علم کا نور اُس دل میں اُترتا ہے جو مفاد سے خالی اور اِخلاص سے بھرا ہو: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
علم اُسی دل میں اُترتا ہے جہاں اس کی محبت، محنت اور اخلاص ایک ساتھ دھڑکتے ہوں: صدر منہاج القرآن
اللہ تعالیٰ نئے خیالات کی امانت صرف اُن دلوں کو عطا کرتا ہے جو علم کے سامنے اپنی پوری زندگی جھکا دیں: صدر منہاج القرآن
علم کی خیرات ہر اُس دل کو نصیب ہوتی ہے جو تکبر سے خالی، طلبِ صادق سے بھرپور اور ہدایت کی روشنی کا سچا متلاشی ہو۔ نیز اللہ تعالیٰ اُنہی کو علم عطا کرتا ہے جو خشیتِ الٰہی رکھتے ہیں۔ یعنی جن کے دل میں رب کی عظمت، عاجزی اور سچائی کی طلب ہو۔ علم کی خیرات نہ دولت والوں کی میراث ہے، نہ عہدہ رکھنے والوں کی؛ یہ اُن بندوں کا حصہ ہے جو نیت پاک رکھتے ہیں، سیکھنے میں اخلاص رکھتے ہیں، علم کے حقوق ادا کرتے ہیں اور اسے اپنی عملی زندگی میں نور بنا لیتے ہیں۔ جو شخص علم کو محض معلومات نہیں بلکہ قربِ الٰہی کا وسیلہ سمجھ لے، اللہ تعالیٰ اُس کے دل پر معارف و حکمت کے دروازے کھول دیتا ہے، اور اسے ایسا علم عطا کرتا ہے جو اُسے بھی سنوارتا ہے اور اس کے ذریعے دوسروں کی زندگی بھی روشن ہو جاتی ہے۔ علم اُنہی کے دامن میں اُترتا ہے جن کے دل میں علم کی محبت، اس کے لیے محنت اور اس کے لیے اخلاص موجزن ہو۔
علم کی خیرات اور اخلاصِ نیت کی شرط:
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے علم کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علم وہ نور ہے جو اخلاص والوں کو میسر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ علم عطا کرنے سے پہلے انسان کے دل کا اخلاص دیکھتا ہے۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ یہ شخص علم اس لیے حاصل کر رہا ہے کہ اِسے علم سے محبت ہے، وہ علم کے ساتھ جینا چاہتا ہے، یا وہ علم کو صرف اس لیے پڑھ رہا ہے کہ ایم فِل کرنے سے اِسے ادارے میں ترقی، تنخواہ میں اضافہ یا کالج میں لیکچرار کی نوکری مل جائے۔ جو لوگ علم کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں، علم کے لیے محنت کرتے ہیں اور اس سے حقیقی محبت رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن پر علم کی خیرات کھول دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے مغربی سائنس دان اگرچہ وہ خدا کو نہ ماننے والے تھے، یا کسی اور مذہب کے پیروکار تھے، اللہ نے اُن کے ذریعے دنیا میں بڑے بڑے کام کروائے۔ ان میں اسلام شاید نظر نہ آئے، مگر جب آپ ان کی زندگیوں کے متعلق پڑھیں گے تو ایک چیز ضرور ملے گی کہ اُن کے اندر علم کے لیے سچا اخلاص اور جنون موجود تھا۔
یہ لوگ نہ لالچ رکھتے ہیں، نہ دل میں فتنہ یا فتور رکھتے ہیں، نہ دماغ میں کوئی سیاست۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی علم کے لیے وقف کر دی ہوتی ہے۔ آپ دیکھ لیں، بڑے بڑے سائنس دانوں کے محل نہیں بنتے، ان میں سے کوئی ایک بھی ارب پتی نہیں ہوتا، چاہے مغرب ہی کی مثال لے لیں۔ اگر کبھی اُن کی ایجادات کے بدلے انہیں لاکھوں یا کروڑوں ڈالر مل بھی جائیں، تو وہ بھی دوسروں پر خرچ کر دیتے ہیں۔ یہی وہ طرزِ زندگی ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ اُن کے دل پر نئے خیالات اور نئے علمی دروازے کھول دیتا ہے۔ پھر اللہ ایسے صاف دلوں کو نئے خیالات کی امانت کے لیے چن لیتا ہے۔ یعنی جو اپنی زندگی کو لالچ، سیاست اور فتنہ سے پاک کر کے علم کے نام وقف کر دیتے ہیں، اللہ انہیں نئے خیالات اور عظیم ایجادات کی امانت کے لیے منتخب فرما لیتا ہے۔
حاصلِ کلام:
حقیقی علم اُن دلوں پر اُترتا ہے جو خواہشِ نفس، لالچ اور ظاہری مفاد سے پاک ہوں۔ علم کا فیض اُنہی کو ملتا ہے جو طلبِ صادق، عاجزی اور اخلاصِ نیت کے ساتھ اس کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ جو لوگ علم کو محض روزگار یا منصب کا ذریعہ نہیں بلکہ اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر فہم و حکمت کی ایسی راہیں کھول دیتا ہے جو دنیا تک کو روشنی عطا کرتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی علم کے نام وقف کر دی، خواہ وہ ایمان نہ رکھتے ہوں مگر خلوص رکھتے تھے، اللہ نے اُن کے دلوں کو نئی ایجادات کا مرکز بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں معیار صرف پاکیزہ نیت ہے؛ اور جو دل علم کے لیے سچائی، محنت اور بے لوث لگن کے ساتھ دھڑکتا ہے، اسی کو ربِ کائنات نئی حقیقتوں اور عظیم خیالات کی امانت کے لیے چن لیتا ہے۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)


















تبصرہ