شبِ برأت کی شرعی حیثیت و فضیلت

مورخہ: 01 مئی 2017ء

حافظ ظہیر احمد الاسنادی

اللہ رب العزت نے بعض چیزوں کو بعض پر فضیلت و رتبہ سے نوازا ہے۔ جیسا کہ مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے، وادیِ مکہ کو تمام وادیوں پر، بئر زمزم کو تمام کنوؤں پر، مسجد حرام کو تمام مساجد پر، سفرِ معراج کو تمام سفروں پر، ایک مؤمن کو تمام انسانوں پر، ایک ولی کو تمام مؤمنوں پر، صحابی کو تمام ولیوں پر، نبی کو تمام صحابہ پر، رسول کو تمام نبیوں پر اور رسولوں میں تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاص فضیلت کے حامل ہیں۔

اللہ رب العزت نے اسی طرح بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے۔ یوم جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہ رمضان کو تمام مہینوںپر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اور شب برأت کو دیگر راتوں پر فضیلت دی ہے۔

اَحادیث مبارکہ سے شعبان المعظم کی 15 ویں رات کی فضیلت و خصوصیت ثابت ہے جس سے مسلمانوں کے اندر اتباع و اطاعت اور کثرت عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ عرفِ عام میں اسے شبِ برأت یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں، لفظ شبِ برأت اَحادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘ کا با محاورہ اُردو ترجمہ ہے۔ اس رات کو یہ نام خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔

اس فضیلت و بزرگی والی رات کے کئی نام ہیں:

  1. لیلۃ المبارکۃ: برکتوں والی رات۔
  2. لیلۃ البراء ۃ: دوزخ سے آزادی ملنے کی رات۔
  3. لیلۃ الصَّک: دستاویز والی رات۔
  4. لیلۃ الرحمۃ: اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کے نزول کی رات۔

(زمخشری، الکشاف، 4/ 272)

شبِ برأت کے پانچ خصائص:

شبِ برأت کو اﷲ تعالیٰ نے درج ذیل پانچ خاص صفات عطا فرمائیں۔ جنہیں کثیر ائمہ نے بیان کیا:

  1. اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔
  2. اس رات میں عبادت کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتاہے، اﷲ تعالیٰ اس کی طرف سو (100) فرشتے بھیجتا ہے۔ (جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں۔}
  3. رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: {یقینا اﷲ تعالیٰ اس رات بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت پر رحم فرماتا ہے}۔‘‘
  4. گناہوں کی بخشش اور معافی کے حصول کی رات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: {بے شک اس رات اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے جادو ٹونہ کرنے والے، بغض و کینہ رکھنے والے، شرابی، والدین کے نافرمان اور بدکاری پر اصرار کرنے والے کے}۔
  5. اس رات اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل شفاعت عطا فرمائی اور وہ اس طرح کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی چودھویں رات یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو تہائی حصہ عطا کیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی پندرہویں رات سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام شفاعت عطا فرما دی گئی سوائے اس شخض کے جو مالک سے بدکے ہوئے اونٹ کی طرح (اپنے مالک حقیقی) اﷲ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے (یعنی جو مسلسل نافرمانی پر مصر ہو)۔

(زمخشری، الکشاف، 4/ 272،273)

شبِ برأت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملِ مبارک:

امام بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں حضرت عائشہ صدیقہ j سے طویل حدیث مبارکہ بیان کی:

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے کسی حصے میں اچانک ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ j بیان کرتی ہیں: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے گئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت البقیع میں مسلمان مردوں، عورتوں اور شہداء کے لیے استغفار کرتے پایا، پس میں واپس آگئی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہ j نے تمام صورتحال بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ابھی جبریل میرے پاس آئے اور کہا: آج شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے مگر مشرکین، دل میں بغض رکھنے والوں، رشتہ داریاں ختم کرنے والوں، تکبر سے پائنچے لٹکانے والوں، والدین کے نافرمان اور عادی شرابی کی طرف اللہ تعالیٰ اس رات بھی توجہ نہیں فرماتا (جب تک کہ وہ خلوص دل سے توبہ نہ کرلیں)۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں کھڑے ہو گئے۔ قیام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک طویل سجدہ کیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: مجھے گمان ہوا کہ حالت سجدہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے۔ میں پریشان ہو گئی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوئوں کو چھوا اور ان پر ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی۔ اس پر مجھے خوشی ہوئی۔ اس وقت حالت سجدہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا پڑھ رہے تھے:

{أَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْهُکَ لَا أُحْصِي ثَنَآئً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ}

( بيهقی، شعب الايمان، 3/ 383-385)

’’اے اللہ میں تیرے عفو کے ساتھ تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں، تیری رضا کے ساتھ تیرے غضب سے پناہ چاہتا ہوں اور تیرے کرم کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں۔ میں کماحقہ تیری تعریف نہیں بیان کرسکتا۔ تو ایسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے‘‘۔

صبح جب حضرت عائشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان دعائوں کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! یہ دعائیں خود بھی یاد کر لو اور دوسروں کو بھی سکھائو۔ مجھے جبریل نے (اپنے ربّ کی طرف سے) یہ کلمات سکھائے ہیں اور انہیں حالت سجدہ میں بار بار پڑھنے کو کہا ہے۔‘‘

شبِ برأت کی شرعی حیثیت:

اُمتِ مسلمہ کے جمیع مکاتبِ فکر کے فقہاء و علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو مسئلہ بھی قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت ہوجائے تو اس پر عمل واجب ہوتا ہے یا وہ سنت اور مستحب کے درجے میں ہوتا ہے۔ وہ احادیثِ مبارکہ جو شبِ برأت کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہیں بہت سے صحابہ کرام l سے مروی ہیں ان میں حضرات سیدنا ابو بکر صدیق، سیدنا مولیٰ علی المرتضیٰ، اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، ابو ثعلبہ الخشنی، عوف بن مالک، ابو موسیٰ اشعری، ابو امامہ الباہلی اور عثمان بن ابی العاص l کے نام شامل ہیں۔

سلف صالحین اور اکابر علماء کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات کو عبادت کرنا ان کے معمولات میں سے تھا۔ لیکن بعض لوگ اس رات عبادت، ذکر اور وعظ و نصیحت پر مشتمل محافل منعقد کرنے کو بدعت ضلالۃ کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے جو سراسر اَحادیثِ نبوی کی تعلیمات کے خلاف ہے، اس لئے کہ اس رات کی فضیلت پر اُمت تواتر سے عمل کرتی چلی آرہی ہے۔

شب برأت کی حجیت اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ شروع سے ہی صحابہ کرام l، تابعین، اَتباع تابعین اور تمام اَئمہ حدیث بشمول ائمہ صحاح ستہ اکثر نے شبِ برأت کا تذکرہ کیا اور اپنی کتب حدیث میں ’بَابُ مَا جَائَ فِي لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ‘ یعنی شعبان کی پندرہویں رات کے عنوان سے مستقل ابواب بھی قائم کیے۔

شیخ الاِسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی اپنے مختلف دروسِ قرآن و حدیث اور کتابوں میں شبِ برأت کی اہمیت و فضیلت پر وارد احادیث کی حجیت پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہ بات واضح رہے کہ جب ائمہ حدیث اپنی کتاب میـں کسی عنوان سے کوئی مستقل باب قائم کرتے ہیں اور وہ باب قائم کر کے اس کے تحت کئی احادیث لاتے ہیں تو اس سے مراد محض اپنی کتاب حدیث کا ایک باب قائم کرنا نہیں ہوتابلکہ اس سے مقصود ان کا ایمان اور عقیدہ ہوتا ہے۔ ان کی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، اَحمد بن حنبل، ابن خزیمہ، ابن حبان، ابن ابی شیبہ، بزار، طبرانی، بیہقی، ابن ابی عاصم، ہیثمی الغرض تمام اَئمہ حدیث کا یہی عقیدہ تھا اور اسی پر اُن کا عمل بھی تھا۔ اور اس رات وہ خود بھی اختصاص و اہتمام کے ساتھ جاگ کر عبادت کرتے، روزہ رکھتے، قبرستان جاتے اور جمیع اُمت مسلمہ کے لیے بخشش و مغفرت کی دعائیں کرتے‘‘۔

شیخ الاسلام اس حوالے سے مزید فرماتے ہیں:

دس کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف اسناد کے ساتھ درجنوں کتب احادیث میں مختلف مضامین سے شب برأت اور اس کی اہمیت و فضیلت پر احادیث وارد ہوئی ہیں۔ لیکن پھر بھی اس حوالے سے یہ کہنا کہ فلاں حدیث میں ضعف ہے فقط ہٹ دھرمی یا لا علمی ہے۔ محدثین کرام فرماتے ہیں کہ اگر حدیث ایک سند کے ساتھ آئی ہو تو اس کے ضعف پر کوئی بات کی جا سکتی ہے، لیکن برأت کے حوالے سے احادیث تو دس سے زیادہ صحابہ کرام l روایت کرنے والے ہیں اور پھر ہر صحابی کی سند جدا جدا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اتنے ہی جدا جدا تابعین نے اور ان سے تبع تابعین نے اور ان سے ائمہ حدیث نے اتنی ہی الگ الگ سندوں کے ساتھ انہیں روایت کیا ہے۔ اور یہ سندیں اتنی زیادہ بنتی ہیں کہ اگر ایک سند میں کسی وجہ سے ضعف پایا بھی جائے تو دوسری سند اس کو تقویت دے دیتی ہے۔ اگر اس میں بھی ضعف ہے تو تیسری سند اسے تقویت دے دیتی ہے۔ پھر اتنے ائمہ احادیث نے مختلف سندوں کے ساتھ ان احادیث کو روایت کیا ہے کہ اس کے بعد کسی ضعف کی مجال نہیں رہ جاتی اور تمام محدثین کے ہاں وہ حدیث صحیح شمار ہوتی ہے۔

مزید یہ کہ جمیع محدثین کے ہاں اُصول حدیث کا متفق علیہ قاعدہ ہے کہ فضائل اَعمال میں حدیثِ ضعیف بھی مقبول ہوتی ہے۔ شبِ برأت کے حوالے سے احادیث کو بہت سارے صحابہ کرام l نے روایت کیا ہے، لہٰذا یہ تصور ذہن میں نہیں آنا چاہیے کہ کسی ایک روایت اور سند پر کسی ایک نے لکھ دیا کہ اس میں ضعف ہے تو اسے اٹھا کر معاذ اﷲ پھینک دیا جائے۔ لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ضعف کہتے کسے ہیں؟ ضعیف حدیث، موضوع روایت کو نہیں کہتے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ ضعف کبھی حدیث کے متن و مضمون (الفاظ) میں نہیں ہوتا، بلکہ ضعف اس کی اسناد میں کسی وجہ سے ہوتا ہے، اگر ایک سبب سے ایک سند میں ضعف ہے اور دوسری سند اس سے قوی آ جائے تو اس پہلی سند کا ضعف بھی ختم ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ صرف اپنی کم علمی کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرتے رہتے ہیں۔

شبِ برأت کی فضیلت و اہمیت پر اتنی کثرت کے ساتھ اَحادیث حسنہ و صحیحہ وارد ہوئی ہیں اور اَئمہ احادیث نے باقاعدہ ابواب قائم کیے ہیں۔ لہذا اس کی فضیلت و اہمیت کا انکار کرنا سوائے جہالت اور لاعلمی اور کتب و ذخیرہ احادیث سے بے خبر ہونے کے اور کسی چیز پر دلالت نہیں کرتا۔

شبِ برأت اور صحابہ کرام کے معمولات

شبِ برأت ایک انتہائی فضیلت و بزرگی والی رات ہے۔ اس رات کے متعلق تقریباً دس جلیل القدر صحابۂ کرام: (1) حضرت ابوبکر، (2) حضرت علی المرتضیٰ، (3) حضرت عائشہ صدیقہ، (4) حضرت معاذ بن جبل، (5) حضرت ابوہریرہ، (6) حضرت عوف بن مالک، (7) حضرت ابو موسیٰ اشعری، (8) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص، (9) حضرت ابو ثعلبہ الخشنی، (10) حضرت عثمان بن ابی العاص سے مروی احادیث مبارکہ ہیں۔

ذیل میں شبِ برأت کے حوالے سے چند ایک صحابہ کرام کے اقوال اور ان کے معمولات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

  1. حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

يُعْجِبُنِي أَنْ يُفَرِّغَ الرَّجُلُ نَفْسَهُ فِي أَرْبَعِ لَيَالٍ: لَيْلَةُ الْفِطْرِ، وَلَيْلَةُ الأَضْحٰی، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ.

(ابن جوزی، التبصرة، 2/ 21)

’’مجھے یہ بات پسند ہے کہ ان چار راتوں میں آدمی خود کو (تمام دنیاوی مصروفیات سے عبادت الٰہی کے لیے) فارغ رکھے۔ (وہ چار راتیں یہ ہیں:) عید الفطر کی رات، عید الاضحی کی رات، شعبان کی پندرہویں رات اور رجب کی پہلی رات۔‘‘

  1. حضرت طاؤوس یمانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے پندرہ شعبان کی رات اور اس میں عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ارشاد فرمایا:

’’میں اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں: ایک حصے میں اپنے نانا جان ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود شریف پڑھتا ہوں دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں اور تیسرے حصے میں نماز پڑھتا ہوں۔

میں نے عرض کیا: جو شخص یہ عمل کرے اس کے لیے کیا ثواب ہوگا۔ آپ نے فرمایا: میں نے حضرت علی g سے سنا اور انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’اسے مقربین لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘

(سخاوی، القول البديع، باب الصلاة عليه فی شعبان: 207)

  1. حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

خَمْسُ لَيَالٍ لَا يُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَةُ الْعِيْدِ وَلَيْلَةُ النَّحْرِ.

(بيهقی، شعب الايمان، 3/ 342)

’’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات۔‘‘

  1. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے۔‘‘

(طبری، جامع البيان، 25/ 109)

حضور غوث الاعظم کا فرمان مبارک

شب برأت فیصلے، قضا، قہر و رضا، قبول و ردّ، نزدیکی و دوری، سعادت و شقاوت اور پرہیزگاری کی رات ہے۔ کوئی شخص اس میں نیک بختی حاصل کرتا ہے اور کوئی مردود ہو جاتا ہے، ایک ثواب پاتا ہے اور دوسرا ذلیل ہوتا ہے۔ ایک معزز و مکرم ہوتا ہے اور دوسرا محروم رہتا ہے۔ ایک کو اجر دیا جاتا ہے جب کہ دوسرے کو محروم کر دیا جاتا ہے۔ کتنے ہی لوگوں کا کفن دھویا جا رہا ہے اور وہ بازاروں میں مشغول ہیں! کتنی قبریں کھودی جا رہی ہیں لیکن قبر میں دفن ہونے والا اپنی بے خبری کے باعث خوشی اور غرور میں ڈوبا ہوا ہے! کتنے ہی چہرے کھلکھلا رہے ہیں حالانکہ وہ ہلاکت کے قریب ہیں! کتنے مکانوں کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے لیکن ان کا مالک موت کے قریب پہنچ چکا ہے کتنے ہی بندے رحمت کے امیدوار ہیں پس انہیں عذاب پہنچتا ہے! کتنے ہی بندے خوشخبری کی اُمید رکھتے ہیں پس وہ خسارہ پاتے ہیں! کتنے ہی بندوں کو جنت کی امید ہوتی ہے پھر ان کو دوزخ میں جانا پڑتا ہے! کتنے ہی بندے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے امیدوار ہوتے ہیں لیکن وہ جدائی کا شکار ہوتے ہیں! کتنے ہی لوگوں کو عطائے خداوندی کی امید ہوتی ہے لیکن وہ مصائب کا منہ دیکھتے ہیں، اور کتنے ہی لوگوں کو بادشاہی کی اُمید ہوتی ہے لیکن وہ ہلاک ہوتے ہیں! (غنیۃ الطالبین)

خلاصۂ کلام

قارئینِ کرام! شبِ برأت پر اتنی کثیر تعداد میں مروی احادیث، تعاملِ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین و ائمہ سلف صرف اس لیے نہیں ہیں کہ کوئی بھی بندہ فقط ان کا مطالعہ کر کے یا مطالعہ کے بغیر ہی انہیں قصے، کہانیاں سمجھتے ہوئے صرفِ نظر کردے بلکہ ان کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے مولا خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے اُستوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگر روحانی راتوں میں عبادت سے باسہولت میسر ہو سکتا ہے۔

اِن بابرکت راتوں میں رحمتِ الٰہی اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے اور اپنے گناہ گار بندوں کی بخشش و مغفرت کے لیے بے قرار ہوتی ہے، لہٰذا اس رات میں قیام کرنا، کثرت سے تلاوتِ قرآن، ذکر، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے اور یہ اَعمال احادیثِ مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہیں۔ اس لیے جو شخص بھی اس شب کو یا اس میں عبادت کو بدعتِ ضلالۃ کہتا ہے وہ درحقیقت احادیثِ صحیحہ اور اعمالِ سلف صالحین کا منکر ہے اور فقط ہوائے نفس کی اتباع اور اطاعت میں مشغول ہے۔

یہ اَمر بھی قابلِ غور ہے کہ جو عمل خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام l سے ثابت ہو، تابعین، اتباع تابعین اور اسلاف امت اس پر شروع سے ہی عمل پیرا رہے ہوں، فقہائے کرام جسے مستحب قرار دیتے ہوں، کیا وہ عمل بدعت ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا عمل بھی بدعت ہے تو پھر سنت و مستحب عمل کون سا ہوگا؟

شبِ برأت میں عبادت کیسے کی جائے؟

اس رات اکیلے عبادت کرنا اور اجتماعی طور پر عبادت کرنا دونوں ہی طریقے ائمہ سے ثابت ہیں۔ اس رات جاگنا، عبادت کرنا چونکہ مستحب عمل ہے، لہٰذا ہماری رائے کے مطابق اسے انسانی طبیعت اور مزاج پر چھوڑنا چاہیے، جس طریقہ میں کسی کی طبیعت اور مزاج کیف و سرور اور روحانی حلاوت محسوس کرے اسے چاہیے کہ وہ وہی طریقہ اختیار کرے۔ کیوں کہ اس رات کا اصل مقصود تزکیہ و تصفیہ قلب ہے۔ سو جسے جس طریقہ میں حلاوت ایمانی نصیب ہو اسے اسی پر عمل کر لینا چاہیے۔ بعض لوگوں کی طبیعت خلوت پسند ہوتی ہے اور انہیں تنہائی میں عبادت اور گریہ زاری کرنے سے حلاوت و سکون اور ذہنی یکسوئی ملتی ہے، سو وہ اس طریقہ کو اختیار کرلیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

اس کے برعکس بعض لوگ اجتماعی طور پر عبادت کرنے میں زیادہ آسانی اور راحت محسوس کرتے ہیں، لہٰذا ان کے لیے اس طریقے پر عمل کرنے میں رخصت ہونی چاہیے کیوں کہ یہ عمل بھی ائمہ سے ثابت ہے۔

بلکہ آج کا دور چونکہ سہل پسندی اور دینی تعلیمات سے بے راہ روی کا دور ہے، اس دور میں وہ لوگ بھی کم ہیںکہ جن کے گھر اور راتیں قیام اللیل کے نور سے جگمگاتی ہیں۔ اور طبیعتوں میں اتنی مستقل مزاجی بھی نہیں رہی کہ لوگ گھروں میں رات بھر جاگ کر چستی و مستعدی سے عبادت و اذکار ادا کر سکیں۔ تنہائی میں کچھ دیر عبادت سے ہی سستی اور نیند کے ہتھیار کے ذریعے شیطان لعین ان پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ لہٰذا اگر اجتماعی عبادت سے لوگوں میں دین سے رغبت اور عبادت میں مستعدی پیدا ہوتی ہے تو ان کے لیے اجتماعی طور پر عبادت کرنا مستحسن عمل ہے۔

اجتماعی طور پر عبادت کرنے میں تعلیم و تربیت کا عمل بھی پایا جاتا ہے۔ دینی تعلیمات اور نوافل و اذکار کی ادائیگی سے بے بہرہ لوگ بھی آسانی سے اجتماعی عمل میں شریک ہوکر اپنی عبادات کی ادائیگی کرلیتے ہیں اور جو چیزیں معلوم نہیں ہوتیں وہ جان لیتے ہیں۔

اس اَمر کا خیال رہے کہ اجتماعی عبادات کسی عالم باعمل کی زیر تربیت و نگرانی ہونی چاہیے،جو لوگوں کی فکری اور روحانی ہر دو حوالوں سے تربیت و اصلاح بھی کر سکے۔

(شبِ برأت کے متعلق مزید تفصیلی احکام اور اس رات کے وظائف کے مطالعہ کے لئے راقم کی تالیف ’’شبِ برأت کی فضیلت اور شرعی حیثیت‘‘ کا مطالعہ کریں۔)

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2017

تبصرہ

تلاش

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top