تمام معاشرے میں عزت، احترام، تکریم اور خدمت کا حقیقی کلچر دراصل والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

جو اولاد والدین سے احسان کا رویہ نہیں رکھتی وہ معاشرے میں کسی شخص کی بھی عزت و تکریم نہیں کر سکتی: شیخ الاسلام کا خطاب
جس معاشرے میں والدین کا احترام ختم ہو جاتا ہے اُن معاشروں میں تمام بڑوں کا احترام ختم ہو جاتا ہے: شیخ الاسلام کا خطاب

معاشرے میں عزت، احترام، تکریم اور خدمت کا حقیقی کلچر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ہی سے جنم لیتا ہے۔ جس گھر میں والدین کے اَدب اور احسان کا چراغ بجھ جاتا ہے، وہاں سے احترام، لحاظ اور شائستگی کی روشنی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔ جو اولاد والدین کے ساتھ احسان اور تکریم کا رویہ اختیار نہیں کرتی، وہ معاشرے کے کسی فرد کے لیے بھی عزت و احترام کے جذبات اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتی، نتیجتًا بدتمیزی، تلخی اور اخلاقی انتشار عام ہو جاتا ہے۔ یوں والدین کی بے احترامی فرد کے کردار کو بگاڑتی ہوئی آہستہ آہستہ پوری سوسائٹی کے مزاج اور اقدار کو متاثر کر دیتی ہے۔

والدین کی بے احترامی کے سبب معاشرے پر اثرات:

مجدّد المئۃ الحاضرۃ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیۃنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے فورًا بعد اولاد پر یہ عظیم ذمہ داری عائد فرمائی ہے کہ وہ والدین کے ساتھ ہر شے سے بڑھ کر احسان اور حسنِ سلوک کا رویہ اختیار کرے۔ مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج کے معاشرے میں اخلاقیات کا دامن چھوٹتا جا رہا ہے؛ اخلاقی تعلیمات کمزور ہو چکی ہیں، اقدار مٹتی جا رہی ہیں اور معاشرہ رفتہ رفتہ بد اخلاقی کے ہجوم میں بدلتا جا رہا ہے۔ والدین کے ساتھ احسان، بھلائی، ادب، تکریم اور خدمت گزاری محض ایک ذاتی عمل نہیں جو والدین تک محدود ہو کر ختم ہو جائے، بلکہ والدین وہ منبع اور سرچشمہ ہیں جہاں سے پورے معاشرے میں اعلیٰ اخلاقیات کا کلچر جنم لیتا ہے۔ والدین ایک چشمہ ہیں جن سے نسل در نسل ادب، احترام، احسان اور بھلائی کی قدریں جاری رہتی ہیں۔ جو اولاد والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک، ادب اور خدمت گزاری کا رویہ نہیں رکھتی، وہ معاشرے میں کسی اور کی عزت و تکریم بھی نہیں کر سکتی اور نہ ہی کسی کے ساتھ احسان کا سچا جذبہ برقرار رکھ سکتی ہے۔ جس معاشرے میں والدین کا احترام ختم ہو جائے وہاں درحقیقت تمام بڑوں کا احترام ختم ہو جاتا ہے، حیا اور لحاظ کا کلچر مٹ جاتا ہے، اور چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی تعظیم و تکریم کا وہ خوبصورت سماجی رشتہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔

والدین کا ادب: معاشرتی اقدار کی بنیاد:

مجدّد المئۃ الحاضرۃ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیۃنے مزید کہا کہ: تمام معاشرے میں عزت، احترام، تکریم، خدمت گزاری اور احسان کا جو کلچر قائم ہوتا ہے، اس کی اصل بنیاد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک پر ہوتی ہے۔ یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے اخلاقی تربیت کا سفر شروع ہوتا ہے، اور اگر یہ رشتہ کمزور پڑ جائے تو پوری سوسائٹی بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے۔ والدین اپنی اولاد کی پہلی درسگاہ ہوتے ہیں، گویا ایک مکمل تربیتی اکیڈمی، جہاں بچہ ادب، احترام اور اخلاق کا عملی سبق سیکھتا ہے۔ جب اولاد لمحہ بہ لمحہ والدین کا ادب کرتی ہے، ان کی تکریم اور خدمت گزاری کو اپنا شعار بناتی ہے، ان کے سامنے آواز پست رکھتی ہے، بدتمیزی اور تلخی سے بچتی ہے، تو یہ رویّے رفتہ رفتہ اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔

یہ تربیت بچپن سے شروع ہو کر جوانی تک، تقریبًا پچیس برس کے طویل عرصے میں پروان چڑھتی ہے۔ اس دوران ادب کی زبان، احترام کا لہجہ، انکساری کا انداز اور حیا کا سلیقہ اولاد کی سیرت میں رچ بس جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ اوصاف اس کی مستقل عادت بن جاتے ہیں۔ پھر اس کا فیض صرف والدین تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے اساتذہ، مشائخ، علماء، بڑے بھائی اور معاشرے کے تمام بڑے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے برعکس، جس اولاد نے والدین کے ساتھ ادب، احسان اور خدمت گزاری کا سلیقہ نہیں سیکھا، وہ کسی کے ساتھ بھی یہ رویّہ برقرار نہیں رکھ سکتی۔ اس کے اندر بدتمیزی، تلخی، رعونت اور اخلاقی بے قدری پیدا ہو جاتی ہے، اور یہی بگاڑ آخرکار پورے معاشرے کے رویّوں اور حالات میں جھلکنے لگتا ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top