اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا مرکز بھی آقا ﷺ کی ذات کو بنایا اور اپنی ذاتی تجلیات کا مرکز بھی آقا ﷺ کو بنایا: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

اللہ تعالیٰ نے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی وجودی اور شہودی تجلّیات کا منبع بنایا: صدر منہاج القرآن
اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے آقا ﷺ کا نور تخلیق فرمایا: صدر منہاج القرآن

اللہ تعالیٰ نے جب نظامِ ہستی کی بنیاد رکھی تو اپنی صفات کا مرکز بھی آقا ﷺ کی ذاتِ اقدس کو بنایا اور اپنی ذاتی تجلیات کا محور بھی حضور اکرم ﷺ ہی کو قرار دیا۔ نورِ محمدی ﷺ کو اللہ رب العزت نے اپنی وجودی اور شہودی تجلیات کا سرچشمہ بنایا؛ یوں حضور ﷺ کا نور براہِ راست نورِ الٰہی سے تخلیق ہوا۔ اسی حقیقت کے تناظر میں نظریہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کو سمجھا جاتا ہے۔

نظریہ وحدت الوجود اور شانِ مصطفیٰ ﷺ:

پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: تاجدارِ ختمِ نبوت حضور سیدنا محمد مصطفیٰﷺکی شان اور عظمت یہ ہے کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات بابرکات ایک بنائی گئی اور پھر آپ کی ذات سے آگے سارا جہاں بنایا گیا، یعنی وحدت کو کثرت میں تبدیل کر دیا۔ مطلب وہ واحد ہے اور اُس نے ایک اور بنایا، واحد سے واحد بنا اور پھر اس واحد کو کثرت میں تبدیل کر دیا، یعنی اپنے تعلق کو اُسی واحد سے جوڑا اور پھر باقی ہر شے کو اُس واحد سے جوڑا، یعنی کثرت کو وحدت سے جوڑا اور اپنے آپ کو یکتا رکھا، باقی ہر شے کو اُس کثرت کو وحدت سے یعنی آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی ذاتِ اقدس سے جوڑ دیا۔

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ: اب یہاں پر ایک نکتہ عرض کرتا چلوں: تصوف کی دنیا میں بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام کے ہاں دو معروف اصطلاحات پائی جاتی ہیں: وحدتُ الوجود اور وحدتُ الشہود۔ یہ مباحث اگرچہ گہری اور دقیق ہیں، اس لیے ان کی تفصیل میں جانا مقصود نہیں، تاہم ایک سادہ بات سمجھ لینا کافی ہے۔ اہلِ علم کے درمیان اس مسئلے پر آراء مختلف رہی ہیں۔ بعض بزرگان وحدتُ الوجود کے قائل ہیں اور بعض وحدتُ الشہود کے۔

عام فہم انداز میں کہا جائے تو وحدتُ الوجود کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ جب بندہ فنا کے مراحل طے کر کے بقا کے مقام تک پہنچتا ہے تو اس کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک طرح کی وجودی نسبت یا قرب کا تصور سامنے آتا ہے۔ جبکہ وحدتُ الشہود کے قائلین کہتے ہیں کہ انسان جتنا بھی بلند مرتبہ حاصل کر لے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ وجودی وحدت ممکن نہیں، بلکہ یہ کیفیت مشاہدے اور ادراک کی ہوتی ہے، یعنی صفات کے اعتبار سے قرب اور نسبت پیدا ہوتی ہے، ذات کے اعتبار سے نہیں۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ وحدتُ الشہود کے نمایاں علمبردار ہیں۔ ان کے نزدیک بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں نہیں بلکہ اس کے مشاہدے اور صفات کے ادراک میں قرب حاصل کرتا ہے۔ اسی لیے بعض بزرگانِ دین صفاتی وحدت کی بات کرتے ہیں، تاکہ توحیدِ خالص بھی برقرار رہے اور روحانی قرب کا مفہوم بھی درست انداز میں سمجھا جا سکے۔

پوری کائنات رسول اللہ ﷺ کے نور مبارک سے بنائی گئی:

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: اِس نکتے سے ہمیں ایک اور معنٰی سمجھ آتا ہے کہ یہ جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے کہ اس سے وحدت الوجود بھی ثابت ہوتا ہے، وحدت الشہود بھی ثابت ہوتا ہے۔ وہ ایسے کہ اللہ رب العزت نے اپنے نور کے فیض سے آقا ﷺ کا نور تخلیق فرمایا، اور باقی کل کائنات اللہ رب العزت کی تجلیاتِ صفاتی کا مظہر ہوئی۔ تو اگر اِس کی یوں تطبیق کر لی جائے کہ جو وحدت الوجود ہے اُس کا تصور تخلیقِ مصطفیٰ ﷺ میں کار فرما ہے، کہ جب اللہ رب العزت نے نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تخلیق فرمایا تو اس کو اپنی وجودی تجلیات اور شہودی تجلیات کا منبع بنا دیا۔ یعنی اپنی صفات کا مرکز بھی آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات کو بنایا اور اپنی ذاتی تجلیات کا مرکز بھی آقا علیہ الصلاۃ والسلام کو بنا دیا۔

یعنی اگر وحدتُ الوجود کے تصور کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے سمجھنا ہو تو وہ براہِ راست مخلوق پر منطبق نہیں ہوتا، بلکہ یہ حقیقت حضور اکرم ﷺ کی ذات اور آپ ﷺ کے نورِ مبارک کے ذریعے سمجھ میں آتی ہے۔ پوری کائنات اس مقام کی اہل نہیں کہ وہ اللہ رب العزت کی ذات کے ساتھ وجودی نسبت قائم کر سکے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے وحدتُ الوجود کی نسبت مخلوق کو حضور ﷺ کے ساتھ عطا فرما دی۔ یوں کائنات کو نورِ مصطفیٰ ﷺ سے جوڑا گیا، اور اسی نور کے ظہور اور تقسیم سے ساری مخلوق کو وجود ملا۔

اللہ رب العزت نے اپنی ذات کے ساتھ مخلوق کو وجودی وحدت نہیں دی، بلکہ صفاتی نسبت عطا فرمائی، یعنی بندہ اللہ کی صفات کے رنگ میں رنگا جا سکتا ہے اور حضور اکرم ﷺ کے نور سے کائنات کو پیدا فرما کر مخلوق کو آپ ﷺ کے ساتھ ایک خاص نسبتِ وجودی عطا کر دی گئی۔ گویا ذاتی وحدت کا تعلق مخلوق کے لیے حضور ﷺ کے ساتھ قرار پایا، اور صفاتی وحدت اللہ تعالیٰ کے ساتھ۔

جہاں تک خود حضور اکرم ﷺ کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنی بارگاہ سے وہ مقام عطا فرمایا کہ آپ ﷺ کے لیے ذاتی نسبت بھی قائم ہے اور صفاتی نسبت بھی۔ اسی لیے دونوں حقیقتیں، وحدتُ الوجود اور وحدتُ الشہود، اپنے اپنے دائرے میں درست طور پر کارفرما نظر آتی ہیں۔ چنانچہ جب حضور ﷺ کا کوئی امتی اور ولیِ کامل وحدتُ الوجود کی بات کرتا ہے تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہوتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ وجودی اتحاد کا دعویٰ کر رہا ہے، بلکہ اس سے مراد ذاتِ مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ وہ روحانی اور وجودی نسبت ہوتی ہے جو نورِ نبوت کے ذریعے قائم ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top