ذکر اللہ سے مراد تاجدارِ کائنات حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

ذکرِ اللہ کا اعلیٰ ترین درجہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات سے قلبی وابستگی اور عملی پیروی میں ہے: صدر منہاج القرآن

ذکرِ اللہ قرآنِ مجید کا ایک مرکزی موضوع ہے، جس کا مطلب صرف زبان سے اللہ کا نام لینا نہیں، بلکہ دل و دماغ کو اللہ کی یاد سے بھر لینا ہے۔ قرآن میں ذکر سے مراد ایسا شعور اور تعلق ہے جو انسان کو ہر حالت میں اپنے رب کی طرف متوجہ رکھے۔ یہ یاد انسان کے عمل، سوچ، اور نیت میں جھلکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بار بار ذکر کی تلقین کی ہے، کیونکہ یہی وہ روحانی رابطہ ہے جو بندے کو گمراہی، غفلت اور دنیا کی فریب کاریوں سے بچاتا ہے۔

ذکرِ اللہ کا مفہوم عام طور پر اللہ کا نام لینے، نماز، دعا، اور قرآن کی تلاوت سے جوڑا جاتا ہے، مگر جب ہم اس کی گہرائی میں جاتے ہیں تو ایک روحانی راز منکشف ہوتا ہے۔ قاضی عیاضؒ نے اپنی مشہور کتاب الشفاء میں ذکرِ اللہ کی ایک لطیف مگر عظیم تفسیر پیش کی ہے: اُن کے نزدیک ذکرِ اللہ سے مراد خود حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ اس تشریح سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ دلوں کا سکون نہ صرف اللہ کے یاد کرنے میں ہے، بلکہ وہ اصل یاد، وہ اصل ذکر، حضور ﷺ کی محبت، اطاعت اور معرفت میں پنہاں ہے۔ یوں ذکرِ اللہ کا اعلیٰ ترین درجہ حضور ﷺ کی ذات سے قلبی وابستگی اور عملی پیروی میں ہے، جو بندے کو قربِ الٰہی اور اطمینانِ قلب عطا کرتا ہے۔

قرآنِ مجید میں ذکر اللہ سے کیا مراد ہے؟

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ہم نماز پڑھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، ہم دعا کرتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، ہم قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اللہ کا ذکر تو سمجھ میں آتا ہے، مگر ذکر سے مُراد کیا ہے؟

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: قاضی عیاضؒ اپنی کتاب ’’الشفاء‘‘ میں لکھتے ہیں کہ: ذکر اللہ سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔

قاضی عیاض، الشفاء، ج۱، ص 23

یعنی اللہ تعالیٰ نے جو تصور ذکر اللہ کا عطا فرمایا ہے اُس کو بھی تاجدارِ کائنات ﷺ کی ذات قرار دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے:

﴿أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾

’’جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘

سورة الرعد، 13/ 28

اس آیت کی تفسیر میں قاضی عیاض کہتے ہیں:

’’ذکر اللہ سے مراد تاجدارِ کائنات حضرت محمد ﷺ کی ذات گرامی ہے۔‘‘

یعنی دلوں کا سکون ذکر اللہ ہے وہ در حقیقت محمد ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔

حاصلِ کلام:

قرآنِ مجید میں ’’ذکر اللہ‘‘ کا مفہوم محض زبانی تسبیح یا عبادات تک محدود نہیں، بلکہ ایک گہرا روحانی تعلق اور شعور ہے جو بندے کو ہر حالت میں اپنے رب سے جوڑے رکھتا ہے۔ نماز، دعا، اور تلاوتِ قرآن تمام عبادات کا مرکز اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، مگر اس یاد کی حقیقت کیا ہے؟ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے مطابق، اس سوال کا جواب قاضی عیاضؒ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’الشفاء‘‘ میں دیا ہے، جہاں وہ واضح کرتے ہیں کہ ’’ذکر اللہ‘‘ درحقیقت حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ گرامی کا ذکر ہے۔ قاضی عیاضؒ فرماتے ہیں کہ دلوں کو جو حقیقی سکون میسر آتا ہے، وہ دراصل ذاتِ مصطفیٰ ﷺ کی معرفت، محبت، اور اتباع میں پوشیدہ ہے۔ گویا ذکرِ الٰہی کا اعلیٰ ترین درجہ حضور ﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا اور ان سے قلبی وابستگی قائم کرنا ہے۔ یہی اصل اطمینان اور بندگی کا جوہر ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top