محبتِ الٰہی کا سچا ثبوت یہی ہے کہ بندہ رسولِ اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرے: شیخ حماد مصطفی المدنی القادری

متابعتِ رسول ﷺ دراصل محبتِ الٰہی کی سب سے روشن اور سچی دلیل ہے: خطاب
جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے اُسوہ کی پیروی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنا محبوب بنا لیتا ہے: خطاب

محبت اور متابعتِ مصطفیٰ ﷺ کا رشتہ محض ایک جذباتی وابستگی نہیں بلکہ ایمان کی وہ زندہ حقیقت ہے جو فکر، عمل اور کردار میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ محبتِ الٰہی کا دعویٰ اُسی وقت معتبر اور قابلِ قبول بنتا ہے جب وہ رسولِ اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی میں ڈھل جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ اطاعتِ رسول ﷺ سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت اور متابعت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں؛ سچی محبت اطاعت کو جنم دیتی ہے اور کامل متابعت محبت کی سب سے روشن دلیل بن جاتی ہے۔

محبت اور متابعت: ایمان کی دو لازم بنیادیں

شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ: اے حبیبِ مکرم ﷺ! آپ اِن سے فرما دیجیے کہ اگر وہ اللہ ربّ العزّت سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کی رضا و خوشنودی چاہتے ہیں تو اُن پر لازم ہے کہ وہ آپ ﷺ کی اطاعت کریں۔ اللہ تعالیٰ واضح فرما رہا ہے کہ محبت کا دعویٰ اُسی وقت سچا مانا جائے گا جب میرے محبوب ﷺ کی پیروی کی جائے۔ جو لوگ حضور ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرتے ہیں، اللہ ربّ العزت انہیں اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ ہمارا حضور ﷺ سے تعلق دو بنیادوں پر قائم ہے: ایک محبت کا رشتہ اور دوسرا متابعت کا۔ یعنی آقا ﷺ سے محبت اور نبیِ اکرم ﷺ کی پیروی، یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں محبت ہوگی وہاں متابعت لازمًا ہوگی، اور جہاں متابعت پائی جائے گی وہاں محبت کا ہونا خود بخود ثابت ہو جاتا ہے۔ محبتِ الٰہی کا سچا ثبوت یہی ہے کہ بندہ رسولِ مکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کرے۔

آج ہم صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیوں اور اُن کے واقعات کی روشنی میں اسی محبت اور متابعت پر قائم حضور ﷺ سے اپنے رشتے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ میں نے آپ کے سامنے سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 31 کی تلاوت کی، جس میں اللہ ربّ العزت ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ۔ اس آیتِ کریمہ میں چار اہم امور ہیں جن پر غور کرنا نہایت ضروری ہے۔

محبتِ الٰہی کی شرط: متابعتِ رسول ﷺ ہے

شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے مزید کہا کہ: اللہ ربّ العزّت ارشاد فرماتا ہے: اے حبیبِ مکرم ﷺ! قُلْ؛ ان سے فرما دیجیے کہ اگر وہ اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ آپ ﷺ کی پیروی کریں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے قرب، اُس کی معیّت، رضا اور خوشنودی کے خواہش مند ہیں، اُن کے لیے لازم ہے کہ وہ رسولِ مکرم ﷺ کی اطاعت اختیار کریں۔ دراصل اللہ سے محبت کا اقرار خود بخود رسول ﷺ کی محبت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اللہ ربّ العزت واضح فرما رہا ہے کہ محبت کا دعویٰ اسی وقت سچا ثابت ہوتا ہے جب بندہ میرے محبوب ﷺ کی پیروی کرے، کیونکہ متابعتِ رسول ﷺ ہی محبتِ الٰہی کی حقیقی کسوٹی ہے۔ متابعتِ رسول ﷺ دراصل محبتِ الٰہی کی سب سے روشن اور سچی دلیل ہے۔

پھر اِسی آیتِ کریمہ کے تیسرے حصہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ جب یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ ربّ العزت سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت اور پیروی اختیار کریں، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ۔ یعنی جو لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں اور حضور نبی اکرم ﷺ کی متابعت کرتے ہیں، اللہ ربّ العزّت انہیں اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ براہِ راست یہ نہیں فرماتا کہ: میں تم سے محبت کرتا ہوں، بلکہ اس محبت کو ایک شرط کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ شرط یہ ہے کہ بندہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ متابعت کا مضبوط رشتہ قائم کرے۔ جو لوگ نبیِ اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ، اخلاقِ کریمہ اور اعلیٰ کردار کی پیروی کرتے ہیں، اللہ ربّ العزّت انہی کو اپنی خاص محبت سے نوازتا ہے۔

اِسی آیتِ کریمہ کے چوتھے حصہ میں فرمایا جو کہ انتہائی توجہ طلب ہے۔ اللہ رب العزت فرماتا ہے: وَیَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۔ یعنی جب بندہ جب اللہ تعالیٰ سے محبت کا اقرار کر لیتا ہے اور آقا ﷺ کی متابعت اختیار کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے، تو پھر اللہ ربّ العزت اس کے تمام گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ آخر میں فرمایا: وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ، کہ اللہ تعالیٰ نہایت بخشنے والا اور بے حد مہربان ہے۔ محبتِ الٰہی، متابعتِ رسول ﷺ، محبوبیتِ خداوندی اور مغفرت یہ سب ایک ہی زنجیر کی کَڑیاں ہیں، جو بندے کو رحمت اور نجات کی منزل تک پہنچا دیتی ہیں۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top