سانحہ ماڈل ٹاؤن: فوجی عدالتوں کے ذریعے انصاف اور قصاص ہمارا مطالبہ ہے

قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یوم شہداء کے موقع پر مال روڈ پر لاکھوں عوام کے دھرنا سے خطاب

شہداء ماڈل ٹاؤن کی دوسری برسی کے موقع پر 17 جون 2016ء کو مال روڈ لاہور پر پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں عظیم الشان احتجاجی دھرنا دیا گیا۔ 17جون، 14 خون، کہاں ہے قانون؟ کے سلوگن کے تحت منعقدہ اس احتجاجی دھرنے میںلاکھوں لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید، نعت رسول مقبول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پاکستان کے قومی ترانہ سے کیا گیا۔ سٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری محترم ساجد محمود بھٹی، محترم انجینئر رفیق نجم، محترمہ افنان بابر، محترمہ عائشہ شبیر نے سرانجام دیں۔

مہمانانِ گرامی قدر!

اس احتجاجی دھرنا میں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ قائداعظم، ایم کیو ایم، عوامی مسلم لیگ، آل پاکستان مسلم لیگ، مجلس وحدت المسلمین کے وفود، قائدین اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ مہمانان گرامی میں محترم شیخ رشید احمد، محترم منظور وٹو، محترم لطیف کھوسہ، محترم چودھری سرور، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب غوث بخش باروزئی، سرائیکستان قومی اتحاد کے سربراہ محترم خواجہ غلام فرید کوریجہ، محترمہ سلونی بخاری (PTI)، محترم لیاقت بلوچ (جماعت اسلامی)،محترم مبشر لقمان (TV اینکر)، محترم مظہر برلاس (کالم نویس)، محترم راجہ بشارت (مسلم لیگ ق)، محترم میاں منیر (مسلم لیگ ق)، محترم اعجاز چودھری (PTI)، محترم علیم خان (PTI)، محترم کامل علی آغا (مسلم لیگ ق)، محترم جے سالک، محترم عمر بشیر چیمہ (مسلم لیگ ق) اور دیگر احباب شامل تھے۔

سٹیج پر مہمانان گرامی کے ہمراہ محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، امیر تحریک محترم صاحبزادہ فیض الرحمن درانی، سیکرٹری جنرل P صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمT محترم خرم نواز گنڈا پور، محترم عامر فرید کوریجہ، محترم بشارت جسپال، محترم فیاض وڑائچ، محترم بریگیڈیئر (ر) مشتاق احمد، محترم جی ایم ملک، محترم جواد حامد، منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک، عوامی یوتھ لیگ، مصطفوی سٹودنٹس موومنٹ، ویمن لیگ اور علماء کونسل کے جملہ قائدین، عہدیداران تشریف فرما تھے۔

پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دو سال مکمل ہونے پر مال روڈ پر منعقدہ دھرنا میں کارکن نماز جمعہ کے بعد ہی پنڈال میں پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ پنڈال میں شہداء کے ورثاء کے لئے علیحدہ سٹیج بنایا گیا تھا۔

اس دھرنے کے ساتھ کراچی میں بھی نمائش چورنگی پر عوامی تحریک کے کارکنوں نے احتجاجی دھرنا دیا اور وہاں بھی اس دھرنے کی کاروائی بذریعہ انٹرنیٹ براہ راست نشر کی گئی۔

دھرنے میں شرکت کے لئے دیگر شہروں سے قافلوں کی صورت میں لوگ شریک ہوئے۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد دھرنے میں شریک تھی۔ دھرنے میں پارٹی پرچموں اور شہداسانحہ ماڈل ٹاؤن کی تصویروں کی فلیکس لگائی گئی تھیں۔ دھرنے میں تحریکی ترانے اور عوام کے پرجوش نعروں نے ایک سماں باندھے رکھا۔ اس موقع پر حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کے دوران کارکنان کا جوش دیدنی تھا۔

احتجاجی دھرنے کے دوران سانحہ ماڈل ٹاؤن کے موقع پر ریاستی دہشت گردی کے مختلف مناظر جو قومی میڈیا نے براہ راست نشر کئے تھے، ان پر مبنی ایک ڈاکومنٹری بھی دکھائی گئی جس کو دیکھ کر ہر آنکھ اشک بار ہوگئی۔

خطابات مہمانانِ گرامی

اس دھرنے میں شریک جملہ سیاسی جماعتوں کے نمائندہ وفود نے شہداء ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لئے لواحقین اور تحریک کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا:

  • محترم خواجہ غلام فرید کوریجہ (صدر سرائیکستان اتحاد) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ P صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمT کے 14 شہداء کے عظیم قربانی کی یاد میں یہ دھرنا اپنی مثال آپ ہے۔ استحکام پاکستان کے اداروں اور عوام پاکستان سے سوال ہے کہ تخت لاہور کے ان فرعونوں کو آئین و قانون سے استثناء کیوں؟ ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔ جنوبی پنجاب کے لوگ بھی ان حکمرانوں سے تنگ ہیں۔ جس طرح جنرل ڈائر نے کیا، اس طرح ان حکمرانوں نے لاہور میں کیا۔ سرائیکی وسیب کے لوگ قائد انقلاب کے ساتھ ہیں۔ ہم اسلام کے صحیح چہرہ کی عکاسی پر شیخ الاسلام کو سلام پیش کرتے ہیں۔
  • محترمہ بسمہ (شہیدہ تنزیلہ کی بیٹی) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 17 جون کو قاتل حکمرانوں نے بے گناہوں کا خون بہایا اور اب عدل و انصاف کا خون کررہے ہیں۔ قاتل اعلیٰ اور قاتل اعظم سن لو۔ تنزیلہ کی بیٹیاں آج تنزیلہ کے روپ میں تمہارے سامنے کھڑی ہیں۔ میری ماما اور پھوپھو کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

ظلم جب بڑھ جائے تو نیزوں پر بھی سر بولتا ہے

ہم ماما کی کمی محسوس کرتے ہیں مگر اب حکمران سن لیں کہ کسی اور کو اس طرح ماما کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے اور ظالموں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچاکر دم لیں گے۔

  • محترم سید احمد اقبال رضوی (مجلس وحدت المسلمین) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہداء ماڈل ٹاؤن کو سلام۔ اس قوم کی ان عظیم بیٹیوں پر سلام جنہوں نے استحکام پاکستان کے لئے قربانی دی۔ شہداء کو سلام جنہوں نے ن لیگ کی اس خونی حکومت کو للکارا۔ یہ حکمران جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت چاہتے ہیں۔ وحدت المسلمین اول دن سے آج تک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کے ساتھ ہے اور ہم ان حکمرانوں کے ظلم کے خلاف مظلومیت کی آواز بن کر انقلاب مارچ میں بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے اور آج بھی آپ کے ساتھ ہیں اور ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ نااہل حکمرانوں نے اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ آج سارا پاکستان ان کے خلاف احتجاج کررہا ہے مگر یہ بے حسی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ ظلم زیادہ عرصہ نہیں رہے گا۔ اب سب مظلومین کی ایک آواز ہے ’’گو نواز گو‘‘۔
  • محترم رضوان شہید کے والد محترم محمد خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا میرے عظیم قائد تجھے سلام۔ مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا اس سانحہ میں پہلا شہید ہوا۔ میں ان حکمرانوں سے ڈرنے والا نہیں ہوں۔ میں نے اپنے باقی بچے بھی اس تحریک کے حوالے کردیئے ہیں۔ حکمران میرے بیٹے کے خون کی قیمت لگاتے ہیں۔ سن لو حکمرانوں! تم اپنے بیٹے میرے حوالے کردو مجھ سے ایک کروڑ لے لو اور مجھے انہیں گولیاں مارنے دو۔ ہم ڈرنے والے نہیں۔ ہمیں انصاف چاہئے۔ خون کا بدلہ خون۔
  • پیپلز پارٹی کے رہنما محترم میاں منظور احمد وٹو نے کہا کہ 17جون کے المناک واقعہ کی یاد منانے کے لئے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کی زیر قیادت یہاں جمع ہیں۔ ہم شروع دن سے ذاتی طور پر بھی اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہے۔ 14 شہداء کے لواحقین اور مضروبین کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ ہم نے اس ظلم، بے انصافی کے خلاف ہر جگہ آواز بلند کی ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ Open کی جائے۔ قومی ایکشن پلان اور نیشنل کمیشن اس واقعہ کو Take up کرے۔ ہم بسمہ بیٹی کو انصاف ملنے تک اس کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔ جب تک شہداء ماڈل ٹاؤن کو انصاف نہیں ملتا ہم شہداء اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ ہیں۔
  • پاکستان مسلم لیگ ق کے سینیٹر محترم کامل علی آغا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 17 جون کو وحشیانہ قتل عام اور بربریت ہوئی۔ افسوس کہ اس سانحہ کے متاثرین آج تک انصاف کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب شہداء کے ورثاء کو انصاف ملے گا۔ قاتل تختہ دار پر ہوں گے۔ اتحاد اور تسلسل کے ساتھ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ہم پہلے دن سے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کے ساتھ ہیں اور مقتولین کے ورثاء کو انصاف ملنے اور ظالموں کے تختہ دار تک پہنچنے تک آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جہاں کرپشن ہو وہاں انصاف ناممکن ہوتا ہے۔ انتخابات منصفانہ نہ ہو، الیکشن کمیشن شفاف نہ ہوں وہاں انصاف نہیں ملتا۔
  • تحریک انصاف کے رہنما محترم چودھری محمد سرور نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ PTI کی قیادت و کارکنان کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے لواحقین اور P صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمT سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے انصاف اور قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کے لئے PTI اس جدوجہد میں آپ کے ساتھ شریک ہے۔ بیرون ملک پاکستانی کے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنی اولاد کو اسلام سکھانا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ادارے بیرون ممالک میں اسلام اور دین کی جو خدمت کررہے ہیں وہ قابل تحسین ہے۔ سانحہ کے دو سال ہوگئے مگر کوئی گرفتاری عمل میں نہ آئی نہ کسی کو سزا ہوئی۔ اگر لاکھوں لوگوں کی جماعت کو انصاف نہیں مل رہا تو ان لوگوں کا کیا بنے گا جو غریب ہیں۔ ہماری پولیس ڈاکوؤں کی سرپرستی کرتی ہے۔ عوام کو انصاف اور قانون کی بالادستی کے لئے اکٹھا ہونا ہوگا۔
  • جنرل سیکرٹری پاکستان پیپلز پارٹی محترم سردار لطیف احمد کھوسہ نے دھرنے سے خطاب میں کہا کہ 17 جون کے واقعہ کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ خود ساختہ خادم اعلیٰ کو قاتل اعلیٰ کا خطاب ملنا چاہئے۔ دو سال تک تفتیش کے نام پر آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ ان حکمرانوں کے ہوتے ہوئے پاکستان میں انصاف نہیں مل سکتا۔ یہ دونوں بھائی آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ یہ صرف اپنے مفاد والی بات کو مانتے ہیں۔ نواز شریف شہباز شریف یاد رکھیں! اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ تمہارا برا انجام ہونے والا ہے، کوئی ظالم اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتے بغیر نہیں گیا۔ 17 جون کو خون کی ہولی نے کربلا کی یاد دلائی ہے۔ مظلوم کی آہ کی گرفت تمہیں چین نہ لینے دے گی۔ ان مظلوموں کی آہیں تمہیں سکون نہ لینے دیں گی۔ PPP ہر لحاظ سے آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ ساری قوم کی پکار اور فریاد ہے کہ ہمیں انصاف چاہئے۔ چیف جسٹس اس پر سوموٹو ایکشن لیں۔ انصاف اگر حکمرانوں کے تابع ہوجائے تو ریاست خطرے میں پڑجاتی ہے۔ افسوس جنہیں جیلوں میں ہونا چاہئے وہ حکمرانی کررہے ہیں۔
  • عوامی مسلم لیگ کے سربراہ محترم شیخ رشید احمد نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سیاسی زندگی میں رمضان المبارک میں اتنا بڑا مجمع نہیں دیکھا۔ عوامی تحریک کے تمام کارکنان کو سلام پیش کرتا ہوں۔ یہ حکمران چور، کرپٹ اور قاتل ہیں۔ ظلم کی داستان ختم کرنے کے لئے عوام کو باہر نکلنا ہوگا۔ 17 جون کو 14 خون ہوئے کسی اور کیس کا فیصلہ ہو نہ ہو مگر اسلام کے ان شیدائیوں، غریبوں، بے بسوں کے خون کا حساب ضرور ہوگا اور انصاف ضرور ملے گا، یہ ظالم حکمران پھانسی چڑھیں گے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب سے ان حکمرانوں کو بڑی تکلیف ہے۔ اس لئے کہ یہ حق و سچ کی بات کرتے ہیں۔ آج پاکستان بھر کی تمام سیاسی جماعتیں اس اسٹیج پر موجود ہیں۔ نواز شریف نے اس سانحہ سے جلیانوالہ باغ کی یاد تازہ کرادی۔ اگر عوام باہر نہ نکلی تو آئندہ نسلیں بھی ان خاندانوں کی غلام رہیں گی۔ قوم ڈاکٹر صاحب کی مشکور ہے کہ انہوں نے ان حکمرانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لئے اس زبردست دھرنا اور احتجاج کے ذریعے مضبوط بنیاد رکھی ہے۔ جولائی سے ستمبر تک 3 مہینے پاکستان کے اہم ترین سیاسی مہینے ہیں، ان تین مہینوں میں یہ نہیں رہیں گے۔ اور یہ وقت ’’گو نواز گو‘‘ کا وقت ہوگا۔ آج ملک میں نہ بجلی ہے اور نہ روزگارہے، ملک کی سا لمیت اورمعیشت کو بھی خطرہ ہے۔ ہرچیز پر ازخود نوٹس ہوجاتا تھا لیکن سانحہ ماڈل ٹاؤن پر نہیں ہوا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمے دار سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔
  • احتجاجی دھرنے سے محترمہ سلونی بخاری (پاکستان تحریک انصاف)، پاکستان عوامی تحریک یوتھ ونگ کے مرکزی صدر محترم مظہر محمود علوی، MSM کے مرکزی صدر محترم عرفان یوسف، محترم جے سالک (چیئرمین مسیحی مینارٹی الائنس)، محترم سینیٹر میاں عتیق الرحمن ( MQM) اور محترم نواب غلام بخش باروزئی نے بھی خطاب کیا۔

خطاب قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مہمانان گرامی کے خطاب کے بعد قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ایڈیشنل سیکرٹری جنرل P صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمT محترم خواجہ عامر فرید کوریجہ نے خطاب کی دعوت دی۔ عوام نے والہانہ اور پرجوش انداز میں اپنے قائد کا نعروں کی گونج میں پرتپاک استقبال کیا۔ اس موقع پر قائد انقلاب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

17 جون سانحہ کے شہدا کے خاندان، ان کے پسماندگان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو صبرو استقامت، جرات اور بہادری کے پہاڑ بنے رہے۔ آج پاکستان میں خون بکتا ہے، ہر روز ملک میں قتل ہوتے ہیں، ہر روز شہادتیں ہوتی ہیں، ظلم و جبر ہوتا ہے، چونکہ یہاں کا نظام کسی مظلوم، کمزور اور مجبور کو انصاف دلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، قانون کسی کمزور اور غریب کی مدد کرنے سے قاصر ہے، یہ نظام طاقتور اور ظالم کے لیے ہے، اس کے نتیجے میں ہر روز لاشیں گرتی ہیں، اسی لئے لوگ دیت کے نام پر اپنے خون کو اور لاشوں کو بیچتے ہیں۔ ملک میں مایوسیوں کے مارے سمجھتے ہیں کہ انصاف نہیں ملے گا، لہذا کوئی شخص ظلم و جبر کے سامنے جرأت کا پہاڑ بن کر نہیں کھڑا ہوسکتا۔ 17 جون کے شہداء کے خاندانوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، سب غریب مزدور، محنت کش اور کمزور ہیں مگر اس کے باوجود ان لوگوں نے 2 سالوں میں کروڑوں روپے کی دیت کے نام پر آفر کو ٹھکرا دیا۔ انہیں بیرون ملکوں کی ملازمتیں آفر کی گئیں، ان کی غیرت کو خریدنے کی کوشش کی گئی، شہیدوں کے خون کی قیمت لگانے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے یکسر انکار کردیا۔

شہدا کی طرح ان کے خاندان بھی عظیم ہیں جنہیں 2 سال میں فرعون کی طاقت اور قارون کا سرمایہ دونوں یکجا ہونے کے باوجود نہ خرید سکے۔ حکمرانوں کا جبر و ظلم ان میں سے کسی کو بھی جھکا اور ڈرا نہیں سکا، ان کی دولت و سرمایہ کسی کا ضمیر نہیں خرید سکے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے۔ جس تحریک کے کارکن اور شہید کے خاندان کو فرعون کی طاقت اور قارون کا سرمایہ مل کر نہیں خرید سکتا، حکمران اس تحریک کے سامنے کبھی کھڑے نہیں ہوسکتے۔ حکمرانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج کے دور میں ایسے غیرت مند بھی زندہ ہیں۔ میں نے اس تحریک میں ان لوگوں کو غیرت ،جرات، ایمان اور ظلم و جبر کے سامنے سینہ سپر ہونا سکھایا ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہمارے 14 شہداء کے قاتل، اعلیٰ پولیس افسران بھی ہیں اور اس قتل کے ذمہ دار وفاقی اور صوبائی حکومت کے کئی وزرا بھی ہیں۔ سب سے بڑے منصوبہ ساز شریف برادران ہیں جو اس ریاستی دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے حکم پر بربریت ہوئی اور پولیس نے گولیاں چلائیں کیونکہ ان کے حکم کے بغیر پولیس کو لاشیں گرانے کی جرات نہیں تھی۔ دیت کو شہداء کے لواحقین اول روز سے مسترد کرچکے ہیں لہذا اب ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ ہے اور وہ یہ کہ ہمیں فوجی عدالتوں کے ذریعے انصاف اور قصاص چاہئے۔ خون کا بدلہ خون ہے۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف بہادرانہ تاریخی جنگ لڑی ہے، وہ ملکی سلامتی کی علامت ہیں، قوم کی نظریں دہشت گردی سے نجات کے لیے صرف آرمی چیف اور ان کے ادارے پر ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اسلام آباد دھرنے کے دوران سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر کٹوا کر مظلوموں کی داد رسی کی اور اب وہی ہمیں فوجی عدالتوں کے ذریعے انصاف دلائیں کیونکہ اس کے علاوہ ہمیں انصاف کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔ یہ مطالبہ اس لئے بھی کررہا ہوں کہ قومی ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کا خاتمہ فوج کی ذمہ داری ہے اور یہ حکمران دہشت گرد بھی ہیں، دہشت گردی کے سرپرست بھی ہیں اور اس کے سہولت کار بھی ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے بڑھ کر ان حکمرانوں کی دہشت گردی کا اور کون سا واقعہ ہوسکتا ہے۔ ہم سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ فوجی عدالت میں چاہتے ہیں۔ آرمی چیف فوجی عدالت کے ذریعے انصاف دلائیں ،ہمارا مطالبہ ایک ہے انصاف اور قصاص۔ ہم خون کا بدلہ خون مانگتے ہیں۔

یہ احتجاج پچھلے سال شہداء کی پہلی برسی پر بھی ہوسکتا تھا لیکن ہم قانون کی جنگ لڑتے رہے۔ اب 2 سال گزرنے کے بعد ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں 17 جون 2014ء کی رات کو تھے۔ ہمیں کوئی انصاف نہیں مل سکا۔ ادارے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے حکم پر چلتے ہیں۔ ہم 2 سال کے دوران اعلیٰ عدالتوں تک بھی گئے لیکن ہماری وہاں بھی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ حکمران چونکہ خود قاتل ہیں اس لیے یہ اپنے خلاف ہمیں انصاف فراہم کیسے کرسکیں گے۔

اس ملک میں کس جمہوریت اور آئین کی بات کی جاتی ہے۔ یہاں اس قتل عام کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی۔جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر ایف آئی آر درج کی گئی۔یہاں کی جمہوریت، اسمبلیاں اور معاشرہ ایف آئی آر کٹوانے میں بے بس تھا۔ اب مدعیوں اور قتل کے گواہوں کو ملزم بنا دیا گیا ہے۔ہم قانون کی جنگ لڑتے رہے ہیں۔دوسال گزرگئے ،ایک قدم انصاف کی منزل کی طرف آگے نہیں بڑھا۔ ہائیکورٹ نے درخواست خارج کردی،سپریم کورٹ گئے مگر ابھی تک تاریخ نہیں ملی۔ یہ حکمران قاتل ہیں، انصاف کیسے ہونے دیں گے۔اس ملک میں زین کی ماں نے مجبور ہوکر بیٹے کے قاتلوں سے صلح کر لی۔ اس نے بیان دیا وہ اس نظام کے سامنے کھڑی نہیں ہوسکتی، کیا یہ جمہوریت ہے۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ ضبط کر لی گئی۔ یہاں کا نظام ظالم اور طاقتور کیلئے ہے۔ یہ نظام اور قانون کسی غریب کی مدد کرنے سے قاصر ہے۔ یہاں کا نظام جابر اور درندوں کیلئے ہے۔

سانحہ کے ذمہ دار وفاقی اور صوبائی وزرا بھی ہیں۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ایف آئی آر کا حکم دیا، ہائیکورٹ میں تین وفاقی وزرا نے ہائی کورٹ میں اس فیصلہ کے خلاف اپیل کردی۔ اگر وہ ذمہ دار نہیں تھے تو انہوں نے FiR کیوں نہیں کٹنے دی۔ فوٹیج میں ایک ایک افسر، اہلکار نظر آ رہا ہے۔ ساری دنیا گواہ ہے کہ کس کس نے گولیاں چلائیں، اس نظام نے مدعی کو ملزم بنا دیا، زخمیوں اور مدعیوں پر دو ، دو فرد جرم عائد کر دی گئیں، ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ عدالتیں اور قانون کیا کر تا ہے۔ دو سال میں انصاف ایک قدم بھی آ گے نہیں بڑھ سکا۔

دو برس میں انصاف کی طرف نہیں بڑھ سکے۔ 36 گواہوں کے بیان ہو چکے لیکن ابھی تک کیس کے قابل سماعت کا فیصلہ نہیں ہوا جبکہ مدعیوں اور گواہوں کو عدالت کے کٹہرے میں ملزم بنا دیا گیا۔ حکمرانوں سے پوچھیں یہ کون سا قانون کون سا آئین ہے؟ پاکستان میں ظلم ہوتا ہے لیکن پاکستان کا نظام کسی مظلوم کو انصاف دلانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہاں کا قانون ظالموں اور درندوں کیلئے نہیں ہے۔ آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں 14 جون 2014 کو کھڑے تھے۔

ان حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان آج خطے میں تنہا رہ گیا۔ حکمرانوں نے صرف ذاتی اور کاروباری تعلقات بنائے ہیں۔ کیوں کہ وزیراعظم کو ملکی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں، ملک کا کوئی وزیرخارجہ نہیں اور وزیراعظم لندن میں خودساختہ جلاوطنی گزار رہے ہیں۔ کابینہ کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں اور ملک آمریت سے بھی بڑھ کر بادشاہت میں چلایا جارہا ہے۔ افسوس اس تمام کے باوجود نظام، آئین اور جمہوریت کی بات کی جاتی ہے۔ حکمرانوں نے پاکستان کو تنہا کردیا ہے۔ کاروباری تعلقات مضبوط اور ریاستی تعلقات کمزور ہو رہے ہیں۔ حکمران خود ساختہ اور عارضی جلاوطنی میں ہیں۔ کابینہ کے اجلاس حکمرانوں کے بچے بچیاں بلا رہے ہیں۔

حکمرانوں کے بچے کس قانون اور آئین کے تحت ملک چلا رہے ہیں‘ ملک خاندانی بادشاہت کی طرح چلایا جارہا ہے‘ غیرملکی جاسوس پکڑے جائیں‘ سرحد پر حملہ ہوجائے‘ حکمران بیان نہیں دیتے‘ حکمران خودساختہ اور عارضی جلاوطنی میں ہیں۔ پانامہ لیکس پر وزیراعظم نے وعدہ کیا کہ خود کو انصاف کیلئے پیش کرتا ہوں۔ 12رکنی پارلیمانی کمیٹی بھی بنی‘ تین ہفتے بعد پارلیمانی کمیٹی ٹوٹ گئی۔ ڈاکو اور گھر والے ملکر تفتیش نہیں کرتے۔ نام نہاد وزیراعظم پارلیمنٹ میں آنا گوارا نہیں کرتے‘ ایسی تنہائی کا شکار پاکستان پہلے کبھی نہیں ہوا۔ قوم کے ساتھ دھوکے کو جمہوریت نہیں کہتے۔

یاد رکھ لیں ظلم کی اندھیری رات زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ محترم شیخ رشید احمد نے تو ان حکمرانوں کو ستمبر تک کا وقت دیا ہے لیکن میں اس سے پہلے ہی ان حکمرانوں کی روح پرواز ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ یہ حکومت حالت نزع میں ہے۔ حکمرانوں کی روح نکلنا شروع ہو چکی ہے۔ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ان کو علم ہے ان کا اقتدار گیا،ظلم سے اقتدار بچایا نہیں جاسکتا۔ ہم صبر کی طاقت سے چلیں گے۔ حق کی جیت ہوگی، حکمرانوں کو شکست ہوگی۔

  • خطاب کے اختتام پر قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے استفسار پر عوامی تحریک کے کارکنوں نے دھرنا جاری رکھنے پر اصرار کیا۔ جس پر قائد انقلاب ڈاکٹر طاہر القادری نے رمضان اور اعتکاف کی وجہ سے دھرنے کو ختم نہیں بلکہ ملتوی کرنے کا اعلان کیا اور فرمایا کہ اگر ہمیں انصاف نہ ملا تو ایک ہفتہ کے نوٹس پر کسی وقت بھی دھرنے کی کال دی جاسکتی ہے اور وہ دھرنا اپنے سابقہ ریکارڈ بھی توڑ ڈالے گا۔
  • قائد انقلاب خطاب کے اختتام کے بعد بھی سٹیج پر تشریف فرما رہے۔ اس دوران شرکائِ دھرنا میں سحری کے لئے کھانا انتہائی نظم کے ساتھ تقسیم کیا جاتا رہا۔ اس دوران وقتاً فوقتاً قائد انقلاب مائک پر آکر شرکاء سے مخاطب ہوتے رہے اور ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں دعاؤں سے نوازتے رہے۔

سحری کے بعد پنڈال میں ہی اذان فجر دی گئی اور پھر تمام شرکاء نے نماز فجر ادا کی۔ نماز فجر کے بعد قائد انقلاب نے ملک پاکستان کے امن، سکون، خوشحالی اور استحکام کے لئے، شہداء کے درجات کی بلندی اور لواحقین کی بلند حوصلگی و استقامت اور حق و انصاف کے لئے خصوصی دعا کروائی۔ اس دعا کے ساتھ ہی یہ احتجاجی پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جولائی 2016

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top