اِخلاص بندۂ مؤمن کے دل میں ایمان کے ذریعے داخل ہوتا ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
جب ایمان کی شاخ نفس میں اُترتی ہے تو وہ بُری خواہشات کو مٹا دیتی ہے اور صرف نیک تمنائیں باقی رہتی ہیں: صدر منہاج القرآن
اخلاص بندۂ مؤمن کے دل کی وہ روشنی ہے جو ایمان کے ذریعے اس کے باطن میں اُترتی ہے۔ جب نیت خالص ہو جاتی ہے تو عمل میں برکت پیدا ہوتی ہے، دعا میں اثر پیدا ہو جاتا ہے، اور عبادت روحانی لذت میں ڈھل جاتی ہے۔ اخلاصِ نیت وہ جوہر ہے جو چھوٹے سے عمل کو بھی عظمت عطا کر دیتا ہے اور ریا سے پاک دل کو اللہ کی قربت سے سرفراز کرتا ہے۔ دراصل اخلاص ہی ایمان کی روح اور بندگی کی حقیقت ہے۔ جس کے بغیر عبادت جسم تو رکھتی ہے مگر جان نہیں۔
اِخلاصِ نیت کی برکات:
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اِخلاصِ نیت سے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: حضور سیدنا غوثِ اعظمؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ: ایمان ایک ایسا درخت ہے جس کی جڑیں کئی سمتوں کی جانب جا رہی ہیں، یعنی کئی جہات و اَطراف میں اُس کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں۔ جب یہ ایمان دل میں داخل ہوتا ہے اور جو اِس کی شاخ پر پھل لگتا ہے وہ پھل در اصل اِخلاص کا ہوتا ہے۔ یعنی اُس کو اخلاص کی نعمت نصیب ہو جاتی ہے اور یہی ایمان کی جڑ جب اُس کے جسم کے اَعضاء میں داخل ہوتی ہے، تو جو پھل اُن شاخوں پر لگتا ہے وہ پھل نیک اعمال کا ہوتا ہے۔ یعنی اُس کے جسم سے پھر نیک اعمال وارد ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ مولا علی علیہ السلام نے مزید فرمایا کہ: اِسی ایمان کی شاخ جب نفس میں داخل ہوتی ہے تو اس نفس کو بُری خواہشات کے ساتھ یوں کچل دیتی ہے کہ وہاں پر صرف نیک خواہشات بچتی ہیں۔
ایمان کی شاخوں کا بندۂ مؤمن میں داخل ہونا:
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ایمان کے متعلق مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ: ایمان کی شاخوں کو اِن تینوں جگہوں پر داخل ہونے دیا کریں۔ یعنی دل میں جانے دیا کریں کہ اخلاص پیدا کریں۔ اپنے جسم کے اعضاء میں جانے دیا کریں تاکہ نیک اعمال پیدا کریں اور اپنے نفس میں داخل ہونے دیا کریں کہ یہ نفس کی بُری خواہشوں کو مٹا دے اور نیک خواہشیں پیدا ہونا شروع ہو جائیں۔ اِخلاص ایسا عمل ہے جو بندۂ مؤمن کے دل میں ایمان کے ذریعے داخل ہوتا ہے۔
حدیث قدسی ہے تاجدارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ ربُّ العزّت ارشاد فرماتا ہے: اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے، جس کو میں بہت حفاظت کے ساتھ اُن کے دلوں میں رکھتا ہوں جن سے میں محبت کرتا ہوں۔ یعنی اخلاص میرا ایک راز ہے جسے میں اپنے محبوب بندوں کے دلوں میں بہت سنبھال کر رکھتا ہوں۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: کیا ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے دلوں میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہ راز اُتر جائے؟ اللہ ہمیں وہ اخلاص عطا فرمائے جو دل میں ایمان کی طرح جڑ پکڑ لے، پھولے، پھلے اور ہر عمل کو خلوص سے بھر دے۔ جب کسی کے دل میں اخلاص جاگزین ہو جاتا ہے تو وہ انسان عام نہیں رہتا۔ اُس کی بات نرالی، اس کا انداز جدا اور اس کا مقصد محض رضائے الہی بن جاتا ہے۔ پھر اس کے کاموں میں میل نہیں رہتا، اس کی نیتوں میں دوغلا پن نہیں ہوتا، وہ مخلوق اور خالق کی محبت کو ایک دل میں جمع نہیں کرتا۔ وہ خیرات دے تو دکھاوے کے لیے نہیں دیتا، جہاد کرے تو شہرت کے لیے نہیں کرتا، بلکہ اس کا ہر عمل صرف اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ ایسے بندے کے لیے خدا کی رضا ہی سب سے بڑی کامیابی اور خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اس کے دیدار کی تمنا ہی سب سے بڑا انعام بن جاتی ہے۔
حاصلِ کلام:
اخلاص دراصل ایمان کا ثمر اور بندگی کی جان ہے۔ جب یہ ایمان کے ساتھ دل میں اترتا ہے تو انسان کی نیتیں پاکیزہ، اعمال با برکت، اور خواہشات نیک بن جاتی ہیں۔ یہ وہ باطنی راز ہے جو اللہ تعالیٰ صرف اپنے محبوب بندوں کے دلوں میں ودیعت فرماتا ہے۔ اخلاص انسان کو ریا، دوغلے پن اور شہرت کے لالچ سے پاک وصاف کر دیتا ہے، اور اس کے ہر عمل کا مقصد صرف رضائے الٰہی بن جاتا ہے۔ جس دل میں اخلاص کی جڑ مضبوط ہو جائے، وہاں سے نیکی کے پھول کھلتے ہیں اور بندۂ مؤمن کا ہر قدم اللہ کی خوشنودی کی طرف بڑھتا ہے۔ یہی اخلاص بندے کو عام انسان سے خاص بنا دیتا ہے، اور اس کے اعمال کو نور و اثر سے بھر دیتا ہے۔


















تبصرہ