حضرت صدرالدین قونوی، حضرت شاہ ابوعلی قلندر پانی پتی، شیخ شہاب الدین سہروردی سے بھی آپ کی ملاقات رہی۔ شیخ سعدی شیرازی، مولانا قطب الدین شیرازی اور دیگر اولیائ، علمائ، صلحاء آپ کے ہم مجلس تھے۔ مولانا روم کے احوالِ ریاضت و مجاہدہ عدیم المثال تھا۔ آپ شب زندہ دار تھے۔ نماز کے وقت حالتِ استغراق میں ڈوب جاتے۔ بے تکلف تھے اس لیے کہ اللہ والوں کی طبیعت میں تصنع نہیں ہوتا۔ تواضع و انکساری بے پناہ تھی۔ کسی کو تکلیف دینا گوارا نہ کرتے۔ دوسروں کے آرام کا خیال کرتے۔

یہ اصل تصوف ہے اور صوفیاء کی زندگیوں کا وطیرہ ہے۔ صوفی، ریا، تکلف، جبہ و دستار، جلال سے نہیں بنتا بلکہ صوفی اس کردار سے بنتا ہے۔ اس کردار کا نام تصوف ہے، اس کردار سے ولایت جنم لیتی ہے، اس سے اللہ کی دوستی کا آغاز ہوتا ہے اور اس سے اس کی دوستی کمال کو پہنچتی ہے۔ اگر یہ نہیں تو وہ باقی سب کچھ ہے مگر تصوف نہیں ہے۔ صوفی خاندان سے نہیں بنتا بلکہ صوفی اِس مَن سے جنم لیتا ہے۔ صوفیاء تو کتوں کے آرام کا بھی خیال کرتے ہیں جب کہ ہم انسانوں کے آرام کا خیال نہیں رکھتے۔ اس بات کو اپنے من میں اتار لیں۔ یہ مولانا روم ہی کا مشرب نہیں بلکہ 14 سو سال کی تاریخ کے صوفیاء کا مشرب ہے۔

مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ تقریباً 26ہزار اشعار پر مشتمل ہے جس میں دین کا ہر مسئلہ شعر کی زبان میں سمجھادیا گیا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے دین، سلوک، زہد، عشق، تصوف سمجھانے اور لوگوں کو ہدایت دینے کے لیے قیاسِ تمثیلی کے اسلوب کو اختیار کیا ہے۔ آپ تمثیلات، حکایات، اشارات کی زبان میں سمجھاتے ہیں پھر ان سے نصائح بیان کرتے ہیں۔

مثنوی کے ابتدائی اشعار میں مولانا روم نے اس امر کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے کہ انسان بھی روح اور نفس کی کشمکش میں پھنسا ہوا ہے۔ نفس کی توجہ دنیا کی طرف ہے اور روح کی توجہ مولائے قلب کی طرف ہے۔ اس کشمکش میں بندہ ایک منزل بھی طے نہیں کرتا ہے۔ بندہ اس عالمِ ناسوت اور عالم ملکوت کے درمیان بھٹکتا رہتا ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک سمت اختیار کی جائے اور غافل نہ ہوا جائے۔ وہ فرماتے ہیں کہ:

جب روح کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ میں لٹ گئی، میرا نقصان ہوگیا تب ہی وہ روئے گی اور یہ احساس تب ہوگا جب بندہ غفلت سے بیدار ہوگا۔

جب روح کو بیداری مل جائے تو اس کو احساس ہوتا ہے کہ میرا نقصان ہوگیا اور پھر وہ روتی چلاتی ہے۔ قلب بصیر ہوجائے، نفس عبرت گیر ہوجائے تو تب یہ مقامِ بیداری حاصل ہوتا ہے۔ عابدوں کی روح عالمِ ملکوت کے لیے تڑپتی ہے۔ عارفوں کی روح عالمِ جبروت کے لیے تڑپتی ہے، عاشقوں کی روح عالمِ لاہوت کے لیے تڑپتی ہے۔ سفر الی اللہ کا آغاز بیداری سے ہوتا ہے اور بیداری ’’بشنو‘‘ سے ہوتی ہے یعنی ’’سنو‘‘ اور اپنے اندر لٹ جانے اور روحانی نقصان کے ہوجانے کا احساس پیدا کرو۔

4۔ 23 رمضان المبارک

شہر اعتکاف میں امسال آنے والے پہلے جمعۃ المبارک کے موقع پر محترم ڈاکٹر حسن محی الدین نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔

خطاب جمعہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری

اللہ رب العزت نے فرمایا جو لوگ ایمان والے ہیں ان کی علامت یہ ہے ’’اشد حبا للّٰہ‘‘ کہ وہ ٹوٹ ٹوٹ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اس حال میں اللہ سے محبت کرتے ہیں کہ وہ ہر حال کو اپنے حال سے جدا کرکے صرف خد کی یاد میں گم ہوکر خدا کے ہوجاتے ہیں۔ وہ خدا کی محبت میں اس قدر فنا ہوجاتے ہیں کہ انہیں اپنا حال بھی یاد نہیں رہتا۔

واذکراسم ربک وتبتل الیه تبتیلا کے مصداق وہ اپنے قلب و باطن میں ہر ایک سے ٹوٹ کر اسی کے ہوجاتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو ایمان کی شرط یہ بتائی کہ ایمان والے ہر شے سے جدا ہوکر، ٹوٹ کر خدا سے محبت کرتے ہیں۔ یعنی اللہ کے بندے اپنے دلوں کو خد اکی محبت کے لیے مختص کرتے ہیں۔ جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک اور صالح عمل کرتے رہے، اپنی زندگیاں صالحیت اور عبادت میں گزارتے رہے، ان کے لیے فرمایا کہ اللہ چاہتا ہے کہ ان کی محبت اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال دے۔ ایک طرف بندہ خدا کی محبت اپنے دلوں میں ڈال رہا ہے اور دوسری طرف خدا اپنے بندوں کی محبت اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال رہا ہے۔

بندہ خدا کی محبت چاہتا ہے مگر خدا کا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے ان محبوں کی محبت اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال رہا ہے۔ بندہ کہتا ہے کہ مولا میں تو چاہتا ہوں کہ ہرشے سے کٹ کر تیرا ہوجاؤں، میں ٹوٹ ٹوٹ کر تجھ سے ہی محبت کرتا رہوں اور تو اپنے بندوں کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال رہا ہے۔ یہ ماجرا کیا ہے؟ خدا نے کہا: میری محبت تجھے تب ملے گی جب تو کسی کا ہوجائے گا۔ کوئی تجھے محبت کرکے دکھائے گا تو تجھے بھی محبت کرنی آجائے گی۔ ارشاد فرمایا: ان کنتم تحبون اللّٰہ اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو ’’فاتبعونی‘‘ میری اتباع کرو۔ اب بندے نے پوچھا: مولا محبت تیری کرنا چاہتا ہوں، در تو اپنے مصطفی کا دکھا رہا ہے۔۔۔ میں دعویٰ تیرا کرتا ہوں تو دلیل مصطفی کی دکھا رہا ہے۔۔۔ نام تیرا جپتا ہوں تو دیدار مصطفی کا کروا رہا ہے۔۔۔۔ بات تیری کرتا ہوں، سنت مصطفی کی دکھا رہا ہے۔۔۔ ذکر تیرا کرتا ہوں، ادا مصطفی کی دکھا رہا ہے۔۔۔ قریب تیرے ہونا چاہتا ہوں تو قریب مصطفی کے کررہا ہے۔۔۔ فرمایا: اے بندے! یاد رکھ! دامن تجھے مصطفی کا پکڑاؤں گا مگر محبت اپنی دکھاؤں گا، اس لیے کہ تو مجھے دیکھ نہیں سکتا مگر میرے مصطفی کو تو دیکھ سکتا ہے۔۔۔ میری اداؤں کو نہیں دیکھ سکتا مگر میرے مصطفی کی اداؤں کو تو دیکھ سکتا ہے۔۔۔ مجھے نہیں سن سکتا مگر میرے مصطفی کو تو سن سکتا ہے۔۔۔ مجھے نہیں سمجھ سکتا مگر میرے مصطفی کو تو سمجھ سکتا ہے۔۔۔ مجھے نہیں چھو سکتا مگر میرے مصطفی کے نعلین کو تو چھو سکتا ہے۔ سو فرمادیا کہ اگر میری محبت چاہتے ہو تو میرے مصطفی کے ہوجاؤ۔ میرے محبوب کی اتباع کرتے چلے جاؤ۔ جیسے جیسے میرے محبوب کرتے جائیں بس اسے دہراتے چلے جاؤ۔ محبت میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ محبت کہتی ہے کہ جیسے محبوب نے کیا پس اس کے عمل کو دہرانے کا نام محبت ہے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا: اللہ نے زمین والوں کے لیے کچھ اپنے برتن بنائے ہیں، جان لو وہ برتن اللہ والوں کے دل ہیں۔ وہ اپنی عبادت گزاروں کے دلوں کو اپنے برتن کہتا ہے۔ فرمایا: میرے برتن اگر ڈھونڈنے ہوں تو میرے اولیائ، صالحین اور مقربین کے قریب ہوجاؤ۔ ان کے دلوں کو میں نے اپنا برتن بنایا ہے۔ اب اگر میری محبت ڈھونڈنی ہو تو وہ میرے برتنوں میں ہے۔ لہذا میرے محبوب بندوں کی سنگت اختیار کرلو تب میری محبت تک پہنچو گے۔

5۔ 24 ویں شب رمضان المبارک

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف سے مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا تیسرا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

عقل اور عشق کا باہم تضاد ہے۔ اگر عقل کا پہرہ رہا تو عشق کا پہرا نہیں ہوتا۔ یا بندہ عاقل رہے یا عاشق ہوجائے۔ عقل کے فیصلے کے طریق اور ہیں اور عشق کے فیصلے کے طریق اور ہوتے ہیں۔ عقل جان بچانے کی فکر میں ہوتی ہے جبکہ عشق جان دینے کی فکر میں ہوتا ہے۔ عشقِ حقیقی میں رقابت نہیں ہوتی، وہ اپنے محبوب کے تمام عاشقوں سے محبت کرتا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تا بگویم شرح دردِ اشتیاق

روح کی بانسری کہتی ہے کہ میں اپنا راز بتانا چاہتی ہوں کہ میں کیوں روتی ہوں لیکن میں ایسا سینہ چاہتی ہوں جو سینہ خود بھی جدائی کے غم میں پارہ پارہ/ چاک چاک ہوچکا ہو۔ جب ایسا سینہ ملے تو پھر میں دردِ اشتیاق کی داستان سناؤں۔

اس شعر میں مولانا روم بانسری کی زبان میں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ درد کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اپنی زندگی میں مصائب و آلام سے لطف اندوز ہوا ہو، اس نے درد کا مزہ چکھا ہو تب جاکر اس کی داستان کو سنے گا۔ بھوکے اور پیاسے کو ہی بھوک اور پیاس کی شدت کا احساس ہوتا ہے، جو بیمار ہو وہی صحت کی قدر و قیمت جان سکتا ہے۔

روح کہتی ہے کہ میں بہت ساری صحبتوں میں رہی ہوں، میرے نالہ و فریاد سن کر کئی کے دل پسیج گئے اور کئی ایسے بھی تھے جن پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ہر کوئی اپنے فہم کے مطابق میرا رفیق بن گیا۔ مگر میرے اندر موجود اصل راز کی کھوج لگانے کی کوشش کسی نے نہ کی۔ ہر ایک کو صرف یہ سمجھ آیا کہ اس کو کوئی صدمہ ہے۔ مگر اصل حقیقت کو کوئی نہ جان سکا، ہر ایک نے اپنی مصیبت و درد پر میرے درد کو قیاس کیا کہ شاید یہ بھی ظلم،بیماری،اولاد، روزگار کی وجہ سے رو رہی ہے۔ جس نے بھی میری آہ و زاری کو سنا، اس نے اُسے اپنے آلام پر قیاس کرلیا، اس سے آگے کی سوچ، فہم، ادراک کسی کو تھا ہی نہیں۔ کوئی سمجھ ہی نہ سکا کہ اس کو عشقِ الہٰی کی آگ تڑپا رہی ہے۔ اس بات کو ایک نکتہ کے ساتھ مولانا روم یوں سمجھاتے ہیں:

سر من از نالہ من دور نیست
لیک چشم و گوش را آں نور نیست

میرا راز میری آہ و بکا سے دور نہیں ہے، میرے رونے کی آواز اور میرے راز میں فاصلہ نہیں ہے مگر کیا کروں کہ کسی آنکھ اور کسی کان کے پاس وہ نور ہی نہیں جس سے وہ راز سمجھا جاسکتا۔ میرے درد کی حقیقت کو پانا امرِ ذوقی ہے اور ا س کو وہی سمجھ سکتا ہے جو صاحبِ درد دل ہے۔

افسوس! یہ ذوق دنیاوی شہوتوں کی وجہ سے دب گیا ہے۔ روح تڑپتی ہے کہ کوئی ذوق بیدار ہو اور اس کے درد کو جان سکے۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے مولانا روم حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک حکمران نے لیلیٰ کو دیکھ لیا اور ان کے درمیان مکالمہ ہوا:

گفت لیلیٰ را خلیفہ کاں توئی
کز تو مجنوں شد پریشان و غوی

بادشاہ نے لیلیٰ کو دیکھا تو کہا کہ کیا تو وہی لیلیٰ ہے جس کا مجنوں دیوانہ ہے۔ تجھ میں کوئی ایسی چیز مجھے نظر نہیں آتی، جو دوسرے حسینوں میں نہیں؟ لیلیٰ نے کہا: بادشاہ خاموش ہوجا! تجھے معلوم نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ تو مجنوں نہیں۔ میرے حسن کی اس خوبی کو دیکھنے کے لیے مجنوں کی آنکھ چاہئے۔

دیدہ مجنوں اگر بودے ترا
ہر دو عالم بے خطر بودے ترا

اگر تیرے پاس مجنوں کی آنکھ آجاتی تو دو جہانوں کا سارا حسن تیرے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہ رکھے۔

باخودی تو لیک مجنوں بی خود است
در طریق عشق بیداری بدست

بادشاہ نے کہا کہ میری اور مجنوں کی آنکھ میں کیا فرق ہے؟ لیلیٰ نے کہا: بادشاہ تو ہوش ہے (عقل میں ہے) لیکن مجنوں بے خود ہے۔ عاشق عقل کے ہوش سے جاتا رہتا ہے، عشق ایک نئی مدہوشی دیتا ہے اور یہ مدہوشی عاشقوں کا ہوش ہوتی ہے۔

محرم ایں ہوش جزبے ہوش نیست
مر زبان را مشتری چوں گوش نیست

محبوب کی قربت کے لیے ہر چیز کو بھول جانا، اس ہوش کا آنا دنیا کی بے ہوشی سے ہی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر دنیا کو ترجیح دوگے تو آخرت کا کچھ نہ کچھ نقصان ہے اور اگر آخرت کو ترجیح دو گے تو دنیا کا کچھ نہ کچھ نقصان ہوگا۔ دونوں صورتوں میں کچھ نہ کچھ نقصان ہے۔ عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کریں؟ فرمایا: باقی کو فانی پر ترجیح دو اور دنیا کے نقصان کو آخرت کے بدلے قبول کرلو۔

دنیوی اور معاشی فرائض کو نبھانے سے کبھی اسلام میں منع نہیں کیا گیا۔ دل کا ہوائے نفس میں اس طرح مبتلا ہوجانا کہ دنیا ہی اس کا دکھ سکھ بن جائے، اس سے منع کیا گیا ہے۔ جتنی ضرورت اتنی مشغولیت ہو تو یہ منع نہیں لیکن دنیا میں فنا نہیں ہونا۔ اس کو قدرِ ضرورت لینا ہے۔ دنیا کو سواری بناؤ، اس کو اپنے اوپر سوار نہ کرو۔ دنیا میں فنا ہونے اور دنیا کی سواری ہونے سے بچو۔ راحتِ قلب و جان اس کی محبت، طاعت، معرفت میں ملے۔ دنیا بقدرِ ضرورت و کفالت رہے۔ دل پر دنیا کے حوالے سے مدہوشی طاری کرو۔ پھر ایسا ہوش ملے گا کہ جس کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ دنیا کی ہوشیاری پر اللہ کے عشق کی مدہوشی غالب آئے تو بندہ اللہ کو پالیتا ہے۔

6۔ 25 ویں شبِ رمضان المبارک

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مثنوی مولانا روم سے ’’عشق‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا:

خود سے بے خبر ہوکر رہیں تو باخبر ہوجائیں گے۔ کسی چیز سے بے خبر ہونا پڑتا ہے تب جاکر اس کی خبر ملتی ہے، جو ہر وقت اپنا خیال رکھتا ہے، اس کے من میں اس کا خیال نہیں سماتا۔ اس کی محبت، معرفت پانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ سے دوری اور مہجوری کرلیں۔ بندہ ایک وقت میں ایک ہی عالم میں رہ سکتا ہے اگر اس دنیا میں رہیں گے تو اُس عالم میں نہ رہ سکیں گے۔ اس دنیا سے جہاں تک ہوسکے ہجرت کریں، تب ہی کوئی اچھا وطن نصیب ہوگا اور یہ بے خودی کے بغیر ممکن نہیں اور بے خودی عشق سے آتی ہے جبکہ عقل کبھی بے خود نہیں ہونے دیتی۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ہر کہ را جاماز عشقی چاک شد
او ز حرص و عیب کلی پاک شد

ہر وہ شخص جس نے اپنا لباس عشق سے پھاڑ دیا وہی شخص حرص و عیب سے کلیتاً پاک ہوا۔

اس لباس سے مراد نفسانی رذائل ہیں، بشری صفات کا لباس، نفسانی خصلتوں کا لباس، میں کا لباس، انانیت کا لباس، اخلاق ذمیمہ کا لباس ہے، جس نے عشق کی آگ میں ان گھٹیا رذائل کو جلا دیا، وہ عیب و حرص سے کلیتاً پاک ہوگیا۔

حرص اور عیب نفس کے دو حال ہیں۔ حرص کو خاص رذائل میں سے بیان کیا اور عیب کو عمومی رذائل میں سے بیان کیا۔ مقصود یہ ہے کہ عشق ہر خاص و عام برائیوں کا علاج کرتا ہے۔ حرص کی بہت باریکیاں ہیں اور ہر شعبہ زندگی میں ظاہری و باطنی ہر سطح پر حرص در آتا ہے۔ حرص کے اتنے لطیف درجے ہیں کہ ان کے حرص ہونے کا بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ شہرت کی طلب، حوصلہ افزائی کی طلب، عزت کی طلب یہ تمام حرص ہیں۔ نفس کے 100 رذائل ہیں، مولائے روم ان میں سے حرص کو سوچ سمجھ کر لائے ہیں اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ حرص ہی تمام رذائل کی جڑ ہے۔

نفس کے عیوب سے پاک ہونے کے دو طریقے ہیں:

  1. طریق سلوک/ زہد
  2. طریقِ جذب

شیخ، استاد، مرشد، مربی ایک ایک خلق کو لیتا ہے اور مریدین کے ایک ایک اخلاق کی تہذیب کرتا ہے اور سنوارتا ہے۔ یہ طریقہ زہد ہے اور یہ طریقہ جزئی ہے۔

طریقہ جذب کا دوسرا نام طریقہ کلی ہے۔ اس میں یکلخت تمام خلق بدل جاتے ہیں اور اس کا نام طریقِ عشق ہے۔ اس طریق میں تمام اخلاق رذیلہ جل جاتے ہیں۔

عشق ہر چیز کا علاج کیوں کرتا ہے؟ مولائے روم عشق سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

شادباش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علت ھائے ما

اے دوائے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما

’’خوش رہ اے عشق، اے ہماری اچھی دیوانگی تو خوش رہ، تو ہماری تمام امراض کا علاج ہے اور تو ہی ہمارا طیب ہے۔ اے عشق تو ہماری نخوت و ناموس کی دوا ہے‘‘۔

(نخوت سے مراد عجب و خود پسندی ہے) مولائے روم نے عشق کو اپنا افلاطون اور جالینوس قرار دیتے ہوئے کہا کہ اے عشق تو ہی میری تمام روحانی و نفسانی امراض کا علاج ہے۔

یاد رکھیں! نخوت/ خود پسندی کا آغاز اپنے اندر کے ہنر اور کمال کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اگر بندہ کو اپنے اندر اپنا کمال نظر آئے تو وہ نخوت کا شکار ہوجاتا ہے۔

طریقہ سلوک/ زہد اور طریق عشق میں ایک فرق ہے۔ طریق سلوک ایک ایک خُلق کو باری باری تبدیل کرتا ہے۔ اس کی ایک خوبی ہے اور ایک نقصان ہے۔ خوبی یہ ہے کہ خطرناک نہیں ہے، نقصان یہ ہے کہ لمبا عرصہ درکار ہے۔ ریاضت و مجاہدہ طویل ہے۔ طریق عشق میں ایک خوبی یہ ہے کہ یکلخت حال بدل ڈالتا ہے اور نقصان یہ ہے کہ یہ خطرناک ہے۔ معلوم نہیں کہ بعد میں بلھے شاہ بنادے۔ کبھی اناالحق کی صدا لگوا دیتا ہے اور سولی پر بھی چڑھا دیتا ہے۔

جو اس طریق پر چلے تو وہ ساری زندگی دروازہ پر کھڑا رہتا ہے، اندر سے دروازہ کھلے یا نہ کھلے، آواز آئے یا نہ آئے، اس کو پرواہ نہیں۔ وہ صرف محبوب کی رضا کو مقدم رکھتا ہے۔ عشق آئے تو نخوت و حرص چلی جاتی ہے۔ نخوت، عزت طلب ہے جبکہ عشق، ذلت طلب ہے، عشق نہیں چاہتا کہ میرے پیالے میں بھی ڈالا جائے بلکہ اس کو ٹھوکر میں بھی مزہ آتا ہے۔

دنیا دار میں نفس کی خرابی کم تباہ کن ہے اور دین دار میں نفس کی خرابی زیادہ تباہ کن ہے۔ دنیا دار نے دنیاوی پہچان سے دنیا طلب کی جبکہ دین دار نے دینی پہچان سے دنیا طلب کی، اس لئے زیادہ تباہ کن ہے۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایا: عشق کا راز اتنا خوبصورت ہے کہ اس کے لیے صرف خوبصورت دلوں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور خوبصورت دل صرف عاشقوں کے ہوتے ہیں۔ دل خوبصورت بنتا ہی تب ہے جب اس میں ہمہ وقت محبوب کا خیال رہتا ہے۔ کوئی خوبصورت ہی اس کو خوبصورت بنائے گا۔ کسی خوبصورت کو اپنے اندر سمانے یا اس سے تعلق بنانے سے ہی دل خوبصورت بنتا ہے۔

7۔ 26 ویں شبِ رمضان المبارک

مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ سے ’’عشق‘‘ ہی کے موضوع پر شیخ الاسلام نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

جن اولیاء و صلحاء نے اُس کا وصل پایا، ان تمام کی زبان زبانِ عشق تھی۔ خواہ وہ زہد، سلوک، ریاضت و مجاہدہ کے ذریعے منزل طے کرتے رہے مگر وصل کسی کو عشق کے بغیر نہیں ملا۔ طاعت و عبادت بندے کو جنت تک پہنچاتی ہے جبکہ عشق اُس کے قرب و وصال تک پہنچاتا ہے۔ مولانا روم تمثیل کے انداز میں عشق کی عظمت بیان کرتے ہیں:

جسم خاک از عشق بر افلاک شد
کوہ در رقص آمد و چالاک شد

یہ عشق ہی تھا جو ایک خاکی جسم کو افلاک تک لے گیا (آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعہ معراج کی طرف اشارہ ہے) یہ عشق ہی تھا کہ جس نے کوہ طور کو رقص کروادیا۔ یہ جلا اور ہوشیار ہوگیا۔

مذکورہ دونوں واقعات واقعہ معراج اور واقعہ جبلِ طور واقعات عشق ہیں۔ معراج بھی سفرِ عشق ہے۔ اس میں محب (اللہ) محبوب (حضور) کو ملاقات کے لیے بلارہا ہے۔طور پر بھی محبت کی داستان ہے، اس سفر میں موسیٰ محب و عاشق ہیں جبکہ وہ ذات (اللہ) محبوب تھی۔ داستان دونوں واقعات میں محبت کی ہے۔ معراج میں محبوب جارہا ہے جبکہ طور پر محب جارہا ہے۔

دونوں واقعات میں مولانا روم کا مقصود عشق کی عظمت کو واضح کرنا ہے۔ پھر مولائے روم طور کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:

عشق جان طور آمد عاشقا
طور مست و خطر موسیٰ صاعقا

عشق ہی طور کی جان بن گیا۔ پہلے طور کو کون جانتا تھا۔ اس عشق نے طور کو زیارت گاہِ عاشقاں بنادیا اور انفرادیت دے دی۔ عشق طور کی پہچان اور شان بن گیا اور عشق کی آگ کے بعد طور مست ہوگیا اور موسیٰ بے ہوش ہوگئے۔ طور کی مستی اس کا ریزہ ریزہ ہونا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی بے ہوشی وہ بے ہوشی تھی جس میں ساری معرفت آگئی۔ اس بے ہوشی میں ایک ہوش تھا۔ یہ عام بے ہوشی نہ تھی بلکہ اس میں انہیں ایک نیا ہوش مل گیا۔

حضرت داتا گنج بخش نے حضرت داؤد طائی کا قول بیان کیا ہے کہ عشق ایسا رنگِ توحید چڑھاتا ہے کہ اگر تو دنیا میں سلامتی چاہتا ہے تو حب دنیا کو سلام کہہ دے اور کرامت، بزرگی، تقرب، آخرت کی طلب، حرص ان تمام کو ختم کردے یعنی حبِ دنیا و آخرت سے بے نیاز ہوجا۔ راہِ عشق میں صرف درِ محبوب پر کھڑا ہونا ہے۔ وہ دیکھے یا نہ دیکھے، دروازہ کھولے یا نہ کھولے، یہ محبوب کی مرضی ہے۔ اے بندے! محبوب کی مرضی کو اپنے ہاتھ میں نہ لے، عاشق بن معشوق نہ بن۔ راہِ عشق کا مسلک یہ ہوتا ہے کہ طلب ختم ہوجاتی ہے۔

حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ اللہ نے پوچھا کہ تو کیا چاہتا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ کچھ نہ چاہوں سوائے اس کے کہ وہ چاہوں جو تو چاہے۔

جب یہ حدیں ٹوٹ جائیں تو عشق اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ سارے امراض اس ’’مَیں‘‘ سے جنم لیتے ہیں۔ تمام دکھڑے ’’میں‘‘ سے شروع ہوتے ہیں یا ’’میں‘‘ پر ختم ہوتے ہیں۔ اسی ’’میں‘‘ پر عاشق لعنت بھیجتے ہیں۔ اس ’’میں‘‘ نے خودی کے شعور کو تباہ کر رکھا ہے۔ عشق کہتا ہے کہ اس ’’میں‘‘ سے بے خود ہوجا۔ اس ’’میں‘‘ کا کتا باطن میں ہے، ہم عبادات کے جتنے مرضی ڈول نکالتے جائیں اس سے پانی پاک نہیں ہوتا۔ عمل، شہرت، علم، کاروبار بڑھنے سے ’’میں‘‘ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ جبکہ عشق، اس ’’مَیں‘‘ کے بت کو جلاتا ہے۔

’’مَیں‘‘ علم، عمل، زہد، ورع، تقویٰ، اعمال صالحہ سے نہیں مرتی بلکہ عشق کی آگ ’’مَیں‘‘ کو جلاتی ہے اور بقیہ مذکورہ چیزیں حاصل شدہ روحانیت کو محفوظ کرتے ہوئے بندے کو آگے بڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔

8۔ 27ویں شبِ رمضان (عالمی روحانی اجتماع)

تحریک منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں 27 ویں شب رمضان لیلۃ القدر کا عالمی روحانی اجتماع جامع المنہاج بغداد ٹاون میں منعقد ہوا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خصوصی خطاب شہر اعتکاف سے منہاج ٹی وی کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا۔ شہر اعتکاف کے ہزاروں معتکفین و معتکفات کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے عشاقان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی تعداد اس عالمی روحانی اجتماع میں شریک ہوئی۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری لیلۃ القدر کے عالمی روحانی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عشاق، عرفاء میں سے متقدمین و متاخرین کے احوال عشق بیان کیے۔ آپ نے حضرت بی بی رابعہ بصری، حضرت ذوالنون مصری، حضرت جنید بغدادی، مالک بن دینار، سمیت متعدد عشاق و عرفاء کی زندگی کے واقعاتِ عشق کو بیان کرتے ہوئے عشق حقیقی کا درس دیا۔آپ نے فرمایا:

عاشق ذلت کو گوارا کرتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ محبوب میں تیرے در پر کھڑا ہونے یا بیٹھنے کے قابل نہیں، تو نے یاد کرنے کے قابل بنا دیا تو مولا یہ تیرا کرم ہے۔ اولیاء اللہ کے نزدیک تصوف کی رو سے ساری بربادی ’’میں‘‘، ’’ہم‘‘، ’’میرا‘‘ اور ’’میرے پاس‘‘ میں ہے۔ یہ چار عناصر بندے کو تباہ کرتے ہیں۔ عشق بندے کی ساری طرفیں جلا دیتا ہے اور جب بندے کی کوئی سمت ’’سمت‘‘ نہیں رہتی بلکہ اس کی سمت صرف مولا کا حقیقی عشق بن جاتا ہے۔

اے بندے تو سوچ تیری ابتداء کہاں سے ہوئی، تو ایک حقیر و پلید قطرہ تھا، اپنی انتہاء کو دیکھ کہ جب مر کر قبر میں جائے گا تو کیڑے تیرے جسم کو کھائیں گے، جب تیری انا ختم ہو جائے گی۔ انسان کے خونی رشتے بیوی، بچے اور بہن بھائی، جن کے لیے دنیا میں بندہ مارا مارا پھرتا تھا، اس کی موت کیساتھ ہی ان کے سب رشتے اس سے ٹوٹ گئے۔ اب وہ اس کا تیرے نام لینے کے بجائے میت کہہ کر پکاریں گے کہ اسے جلدی اٹھاؤ دیر ہو رہی ہے۔ بندے وہ سب رشتے کہاں گئے جنہوں نے مرنے کے بعد ہی تیرا نام بدل کر میت رکھ دیا۔ اگر یہ بات سمجھ جائے تو بندے میں ’’میں‘‘ ختم ہو جائے اور اگر ’’میں‘‘ کو مٹانا ہی ہے تو پھر اسے محبوب کے عشق میں مٹا کر دم لو، تاکہ رہتی دنیا تک تمہیں یاد رکھیں۔

دنیا میں جتنے حسن اور خوبصورتیاں ہیں، وہ سب مالک حقیقی کے حسن زیبا کے سامنے ماند اور ہیچ ہیں۔ اس لیے عشق دنیا میں نہیں بلکہ اس مالک حقیقی سے کرو، جس نے تم سے وعدۂ الست کیا ہے۔ اسی کی طرف ہم سب کو پلٹنا ہے۔

9۔ 28 ویں شبِ رمضان المبارک

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ سے تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب و باطن کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ

مولانا روم روحانی ترقی کے راستے کھلنے کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں کہ

آئینہ کز زنگ و الائش جداست
پر شعاع نور خورشید خداست

رو تو زنگار از رخ پاک کن
بعد از آن، آن نور را ادارک کن

ایں حقیقت را شنو از گوش دل
تابہ بیرون آئی بہ کلی ز آب و گِل

فہم اگر دارید، جان را رہ دھید
بعد از آن از شوق پا در رہ نھید

اے طالبِ حق وہ آئینہ (یعنی آئینہ قلب) جو زنگ اور میل سے دور ہے، وہی آئینہ قلب آفتابِ انوارِ الہٰیہ سے بھرا ہوا ہے۔

اگر تو چاہتا ہے کہ تیرے دل پر انوارِ الہٰیہ کا نزول ہو، اس کی تجلیات تیرے دل پر نازل ہوں تو دل کو زنگ اور آلائشوں سے پاک کرلے، تب جاکر دل اس قابل ہوگا کہ اس پر واردات اور انوار کا نزول ہوگا۔ یہ زنگ، الائش اور میل کیا ہے؟ اس زنگ کی دو اقسام ہیں:

1۔ شہواتِ نفسانیہ کا زنگ: نفس کے یہ زنگ، گھٹیا خصلتیں دل کے آئینہ کو غبار آلود کردیتی ہیں۔ جس طرح صاف شیشہ کے بغیر انسان اپنا چہرہ نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح صاف قلب کے بغیر عالمِ تجلیات کے انوارنصیب نہیں ہوتے۔

2۔ تعلقاتِ ماسوا کا زنگ: یعنی دل کی خواہشات کا زنگ مثلاً ریا، تکبر، نخوت، خود پسندی وغیرہ۔

ہماری زندگی بدقسمتی سے نیکی اور بدی کا Mixture بن گئی ہے۔ کچھ لوگوں میں صرف برائی ہوتی ہے اور ان کی تعداد بہت کم ہے۔ بہت کم ایسے ہیں جن میں صرف خیر ہی خیر ہے۔ یہ دو انتہائیں ہیں۔ اکثر لوگ ان دونوں کا مغلوبہ ہیں۔ ہماری زندگیوں کا یہ حال ہے کہ ان پر نفسِ امارہ کا غلبہ ہے۔ حرص، لالچ، تکبر، نخوت، طلب، شہوت، جھوٹ، غیبت بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف رجوع بھی ہے، محبت، خشیت، خوف الہٰی، رقت، آنسو، خیرات، سخاوت بھی ہے۔ یعنی ہم بھلائی اور برائی دونوں کرتے ہیں۔ یہ 99% لوگوں کا حال ہے۔ فرق یہ ہے کہ کسی میں خیر کا غلبہ ہے اور کسی میں شر کا غلبہ ہے۔ اس صورت حال میں بندہ سفر تو جاری رکھتا ہے مگر کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی جگہ کھڑا رہتا ہے، روحانی ترقی نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جیب کٹی ہوئی تھی، ہم پیسے ڈالتے رہے اور ہمیں معلوم نہ ہوا، پیسے گرتے رہے۔

مولانا روم فرماتے ہیں کہ نفسانی رذائل اور قلبی خواہشات کا زنگ دل سے اتار، تب اللہ کے انوار وتجلیات آئیں گے۔ تن تیرا دنیا کے ماحول میں رہے، فرائض ادا کرے، ضرورت، ضرورت رہے، شہوت و محبت نہ بنے اور من احوالِ محبت کی طرف راغب رہے اور اللہ کی طرف متوجہ رہے۔

یاد رکھیں! رسمی عبادات کرنے سے ایک حجاب غفلت بھی نہیں اترتا، ایک زنگ بھی نہیں اترتا۔ سارے امور کا اجرو ثواب تو ملتا ہے مگر نور کا نصیب ہونا، حجابات کا رفع ہونا اور روحانی ترقی کا نصیب ہونا نہیں ملتا۔ اس کے لیے مجاہدہ درکار ہے۔ صرف رفاقت ہی سے سب کچھ نہیں۔ کسی کی نسبت از خود حال نہیں بدلتی، رفاقت و بیعت دل کی ارادت کا نام ہے۔ خالی اور رفاقت فارم کے پر کرنے سے حال نہیں بدلتا۔ خالی نسبت سے فیض کی کئی صورتیں ملتی ہیں، برکت ملتی ہے مگر دل کا زنگ نہیں اترتا، دل میں ورودِ تجلیات نہیں ہوتا، یہ کام ریاضت سے ملتا ہے۔

ارادت، صحبت اور ریاضت تینوں چیزوں کو جوڑا جاتا ہے تب دل کے زنگ اترتے اور روحانی ترقی نصیب ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی ڈگری اور کوئی بھی فن سیکھنے کے تقاضے پورے کئے بغیر نہیں ملتی۔ جب کسی بھی میدان میں ریاضت کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوسکتا تو عاشق بغیر کسی ریاضت کے کس طرح بن سکتا ہے۔

اس لیے فرمایا: زنگ سے دل کو صاف کر اور ماسوا اللہ سے جو چیز دور لے جائے اس سے بھی اپنے آپ کو پاک کر۔

روحانی ترقی کے لیے درج ذیل مراحل ہیں:

  1. تزکیہ (نفس کی زنگار سے صفائی)
  2. تصفیہ (دل کی غبار سے صفائی)
  3. جب نفس رذائل سے پاک ہوجائے اور دل ماسوی اللہ میں غرق ہونے سے محفوظ ہوجائے تو تیسری منزل التخلی ہے یعنی دل کو تب خلوت ملتی ہے اور دل اللہ کا خلوت کدہ بنتا ہے جب اس کی محبت و قربت دل میں بس جائے تو یہ التخلی ہے۔ ہر تمنا کے دل سے رخصت ہوجانے سے دل خلوت کدہ محبوب بنتا ہے جب غیر بیٹھے ہوں تو بات کرنا تو دور کی بات ہے محبوب دیکھتا بھی نہیں ہے۔
  4. اس کے بعد مرحلہ التجلی ہے۔ خلوت ہوگی تو تجلی ہوگی۔ تجلی کا مطلب ہے دیکھنا۔ بندہ نور کو دل پر گرتے محسوس کرتا ہے۔
  5. اس کے بعد مرحلہ التحلی ہے۔ اس مقام پر بندہ پر اللہ کے اخلاق کا رنگ چڑھ جاتا ہے۔ یہ عبدیت کاملہ اور عبودیت صحیحہ ہے۔ اس کی صفات کا رنگ بندے پر چڑھ جاتا ہے اور اللہ اپنے اخلاق کا زیور اس بندے کو پہنا دیتا ہے۔

10۔ 29 ویں شبِ رمضان المبارک

نفس کا زنگ اور قلب کا غبار کس طرح دور ہوتا ہے؟ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی گذشتہ شب کی جانے والی گفتگو کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے فرمایا: تزکیہ، تصفیہ، تخلی، تجلی اور تحلی کے بعد اگلے مراحل شروع ہوتے ہیں:

6۔ الترقی روحانیت کے سفر میں چھٹا مرحلہ ہے۔ یہاں سے سالک کے مراتب و مدارج میں ترقی کا آغاز ہوتا ہے۔ یہاں سے رکاوٹیں دور ہوتی ہیں اور وہ تیزی سے منازل طے کرتا ہے۔ اس کو ’’التنقل‘‘ بھی کہتے ہیں یعنی روحانی نقل مکانی ہوتی ہے اور عالم لاہوت کی طرف روح محوِ پرواز ہوجاتی ہے۔

انسان کے بشری پیکر کی تشکیل میں موجودہ پانی، مٹی، گارے، چپکنے والے گارے، کھنکھناتی مٹی، ٹھیکری کی طرح بجنے والی مٹی کی تاثیرات بھی انسان میں ہے۔ ان تمام خصوصیات و تاثیرات کو اعتدال میں لانا کمال ہے۔ اس لیے کہ اعتدال میں کمال ہے۔ کمال افراط و تفریط میں نہیں ہے۔ اعتدال یہ ہے کہ ترقی کی طرف سفر کرتے ہوئے انسان معتدل ہوتا جاتا ہے۔

  1. ساتواں مرحلہ التدانی ہے۔ یہ مرتبہ عروج ہے۔ اس مرحلہ سے بندہ روحانیت میں مزید اوپر جاتا ہے اور یہاں اسے ثم دنٰی کا فیض ملتا ہے۔
  2. آٹھواں مرحلہ التدلی ہے۔ اس میں فَتَدَلّٰی کا فیض ملتا ہے۔ اللہ اس بندہ کے باطن و روح میں اجلال فرماتا ہے۔ اس طرح بندہ کو معراجِ حق نصیب ہوتی ہے۔ نزولِ حق کی صورت میں اللہ کی قربت نصیب ہوتی ہے اور حجابات دور ہوجاتے ہیں۔
  3. التلقی نواں درجہ ہے۔ اس مرحلہ پر بندہ براہِ راست اللہ سے اخذِ فیض کرتا ہے۔
  4. دسواں درجہ التولی ہے۔ اس میں بندہ اپنے آپ کو بھول چکا ہوتا ہے۔ یہ عالم بے خودی ہوتا ہے۔ انوار و تجلیات میں بندہ گم ہوتا ہے۔ فیض دے کر بندہ کو کمال دیا جاتا ہے۔بندہ اپنی طرف واپس پلٹتا ہے۔ یہ مرحلہ نزول ہے۔ اس مرحلہ پر اس بندے کے تمام معاملات رب نے خود سنبھال لیے ہوتے ہیں۔

اِس روحانی ترقی کے راستے کی درج ذیل ابتدائی ضروریات بھی ہیں جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے:

  1. سماع و تذکر: سننے سے سفر شروع ہوتا ہے اور اس میں پہلا قدم تَذَکُّرْ ہے۔ یعنی جو سنے اس کو نصیحت میں بدل دے۔ سنتا ہر کوئی ہے مگر تذکر میں نہیں بدلتے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سنتے ہیں مگر اپنے اوپر توجہ اور دھیان نہیں دیتے۔ اس کو اپنے من میں وارد کریں۔ ہر شخص یہ سمجھے کہ یہ بات میرے لیے ہے۔ ہر صحابی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کو اپنے اوپر وارد کرتا۔ اس طرح کی سوچ ہو تو یہ تذکر ہے۔
  2. تفکر: میری یہ خرابی آئی کہاں سے ہے؟ کب تک نہیں تھی؟ کتنا عرصہ پہلے آئی؟ اس نے میرے اندر کون کون سی تبدیلی پیدا کی؟ اس کو تفکر کہتے ہیں یعنی ایک ایک خرابی کو پکڑیں اور اس کا علاج کرتے چلے جائیں۔
  3. توجہ اور تجمع: اس سے قبل بندہ انتشار میں ہوتا ہے، یکسوئی نہیں ہوتی۔ انتشار ذہنی اور بہت ساری سوچوں کا غلبہ ہے۔ اس سے قبل Focus نہیں ہوتا۔ اس مرحلہ پر اصل چیز پر Focus کرنا ہے۔ جڑی بوٹیوں کو اکھاڑنے کی وجہ زمین کی قوتِ تخلیق کو اصل فصل کی طرف کرنا ہوتا ہے تاکہ زمین کا Focus صحیح ہوجائے۔ اس مرحلہ میں انتشار خیالی کو ختم کرنا اور سارا ذوق اور باطنی صلاحیتوں کو ایک نکتہ پر مرکوز کرنا تجمع کہلاتا ہے۔
  4. تتبع: اطاعت کی طرف مائل ہونا۔ حضور اور اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا۔ اتباع و اطاعت کرنا۔
  5. تَحَضُّرْ، تَخَلُّق (حضوری): ہجرت کے بغیر ترقی نہیں ہے۔ گناہ کے وطن سے بھی ہجرت کرنا ہوگی تب روحانی ترقی نصیب ہوتی ہے۔ جملہ انبیاء کرام نے ہجرت کی، اولیاء اللہ نے ہجرت کی۔ جس طرح بندے ہجرت کرتے ہیں، اس طرح روحیں اور طبیعتیں اور عادات بھی ہجرت کرتی ہیں۔ ہجرت کے بعد نئے وطن میں تَحَضُّر و تخلق ہوتا ہے۔ بندہ پھر اس وطن کی بولی، لباس، رہن سہن اپناتا ہے۔ نئے وطن نہیں بنتے جب تک پچھلے وطن یاد رہیں۔
  6. تنقل: یہاں سے پردے اٹھتے ہیں اور بندہ اگلے روحانی مقام میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اس تنقل کے بعد بندے کو وللآخرۃ خیرلک من الاولیٰ کا فیض ملتا ہے اور بندے کی کیفیت و حال یہ ہوجاتا ہے کہ مل جائے تب بھی راضی رہتا ہے اور نہ ملے تب بھی راضی رہتا ہے۔

11. 30 ویں شبِ رمضان المبارک

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہرالقادری نے شہر اعتکاف میں رمضان المبارک کی آخری رات مثنوی مولانا روم سے ادب کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اس امر پر روشنی ڈالی کہ رمضان المبارک کے بعد اور روحانی فیوضات کے حصول کے بعد اب فکر یہ کرنی ہے کہ اس بستیِ عشق سے جو کچھ ملا اس کو سنبھالنا کیسے ہے؟ آپ نے فرمایا:

توجہ الی اللہ، محبت و عشق کی رغبت، آخرت اور گناہوں سے بیزاری کے حوالے سے جو کچھ ملا ہے اس کو برقرار رکھنا اصل امتحان ہے؟ کسی محفل و مجلس میں کیف اور کیفیت کا آنا بندے کا کمال نہیں بلکہ محفل اور وقت کی برکات اور نزولِ تجلیات اور اثرات سے کیفیت آتی ہے۔ اس لیے کہ بلب کے نیچے بیٹھیں گے تو روشنی ملے گی۔ کیفیت کی مثال جگنو کی چمک سی ہے۔ کچھ لمحہ کے لیے چمک آئی اور بجھ گئی۔ کیفیت مجلس، صحبت، عبادت اور زیارت کے اثر سے آتی ہے۔ یہ عارضی چیز ہوتی ہے۔ اس کے بعد محنت شروع ہوتی ہے۔ اس کیف کو برقرار رکھنا اصل امتحان اور مشقت طلب کام ہے۔۔

اس کیفیت پر نیک اعمال کا حصار قائم کرنا اس کو محفوظ کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔ اس لیے کہ نیک اعمال کا اپنا اثر بھی ہے اور یہ پہلے سے موجود کیفیت کو محفوظ بھی کرتے ہیں۔

مولانا روم فرماتے ہیں کہ اے بندے تجھے اعمالِ خیر کرتے ہوئے 40 سال گزر چکے مگر اس کا کوئی اثر تیرے من پر ظاہر نہیں ہوا۔ تیری مثال اس بندے کی طرح ہے کہ جس نے پورے سال کی گندم بوریوں میں محفوظ کرکے رکھی ہیں، مگر اُسے پتہ ہی نہیں چلا کہ اس بوری میں چوہوں نے سوراخ کردیا اور وہ اس کی کمائی کوکھانے لگے۔ اس طرح اس بندے کی پوری کمائی تباہ و برباد ہوتی چلی گئی۔ اس مثال کو بیان کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ اے بندے! تیرے من کی بھی ایک بوری ہے جس کو شہوات و نفسانیت کے چوہوں نے تباہ و برباد کردیا۔ اگر نفس کا چوھا تیری گندم کو نہ کھاتا تو 40 سال کے اعمال خیر کا کچھ نہ کچھ اثر تو تیری طبیعت پر ہوتا۔ اپنا جائزہ لے کہ اعمالِ خیر کی کثرت کے باوجود تیری طبیعت اور مزاج کتنا بدلا؟ کیا سختی نرمی میں بدلی؟ اندھیرا دور ہوا؟ اخلاص اور اخلاق کتنا آیا؟ جودو سخا کتنا آیا؟ اگر اس طرح کے اثرات تیرے اوپر مرتب نہیں ہوئے تو جان لے کہ تیرے من کی بوری کو بھی رذائل نفس کے چوہے برباد کررہے ہیں اور تجھے ان کی کوئی خبر نہیں۔

مولانا روم فرماتے ہیں کہ ہر روز کی عبادت کا اگر ایک ایک دانہ بھی اکٹھا ہوتا رہتا تو آج اس کا اثر کچھ نہ کچھ ہوا ہوتا۔ رنگ ڈھنگ بدل گیا ہوتا، خیر کا چشمہ پھوٹتا، لوگوں کو تیری زبان و ہاتھ سے فائدہ پہنچتا، تیری عبادت کا تیری طبیعت پر اثر ہوتا۔ افسوس اس طرح نہیں ہے۔ ہم اعمال کا اناج اکٹھا کرتے ہیں اور رذائل خبیثہ کے چوہے اس کو ختم کرتے رہتے ہیں۔

روحانی کیفیت ریاضت و مجاہدہ سے مضبوط ہوتی ہے۔ یہ جم جائے تو اس کو حال کہتے ہیں۔ کیفیت کو حال میں بدلیں تاکہ یہ مستقل ہوجائے۔ اس چراغدان میں محبت، اطاعت، معرفت، عبادت، صدق، اخلاص، روزہ، گریہ و زاری کی صورت میں تیل ڈالتے رہیں تاکہ یہ چراغ بجھنے نہ پائے۔ حال آجائے تو اس میں بھی زیرو بم آتا ہے۔ یہ کیفیت کی طرح جاتا نہیں مگر اس میں اونچ نیچ آتا ہے، تموّج و تغیر ہوتا ہے۔ اس حال کو مضبوط کریں، صدق و اخلاص سے کاوشیں کریں تو پھر اس سالک کی زندگی میں یہ حال اس کے مقام میں بدل جاتا ہے۔ جو کیفیت ملی اس کو ریاضت و مجاہدہ اور اعمال صالحہ سے محفوظ کریں اور اس کوبچا کرلے جائیں، اس میں اضافہ کریں۔

کیفیت کو حال میں بدلنے میں ایک اہم چیز ’’ادب‘‘ ہے۔ بندے کی زندگی میں جتنے خصائلِ حمیدہ ہیں، اخلاق حسنہ ہیں، ان ساروں کا جمع ہونا ادب کہلاتا ہے۔ ادب صرف تعظیم کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ہر حقدار کا حق خوبصورت طریقے سے ادا کرنا ادب ہے۔ اللہ سے بندگی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غلامی اور ہر مخلوق کو اس کا حق اد اکرنا اور اس کے ساتھ خوبصورت طریقے سے معاملہ کرنا ادب ہے۔ ادب سے بندہ اللہ کا محبوب و مقرب بنتا ہے اور ادب سارے دروازے کھول دیتا ہے۔

حضرت سہل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں: جس نے محنت کر کے اپنے آپ کو ادب نہ سکھایا، اس کی عبادت اخلاص سے خالی رہتی ہے۔

حضرت ابو حفص بغدادی فرماتے ہیں کہ ظاہری ادب کے ذریعے ہی باطن پر ادب کا رنگ چڑھتا ہے۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص روز اپنی اولاد کو کچھ دیر کے لیے ادب سکھائے تو ایسا کرنا صدقہ و خیرات کرنے سے بہتر ہے۔ پس جس نے حسنِ ادب سے زندگی گزاری، اللہ اسے مفاتیح الخیر عطا فرمادیتا ہے اور یاد رکھیں! اد ب سے ہی ایمان کی معرفت ہے۔

12۔ 30 رمضان المبارک

امسال آخری روزہ جمعۃ المبارک کے دن نصیب ہوا اور جمعۃ الوداع اس سال کا آخری روزہ تھا۔ جمعۃ الوداع کا خطاب محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ارشاد فرمایا:

خطاب جمعۃ الوداع: ڈاکٹر حسین محی الدین قادریی

حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ کسی ایک پہلو کو انسان تھام لے اور دوسرے پہلو کو چھوڑ دے تو وہ کمال اور ترقی کی منزل نہیں پاسکتا۔ جب تک وہ دونوں پہلوؤں کو بیک وقت تھام کر نہ چلے اور اس پر عمر بھر عمل پیرا نہ رہے اس وقت تک اللہ پاک کا قرب نصیب نہیں ہوتا۔

امام رازی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو جس قسم کی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، وہ عبادت ہمارے نزدیک احکام الہٰی کی بجا آوری اور بندوں سے پیار کا اظہار ہے۔ یہ دونوں چیزیں جمع ہوکر درحقیقت وہ عبادت بنتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ہم سے مطلوب ہے۔

یہ ماہ مبارک جب آتا ہے تو ہمارا دھیان حقوق اللہ کی طرف ہوجاتا ہے، ہم دن رات عبادات میں مشغول رہتے ہیں لیکن اللہ پاک نے اسی ماہ مبارک کو جہاں حقوق اللہ کے لیے رکھا وہاں انسانیت کی خدمت کے لیے حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلوائی۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام قیدیوں کو رہا فرمادیتے پھر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں تو کریم ہیں، آپ کے در سے کبھی کوئی خالی دامن لوٹا ہی نہیں لیکن جب ماہ رمضان میں آپ سے کوئی مانگنے آتا تو آپ اس کو باقی ایام کے مقابلے میں بے پناہ عطا فرماتے یعنی آپ کی سخاوت ماہ رمضان میں اپنے جوبن پر ہوتی۔

امام سیوطی بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے اس ماہ رمضان میں درحقیقت جہاں پر حقوق اللہ کی ترغیب دی وہاں پر حقوق العباد کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔ حقوق العباد سے مراد صدقہ و خیرات، لوگوں کی غمگساری، غریب پروری، اپنے بھائی کی مدد کے لیے نکلنا، اس کا سہارا بننا، اس کی تکلیف کو دور کرنا ہے۔ یہ وہ اعمال ہیں کہ جن کو قرآن مجید میں اس کثرت سے بیان کیا گیا ہے کہ اس سے اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ حقوق العباد کا مختلف مقامات پر بیان کرکے یہ واضح کردیا کہ تم ساری زندگی دیگر عبادات کرتے رہو، اعتکاف کرتے رہو، روزے رکھتے رہو راتوں کے قیام کرتے رہو، تلاوت قرآن کرتے رہو ذکر و اذکار و وظائف کی تسبیح کرتے رہو اگر تم اپنے دوسرے بھائی کے مددگارنہیں ہو، اس کے لیے خوشی کا سامان مہیا کرنے والے نہیں ہو تو سب کچھ کرنے کے باوجود بھی تم خدا کا قرب نہیں پاسکتے۔

عبادات کا کوئی عمل اگر ادھورا رہ جائے تو اس کا کفارہ ہے جب تک مکمل نہیں ہوتا تو ادا تصور نہیں ہوتا لیکن حقوق العباد کا معاملہ ایسا ہے کہ کام کرنے نکلے اور راستے میں موت آگئی تو اللہ پاک نے فرمایا کہ یہ میرے بندے کی حاجت روائی کے لیے نکلا تھا لہذا اس کو بغیر حساب و کتاب جنت میں داخل کردو۔ معلوم ہوا دنیا میں آنے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے غریب بھائی کی ہر لحاظ سے مدد کی جائے۔

اس دور میں قرآن مجید کی تعلیمات، تاجدار کائنات اور اولیاء و صوفیاء کے اسوہ کی صحیح امین جماعت تحریک منہاج القرآن ہے۔ یہ جہاں پر اہمیتِ خدمت دین پر توجہ دیتی ہے وہاں پر اہمیتِ خدمت خلق پر بھی توجہ دیتی ہے۔ جہاں پر اعتکاف کے ذریعے دس دس راتوں کی شب بیداریاں سجاتی ہے، گوشہ درود کے ذریعے آقا علیہ السلام سے نسبت جوڑتی ہے، علمی اور تحقیقی کام کے ذریعے امت کے پسماندہ ہونے والی اقدار کو پھر سے زندہ کرتی ہے وہاں پر تعلیمی منصوبہ جات کے ذریعے جہالت کے اندھیروں میں نور بھی عام کرتی ہے۔ ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ذریعے سینکڑوں یتیم بچوں کی پرورش بھی کررہی ہے، بیابان علاقوں میں پانی مہیا کررہی ہے، غریبوں کو کھانا بھی فراہم کرتی ہے۔ اس دور میں درحقیقت تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام نے قرون اولیٰ کی ان خانقاہوں کی اصل روح کو زندہ کیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ خانقاہیں ایک علاقوں تک تھیں مگر شیخ الاسلام نے پوری دنیا میں اس کام کو پھیلادیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اس عظیم اسوہ اور اس عظیم مشن کے ساتھ جڑ جائیں اور زندگیوں میں تبدیلی لے آئیں کہ جہاں حقوق اللہ ادا کریں وہاں حقوق العباد کی ادائیگی پر بھی توجہ دیں۔

رمضان المبارک 2018ء میں طبع ہونے والی نئی کتب

حسبِ روایت 27 ویں شب کی مقدس ساعتوں میں اِمسال بھی فرید ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ (FMRi) کے زیراہتمام مجددِ رواں صدی، قائدِ مصطفوی انقلاب اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی علمی و تحقیقی اور فکری موضوعات پر درج ذیل تصانیف زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آئی ہیں۔

1. نُوْرُ الْقَمَرَیْن فِی فَضَائِلِ الْحَرَمَیْن

(فضائلِ حرمین شریفین)

اس کتاب میں حج اور عمرے کے فضائل اور ان کے مناسک پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ مدینہ منورہ کی دیگر شہروں پر حرمت و تکریم کو آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اور مزارِ پْر نور کی حاضری کے آداب قرآن و حدیث، اَقولِ اَسلاف اور اَہلِ سنت کے چاروں فقہی مذاہب کے آئمہ کے اقوال کی روشنی میں بیان کیے گئے ہیں۔

2. نَضْرَةُ النُّور فِی فَضْلِ الطُّهُورْ

(طہارت اور پاکیزگی کی فضیلت اور اَحکام: احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں)

اس کتاب میں طہارت کے فقہی پہلوؤں پر مشتمل مستند احادیث مع تحقیق و تخریج مرتب کی گئی ہیں۔ اور مذکورہ موضوع کی وضاحت اور اس سلسلے میں علمی اِشکالات کا بطریقِ اَحسن ازالہ بھی کیا گیا ہے۔

3. عُمْدَةُ التَّصْرِیْح فی قِیَامِ رَمَضَانَ وَصَلَاةِ التَّرَاوِیْحِ

اس کتاب میں قیامِ رمضان کی فضیلت اور بیس رکعات نمازِ تراویح کو قرآن و حدیث سے ثابت کیا گیا ہے۔ مذکورہ تالیف میں نمازِ تراویح کی فضیلت، اہمیت اور بطور سنت روشنی ڈالی گئی ہے۔

4. عَوْنُ الْمُغِیْث فِی طَلَبِ عِلْمِ الْحَدِیْث

(حصولِ علم کے لیے سفر، مذاکرہ اور کتابتِ حدیث)

اس تالیف میں سب سے پہلے حصولِ علم اور طلبِ احادیث کے لیے صحابہ کرام و تابعین عظام رضی اللہ عنہم، آئمہ کرام اور سلف صالحین کے طویل، مشکل، کٹھن لیکن مبارک اَسفار کے احوال بھی بیان کیے گئے ہیں۔ اِس کے بعد مذاکرہ حدیث اور کتابتِ حدیث کی اہمیت و آغاز پر احادیثِ مبارکہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین و تبع تابعین کے اقوال و معمولات درج کئے گئے ہیں۔

5. فقه القلوب: قلبی حیات و ممات

یہ کتاب ناروے میں ہونے والے سہ روزہ تربیتی و اِصلاحی کیمپ ’الہدایہ یورپ 2017‘ میں ہونے والے دروس کا مرتبہ مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں حیاتِ قلبی کے مختلف دقیق نکات پر انتہائی آسان انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

6. سلسلہ تعلیماتِ اِسلام (12): بچوں کی تعمیر شخصیت

11 سے 16 سال کی عمر تک بچوں کی تعمیرِ شخصیت، دینی و اخلاقی اور سماجی و نفسیاتی تربیت کے حوالے سے یہ کتاب دراصل ایک گائیڈ بک ہے جو نسلِ نو کو ایک اچھا مسلمان اور ذمہ دار شہری بناتی ہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی درج ذیل چار عربی کتب اِس وقت بیروت میں زیر طبع ہیں، یہ کتب اِن شاء اللہ بہت جلد منظر عام پر آجائیں گی:

7. فَلْسَفَةُ الْحُرُوْفِ الْمُقَطَّعَة (تَفْسِیْر الٓمّٓ نَمُوْذَجًا)

8. تَکْوِیْنُ الشَّخْصِ الانسَانِی فِی سُوْرَةِ السَّبْعِ الْمَثَانِی

9. فَلْسَفَةُ الْحَیَاةِ فِی الاِسْلَام

10. حُکْمُ السَّمَاع عَنْ اَهْلِ الْبِدَعِ وَالْاَهْوَاء

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی نئی کتب

1۔ خدمت دین کے تقاضے اور ہمارا کردار

اس کتاب میں دین کی خدمت کرنے والے کارکنان کے لیے مفید نکات بیان کیے گئے ہیں کہ وہ کس طرح اپنی تحریکی کوششوں میں اِخلاص و اِستقامت کا جذبہ پیدا کر سکتے ہیں۔

2. Parents’ Rights in Islam

(Social and Scientific Perspective)

اس کتاب میں انگریزی زبان میں والدین کے حقوق نہ صرف اسلامی تناظر میں بلکہ سماجی و سائنسی انداز سے تحریر کیے گئے ہیں۔ اس کتاب میں جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ والدین کے حقوق کیوں ہیں، وہاں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے والدین کے کاندھوں پر نسلِ نو کی تربیت کی بہت بڑی ذمہ داری اور بارِ گراں بھی ہے۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی نئی کتب

1. مقالاتِ عصریہ (جدید تحقیقی مباحث): جلد اَوّل

اس تحقیقی دستاویز میں مختلف موضوعات جیسے اِسلامی فنونِ لطیفہ، مسلمانوں کے کارہاے نمایاں، حیاتِ انسانی کی اقسام، حقوقِ نسواں، فلسفہ تعددِ اَزواج اور عصرِ حاضر کے مسائل جیسے مختلف تحقیقی زاویوں پر شان دار انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے اور ان تمام مسائل کا مناسب حل بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے۔

2. اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور

(خانقاہوں اور مزاراتِ اَولیاء کے حوالے سے تحقیقی مطالعہ)

اس کتاب میں اِنسان دوستی کے حوالے سے اَولیاء کرام کے کارناموں کو بہترین انداز سے سلامِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ خدمتِ خلق کے حوالے سے اِسلامی تعلیمات پر یہ ایک منفرد تحریر ہے۔ کس طرح اَولیاء اللہ نہ صرف اپنی زندگی میں بلکہ بعد اَز وصال بھی ہمہ وقت مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کرتے ہیں اور خلق خدا ہر لحظہ ان سے فیض یاب ہوتی رہتی ہے۔ گویا مزاراتِ اَولیاء کے سماجی و معاشی پہلو پر محققانہ روشنی ڈالی گئی ہے۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جولائی 2018ء

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top