دل کی مسلسل تڑپ ہی وہ آنکھ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوتا ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

جو دل طلبِ دیدارِ الٰہی سے لبریز ہو جائے، اسے لوگ دیوانگی کہتے ہیں مگر اہلِ دل اسی کو اصل ہوش مندی سمجھتے ہیں: شیخ الاسلام کا خطاب

دل کی طلب اور معرفت کا سفر دراصل انسان کی باطنی آنکھ کا بیدار ہونا ہے۔ جب دل میں دیدارِ الٰہی کی تڑپ مسلسل جلتی رہے تو وہی تڑپ بندے کے لیے وہ بصیرت بن جاتی ہے جس سے وہ حقائقِ ربانی کو دیکھنے لگتا ہے۔ اہلِ دنیا اسے دیوانگی کہتے ہیں، مگر اہلِ دل جانتے ہیں کہ یہی کیفیت اصل شعور، اصل ہوش مندی اور اصل معرفت ہے۔ دل جب اپنے رب کے دیدار کی طلب میں ڈوب جاتا ہے تو وہ ہر لمحہ وفا کے ساتھ جڑ جاتا ہے، اور یہی وفا بندے کو مقامِ عرفان تک پہنچاتی ہے۔

دل کی طلب اور معرفت کا سفر

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: ایک روز حضرت ذوالنون مصریؒ گھر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ گلی میں ایک نوجوان ہے جس پر بچے کنکریاں اور پتھر پھینک رہے ہیں۔ آپؒ نے بچوں سے پوچھا: تم اِسے کنکریاں کیوں مار رہے ہو؟ بچوں نے کہا: یہ پاگل ہے، دیوانہ ہے۔ آپؒ نے پوچھا: تم اِسے پاگل اور دیوانہ کیوں کہتے ہو؟ بچوں نے جواب دیا: یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کو دیکھتا ہوں، اللہ کا دیدار کرتا ہوں۔ اس لیے ہم اسے دیوانہ کہتے ہیں۔

یہ سن کر حضرت ذوالنون مصریؒ اس نوجوان کے پاس گئے اور پوچھا: کیا یہ صحیح ہے کہ تم کہتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہوں؟ نوجوان نے کہا: ہاں، یہ بات درست ہے۔ آپؒ نے پوچھا: تم اللہ تعالیٰ کو کیسے دیکھتے ہو؟ نوجوان نے جواب دیا: میرا دل ہر وقت اللہ کے دیدار کی طلب میں تڑپتا رہتا ہے، تو جس کا دل اللہ کو دیکھنے کے لیے تڑپتا رہے اور کبھی طلب ختم نہ ہو اِسی کو دیکھنا کہتے ہیں۔ دل کی مسلسل تڑپ ہی وہ آنکھ ہے جس سے اللہ کا دیدار ہوتا ہے۔ جو دل طلبِ دیدارِ الٰہی سے لبریز ہو جائے، اسے لوگ دیوانگی کہتے ہیں مگر اہلِ دل اسی کو اصل ہوش مندی سمجھتے ہیں۔ اُس جوان نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کو دل کی آنکھ سے دیکھتا ہوں، سر کی آنکھ سے نہیں، اور دل کی آنکھ سے دیکھنا ہر وقت اُس کی طلب اور تڑپ میں رہنا ہے، اُس کے عشق میں ہر وقت تڑپنا ہے، وہ کیفیت ختم نہیں ہوتی۔ یہ سن کر حضرت ذو النون مصریؒ نے کہا: أَ مَجْنُونٌ أَنْتَ؟ کیا تو پاگل ہے؟ کیا تجھے لوگ دیوانہ کہتے ہیں؟ اُس نے کہا:

أَمَّا عِندَ أَھْلِ الاَرضِ، فَنَعَمْ، وَعِندَ أَھْلِ السَّمَاءِ فَلَا۔ ہاں، میں زمین والوں کی نظر میں پاگل ہوں، مگر آسمان والے مجھے پاگل نہیں سمجھتے۔ حضرت ذوالنون مصریؒ نے پوچھا: اے جوان! بتا، تیرے اور تیرے رب کے درمیان کیسا تعلق ہے؟ نوجوان نے جواب دیا: تعلق یہ ہے کہ جب سے میں نے اپنے مولا کو پہچانا ہے، اُس کے ساتھ ہمیشہ وفا کی ہے، کبھی بے وفائی نہیں کی۔ جب سے اس سے رشتہ جوڑا ہے، میں نے کبھی جفا نہیں کی، بس وفا ہی وفا ہے۔

حاصلِ کلام

معرفتِ الٰہی کا راستہ عقل کی منطق سے نہیں، دل کی بےقراری سے کھلتا ہے۔ جس دل میں طلبِ حق کی آگ بجھتی نہیں اور دیدارِ رب کی پیاس ہر لمحہ تازہ رہتی ہے، وہی دل حقیقت کو پا لیتا ہے۔ دنیا ایسے بندے کو مجنون کہہ کر ٹھکرا دیتی ہے، مگر آسمان والے اُس کی اسی کیفیت کو قربتِ الٰہی کا سرمایہ سمجھتے ہیں۔ جو اپنے مولا سے واقعی تعلق جوڑ لے، اُس کی زندگی کا ہر سانس وفا بن جاتا ہے؛ نہ غفلت رہتی ہے نہ بےوفائی، بس عشق کی وہ مسلسل حاضری ہوتی ہے جس میں دل ہر لمحہ اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے۔ یہی وفا اور یہی تڑپ انسان کو اس مقام تک لے جاتی ہے جہاں دیدار نظر سے نہیں، دل کی روشنی سے ہوتا ہے۔

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top