اصلاح احوال امت اور تحریک منہاج القرآن

صدیوں پر مشتمل دور زوال نے امت مسلمہ کو ہمہ جہتی زوال کا شکار کردیا۔ علمی، فکری، اخلاقی، روحانی اور اعتقادی ہر ہر میدان میں اسلامی اقدار مٹ چکی تھیں۔

علم میں دنیا کی امامت کا فریضہ سرانجام دینے والی امت علم سے خالی دامن ہوچکی تھی، خارجیت کا طوفان آہستہ آہستہ عقائد اسلامی کو مسخ کررہا تھا۔ مسلم معاشرے میں بڑھتی ہوئی جہالت اور یورپی معاشرے کی تیز رفتار ترقی مسلمانوں کو فکری طور پر مایوسیوں کی دلدل میں دھکیلنے لگی، امت شعوری طور پر مستقبل سے مایوس ہوکر شکست خوردہ ہوگی، اصلاح احوال کے سب سے بڑے مراکز صوفیاء کرام کی خانقاہیں بھی ویران ہوگئیں اور معاشرہ اجتماعی طور پر اخلاق حسنہ کی نعمت سے محروم ہوگیا۔ ان حالات میں انفرادی سطح پر کئی اہل درد نے اصلاح احوال کا فریضہ سرانجام دینے کی جدوجہد جاری رکھی مگر اجتماعی سطح پر حالات مزید ابتر ہوتے چلے گئے۔ 1980ء کی دہائی میں جب ہجری صدی نے ایک کروٹ لی اور پندرھویں صدی کا آغاز ہوا تو اصلاح احوال امت کے عظیم داعی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک منہاج القرآن کے عنوان سے اصلاح احوال کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ جس کے پہلو مندرجہ ذیل ہیں:

  1. اعتقادی اصلاح احوال
  2. اخلاقی و روحانی اصلاح احوال
  3. فکری و نظریاتی اصلاح احوال
  4. علمی و تعلیمی اصلاح احوال

اعتقادی اصلاح احوال

تحریک منہاج القرآن نے جس دور میں اعتقادی اصلاح کی جدوجہد کا آغاز کیا اس دور میں خارجیت کا طوفان اسلامی عقائد کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ کفرو شرک کے فتوے عام تھے، حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امت کا تعلق ہر ہر پہلو سے کاٹا جارہا تھا۔

عقیدہ رسالت کے ہر ہر پہلو چاہے وہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو یا محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ثنا خوانی ہو یا توسل، استعانت اور شفاعت جیسے عقائد ہر چند کہ ایک ایک پہلو پر بدعت کفر اور شرک کے فتوے عام تھے۔ یوں ایمان کا درخت جڑیں کھوکھلی ہونے کے باعث سوکھ رہا تھا کو ایسے حالات میں تحریک منہاج القرآن نے امت کے دلوں میں فروغ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے علمی و عملی دونوں محاذوں پر جدوجہد کا آغاز کیا۔ تحریک منہاج القرآن کی گذشتہ 30 سالہ طویل جدوجہد میں عملی سطح پر بے مثال خدمات میں سے چند اہم حسب ذیل ہیں:

  1. دنیا بھر میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنسز کا انعقاد
  2. عالمی محافل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انعقاد
  3. دنیا بھر میں سالانہ ہزاروں محافل میلاد کا انعقاد
  4. تحریک کے مرکز پر گوشہ درود کا قیام
  5. دنیا بھر میں ہزاروں حلقات درود و فکر کا قیام

تحریک منہاج القرآن ان تمام سرگرمیوں کے ذریعے امت کا اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کو مضبوط کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کی اس عظیم جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ خارجیت کا طوفان تھم چکا ہے۔ کفر و شرک کے فتوے لگانے والے بھی آج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانے لگے ہیں۔

اس عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علمی میدان میں بھی عقیدہ رسالت کا دفاع کیا۔ عقائد اسلامی کی وضاحت کے لئے قرآن و حدیث کی روشنی میں سینکڑوں کتب شائع کرکے جہاں امت مسلمہ کی علمی رہنمائی کی وہاں خارجی فکر کو علمی محاذوں پر بھی شکست دی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عقائد صحیحہ کے دفاع میں معرکۃ الآراء تصانیف حسب ذیل ہیں:

  1. کتاب التوحید (دو جلدوں پر مشتمل)
  2. میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  3. عقیدہ علم غیب
  4. کتاب البدعۃ
  5. حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
  6. عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عقائد اسلامی کے مختلف پہلوؤں پر 60 سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں۔ عقیدہ رسالت کے ان پہلوؤں کے ساتھ ساتھ عقیدہ توحید اور عقیدہ آمدِ امام مہدی علیہ السلام سے متعلق پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور جاہلانہ تصورات سے امت کو نکالنے اور صحیح رہنمائی کے لئے متعدد کتب تصنیف فرمائیں۔

اخلاقی و روحانی اصلاح احوال

صوفیاء کرام تاریخ اسلامی کا وہ عظیم کردار ہیں جنہوں نے ہر دور میں معاشرے کے بگڑے ہوئے طبقات کی اصلاح کی جنہوں نے اپنے کردار کے نور سے جہالت، گمراہی اور بداخلاقی کو حسن معاشرت میں بدلا، اسلامی تاریخ میں اسلام کی ترویج و اشاعت میں سب سے اہم اور مرکزی کردار صوفیاء کرام کا ہی رہا ہے لیکن بدقسمتی سے اس طبقے کی اکثریت اپنے اسلاف کے نقش قدم سے ہٹ چکی ہے۔ روحانی تربیت کی عظیم خانقاہیں ویران ہوگئیں۔ تصوف اور طریقت سے علم نکل گیا اور محض رسومات باقی رہ گئیں۔ حتی کہ بعض افراد اور طبقات نے گمراہ، جاہل اور بے عمل صوفیاء کا کمزور کردار دیکھ کر علم تصوف کا ہی انکار کردیا تھا۔ ان حالات میں تحریک منہاج القرآن نے علمی اور عملی دونوں پلیٹ فارم پر تصوف کے احیاء کے لئے جدوجہد کی۔

تصوف کا علمی احیاء

3 صدیوں سے زائد عرصہ ہوچکا تھا کہ علم تصوف پر لکھا جانا ختم ہو چکا تھا۔ تعلیمی اداروں، مدارس اور خانقاہوں میں تصوف پڑھایا جانا ختم ہوچکا تھا۔ ایسے دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تصوف کے علمی احیاء کے لئے علم تصوف پر30 سے زائد کتب تصنیف فرمائیں۔ تصوف کے سینکڑوں موضوعات پر ہزاروں خطابات فرمائے۔ علم تصوف کے احیاء میں آپ کی گرانقدر خدمات میں سے سب سے اہم خدمت تصوف اور تعلیمات صوفیاء کے عنوان سے 56سے زائد خطابات کی سیریل ہے جس نے دنیا بھر میں تصوف کے منکرین کو نہ صرف حیران و ششدر کردیا ہے بلکہ ان پر سکتہ طاری ہے۔

علم تصوف کے احیاء کے سلسلہ میں چند اہم تصانیف حسب ذیل ہیں:

  1. حسنِ اعمال
  2. حسنِ اخلاق
  3. حسنِ احوال
  4. حقیقتِ تصوف
  5. تذکرے اور صحبتیں
  6. سلوک تصوف کا عملی دستور

تصوف کے وہ اہم ترین موضوعات جن پر آپ سینکڑوں خطابات فرما چکے ہیں ان میں چند اہم ترین موضوعات حسب ذیل ہیں:

  1. دروس تصوف
  2. تصوف اور تعلیمات صوفیائ
  3. دروس طبقات صوفیاء
  4. دروس تصوف (UK)

تصوف کے احیاء کی عملی جدوجہد

تصوف حقیقت میں علم سے زیادہ عمل کا نام ہے 14 سو سال سے صوفیاء کا پاکیزہ کردار ہی اسلام کی حقیقی روح کے طور پر زندہ تھا۔ صوفیاء اپنی خانقاہوں میں کثرتِ عبادت، مجاہدہ، ریاضت اور ذکر و اذکار سے تزکیہ و تصفیہ کا عمل جاری رکھتے یوں تصوف محبت کے ساتھ کرداروں میں ڈھل جاتا۔ بدقسمتی سے اس دور میں روحانی تربیت کا یہ عمل نہایت کمزور پڑچکا ہے۔ آج عمل کے طور پر سالانہ تقریبات اور چند رسوم و رواج کا ہی تعارف کروایا جاتا ہے ایسے دور میں تحریک منہاج القرآن نے قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی کی سرپرستی میں تصوف کی عملی روح کو زندہ کرنے کے لئے حسب ذیل اقدامات کئے:

  1. ہفتہ وار محافل ذکر
  2. ماہانہ شب بیداریاں
  3. سالانہ روحانی اجتماع
  4. سالانہ مسنون اجتماعی اعتکاف
  5. اخلاقی و روحانی تربیتی کیمپ
  6. سہ روزہ نفلی اعتکاف
  7. گوشہِ درود میں معمولاتِ تصوف
  8. حلقاتِ درود و فکر میں کثرتِ وظائف

یہ تمام سرگرمیاں گذشتہ 30 سال سے دنیا بھر میں جاری ہیں ان کی تفصیلات اور معاشرے میں افادیت کی وضاحت کے لئے بیسیوں صفحات درکار ہیں اگر ہم صرف سالانہ روحانی اجتماع کو دیکھیں تو 27 سالوں سے اس روحانی اجتماع میں سالانہ لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں اور ہزاروں افراد رب کریم سے اپنے گناہوں سے توبہ کرکے اپنے کردار و عمل کو بدل لیتے ہیں۔ یہ اللہ کا کرم اور قدوۃ الاولیاء کا فیضان ہے کہ دنیا بھر میں محبت، امن، اخلاق، رواداری، تحمل، برداشت اور خدمت خلق میں تحریک منہاج القرآن کے کارکنان نمایاں پہچان رکھتے ہیں۔

صوفیاء کرام کے کثرت و ذکر و عبادات کے معمولات میں سے یہ معمول رہا ہے کہ وہ سالہا سال عشاء سے فجر تک عبادت کرتے رہتے تھے۔ چشم فلک آج بھی یہ نظارہ دیکھتی ہے کہ سالانہ مسنون اجتماعی اعتکاف میں تیس تیس ہزار افراد نماز عشاء سے فجر تک عبادت و بندگی، درس قرآن اور تہجد و وظائف میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔

فکری و نظریاتی اصلاح احوال

دور زوال کے سب سے زیادہ بدترین اثرات ملت اسلامیہ کی فکر پر مرتب ہوئے۔ فکری طورپرپسماندگی کی انتہا یہ ہوچکی تھی کہ امت اپنے مستقبل سے مایوس ہوچکی تھی۔ اعمال سے نتیجہ خیزی کا یقین اٹھ چکا تھا۔ ایسے حالات میں تحریک منہاج القرآن نے امت کی فکری رہنمائی حسب ذیل بنیادوں پر جدوجہد کا آغاز کیا۔

  1. تحریک منہاج القرآن کی بنیادیں اسلام کی عظیم عالمگیر فکر پر رکھیں۔
  2. امت میں نتیجہ خیزی کا یقین پیدا کرنا۔
  3. خارجی فکر سے بچاؤ

تحریک منہاج القرآن کے فکری امتیازات

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریک منہاج القرآن کی بنیاد اسلام کی عظیم عالمگیر فکر پر رکھی تاکہ امت کی فکری راہنمائی کا فریضہ ادا کیا جاسکے۔ تحریک کے اہم ترین فکری امتیازات حسب ذیل ہیں:

1۔ جامعیت: جامعیت سے مراد احیاء اسلام کی ایسی جدوجہد جو اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرے۔ تعلیمی، تدریسی، تبلیغی، تصنیف و تالیف، سیاسی، معاشی، اخلاقی، روحانی، معاشرتی اور ثقافتی ہر ہر پہلو پر مسلکی حدوں سے بالاتر ہوکر ایسی جدوجہد جو اسلامی تعلیمات کے ہر ہر پہلو کو زندہ کردے۔

2۔ خالصیت: تحریک منہاج القرآن کا دوسرا فکری امتیاز یہ ہے کہ تصورات، عقائد اور اعمال کے ہر ہر پہلو کو اسی طرز زندگی کی طرف لوٹایا جائے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ اور تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اختیار فرمایا تھا۔

3۔ صالحیت و روحانیت: تحریک کا تیسرا امتیاز صالحیت و روحانیت ہے اس سے مراد یہ ہے کہ تحریک فکری طور پر یہ یقین رکھتی ہے کہ معاشرے کی اصلاح کا سب سے مضبوط اہم اور موثر ذریعہ صالحیت و روحانیت ہے۔ اسی کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی کردار سے اصلاح کی منزل حاصل کرسکتا ہے۔

4۔ انقلابیت: تحریک منہاج القرآن کی فکر کا سب سے اہم امتیاز یہ ہے کہ تحریک ہر ہر سطح پر مروجہ یا روایتی انداز سے جدوجہد کی بجائے انقلابی سطح پر جدوجہد کی قائل ہے۔

5۔ آفاقیت: تحریک کی فکر کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ یہ زبان، علاقہ، رنگ و نسل، مسلک کے دائروں سے آزاد عالمگیر سطح پر ایک آفاقی جدوجہد کا نام ہے۔

فکری اصلاح احوال کے عملی پہلو

ان فکری بنیادوں کے ساتھ ساتھ تحریک منہاج القرآن نے امت مسلمہ میں حسب ذیل پہلوؤں پر فکری رہنمائی کی ہے۔

1۔ نتیجہ خیزی کا پختہ یقین

پاکستانی قوم اور پوری امت مستقبل سے مایوس ہوچکی تھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اسلامی تاریخ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں قرآنی فلسفہ انقلاب کے مضمون کا اضافہ کیا اور آیاتِ قرآنی کی روشنی میں امت مسلمہ میں نتیجہ خیزی کا کامل یقین پیدا کیا۔

خارجی فکر سے تحفظ

گذشتہ دو سو سال کی غلامی اور محکومی کے بعد جب امت کے مختلف طبقات نے اپنے طور پر ذلت و رسوائی سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا تو علم، عمل اور کردار کا اسلحہ تھامنے کی بجائے بعض طبقات نے بدلے اور انتقام کے لئے ہتھیار اٹھالئے اور امت مسلمہ کو جنگ و جدال میں دھکیل دیا۔ اس فکر نے گذشتہ کئی دہائیوں سے امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر ذلت و رسوائی اور عذاب میں دھکیل دیا ہے۔ ہزاروں افراد ان کی مالی مدد میں مصروف ہوگئے جبکہ بدلے اور انتقام کے خواہشمند لاکھوں افراد نے اس گروہ کی اخلاقی مدد کی۔ یوں بدلے اور انتقام کے نام پر فتنہ خوارج نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، نہتے بے گناہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا قتل شروع ہوگیا۔ اس فکری انتشار کے دور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشت گردی اور فتنہ خوارج کے عنوان پر 600 صفحات پر مشتمل فتویٰ دے کر پوری دنیا میں فتنہ خوارج کو بے نقاب کیا۔ اس فتوے نے ایک طرف امت مسلمہ کی حقیقی رہنمائی کی لاکھوں افراد نے ان فتنہ پرور لوگوں کی اخلاقی اور مالی مدد سے توبہ کی تو دوسری طرف پوری دنیا کو دین اسلام کی پرامن تعلیمات کو سمجھنے کا موقع میسر آیا۔

علمی و تعلیمی اصلاح احوال

زندگی کے دوسرے گوشوں کی مثل تحریک منہاج القرآن نے علمی و تعلیمی میدان میں اصلاح احوال کا فریضہ سرانجام دیا اس پہلو میں چند اہم خدمات حسب ذیل ہیں:

  1. تعلیمی نظام سے ثنویت کا خاتمہ
  2. توجہی علم کی بجائے تخلیقی علم کا فروغ
  3. جامد تقلید کے تصور کا خاتمہ اور تحقیق کا فروغ
  4. مصادر اصلیہ قرآن و حدیث سے تعلق کی بحالی

مذکورہ بالا تمام جہتوں پر تحریک منہاج القرآن گذشتہ 30 سالوں سے جدوجہد میں مصروف عمل ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1985ء میں جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کی بنیاد رکھ کر تعلیمی نظام سے ثنویت کے خاتمہ کا آغاز کردیا۔ دینی و دنیاوی علوم کو یکجا کرکے ایک ایسی نسل کی تیاری کا آغاز کیا گیا جس نے مستقبل میں کائناتِ انسانی کی رہنمائی کرنی ہے اس وقت تک کئی ہزار سکالرز دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہوکر پوری دنیا میں احیاء اسلام کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔

برصغیر میں تعلیمی ثنویت اور جہالت نے مل کر تحقیق و اجتہاد کے دروازوں کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا تھا۔ جدید علوم کا مطالعہ کرنا بھی مذہبی طبقات کے نزدیک درست نہ تھا۔ تحقیق کے تمام دروازے بند کردیئے گئے تھے، مکمل دینی تعلیم کی بجائے حفظ قرآن کو ترجیح دی جانے لگی تھی۔ ان حالات میں تحریک منہاج القرآن نے تحقیق و اجتہاد کے دروازے کھولے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دینی و عصری علوم کی ہر ہر جہت پر نہ صرف مفصل کلام کیا بلکہ بیسوں کتب تحریر فرمائیں۔ صدیوں کے علمی مغالطوں اور مسائل و اختلاف پر آپ نے قرآن و حدیث سے تحقیق کر کے امت مسلمہ کو رہنمائی فراہم کی۔ عقیدہ امام مہدی علیہ السلام ہو یا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا علم حدیث میں مقام، سودی متبادل نظام ہو یا وفاقی شرعی عدالت میں مختلف قوانین کے دلائل، ہر موقع پر آپ نے قوم اور امت کی قرآن و حدیث سے رہنمائی کی۔

ایک طویل عرصہ سے عوام الناس اور خصوصاً علماء کا قرآن و حدیث سے تعلق تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ تحریر، تقریر اور تبلیغ میں قصے کہانیاں اور حکایات شامل ہوچکی تھیں۔ تحریک منہاج القرآن نے اس امت کا قرآن سے ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے بحال کردیا ہے۔ شیخ الاسلام کی 425 سے زائد کتب اور 5000 سے زائد موضوعات پر خطابات

مکمل قرآن و حدیث کی فکر پر مبنی ہیں تحریک نے 30 سالہ جدوجہد میں حضور کی امت کا تعلق مصادر اصلیہ قرآن و حدیث سے مضبوط کردیا ہے۔ الغرض اعتقادی میدان ہو یا اخلاقی و روحانی، فکری و نظریاتی گوشے ہوں یا علمی و تعلیمی، تحریک منہاج القرآن نے ہر ہر پہلو پر اصلاح احوال امت کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top