جب سیرتِ نبوی ﷺ ہمارے اخلاق، کردار اور معاملات میں رچ بس جائے، تب ہی محبتِ رسول ﷺ کا دعویٰ حقیقت اور عمل کی صورت اختیار کرتا ہے: شیخ حماد مصطفی المدنی القادری
جہاں قول، عمل اور باطن ایک ہو جائیں، وہی رسول اللہ ﷺ سے سچا عشق ہے: خطاب
محبتِ رسول ﷺ کا سچا معیار یہ نہیں کہ زبان کیا کہتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ زندگی کس حد تک سنتِ مصطفیٰ ﷺ کی تصویر بن جاتی ہے: خطاب
محبت اور دعوائے محبت کے درمیان اَصل فرق اُس وقت واضح ہوتا ہے جب قول، عمل اور باطن ایک ہی سمت میں سفر کرنے لگیں۔ محض زبان سے عشقِ رسول ﷺ کا اظہار کرنا یا جذباتی وابستگی کا دعویٰ کافی نہیں، بلکہ سچی محبت وہ ہے جو سیرتِ نبوی ﷺ کی پیروی میں ڈھل کر اخلاق، کردار اور معاملات کا حصہ بن جائے۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات ہماری گفتگو، ہمارے رویّوں اور ہمارے روزمرہ کے فیصلوں میں جھلکنے لگیں، تب یہ کہا جا سکتا ہے کہ محبت محض دعویٰ نہیں رہی بلکہ حقیقت اور عمل کا روپ دھار چکی ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں رسول اللہ ﷺ سے سچا عشق معرضِ وجود میں آتا ہے۔
دعویٔ محبت اور حقیقتِ عمل
شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایک واضح تضاد پایا جاتا ہے کہ ہم محبت اور عشقِ رسول ﷺ کا دعویٰ تو بہت کرتے ہیں، مگر اس دعوے میں سچائی کم نظر آتی ہے۔ نہ ہمارے کلام میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کی جھلک دکھائی دیتی ہے، نہ ہمارے طور طریقوں میں، اور نہ ہی ہمارے اَخلاق میں سنتِ نبوی ﷺ کی حقیقی پیروی نظر آتی ہے۔ قیقت یہ ہے کہ عشق و محبت کا دعویٰ اُسی وقت معتبر ہوتا ہے جب وہ عمل کی صورت اختیار کر لے۔ خلفائے راشدین اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام اسی لیے بلند ہے کہ اُن کے قول و عمل میں کامل ہم آہنگی تھی؛ وہ جو کہتے تھے، وہی کرتے تھے، اور اُن کا باطنی حال بھی اُن کے ظاہری عمل کے مطابق ہوتا تھا۔ افسوس کہ آج ہمارے ہاں یہ تطابق و توافق مفقود ہے اور قول و عمل کے درمیان ایک گہرا فرق پیدا ہو چکا ہے۔
سیرتِ نبوی ﷺ؛ قول سے عمل تک
شیخ حماد مصطفی المدنی القادری نے مزید کہا کہ: ہم حضور نبی اکرم ﷺ کی محافل میں شریک ہوتے ہیں، آپ ﷺ کی نعتیں اور اَناشید شوق سے سنتے ہیں، تلاوتِ قرآن کو بھی بڑے ذوق و انہماک سے سنتے ہیں، نعرۂ تکبیر اور نعرۂ رسالت بلند کرتے ہیں اور عشق و محبتِ رسول ﷺ کا دعویٰ بھی کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ ہماری عملی زندگی میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اُسوہ نمایاں نظر نہیں آتا۔ نہ حضور نبی اکرم ﷺ کی مکمل پیروی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی آپ ﷺ کی تعلیمات کا عملی عکس ہماری گفتگو، ہمارے رویّوں اور ہمارے اخلاق میں جھلکتا ہے۔ ہمارے چلنے پھرنے، لین دین، میل جول اور باہمی معاملات میں بھی سنتِ نبوی ﷺ کی روشنی کم دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ محبت اور عشق کا دعویٰ اُسی وقت معتبر ہوتا ہے جب وہ عمل میں ڈھل جائے اور سیرتِ طیبہ ﷺ کی روشنی ہماری زندگیوں میں اُتر آئے۔ جب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اخلاقِ کریمہ ہمارے کردار میں نمایاں ہوں اور ہماری زندگی سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ڈھل جائے، تب ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے قول اور عمل میں تضاد نہیں بلکہ ہم آہنگی اور مطابقت ہے۔ جب سیرتِ نبوی ﷺ ہمارے اخلاق، کردار اور معاملات میں روح کی طرح سرایت کر جائے تب ہی محبتِ رسول ﷺ کا دعویٰ عملی طور پر سچا ثابت ہوتا ہے۔


















تبصرہ