ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا داتا گنج بخش علی ہجویری کے سالانہ عرس کے موقع پر کانفرنس سے خطاب

تحریک منہاج القرآن کے صدر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے حضور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے 976ویں سالانہ عرس مبارک میں خصوصی شرکت کی۔ داتا گنج بخش کے سالانہ عرس مبارک کی سہہ روزہ تقریبات پر سہہ روزہ عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کو خصوصی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر آپ نے خصوصی خطاب بھی کیا۔

کانفرنس میں وزیرمذہبی امور پنجاب صاحبزادہ سید سعید الحسن شاہ گیلانی مہمان خصوصی تھے۔ ان کے ساتھ صاحبزادہ طاہر رضا بخاری، معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر ظہور احمد اظہر الازھرری، ڈاکٹر علی اکبر الازھری، راجہ زاہد محمود، منہاج القرآن علماء کونسل پنجاب کے ناظم علامہ آصف اکبر میر بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ اس موقع پر علماء کرام و مشائخ، صوفیاء، سجادگان، اسکالرز، دانشوروں اور ہر طبقہ ہائے فکر سے معزز شخصیات اور زائرین کی بڑی تعداد نے بھی عرس تقریبات میں شرکت کی۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے تصوف کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تصوف کے تین درجات ہیں، پہلا درجہ علم، دوسرا اخلاق اور تیسرا درجہ معرفت و حقیقت ہے۔ تصوف کے ماننے والوں کو بھی انہی تین درجات میں تقسیم کر کے سمجھا و مانا جا سکتا ہے۔ اہل علم اور علماء تصوف کو بطور علم پڑھ کر جانتے ہیں، ایسے لوگوں کو عالم کہا جا سکتا ہے۔ سالک بننے کے لیے تصوف کا دوسرا درجہ اخلاق ہے، جب بندہ علم حاصل کرنے کے بعد راہ سلوک میں ڈھالتا ہے تو وہ سالک بن جاتا ہے۔ تیسرا درجہ میں معرفت اور حقیقت ہے۔ تصوف کی پہلی دو گھاٹیاں اور درجات کسبی ہیں، لیکن تیسرا درجہ یعنی معرفت کسبی نہیں نعمت کے طور پر کسی پر کھول دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج المیہ یہ ہے کہ جس نے تصوف کو بطور علم پڑھا تو وہ وہ صرف عالم ہوا اور سالک نہ بن سکا۔ دوسرا طبقہ سالک بن کر مراقبات و مجاہدات میں پڑا رہا۔ تیسرا طبقہ صوفیاء کی زندگی کا مطالعہ کرکے علم کے نور سے بڑی بڑی تجلیات کا تذکرہ کرنے لگا، جس کے نتیجہ میں تصوف کا فلسفہ وجود آیا۔ تصوف کے فلسفہ کی وجہ سے آج نوجوان نسل کو علم دین سے دور کر دیا گیا۔ فلسفی نے نوجوان کو صرف فلسفہ تصوف میں الجھا کر رکھ دیا۔ آج کی نوجوان نسل تصوف میں مشکل کا شکار ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ حضور داتا گنج بخش تصوف کے وارث ہیں، آپ کی بارگاہ علمی سے تصوف کے حقیقی معنی و مطالب اور حقیقت جاننے کو ملتی ہے۔ داتا گنج بخش کی تعلیمات تصوف سے نوجوانوں کو حقیقی فلسفہ تصوف ملا۔ آپ کی تصنیف کشف المعجوب اہل علم اور اہل تصوف کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج ہم ان کی تعلیمات سے جڑ جائیں تو زندگی میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

اس سے پہلے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری عرس تقریب میں شرکت کے لیے داتا کی نگری پہنچے تو اہل لاہور نے آپ کا پروقار استقبال کیا۔

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top